محمد داؤد رہبر

محمد اکرام چغتائی نے معروف ادیب ڈاکٹر محمد داؤد رہبر کی کچھ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریریں مرتب کر کے شایع کی ہیں۔

محمد اکرام چغتائی نے معروف ادیب ڈاکٹر محمد داؤد رہبر کی کچھ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریریں مرتب کر کے شایع کی ہیں۔ داؤد رہبر عربی اور فارسی کے اسکالر تھے، انگریزی میں بھی ان کی کتابیں ہیں۔ ان کا انداز تحقیقی اور تنقیدی ہے اور جن موضوعات پر انھوں نے لکھا ہے، ان کا تنوع حیرت انگیز ہے۔ کیمبرج سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، انقرہ یونی ورسٹی میں پڑھایا اور پھرکینیڈا اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیے اس سے فارغ ہوئے تو وہیں تصنیفی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

اکرام چغتائی کی مرتبہ کتاب میں ان کا ایک مضمون ہے ''مشاعرے کا ارتقا اور اس کی اہمیت'' لکھتے ہیں ''مشاعرہ ایک خالص ہندوستانی چیزہے اور اردو کی ملکیت ہے'' اس کا ایران میں ''شعر خوانی، ہندی کی کوی سمیلن اور سکھوں کی پنجابی میں ''کوی دربار'' سے کوئی تعلق نہیں، رہبر نے اپنے مضمون میں مشاعرے کے معنی، اس کی ابتدا، پہلے عربوں میں قصیدہ خوانی پھر فارسی میں ہم طرح قصائد کی مقبولیت اور پھر فارسی غزلوں میں اس کی پیروی، صدی بہ صدی اس کی ترقی یہاں تک کہ محمد شاہ کے زمانے میں شمالی ہند میں اردوادب کا باضابطہ آغاز تفصیل سے لکھا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ''یہی وہ زمانہ ہے جب مشاعرے فارسی سے منتقل ہو کر اردو میں بھی جگہ پانے لگے'' وہ بتاتے ہیں کہ مشاعروں کی باقاعدہ ابتدا سودا کے اوائل عمر میں ہوئی اس زمانے میں کئی جگہ مشاعرے ہوتے تھے۔ سب سے زیادہ مشہور مشاعرہ مرزا بیدل کے عرس کے موقعے پر ہوتا، داؤد رہبر نے مشاعروں کے ساتھ مجالس عزا اور مسالموں کا بھی ذکرکیا ہے جن میں غزلوں اور مثنویوں کی بجائے مرثیے اور سلام پڑھے جاتے تھے پھر وقت کے ساتھ ساتھ دلی کے علاوہ بہت مقامات پر مشاعروں کا رواج ہو گیا۔

ان کے مشہور مرکز فیض آباد، بریلی اور لکھنو تھے، لکھنو سب سے بڑا مرکز تھا، رام پور، حیدر آباد اور الٰہ آباد میں مشاعرے ہوتے تھے۔

ڈاکٹر داؤد رہبر لکھتے ہیں ''بہادر شاہ ظفر کے عہد میں اگرچہ بادشاہت قلعے تک محدود تھی اور شاہی انعام و اکرام برائے نام رہ گئے تھے، لیکن دلی میں اب بھی مشاعروں کے چرچے پورے زور و شور سے ہو رہے تھے، ان میں سب سے زیادہ مشہور اور مقبول مشاعرہ خود قلعے میں ہوتا تھا، جس میں شہر کے تمام استاد، مومن، غالب، ذوق، صہبائی وغیرہ حاضر ہوتے تھے۔ یہ مشاعرے رات بھر جاری رہتے تھے۔''

مشاعروں کے ان مرکزوں کے علاوہ سب سے بڑا مرکز مشاعروں کا لاہور تھا۔ یہ مشاعرے انجمن پنجاب کے تحت ہوتے تھے، جس کی بنیاد 1865ء میں ڈالی گئی تھی۔ داؤد رہبر لکھتے ہیں ''یہ صحیح ہے کہ انجمن پنجاب کے مشاعروں نے اردو شاعری کو اگرچہ پرانی بد عنوانی سے چھڑا کر شاعری کی نئی شاہراہ پر لگایا لیکن آیندہ آنے والے مشاعروں کو بالکل بے مزہ کر دیا۔''

داؤد رہبرکا ایک مضمون ''بساط سخن اور ڈرامے کا اسٹیج'' ہے وہ لکھتے ہیں ''پاکستان میں اسٹیج آرائی کی سرگرمیوں کے آغاز کے لیے آغا بابر نے بڑا کام کیا۔ ایک روز میں نے ان سے کہاکہ تھیٹر کا فن اسلامی اضافِ فن میں سے نہیں ہے، انھوں نے اس قول کی تردید نہیں کی بس یہ جواب دیا کہ ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ معاشرہ دوسرے معاشروں کے علوم و فنون اور رسوم کو اپنانے لگتا ہے، میں نے یہ سن کر کہا ''ہاں یہ اور بات ہے۔''


داؤد رہبر کا نظریہ یہ ہے کہ تھیٹر کے مسلمان اداکاروں اور تماشائیوں کی نفسیات بہر حال وہ نہیں ہو گی جو دوسروں کی ہو گی۔ اگر کوئی اداکار مولانا روم کا روپ دھارکر سامنے آئے تو مسلمان دیکھنے والوں کو ضرور وحشت ہو گی کیوں کہ اسوۂ حسنہ اور بہروپ میں بہت فرق ہے۔

داؤد رہبر لکھتے ہیں، ''ڈرامے کا فن بہروپ کا فن ہے۔ ایکٹر اسٹیج پر آ کر کہتا ہے لو میں تمہیں فلاں بن کر دکھاتا ہوں۔ ڈرامے کی پیشکش کو ''ذات بدل'' کا مظاہرہ کہنا چاہیے۔ دہلی میں مرزا غالب کی سو سالہ برسی منائی گئی تو وہاں میں نے ایک شام برجو مہاراج کا ایک مظاہرہ دیکھا، کھتک کا یہ نٹ راجا مرزا غالب بن کر بے تحاشا تماشا دکھا رہا تھا۔ بیس گوپیاں اس کے گرد تیتریاں بن کر تھرک رہی تھیں۔ کہاں لال قلعے کے مشاعرے والا غالب اور کہاں گوپیوں میں گھرا ہوا گھونگرو کی جُِھن جُھن اور کھنک کی تتکار اور رس لیلا والا یہ بہروپیا! مجھے یہ دیکھ کر سخت وحشت ہو رہی تھی۔ میرا جی چاہا پکار کر کہوں، برجو مہاراج! کتھک میں تو یگانہ روزگار ہے لیکن میری آنکھیں کیسے مان لیں تو میرا نوشہ ہے۔

''مسیحی دنیا میں اسٹیج آرائی ہوئی، اسلامی دنیا میں بزم آرائی، فرشی نشست کی فضا تھیٹر کے چپوترے کی اچھل کود کی فضا نہیں ہوتی۔ اسٹیج اور بساط اپنے اپنے رنگ کی دنیائیں ہیں۔ اسلامی کلچر کا خاص الخاص فن لطیف محفل آرائی ہے۔ محفلوں میں جو گفتگوئیں ہوئیں سب برجستہ اور بے ساختہ ہوئیں۔ لکھے لکھائے مکالموں کے جملے گھر سے رٹ کر کوئی یہاں نہیں آیا۔ اس بساط پر حاضر جوابیاں ہوئیں، سب سے بڑی بات یہ کہ اس بساط پر اداکاریاں بہروپ کی صورت سے نہیں، روپ کی صورت سے ہوئیں، بزم میں ہر ایک نے ہم نشینوں کو اپنی نگاہوں سے یہ جتایا کہ آپ ہم نشین ہیں اور ہم ہم ہیں، ہم جو کچھ ہیں سو ہیں، ہم خود اپنے کردار کی ادا لے کر جہاں آن بیٹھے ہیں کسی و فلاں کی ادا دکھانے نہیں آئے ہیں۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں داؤد رہبر کی طالب علم کا زمانہ 1941ء سے 1945ء تک کا ہے اس کالج میں داخلہ یا تو ان امیدواروں کو ملتا تھا جنھوں نے انٹرنس بہت اونچے نمبر لے کر پاس کیا ہو یا ان نوجوانوں کو جنھوں نے اسپورٹس میں اعلیٰ کارکردگی دکھائی ہو یا با اقتدار خاندانوں کے سپوتوں کو۔ چند فی صد طلبا سفارش سے لیے جاتے تھے۔ عام شہرت اس کالج کی یہ تھی یہاں جن استادوں سے پڑھا ان کی قابلیت کا ذکر، انھوں نے اپنے مضمون ''ہر کسے را بہرے کارے ساختند'' میں کیا ہے انھوں نے چار پروفیسروں سے انگریزی نثر و نظم پڑھی، ان چاروں کے پاس انگلستان کی ڈگریاں تھیں۔

داؤد لکھتے ہیں ''انگریزی کے ان پروفیسروں کے ساتھ غیر مؤدبانہ حرکات پر جو بات ہمیں اکساتی تھی وہ ان کا بن بن کر انگریزی بولنا اور ان کا یہ چاہنا کہ ہم انھیں انگریز مان لیں نہایت مضحکہ خیز تھا۔ ہنسی آتی تھی۔

تاریخ کے دو پروفیسر تھے، تاریخ ہند پروفیسر غلام خالق پڑھاتے تھے، تاریخ انگلستان کا درس پروفیسر چوپڑہ کے ذمے تھا، داؤد رہبر لکھتے ہیں۔ ان دونوں کی تدریس ایسی بے روح تھی کہ کیا کہا جائے اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ نظام تعلیم سے اس زمانے میں مذاہب کی تحقیق اور تدریس خارج رکھی گئی تھی۔ تاریخ مذاہب کو شامل کیے بغیر تاریخ کا مطالعہ بے رس اور سطحی رہتا ہے، ان دونوں کا طریق تدریس یہ تھا کہ ہوشیار لڑکوں سے سبق تیار کر کے لانے کو کہتے اور پھر خود لیکچر دینے کی بجائے ان سے سبق سنتے، یہ ایسا تھا جیسے مفت کی تنخواہ کھانا ان سے سیکھیے اور تاریخ کسی اور سے۔

صوفی تبسم سے بھی انھوں نے پڑھا۔ لکھتے ہیں ان کی طبعیت داری اور بزم آرائی ہماری طالب علمی کے زمانے میں مسلم نہیں ہوئی تھی۔ فلسفہ کے مطالعے میں داؤد رہبر کے استاد خواجہ عبدالحمید تھے وہ لکھتے ہیں ''گورنمنٹ کالج میں ہمارے سب سے زیادہ فرض شناس استاد خواجہ عبدالحمید صاحب ہی تھے۔ دو سال انھوں نے ہمیں منطق پڑھائی اور دو سال ایتھکس۔ ان دونوں کی کتابیں نصاب کے مطابق انگریزی میں انھوں نے ہی لکھی تھی۔
Load Next Story