بحرحیات کی سیپیاں
گزشتہ چند سالوں میں انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ ہونے والی ترقی نے انسان کو جن بلندیوں پر پہنچا دیا ہے
گزشتہ چند سالوں میں انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ ہونے والی ترقی نے انسان کو جن بلندیوں پر پہنچا دیا ہے، یہ تمام کتاب ومطالعے کی مرہون منت ہیں، لیکن جس کتاب کی بدولت یہ سب کامیابیاں حاصل ہوئیں، اسی کتاب سے بحیثیت مجموعی ہمارا رشتہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔
آج نوجوان کمپیوٹر اور موبائل کے سحر میں اس بری طرح سے جکڑے کہ جو وقت کتاب کا حق تھا، وہ بھی کمپیوٹر و موبائل کی نذرکردیا اور اب فیس بک، واٹس اپ، ٹوئٹر، موبائل فونز اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث کتب بینی کے رجحان میں بہت کمی آگئی ہے۔ انسان اورکتاب کا پرانا تعلق ماند پڑتا جارہا ہے۔نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان وہ نہیں ہے، جو کسی زمانے میں تھا۔ اب تو تعلیمی اداروں میں بھی کتاب اورطالب علم کا تعلق صرف نصابی کتب تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے جادو کے زیر اثر طلبہ کی ایک بڑی تعداد غیرنصابی کتب کو ہاتھ بھی لگانا گوارا نہیں کرتی اور نصابی کتب کا مطالعہ بھی صرف امتحان پاس کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
اگرچہ آج کمپیوٹر میں مطالعہ کرنے کے متعدد مواقعے موجود ہیں، لیکن مطالعے کی جو اہمیت و افادیت کتاب سے وابستہ ہے،اس کا مقابلہ دیگر ذرایع نہیں کرسکتے۔ کتاب اور انسان کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب وتمدن کا سفر اور علم وآگہی کی تاریخ قدیم ہے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تہذیب انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جوکتاب سے تہی دامن رہا ہو اور فکرکتاب سے آزاد ہوجائے۔
تہذیب کی روشنی اور تمدن کے اجالے سے جب انسانی ذہن کے دریچے بتدریج کھلے تو انسان کتاب کے وسیلے سے خودبخود ترقی کی شاہراہ پر قدم رنجہ ہوا۔کتاب کی شکل میں اس کے ہاتھ وہ شاہی کلید آ گئی، جس نے اس کے سامنے علم وہنرکے دروازے کھول دیے۔ انسان کے لیے مطالعے اور مشاہدے کے بل پر نئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا۔
کتاب انسان کو ایک اچھا انسان بن کر جینے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھا دیتی ہے۔کوئی بھی معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔کتابیںانسان کو نئے خیالات سے روشناس کراتی ہیں اور دوسروں کے خیالات کو جاننے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں اور بحرحیات کی سیپیاں ہیں، جن میں پراسرار موتی بند ہیں۔
دنیائے اسلام کے ممتاز محقق محی الدین ابن عربی کتاب کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''کتاب پھلوں کا ایک ایسا باغ ہے کہ اسے ساتھ لیے پھرو اور جہاں چاہو اس سے خوشہ چینی کر لو، جس گھر میں کتابیں نہ ہوں، وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، جس درسگاہ میں کتابیں نہ ہوں، وہ ایسی درسگاہ کی مانند ہے، جس میں طلبہ نہ ہوں۔ جس شہر میں کتب خانے نہ ہوں، وہ ایک شہر ویراں ہے اور جس کتب خانے میں لوگوں کو کتابوں سے عشق ومحبت نہ ہو، وہ کتب خانہ علم کی بس ایک نمائش گاہ ہے، یہ نمائش گاہ لگی بھی رہ سکتی ہے اور یہ نمائش زمانے کے ہاتھوں تباہ بھی ہوسکتی ہے۔''
سقراط کہتے ہیں ''جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں، وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے، وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے۔'' فلسفی ایمرسن کا کہنا ہے: ''اچھی کتاب بے مثال دوست ہے، جو ہمیشہ سیدھے راستے پرچلنے کی صلاح دیتا ہے۔'' کارلائل کے مطابق ''اچھی کتابوں کا مجموعہ دور جدید کی سچی یونیورسٹی ہے۔'' ملٹن کا کہنا تھا ''ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کرانا ہے۔''
کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج وکمال میں اس کی ہم سفر ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں، جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں، جن کا تعلق کتاب اورعلم سے مضبوط رہا ہو۔ قوموں کی زندگی کا عمل کتاب سے جڑا ہوا ہے۔
جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رْک جاتا ہے۔کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے اور تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرے کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے۔
اسلامی تاریخ میں ایک دور وہ بھی گزرا ہے جب کتابیں خریدنا، انھیں جمع کرنا اور پڑھنا ہر فردکا ذوق ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کے گھروں میں لاکھوں کتب پر مشتمل ذاتی لائبریریاں تھیں ۔ بغداد کی صرف ایک ایک شاہراہ پر کتابوں کی سیکڑوں دکانیں تھیں، جہاں قرآن مجید سے لے کر فلکیات، طبیعات، ریاضی، کیمیا، طب وغیرہ کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔ یہ دور مسلمانوں کے عروج اور حکمرانی کا دور تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ جس قوم پرکتابوں کی حکمرانی ہو تو پھر وہ قوم بھی دنیا پر حکمرانی کرتی ہے۔ فرانس کے انقلابی دانشوروالٹیر نے کہا تھا ''تاریخ انسانی میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کرکتابوں ہی نے لوگوں پر حکومت کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنے عوام کو کتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھا دیتی ہے، وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے۔'' جو اقوام علم وکتب کے اعتراف عظمت میں بخیل نہیں ہوتیں اور مطالعہ کتب کی عادت اپنا لیتی ہیں، وہ زندگی میں فتح و ظفرکی حقدار ہوتی ہیں۔ یورپ کے بعض ملکوں میں صرف کتابوں کو پروموٹ کرنے کے لیے تحریکیں چلائی گئیں۔
حکومتی سرپرستی میں سقراط، افلاطون اور ارسطو سے لے کر جان لاک تک کے مفکرین کی کتابیں ایک پیسے (پنس)کی قیمت میں شایع کی گئیں۔ دوردراز کے علاقوں کے لیے موبائل کتب خانے بنائے گئے۔ مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتب کا انگریزی میں ترجمہ کرایا گیا۔کتابوں پر مباحثے کرائے گئے، بڑے بڑے لارڈز اور اراکین پارلیمنٹ ان مذاکروں میں مبتدی کے طور پر شریک ہوکراہل دانش کی فکر افروز باتوں سے مستفید ہوتے، جب کہ بعض یورپی ملکوں میں تعلیمی اداروں میں طلبہ میں مختلف طریقوں سے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جاتا ہے۔ آج مغربی ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
اس کی وجہ صرف اور صرف ان کا مجموعی طورپر کتاب دوستی کا مزاج ہے، لیکن ہم ان سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔کتب بینی کا زوال ہمارا بڑا تہذیبی المیہ ہے،کیونکہ مطالعے کی عادت ہی تہذیب کی علامت ہے۔ جو قوم معیاری اور عمدہ کتابیں لکھنے، شایع کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہو، وہ نہ صرف پسماندہ ، بلکہ غیروں کی دست نگر ہو کر رہ جاتی ہے۔
ہم نے کتاب سے دوری اختیاری کی تو آج حالات سب کے سامنے ہیں کہ عالم اسلام کی تنزلی کا شروع ہونے والا سفر بہت تیزی کے ساتھ پستی کی جانب رواں دواں ہے اور دور دور تک عالم اسلام کی اس تنزلی کو بلندی میں بدلنے کے امکانات بھی صرف موہوم ہی نہیں، بلکہ معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں بھی دنیا میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے کتاب سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا۔
آج نوجوان کمپیوٹر اور موبائل کے سحر میں اس بری طرح سے جکڑے کہ جو وقت کتاب کا حق تھا، وہ بھی کمپیوٹر و موبائل کی نذرکردیا اور اب فیس بک، واٹس اپ، ٹوئٹر، موبائل فونز اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث کتب بینی کے رجحان میں بہت کمی آگئی ہے۔ انسان اورکتاب کا پرانا تعلق ماند پڑتا جارہا ہے۔نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان وہ نہیں ہے، جو کسی زمانے میں تھا۔ اب تو تعلیمی اداروں میں بھی کتاب اورطالب علم کا تعلق صرف نصابی کتب تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے جادو کے زیر اثر طلبہ کی ایک بڑی تعداد غیرنصابی کتب کو ہاتھ بھی لگانا گوارا نہیں کرتی اور نصابی کتب کا مطالعہ بھی صرف امتحان پاس کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
اگرچہ آج کمپیوٹر میں مطالعہ کرنے کے متعدد مواقعے موجود ہیں، لیکن مطالعے کی جو اہمیت و افادیت کتاب سے وابستہ ہے،اس کا مقابلہ دیگر ذرایع نہیں کرسکتے۔ کتاب اور انسان کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب وتمدن کا سفر اور علم وآگہی کی تاریخ قدیم ہے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تہذیب انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جوکتاب سے تہی دامن رہا ہو اور فکرکتاب سے آزاد ہوجائے۔
تہذیب کی روشنی اور تمدن کے اجالے سے جب انسانی ذہن کے دریچے بتدریج کھلے تو انسان کتاب کے وسیلے سے خودبخود ترقی کی شاہراہ پر قدم رنجہ ہوا۔کتاب کی شکل میں اس کے ہاتھ وہ شاہی کلید آ گئی، جس نے اس کے سامنے علم وہنرکے دروازے کھول دیے۔ انسان کے لیے مطالعے اور مشاہدے کے بل پر نئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا۔
کتاب انسان کو ایک اچھا انسان بن کر جینے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھا دیتی ہے۔کوئی بھی معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔کتابیںانسان کو نئے خیالات سے روشناس کراتی ہیں اور دوسروں کے خیالات کو جاننے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں اور بحرحیات کی سیپیاں ہیں، جن میں پراسرار موتی بند ہیں۔
دنیائے اسلام کے ممتاز محقق محی الدین ابن عربی کتاب کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''کتاب پھلوں کا ایک ایسا باغ ہے کہ اسے ساتھ لیے پھرو اور جہاں چاہو اس سے خوشہ چینی کر لو، جس گھر میں کتابیں نہ ہوں، وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، جس درسگاہ میں کتابیں نہ ہوں، وہ ایسی درسگاہ کی مانند ہے، جس میں طلبہ نہ ہوں۔ جس شہر میں کتب خانے نہ ہوں، وہ ایک شہر ویراں ہے اور جس کتب خانے میں لوگوں کو کتابوں سے عشق ومحبت نہ ہو، وہ کتب خانہ علم کی بس ایک نمائش گاہ ہے، یہ نمائش گاہ لگی بھی رہ سکتی ہے اور یہ نمائش زمانے کے ہاتھوں تباہ بھی ہوسکتی ہے۔''
سقراط کہتے ہیں ''جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں، وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے، وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے۔'' فلسفی ایمرسن کا کہنا ہے: ''اچھی کتاب بے مثال دوست ہے، جو ہمیشہ سیدھے راستے پرچلنے کی صلاح دیتا ہے۔'' کارلائل کے مطابق ''اچھی کتابوں کا مجموعہ دور جدید کی سچی یونیورسٹی ہے۔'' ملٹن کا کہنا تھا ''ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کرانا ہے۔''
کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج وکمال میں اس کی ہم سفر ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں، جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں، جن کا تعلق کتاب اورعلم سے مضبوط رہا ہو۔ قوموں کی زندگی کا عمل کتاب سے جڑا ہوا ہے۔
جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رْک جاتا ہے۔کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے اور تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرے کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے۔
اسلامی تاریخ میں ایک دور وہ بھی گزرا ہے جب کتابیں خریدنا، انھیں جمع کرنا اور پڑھنا ہر فردکا ذوق ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کے گھروں میں لاکھوں کتب پر مشتمل ذاتی لائبریریاں تھیں ۔ بغداد کی صرف ایک ایک شاہراہ پر کتابوں کی سیکڑوں دکانیں تھیں، جہاں قرآن مجید سے لے کر فلکیات، طبیعات، ریاضی، کیمیا، طب وغیرہ کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔ یہ دور مسلمانوں کے عروج اور حکمرانی کا دور تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ جس قوم پرکتابوں کی حکمرانی ہو تو پھر وہ قوم بھی دنیا پر حکمرانی کرتی ہے۔ فرانس کے انقلابی دانشوروالٹیر نے کہا تھا ''تاریخ انسانی میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کرکتابوں ہی نے لوگوں پر حکومت کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنے عوام کو کتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھا دیتی ہے، وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے۔'' جو اقوام علم وکتب کے اعتراف عظمت میں بخیل نہیں ہوتیں اور مطالعہ کتب کی عادت اپنا لیتی ہیں، وہ زندگی میں فتح و ظفرکی حقدار ہوتی ہیں۔ یورپ کے بعض ملکوں میں صرف کتابوں کو پروموٹ کرنے کے لیے تحریکیں چلائی گئیں۔
حکومتی سرپرستی میں سقراط، افلاطون اور ارسطو سے لے کر جان لاک تک کے مفکرین کی کتابیں ایک پیسے (پنس)کی قیمت میں شایع کی گئیں۔ دوردراز کے علاقوں کے لیے موبائل کتب خانے بنائے گئے۔ مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتب کا انگریزی میں ترجمہ کرایا گیا۔کتابوں پر مباحثے کرائے گئے، بڑے بڑے لارڈز اور اراکین پارلیمنٹ ان مذاکروں میں مبتدی کے طور پر شریک ہوکراہل دانش کی فکر افروز باتوں سے مستفید ہوتے، جب کہ بعض یورپی ملکوں میں تعلیمی اداروں میں طلبہ میں مختلف طریقوں سے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جاتا ہے۔ آج مغربی ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
اس کی وجہ صرف اور صرف ان کا مجموعی طورپر کتاب دوستی کا مزاج ہے، لیکن ہم ان سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔کتب بینی کا زوال ہمارا بڑا تہذیبی المیہ ہے،کیونکہ مطالعے کی عادت ہی تہذیب کی علامت ہے۔ جو قوم معیاری اور عمدہ کتابیں لکھنے، شایع کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہو، وہ نہ صرف پسماندہ ، بلکہ غیروں کی دست نگر ہو کر رہ جاتی ہے۔
ہم نے کتاب سے دوری اختیاری کی تو آج حالات سب کے سامنے ہیں کہ عالم اسلام کی تنزلی کا شروع ہونے والا سفر بہت تیزی کے ساتھ پستی کی جانب رواں دواں ہے اور دور دور تک عالم اسلام کی اس تنزلی کو بلندی میں بدلنے کے امکانات بھی صرف موہوم ہی نہیں، بلکہ معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں بھی دنیا میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے کتاب سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا۔