تاریخ کا خوشگوار موڑ
جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت کی مخالفت میں متحرک تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا خوشگوار موڑ آگیا۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کی غیر ریاستی کرداروں (Non State Actors) کی کوشش ناکا م ہوگئی۔ مگر پٹھان کوٹ حملے میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی دو پڑوسیوں کے تعلقات مستحکم ہوں گے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی عجیب کہانی ہے۔
ایک وقت تھا کہ سیاستدان اور فوجی جنرل اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت مخالف جذبات کا اظہار کرتے مگر اقتدار میں آنے کے بعد حقیقت سے آشنا ہو کر دوستی کی کوشش شروع کردیتے۔ بھارت میں کانگریس اور انتہاپسند ہندو جنتا پارٹی کے رہنما انتخابات میں پاکستان کے خلاف فضاء ہموارکرتے مگر اقتدار میں آنے کے بعد رویہ تبدیل ہوجاتا۔ پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویزمشرف نے اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت پر فتح حاصل کرنے کے نعرے بلند کیے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لیے ایک ہزار سال تک جنگ کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ 1965 کی جنگ کے آرکیٹیکٹ بنے۔ معاہدہ تاشقند کی مخالفت کی، لیکن دسمبر 1971میں برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت سے شملہ معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی بناء پر 80 ہزار فوجی بھارت کی قید سے رہا ہوئے۔ 10 ہزار میل کا علاقہ بھارتی فوج نے واپس کیا ،اپنے دورِ اقتدار میں بھارت سے پرامن تعلقات قائم رکھے۔
جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت کی مخالفت میں متحرک تھے۔ انھوں نے اقتدار پر قبضے کے بعد بھارت سے کرکٹ ڈپلومیسی شروع کی۔ سیاچن پر جب بھارتی فوج نے قبضہ کیا تو اس علاقے کی فوجی اہمیت سے انکارکیا اور اس کو محض ایک بنجر خطہ قراردیا۔ جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو انھیں یہ احساس ہوا کہ بھارت سے خوشگوار تعلقات کی بناء پر ہی ملک میں پائیدار ترقی ممکن ہے۔ لٰہذا وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہورآئے اورمینارِ پاکستان پرحاضری دی اور پاکستان سے یکجہتی کا اظہارکیا۔ مگر کارگل کی بناء پر وزیراعظم نواز شریف کی کوششیں سبوتاژ ہوگئیں۔
جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو بھارت سے دوستی کا ایسا سلسلہ شروع کیا، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے 6 تجاویز لے کرآگرہ گئے ۔ یہ تجاویز پاکستان کی کشمیرکے بارے میں پالیسی سے مکمل انحراف تھا۔خارجہ پالیسی کے ماہرین کہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی یہ تجاویز اتنی غیرمتوقع تھیں کہ بھارتی رہنما ان تجاویز کی اہمیت کو فوی طور پر نہیں سمجھ پائے۔سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے۔
پاکستان میں عدلیہ بحالی کی تحریک سے یہ معاملہ حل طلب ہی رہ گیا۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے صدرکے عہدے کا حلف اٹھایا تو انھوں نے افغانستان کے صدر حامدکرزئی کی موجودگی میں اعلان کیا کہ بھارت اور پاکستان سے متصل سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے مگر پھر ممبئی میں دہشت گردی کی کارروائی ہوئی ۔ اجمل قصاب اس حملے میں بھارتی پولیس کے ہاتھ لگ گیا جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ بھارتی رہنما ، دانشوروں اور صحافیوں نے اس حملے کے حقیقی اسباب کا اندازہ لگانے کے بجائے پاکستان مخالف جذبات ابھارنے شروع کردیے۔
دونوں ممالک کے درمیات جامع مذاکرات معطل ہوگئے اور دونوں ممالک میں آمدورفت کے لیے ویزا پالیسی سخت ہوگئی۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما نریندرمودی نے انتخابات کی مہم کے دوران پاکستان کے خلاف سخت تقاریرکیں۔ 2013 میں وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں آئے۔ اس وقت کنٹرول لائن پر سخت کشیدگی تھی۔ ہندو انتہاپسندوں نے پاکستانی فنکاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز مہم شروع ہوئی۔
بھارت کے دانشوروں، ادیبوں اور سول سائٹی کے اراکین نے اس پر احتجاج کیا۔ بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر اورگجرات کے کسانوں کے دباؤ اور عالمی طاقتوں کی اس خطے میں امن کو فروغ دینے کی پالیسیوں کی بناء پر مودی نے اپنی پالیسی تبدیل کی۔ پہلی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج اسلام آباد آئیں۔ دسمبر میں ایک اتوارکو وزیر اعظم مودی لاہور آگئے، یوں دوستی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دورہوگئی۔ لیکن پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر حملہ ہوگیا۔ اس حملے اورکراچی میں مہران بیس اور کامرہ بیس پر حملے میں خاصی مماثلت تھی۔ اس صورتحال میں دونوں ممالک کے انتہاپسندوں کو خوب تقویت ملی۔ ان انتہاپسند صحافیوں نے ایک دوسرے کے خلاف خوب زہر اگلا۔ ان انتہاپسندوں کو امید تھی کہ ماضی کی طرح اس بار بھی دونوں ممالک ایک دوسرے سے دور ہوجائیں گے۔
عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں مسلمان مذہبی سیاسی جماعتوں اور بھارت میں انتہاپسند ہندو جماعتوں کا ایک جیسا مؤقف تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جرات مندی کا ثبوت دیا اور سول انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ پر ملزمان کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں کالعدم جیش محمد کے متعدد کارکن گرفتار ہوئے۔
بھارتی حکومت نے پاکستان کے اقدامات پر اطمینان کا اظہارکیا۔ دونوں ممالک کے مشورے سے خارجہ امورکے سیکریٹریوں کے مذاکرت ملتوی ہوئے اور یہ امید ہوئی کہ پہلے دونوں وزرائے اعظم کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات ہوگی مگر موجودہ صورتحال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حکومتِ پاکستان نے کالعدم جیش محمد کے دفاتر کو سیل کرنے کا حکم دیا اور حکام نے ان دفاتر کو سیل کردیا،مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا مگر سوال یہ پیدا ہوا کہ جن تنظیموں پر پابندی عائد ہوئے عرصہ بیت گیا، ان کی سرگرمیاں کس طرح اب تک جاری تھیں؟ حکومتِ پاکستان اور بھارتی حکومت کو دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر رکھنے کے لیے کئی اہم اور بنیادی اقدامات کرنے ہوںگے۔ حکومتِ پاکستان کو غیر ریاستی کرداروں کے مکمل طور پر خاتمے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہونگے۔ ان اقدامات میں عسکری سرگرمیوں میں ملوث ان تنظیموں کے اراکین کو سزائیں دینا اور ہرقسم کی عسکری سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ سال سے فوج کا پڑوسی ممالک سے تعلقات اور انتہاپسند تنظیموں کے بارے میں بیانیہ تبدیل ہوا ہے۔ فوج کے سربراہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے آہنی عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں ملک کے حالات میں تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کے دائرہ کار میں ان غیر ریاستی کرداروں کا مکمل خاتمہ بھی شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ مغربی سرحد کے دوسری طرف کارروائی کرنے اوراس کے ساتھ حکومتِ پاکستان کو شہریوں کے شہریوں سے رابطے میں رکاوٹوں کو بھی دورکرنا چاہیے۔جب دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے سے ملیں گے، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کو تقویت ملے گی تو یہ انتہاپسند تنہا رہ جائیں گے۔ اسی طرح وزیر اعظم مودی کو بھی انتہاپسند تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کرنی چاہیے۔
نئی دہلی میں پی آئی اے کے دفتر پر حملہ ، پاکستانی فنکاروں کو ہراساں کرنے اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بھارت میں دورے میں حائل رکاوٹوں کو دورکرکے امن کو زیادہ مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں برسرِ اقتدار رہنما دو طرفہ پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ وہ ایک طرف غیر ریاستی کرداروں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد نہیں کرسکے تو دوسری طرف بھارت سے دوستی پر زور دیتے رہے۔ یہ تعلقات ایک دائرے میں محدود رہے اورعوام کو اس دوستی کا ثمر نہیں مل سکا۔ دہشت گردی کے ایک واقعے نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کردیا۔
اسی طرح بھارت میں بھی انتخابات میں پاکستان دشمنی کا نعرہ لگا کر ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ دونوں ممالک کی قیادت کو ایک نیا موقع ملا ہے۔ میاں نواز شریف اور وزیر اعظم مودی میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔ اس ہم آہنگی کو مؤثر بنانے کے لیے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک میں امن کے لیے سرگرداں لوگوں کو امید ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت بصیرت کا ثبوت دے گی اور اس مقصد کے لیے جامع اقدامات کرے گی۔ تاریخ کے اس خوشگوار موڑ پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آجائیں گے اور معاشرے کا ہر طبقہ اس صورتحال سے مستفید ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کی دوستی جمہوری نظام کے استحکام، غربت وافلاس کے خاتمے اور مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے میں معاون ثابت ہوگی۔
ایک وقت تھا کہ سیاستدان اور فوجی جنرل اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت مخالف جذبات کا اظہار کرتے مگر اقتدار میں آنے کے بعد حقیقت سے آشنا ہو کر دوستی کی کوشش شروع کردیتے۔ بھارت میں کانگریس اور انتہاپسند ہندو جنتا پارٹی کے رہنما انتخابات میں پاکستان کے خلاف فضاء ہموارکرتے مگر اقتدار میں آنے کے بعد رویہ تبدیل ہوجاتا۔ پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویزمشرف نے اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت پر فتح حاصل کرنے کے نعرے بلند کیے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لیے ایک ہزار سال تک جنگ کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ 1965 کی جنگ کے آرکیٹیکٹ بنے۔ معاہدہ تاشقند کی مخالفت کی، لیکن دسمبر 1971میں برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت سے شملہ معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی بناء پر 80 ہزار فوجی بھارت کی قید سے رہا ہوئے۔ 10 ہزار میل کا علاقہ بھارتی فوج نے واپس کیا ،اپنے دورِ اقتدار میں بھارت سے پرامن تعلقات قائم رکھے۔
جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت کی مخالفت میں متحرک تھے۔ انھوں نے اقتدار پر قبضے کے بعد بھارت سے کرکٹ ڈپلومیسی شروع کی۔ سیاچن پر جب بھارتی فوج نے قبضہ کیا تو اس علاقے کی فوجی اہمیت سے انکارکیا اور اس کو محض ایک بنجر خطہ قراردیا۔ جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو انھیں یہ احساس ہوا کہ بھارت سے خوشگوار تعلقات کی بناء پر ہی ملک میں پائیدار ترقی ممکن ہے۔ لٰہذا وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہورآئے اورمینارِ پاکستان پرحاضری دی اور پاکستان سے یکجہتی کا اظہارکیا۔ مگر کارگل کی بناء پر وزیراعظم نواز شریف کی کوششیں سبوتاژ ہوگئیں۔
جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو بھارت سے دوستی کا ایسا سلسلہ شروع کیا، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے 6 تجاویز لے کرآگرہ گئے ۔ یہ تجاویز پاکستان کی کشمیرکے بارے میں پالیسی سے مکمل انحراف تھا۔خارجہ پالیسی کے ماہرین کہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی یہ تجاویز اتنی غیرمتوقع تھیں کہ بھارتی رہنما ان تجاویز کی اہمیت کو فوی طور پر نہیں سمجھ پائے۔سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے۔
پاکستان میں عدلیہ بحالی کی تحریک سے یہ معاملہ حل طلب ہی رہ گیا۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے صدرکے عہدے کا حلف اٹھایا تو انھوں نے افغانستان کے صدر حامدکرزئی کی موجودگی میں اعلان کیا کہ بھارت اور پاکستان سے متصل سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے مگر پھر ممبئی میں دہشت گردی کی کارروائی ہوئی ۔ اجمل قصاب اس حملے میں بھارتی پولیس کے ہاتھ لگ گیا جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ بھارتی رہنما ، دانشوروں اور صحافیوں نے اس حملے کے حقیقی اسباب کا اندازہ لگانے کے بجائے پاکستان مخالف جذبات ابھارنے شروع کردیے۔
دونوں ممالک کے درمیات جامع مذاکرات معطل ہوگئے اور دونوں ممالک میں آمدورفت کے لیے ویزا پالیسی سخت ہوگئی۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما نریندرمودی نے انتخابات کی مہم کے دوران پاکستان کے خلاف سخت تقاریرکیں۔ 2013 میں وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں آئے۔ اس وقت کنٹرول لائن پر سخت کشیدگی تھی۔ ہندو انتہاپسندوں نے پاکستانی فنکاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز مہم شروع ہوئی۔
بھارت کے دانشوروں، ادیبوں اور سول سائٹی کے اراکین نے اس پر احتجاج کیا۔ بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر اورگجرات کے کسانوں کے دباؤ اور عالمی طاقتوں کی اس خطے میں امن کو فروغ دینے کی پالیسیوں کی بناء پر مودی نے اپنی پالیسی تبدیل کی۔ پہلی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج اسلام آباد آئیں۔ دسمبر میں ایک اتوارکو وزیر اعظم مودی لاہور آگئے، یوں دوستی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دورہوگئی۔ لیکن پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر حملہ ہوگیا۔ اس حملے اورکراچی میں مہران بیس اور کامرہ بیس پر حملے میں خاصی مماثلت تھی۔ اس صورتحال میں دونوں ممالک کے انتہاپسندوں کو خوب تقویت ملی۔ ان انتہاپسند صحافیوں نے ایک دوسرے کے خلاف خوب زہر اگلا۔ ان انتہاپسندوں کو امید تھی کہ ماضی کی طرح اس بار بھی دونوں ممالک ایک دوسرے سے دور ہوجائیں گے۔
عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں مسلمان مذہبی سیاسی جماعتوں اور بھارت میں انتہاپسند ہندو جماعتوں کا ایک جیسا مؤقف تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جرات مندی کا ثبوت دیا اور سول انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ پر ملزمان کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں کالعدم جیش محمد کے متعدد کارکن گرفتار ہوئے۔
بھارتی حکومت نے پاکستان کے اقدامات پر اطمینان کا اظہارکیا۔ دونوں ممالک کے مشورے سے خارجہ امورکے سیکریٹریوں کے مذاکرت ملتوی ہوئے اور یہ امید ہوئی کہ پہلے دونوں وزرائے اعظم کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات ہوگی مگر موجودہ صورتحال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حکومتِ پاکستان نے کالعدم جیش محمد کے دفاتر کو سیل کرنے کا حکم دیا اور حکام نے ان دفاتر کو سیل کردیا،مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا مگر سوال یہ پیدا ہوا کہ جن تنظیموں پر پابندی عائد ہوئے عرصہ بیت گیا، ان کی سرگرمیاں کس طرح اب تک جاری تھیں؟ حکومتِ پاکستان اور بھارتی حکومت کو دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر رکھنے کے لیے کئی اہم اور بنیادی اقدامات کرنے ہوںگے۔ حکومتِ پاکستان کو غیر ریاستی کرداروں کے مکمل طور پر خاتمے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہونگے۔ ان اقدامات میں عسکری سرگرمیوں میں ملوث ان تنظیموں کے اراکین کو سزائیں دینا اور ہرقسم کی عسکری سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ سال سے فوج کا پڑوسی ممالک سے تعلقات اور انتہاپسند تنظیموں کے بارے میں بیانیہ تبدیل ہوا ہے۔ فوج کے سربراہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے آہنی عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں ملک کے حالات میں تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کے دائرہ کار میں ان غیر ریاستی کرداروں کا مکمل خاتمہ بھی شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ مغربی سرحد کے دوسری طرف کارروائی کرنے اوراس کے ساتھ حکومتِ پاکستان کو شہریوں کے شہریوں سے رابطے میں رکاوٹوں کو بھی دورکرنا چاہیے۔جب دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے سے ملیں گے، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کو تقویت ملے گی تو یہ انتہاپسند تنہا رہ جائیں گے۔ اسی طرح وزیر اعظم مودی کو بھی انتہاپسند تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کرنی چاہیے۔
نئی دہلی میں پی آئی اے کے دفتر پر حملہ ، پاکستانی فنکاروں کو ہراساں کرنے اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بھارت میں دورے میں حائل رکاوٹوں کو دورکرکے امن کو زیادہ مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں برسرِ اقتدار رہنما دو طرفہ پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ وہ ایک طرف غیر ریاستی کرداروں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد نہیں کرسکے تو دوسری طرف بھارت سے دوستی پر زور دیتے رہے۔ یہ تعلقات ایک دائرے میں محدود رہے اورعوام کو اس دوستی کا ثمر نہیں مل سکا۔ دہشت گردی کے ایک واقعے نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کردیا۔
اسی طرح بھارت میں بھی انتخابات میں پاکستان دشمنی کا نعرہ لگا کر ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ دونوں ممالک کی قیادت کو ایک نیا موقع ملا ہے۔ میاں نواز شریف اور وزیر اعظم مودی میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔ اس ہم آہنگی کو مؤثر بنانے کے لیے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک میں امن کے لیے سرگرداں لوگوں کو امید ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت بصیرت کا ثبوت دے گی اور اس مقصد کے لیے جامع اقدامات کرے گی۔ تاریخ کے اس خوشگوار موڑ پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آجائیں گے اور معاشرے کا ہر طبقہ اس صورتحال سے مستفید ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کی دوستی جمہوری نظام کے استحکام، غربت وافلاس کے خاتمے اور مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے میں معاون ثابت ہوگی۔