ریت اور شتر مرغ
مزے کی بات یہ ہے کہ انسان خود ہی کینسر اور ایڈز پیدا کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کا علاج ڈھونڈنے لگ جاتا ہے۔
لاہور:
قدرتی طور پر انسان میں دو جذبے پائے جاتے ہیں اب ان کو آپ سائنس کی اصطلاح استعمال کریں تو منفی اور مثبت Negative & Positive اقدار Values کہیں گے اور اگر آپ نے مذہبی یا دینی اصطلاح استعمال کرنے ہے تو ''خیر و شر'' کا ذکر آئے گا۔ ملک میں یا دنیا بھر میں ہر وہ کام جس سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے، Negative Attitude یا شر کے زمرے میں آتا ہے، اس میں انسانی رویے سے لے کر بندوق اور ایٹم بم تک شامل ہے، اور وہ کام جس سے انسانوں کو فائدہ حاصل ہو وہ بھی انسانی رویے سے لے کر کینسر اور ایڈز کے علاج تک کی دریافت ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ انسان خود ہی کینسر اور ایڈز پیدا کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کا علاج ڈھونڈنے لگ جاتا ہے۔ مصر کی ممی تک کو کینسر ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ بھی کبھی انسان رہی ہے اور چونکہ اس کی باقاعدہ تدفین نہیں ہوئی اور اسے اس قدرتی عمل سے نہیں گزرنے دیا گیا جو قدرت نے ہر جسم کے لیے مقرر کیا ہے اور اس میں ''مصری دانش'' یا ''حماقت'' کو ٹانگ اڑانے کا موقع مل گیا لہٰذا وہ جسم اب تک اپنی ''منزل'' تک نہیں پہنچا لہٰذا جسم ہے تو کینسر بھی ہوگا۔ میرے نقطہ نظر سے اختلاف ایک اچھی بات ہے ضروری نہیں کہ جسے میں ''حماقت'' کہوں اسے آپ ''مصری دانش'' اور ''سائنس کے کارنامے'' نہ کہیں، یہ آپ کا حق ہے میری طرح اور اسے استعمال کرنا آپ کی صوابدید۔
کیونکہ ہم قرآن کو ہی اپنی بنیادی کتاب جانتے اور اسے ''درس زندگی'' کا مکمل ''نصاب'' سمجھتے ہیں لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ جس چیز کو ہم نے رہنمائی کے لیے سامنے رکھا ہوا ہے اور جو ہمارے لیے قدرت کا انعام اور کرم ہے اس میں ذرہ برابر بھی شبہات کی گنجائش ہو اور نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن سچا ہے مگر ہم اتنے سچے نہیں کہ ''وارث قرآن'' کہلا سکیں یا ان کے ساتھی کہلا سکیں جو ''وارث قرآن'' ہیں۔
یہ سارے گروہ ہم نے ترتیب دیے ہیں، قرآن تو اتحاد اور درگزر اور اخلاص کا درسدیتا ہے۔ وہ تو ہم نے اپنے ذہنوں میں قرآن کے اپنے مطالب اور راستے ''تراش'' لیے ہیں، قرآن ایک، خدا ایک، رسول ایک، امت ایک، تو پھر یہ کیوں؟ میں کوئی درس نہیں دے رہا نہ کوئی ''اسلامی اسکالر'' ہوں، یہ میرا خود سے سوال ہے اور خود سے سوال کا مطلب یہ ہے کہ میں قوم کی ''اکائی'' ہوں، تو یہ سوال پوری قوم کا قوم سے ہے۔ نہ میں نے یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ سب کو متحد کروں، یہ میرا کام نہیں ہے، میں تو صرف خود کو ہی ٹھیک کرسکتا ہوں، خود پر ریسرچ کرسکتا ہوں اور خود کے عمل سے نتائج اخذ کرسکتا ہوں۔
میں آپ کو یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ رب العالمین ہے، کیونکہ یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، رسول اکرمؐ رحمۃ اللعالمین ہیں۔ یہ میرے کہنے سے ہی تو لوگ نہیں مانیں گے، وہ تو ہیں اور اس کا ثبوت قرآن ہے، قرآن خدا کا ثبوت ہے، ایک چیز سے دوسری چیز منسلک ہے، یہ میں نہیں ثابت کر رہا یہ ثابت ہے اسے مزید ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اسے مجھے ماننے اور خود پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے، بس میں یہ کوشش کرتا رہتا ہوں۔ ہر انسان کا خدا سے ایک براہ راست تعلق بھی تو ہے، وہ رب اللعالمین ہے، وہ انسانوں سے پیار کرتا ہے۔
ہم کس چیز کو ترجیح دیتے ہیں، ہمارے ''اہداف'' کیا ہیں، یہ کوئی لڑنے جھگڑنے کی بات نہیں ہے صرف غور کرنے کی بات ہے، مسلک وغیرہ کو ایک طرف رکھ کر اس پر غور کریں، تاکہ آپ درست تاویلات دے سکیں، درست راستے پر دیکھ سوچ سکیں، کیونکہ آخرکار تو ہم انسان ہیں، سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھانے والے بھی اور افریقہ میں بھوک سے مرنے والے بھی سب کا ایک ہی رب ہے اور سب کا رب ہے ۔
یہ بات کبھی ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ایسا کیوں ہے، کیونکہ ہم اپنے عمل سے اس کو ہمیشہ رد کرتے رہے ہیں۔ ہم نے ایک '' بین الاقوامی معاشرے'' کا شور تو مچا رکھا ہے ''عمل'' صفر ہے، کیونکہ اس سے ہمارے مفادات پر ضرب لگتی ہے۔ لوگ برا نہ مان جائیں لہٰذا کسی کا نام نہیں لیتا۔ کیا کسی حکمراں نے افریقہ کے بارے میں سوچا، پاکستان کی امن فوج وہاں ''امن'' قائم رکھتی ہے تاکہ وہ بھوکے آپس میں نہ لڑیں۔ یہ ''بین الاقوامی مساوات'' ہے؟ جسے International Equity کہہ کر اس کے خلاف کام کیا جاتا ہے۔
ایک ملک یا چند ملکوں کا نظام مل کر دوسرے ملک کو قرض دیتا ہے اور اس کے سود سے اپنے لوگوں کی ترقی کرتا ہے، ہم سود کہتے ہیں وہ Interest یا Profit کہتے ہیں، یہاں سوچ کا فرق ہے ان کا خیال کچھ اور ہے ہمارا کچھ اور مگر اس کے باوجود اس سے ''فلاح انسانی'' کا کون سا کام انجام پایا۔ دنیا بھر میں جہاں بھی ظلم ہے وہاں ظالم ہے، صدیاں گزرگئیں کچھ نہیں ہوا۔انسان جنگل کاٹ رہا ہے، کاٹ رہا ہے، اگر جنگل ایسی ہی بے کار چیز تھی تو قدرت نے پیدا کیوں کی؟ قدرت نے انسان سے لے کر کائنات کی کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔
یہ بات سائنس نے تسلیم کرلی ہے۔ سائنس قرآن کی گواہ نہیں ہے، قرآن سائنس کی پیش گوئی کرنے والی کتاب ہے۔ اس کتاب نے ہزاروں سال پہلے بہت کچھ کہا اور آخری شریعت کے طور پر اس میں خلاصہ کردیا گیا تمام کتابوں کا، پچھلا کورس موقوف کردیا گیا، اب یہ ساری دنیا کی کتاب ہے، مسلمانوں کی اس پر اجارہ داری نہیں ہے جو اس سے فیض حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ ٹھیک ہے کہ خدا نے اس دین کو اس امت کو پسندیدہ قرار دیا ہے مگر یہ نہیں کہا ہے کہ دنیا سے باقی سب کو ختم کردو۔ یہ کام وہ خود ہم سے بہتر کرسکتا ہے اور اس نے کیا ہے، یہ بھی ''درس قرآن'' ہے آپ دیکھ سکتے ہیں، جو قرآن کو سمجھ رہا ہے، میں ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں وہ اس کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ہم نے دلوں میں نہ جانے کن کن عقیدوں اور نظریات کو پال رکھا ہے کہ ہم خود اپنی ''نسل کشی'' کر رہے ہیں۔ انھوں نے بھی تو اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جو مسلمانوں کو ''قتل'' کر رہے ہیں یا ''شہید'' کر رہے ہیں، اس سے آنکھ کیسے بند کی جاسکتی ہے۔ ریت کے طوفان میں اگر شتر مرغ آنکھ بند کرکے بیٹھ جائے تو بچے گا نہیں ریت میں دفن ہوجائے گا۔ ہمیں انسان بننا چاہیے بلکہ مجھے انسان بننا چاہیے، شتر مرغ نہیں۔ آج خود سے کچھ باتیں کی ہیں شاید خود کی سمجھ میں آجائیں، شاید میں ''انسان'' بن جاؤں، ورنہ نقارے پر ضرب تو پڑ چکی ہے۔ کوچ کا اعلان ہوچکا۔ اللہ بس! باقی ہوس!
قدرتی طور پر انسان میں دو جذبے پائے جاتے ہیں اب ان کو آپ سائنس کی اصطلاح استعمال کریں تو منفی اور مثبت Negative & Positive اقدار Values کہیں گے اور اگر آپ نے مذہبی یا دینی اصطلاح استعمال کرنے ہے تو ''خیر و شر'' کا ذکر آئے گا۔ ملک میں یا دنیا بھر میں ہر وہ کام جس سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے، Negative Attitude یا شر کے زمرے میں آتا ہے، اس میں انسانی رویے سے لے کر بندوق اور ایٹم بم تک شامل ہے، اور وہ کام جس سے انسانوں کو فائدہ حاصل ہو وہ بھی انسانی رویے سے لے کر کینسر اور ایڈز کے علاج تک کی دریافت ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ انسان خود ہی کینسر اور ایڈز پیدا کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کا علاج ڈھونڈنے لگ جاتا ہے۔ مصر کی ممی تک کو کینسر ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ بھی کبھی انسان رہی ہے اور چونکہ اس کی باقاعدہ تدفین نہیں ہوئی اور اسے اس قدرتی عمل سے نہیں گزرنے دیا گیا جو قدرت نے ہر جسم کے لیے مقرر کیا ہے اور اس میں ''مصری دانش'' یا ''حماقت'' کو ٹانگ اڑانے کا موقع مل گیا لہٰذا وہ جسم اب تک اپنی ''منزل'' تک نہیں پہنچا لہٰذا جسم ہے تو کینسر بھی ہوگا۔ میرے نقطہ نظر سے اختلاف ایک اچھی بات ہے ضروری نہیں کہ جسے میں ''حماقت'' کہوں اسے آپ ''مصری دانش'' اور ''سائنس کے کارنامے'' نہ کہیں، یہ آپ کا حق ہے میری طرح اور اسے استعمال کرنا آپ کی صوابدید۔
کیونکہ ہم قرآن کو ہی اپنی بنیادی کتاب جانتے اور اسے ''درس زندگی'' کا مکمل ''نصاب'' سمجھتے ہیں لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ جس چیز کو ہم نے رہنمائی کے لیے سامنے رکھا ہوا ہے اور جو ہمارے لیے قدرت کا انعام اور کرم ہے اس میں ذرہ برابر بھی شبہات کی گنجائش ہو اور نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن سچا ہے مگر ہم اتنے سچے نہیں کہ ''وارث قرآن'' کہلا سکیں یا ان کے ساتھی کہلا سکیں جو ''وارث قرآن'' ہیں۔
یہ سارے گروہ ہم نے ترتیب دیے ہیں، قرآن تو اتحاد اور درگزر اور اخلاص کا درسدیتا ہے۔ وہ تو ہم نے اپنے ذہنوں میں قرآن کے اپنے مطالب اور راستے ''تراش'' لیے ہیں، قرآن ایک، خدا ایک، رسول ایک، امت ایک، تو پھر یہ کیوں؟ میں کوئی درس نہیں دے رہا نہ کوئی ''اسلامی اسکالر'' ہوں، یہ میرا خود سے سوال ہے اور خود سے سوال کا مطلب یہ ہے کہ میں قوم کی ''اکائی'' ہوں، تو یہ سوال پوری قوم کا قوم سے ہے۔ نہ میں نے یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ سب کو متحد کروں، یہ میرا کام نہیں ہے، میں تو صرف خود کو ہی ٹھیک کرسکتا ہوں، خود پر ریسرچ کرسکتا ہوں اور خود کے عمل سے نتائج اخذ کرسکتا ہوں۔
میں آپ کو یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ رب العالمین ہے، کیونکہ یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، رسول اکرمؐ رحمۃ اللعالمین ہیں۔ یہ میرے کہنے سے ہی تو لوگ نہیں مانیں گے، وہ تو ہیں اور اس کا ثبوت قرآن ہے، قرآن خدا کا ثبوت ہے، ایک چیز سے دوسری چیز منسلک ہے، یہ میں نہیں ثابت کر رہا یہ ثابت ہے اسے مزید ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اسے مجھے ماننے اور خود پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے، بس میں یہ کوشش کرتا رہتا ہوں۔ ہر انسان کا خدا سے ایک براہ راست تعلق بھی تو ہے، وہ رب اللعالمین ہے، وہ انسانوں سے پیار کرتا ہے۔
ہم کس چیز کو ترجیح دیتے ہیں، ہمارے ''اہداف'' کیا ہیں، یہ کوئی لڑنے جھگڑنے کی بات نہیں ہے صرف غور کرنے کی بات ہے، مسلک وغیرہ کو ایک طرف رکھ کر اس پر غور کریں، تاکہ آپ درست تاویلات دے سکیں، درست راستے پر دیکھ سوچ سکیں، کیونکہ آخرکار تو ہم انسان ہیں، سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھانے والے بھی اور افریقہ میں بھوک سے مرنے والے بھی سب کا ایک ہی رب ہے اور سب کا رب ہے ۔
یہ بات کبھی ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ایسا کیوں ہے، کیونکہ ہم اپنے عمل سے اس کو ہمیشہ رد کرتے رہے ہیں۔ ہم نے ایک '' بین الاقوامی معاشرے'' کا شور تو مچا رکھا ہے ''عمل'' صفر ہے، کیونکہ اس سے ہمارے مفادات پر ضرب لگتی ہے۔ لوگ برا نہ مان جائیں لہٰذا کسی کا نام نہیں لیتا۔ کیا کسی حکمراں نے افریقہ کے بارے میں سوچا، پاکستان کی امن فوج وہاں ''امن'' قائم رکھتی ہے تاکہ وہ بھوکے آپس میں نہ لڑیں۔ یہ ''بین الاقوامی مساوات'' ہے؟ جسے International Equity کہہ کر اس کے خلاف کام کیا جاتا ہے۔
ایک ملک یا چند ملکوں کا نظام مل کر دوسرے ملک کو قرض دیتا ہے اور اس کے سود سے اپنے لوگوں کی ترقی کرتا ہے، ہم سود کہتے ہیں وہ Interest یا Profit کہتے ہیں، یہاں سوچ کا فرق ہے ان کا خیال کچھ اور ہے ہمارا کچھ اور مگر اس کے باوجود اس سے ''فلاح انسانی'' کا کون سا کام انجام پایا۔ دنیا بھر میں جہاں بھی ظلم ہے وہاں ظالم ہے، صدیاں گزرگئیں کچھ نہیں ہوا۔انسان جنگل کاٹ رہا ہے، کاٹ رہا ہے، اگر جنگل ایسی ہی بے کار چیز تھی تو قدرت نے پیدا کیوں کی؟ قدرت نے انسان سے لے کر کائنات کی کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔
یہ بات سائنس نے تسلیم کرلی ہے۔ سائنس قرآن کی گواہ نہیں ہے، قرآن سائنس کی پیش گوئی کرنے والی کتاب ہے۔ اس کتاب نے ہزاروں سال پہلے بہت کچھ کہا اور آخری شریعت کے طور پر اس میں خلاصہ کردیا گیا تمام کتابوں کا، پچھلا کورس موقوف کردیا گیا، اب یہ ساری دنیا کی کتاب ہے، مسلمانوں کی اس پر اجارہ داری نہیں ہے جو اس سے فیض حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ ٹھیک ہے کہ خدا نے اس دین کو اس امت کو پسندیدہ قرار دیا ہے مگر یہ نہیں کہا ہے کہ دنیا سے باقی سب کو ختم کردو۔ یہ کام وہ خود ہم سے بہتر کرسکتا ہے اور اس نے کیا ہے، یہ بھی ''درس قرآن'' ہے آپ دیکھ سکتے ہیں، جو قرآن کو سمجھ رہا ہے، میں ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں وہ اس کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ہم نے دلوں میں نہ جانے کن کن عقیدوں اور نظریات کو پال رکھا ہے کہ ہم خود اپنی ''نسل کشی'' کر رہے ہیں۔ انھوں نے بھی تو اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جو مسلمانوں کو ''قتل'' کر رہے ہیں یا ''شہید'' کر رہے ہیں، اس سے آنکھ کیسے بند کی جاسکتی ہے۔ ریت کے طوفان میں اگر شتر مرغ آنکھ بند کرکے بیٹھ جائے تو بچے گا نہیں ریت میں دفن ہوجائے گا۔ ہمیں انسان بننا چاہیے بلکہ مجھے انسان بننا چاہیے، شتر مرغ نہیں۔ آج خود سے کچھ باتیں کی ہیں شاید خود کی سمجھ میں آجائیں، شاید میں ''انسان'' بن جاؤں، ورنہ نقارے پر ضرب تو پڑ چکی ہے۔ کوچ کا اعلان ہوچکا۔ اللہ بس! باقی ہوس!