پیوستہ رہ شجر سے اُمید ِبہار رکھ
جمہوریت کو خواہ کتنا ہی بُرا بھلا کہا جائے، اُسے کتنا ہی لعن طعن کی جائے
جمہوریت کو خواہ کتنا ہی بُرا بھلا کہا جائے، اُسے کتنا ہی لعن طعن کی جائے، لیکن ہمیں بہرحال یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ دنیا میں رائج حالیہ تمام نظاموں میں سے بہتر نظام ہے۔ نہ شہنشاہیت اور نہ فوجی افسران پر مشتمل نظامِ حکومت کو اِس سے اچھا اور بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ہمارے یہاں ایسے کئی دانشور اور صاحبِ عقل و فہم لوگ ایسے موجود ہیں جن کے نزدیک آج بھی غیر جمہوری نظام جمہوریت سے بہتر تصور کیا جاتا ہے۔
وہ اپنے مخصوص نظریات اور طرز فکر سے اُس کے حق میں بڑی بڑی دلیلوں اور توجیحات سے یہ ثابت بھی کرنے کی کوشش کرتے ہتے ہیں کہ حالیہ جمہوریت سے سابقہ غیر جمہوری نظام قدرے اچھا اور بہتر تھا۔ تمام خرابیوں اور ناکامیوں کے باوجود ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ جمہوریت ایک مادر پدر آزاد، بے رحم اور بے پرواہ نظام نہیں ہے، اُس کے کچھ ضابطے، اُصول اور طریقے ہوا کرتے ہیں وہ قانون اور آئین میں درج اُصولوں کے مطابق اپنا راستہ بناتا ہے اور اُسی کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھتا جاتا ہے۔
حزبِ اختلاف اور اپوزیشن کی شکل میں اُسے عوام کے سامنے ہر قدم پر جوابدہ ہونا ہوتا ہے۔ وہاں کوئی کام عوام الناس کے مفاد کے خلاف نہیں ہو سکتا، جب کہ آمریت اور غیر جمہوری دورِ حکومت میں نہ کوئی اپوزیشن ہوتی ہے اور نہ کوئی عوامی مزاحمت ایک آدمی یا فرد واحد کا جو جی چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کرتا کہ کوئی اُس کے کاموں اور فیصلوں کے بارے میں سوال اُٹھائے یا تنقید و اعتراض کرے۔
ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ جمہوریت میں لاکھ خرابیاں سہی لیکن وہ کسی بھی غیر جمہوری نظام سے بہت بہتر ہی ہے۔ یہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کی کہانیاں گرچہ جمہوری دور میں کچھ زیادہ ہی دکھائی اور سنائی دیتی ہیں لیکن اُس کی بھی ایک وجہ ہے کہ غیر جمہوری دور میں ایسی خبریں عوام تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔ جمہوریت میں کم از کم یہ تو ہوتا ہے کہ تمام افراد کی نظریں حکومت کی ہر حرکت اور اُس کے ہر منصوبے اور کام پر لگی ہوتی ہیں کہ کہیں اِس میں کوئی خفیہ ڈیل یا کک بیکس کے جراثیم تو موجود نہیں ہیں۔
کوئی معاہدہ اور کوئی پروجیکٹ عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتِ قطر سے ہونے والے ایل این جی کی سپلائی کے ایک معاہدے پر جب ہماری اپوزیشن نے اعتراضات اُٹھانے شروع کیے تو حکومت کے پاس اِ س کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اِس معاہدے پر ایک بار پھر نظرثانی کرے اور قطر کی حکومت سے ایل این جی کے دام کم کرنے کو کہے۔ لہذا ہم نے دیکھا کہ ایل این جی کی قیمت کا تعین نئے سرے سے کیا گیا اور اُسے بین الاقوامی سطح پر لانے کی کوشش کی گئی۔
اگر آج ہمارے یہاں جمہوریت نہ ہوتی تو کسی کو پتہ تک نہ چلتا اور کوئی خبر عوام تک نہیں پہنچ پاتی۔ بالا ہی بالا سارا سودا طے کر لیا جاتا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ سابقہ غیر جمہوری دور میں اُس وقت کے فوجی حکمراں نے ساری قوم کو سی این جی کے استعمال پر راغب کرتے ہوئے کاروں اور بسوں میں اِس ملک کے قدرتی گیس کے ذخائر پھونک ڈالے اور نتیجتاً آج ہم اِس کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ اِس طرح گیس کے بے دریغ استعمال سے وہ قدرت کی اِس نعمت کو کس طرح ضایع کروا رہا ہے۔ ہزاروں سی این جی اسٹیشن کھولے گئے اور اُس میں بھی بے تحاشہ کرپشن کی گئی۔
پانی کی طرح اللہ تعالیٰ کی اِس بیش بہا نعمت کو بہا دیا گیا اور کسی نے اُس کا ہاتھ بھی نہیں روکا۔ وہ اُس وقت اِس زعم اور تکبر میں مبتلا تھا کہ اُس کا ہر فیصلہ درست اور صحیح ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ آج بھی اپنے کسی فیصلے پر پشیمان اور شرمندہ نہیں ہے اور ہمارے کسی بہادر تبصرہ نگار یا نقاد اور دلیر و نڈر اینکر یا صحافی میں اتنی جرأت و ہمت بھی نہیں کہ وہ اِس قومی نعمت کے اتنے بڑے نقصان اور زیاں پر اُس سے کوئی سوال کر سکے۔
اُس نے اپنے نو سالوں میں توانائی کے شعبے میں کوئی پیشرفت نہیں کی، کوئی بجلی بنانے کا پروجیکٹ نہیں لگایا اور اپنی من مانی یکطرفہ پالیسیوں کے سبب اِس ملک کو دہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا، ضعیف العمر سیاستداں اکبر بگٹی کو مبینہ کاؤنٹر اٹیک میں مار کر بلوچستان میں پہلے سے موجود علیحدگی پسند رجحانات کو مزید ہوا دی ۔ ہم آج نہ صرف اُس دور کی بے شمار غلطیوں، خرابیوں اور نتائج کو بھگت رہے ہیں بلکہ اُنہیں درست کرنے میں اپنا قیمتی وقت اور اپنی توانائیاں بھی صرف کر رہے ہیں۔
آج بہتر حکمتِ عملی کی بدولت ہمارے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ بلوچستان میں حالات پہلے کی نسبت بہتر ہوئے ہیں۔ وطنِ عزیز ترقی و خوشحالی کے راستے پر چل پڑا ہے۔ اکنامک کوریڈور ملک و قوم کے لیے گیم چینجر بننے جا رہا ہے۔ قومی اہمیت کے اتنے اہم منصوبے پر اگر آج کسی کو اعتراضات، خدشات یا تحفظات ہیں تو اُنہیں جمہوری انداز میں دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
باہمی گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے اُنہیں سلجھانے کی تدبیریں کی جا رہی ہیں۔ یہ سب جمہوریت کے ثمرات نہیں تو اور کیا ہیں۔ بھارت سے معاملات بھی برابری کی بنیا د پر طے کیے جا رہے ہیں۔ پٹھانکوٹ پر حملے کو حقیقت پسندانہ انداز میں نمٹایا جا رہا ہے۔ دونوں جانب سے وسیع القلبی، بصیرت اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ حکومت اپنے ہر فیصلے میں اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے نقطہ نظر کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
معاملہ سعودی حکومت کے یمن اور ایران کے ساتھ تنازع یا دفاعی امور کا ہو یا پھر 34 ممالک کے فوجی اتحاد کا ہر اہم اور بڑے قومی فیصلے میں عسکری اور سول قیادت کے درمیان ہم آہنگی، اتفاق اور یگانگت ہے۔ ایسا معجزہ پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے، ورنہ اِس سے قبل ہمارے یہاں فریقین کے خیالات اور نظریات کبھی ایک سے نہیں رہے۔ دونوں کی ترجیحات میں فرق اور اختلاف قوم کی اجتماعی کامیابیوں کے راستے میں ہمیشہ حائل ہی رہا۔
ملک میں پہلی بار کسی جمہوری دورِ حکومت میں بلدیاتی الیکشن بخیر و خوبی ہو پائے ہیں اور ضلع اور نچلی سطح تک عوام کو اُس کا جمہوری اور بنیادی حق دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ڈھائی برسوں میں کئی مسائل حل ہو چکے ہیں اور ابھی گرچہ بہت سے باقی بھی ہیں، توقع رکھنی چاہیے کہ آیندہ آنے والے دنوں میں وہ بھی حل ہو جائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ ملک آگے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وقت رُک سا گیا ہو یا پیچھے کی جانب جاتا محسوس ہو رہا ہے، جیسا کہ سابقہ دور میں واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ ہم ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے سبب دہشت گردی کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو رہے تھے۔
کرپشن اور مالی بدعنوانیوں نے ملک و قوم کو مائل بہ زوال کر رکھا تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روشن مستقبل ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہمارے سیاسی، معاشرتی اور جغرافیائی حالات رفتہ رفتہ سدھرتے جا رہے ہیں۔ ہم بے یقینی اور نااُمیدی کے مایوس کن اندھیروں سے باہر نکل آئے ہیں۔
حکومتی اداروں میں تطہیری عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ سرکاری وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن کی وارداتوں میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ساٹھ پینسٹھ سال کی خرابیوں کو چند مہینوں یا سالوں میں درست نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ارادے نیک ہوں، نیتیں پُرخلوص ہوں اور عزائم غیر متزلزل ہوں تو اللہ کی نصرت اور مدد یقینا کارفرما ہوتی ہے اور معاملات خود بخود بہتری اور اچھائی کی جانب گامزن ہونے لگتے ہیں۔ پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ۔
وہ اپنے مخصوص نظریات اور طرز فکر سے اُس کے حق میں بڑی بڑی دلیلوں اور توجیحات سے یہ ثابت بھی کرنے کی کوشش کرتے ہتے ہیں کہ حالیہ جمہوریت سے سابقہ غیر جمہوری نظام قدرے اچھا اور بہتر تھا۔ تمام خرابیوں اور ناکامیوں کے باوجود ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ جمہوریت ایک مادر پدر آزاد، بے رحم اور بے پرواہ نظام نہیں ہے، اُس کے کچھ ضابطے، اُصول اور طریقے ہوا کرتے ہیں وہ قانون اور آئین میں درج اُصولوں کے مطابق اپنا راستہ بناتا ہے اور اُسی کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھتا جاتا ہے۔
حزبِ اختلاف اور اپوزیشن کی شکل میں اُسے عوام کے سامنے ہر قدم پر جوابدہ ہونا ہوتا ہے۔ وہاں کوئی کام عوام الناس کے مفاد کے خلاف نہیں ہو سکتا، جب کہ آمریت اور غیر جمہوری دورِ حکومت میں نہ کوئی اپوزیشن ہوتی ہے اور نہ کوئی عوامی مزاحمت ایک آدمی یا فرد واحد کا جو جی چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کرتا کہ کوئی اُس کے کاموں اور فیصلوں کے بارے میں سوال اُٹھائے یا تنقید و اعتراض کرے۔
ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ جمہوریت میں لاکھ خرابیاں سہی لیکن وہ کسی بھی غیر جمہوری نظام سے بہت بہتر ہی ہے۔ یہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کی کہانیاں گرچہ جمہوری دور میں کچھ زیادہ ہی دکھائی اور سنائی دیتی ہیں لیکن اُس کی بھی ایک وجہ ہے کہ غیر جمہوری دور میں ایسی خبریں عوام تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔ جمہوریت میں کم از کم یہ تو ہوتا ہے کہ تمام افراد کی نظریں حکومت کی ہر حرکت اور اُس کے ہر منصوبے اور کام پر لگی ہوتی ہیں کہ کہیں اِس میں کوئی خفیہ ڈیل یا کک بیکس کے جراثیم تو موجود نہیں ہیں۔
کوئی معاہدہ اور کوئی پروجیکٹ عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتِ قطر سے ہونے والے ایل این جی کی سپلائی کے ایک معاہدے پر جب ہماری اپوزیشن نے اعتراضات اُٹھانے شروع کیے تو حکومت کے پاس اِ س کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اِس معاہدے پر ایک بار پھر نظرثانی کرے اور قطر کی حکومت سے ایل این جی کے دام کم کرنے کو کہے۔ لہذا ہم نے دیکھا کہ ایل این جی کی قیمت کا تعین نئے سرے سے کیا گیا اور اُسے بین الاقوامی سطح پر لانے کی کوشش کی گئی۔
اگر آج ہمارے یہاں جمہوریت نہ ہوتی تو کسی کو پتہ تک نہ چلتا اور کوئی خبر عوام تک نہیں پہنچ پاتی۔ بالا ہی بالا سارا سودا طے کر لیا جاتا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ سابقہ غیر جمہوری دور میں اُس وقت کے فوجی حکمراں نے ساری قوم کو سی این جی کے استعمال پر راغب کرتے ہوئے کاروں اور بسوں میں اِس ملک کے قدرتی گیس کے ذخائر پھونک ڈالے اور نتیجتاً آج ہم اِس کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ اِس طرح گیس کے بے دریغ استعمال سے وہ قدرت کی اِس نعمت کو کس طرح ضایع کروا رہا ہے۔ ہزاروں سی این جی اسٹیشن کھولے گئے اور اُس میں بھی بے تحاشہ کرپشن کی گئی۔
پانی کی طرح اللہ تعالیٰ کی اِس بیش بہا نعمت کو بہا دیا گیا اور کسی نے اُس کا ہاتھ بھی نہیں روکا۔ وہ اُس وقت اِس زعم اور تکبر میں مبتلا تھا کہ اُس کا ہر فیصلہ درست اور صحیح ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ آج بھی اپنے کسی فیصلے پر پشیمان اور شرمندہ نہیں ہے اور ہمارے کسی بہادر تبصرہ نگار یا نقاد اور دلیر و نڈر اینکر یا صحافی میں اتنی جرأت و ہمت بھی نہیں کہ وہ اِس قومی نعمت کے اتنے بڑے نقصان اور زیاں پر اُس سے کوئی سوال کر سکے۔
اُس نے اپنے نو سالوں میں توانائی کے شعبے میں کوئی پیشرفت نہیں کی، کوئی بجلی بنانے کا پروجیکٹ نہیں لگایا اور اپنی من مانی یکطرفہ پالیسیوں کے سبب اِس ملک کو دہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا، ضعیف العمر سیاستداں اکبر بگٹی کو مبینہ کاؤنٹر اٹیک میں مار کر بلوچستان میں پہلے سے موجود علیحدگی پسند رجحانات کو مزید ہوا دی ۔ ہم آج نہ صرف اُس دور کی بے شمار غلطیوں، خرابیوں اور نتائج کو بھگت رہے ہیں بلکہ اُنہیں درست کرنے میں اپنا قیمتی وقت اور اپنی توانائیاں بھی صرف کر رہے ہیں۔
آج بہتر حکمتِ عملی کی بدولت ہمارے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ بلوچستان میں حالات پہلے کی نسبت بہتر ہوئے ہیں۔ وطنِ عزیز ترقی و خوشحالی کے راستے پر چل پڑا ہے۔ اکنامک کوریڈور ملک و قوم کے لیے گیم چینجر بننے جا رہا ہے۔ قومی اہمیت کے اتنے اہم منصوبے پر اگر آج کسی کو اعتراضات، خدشات یا تحفظات ہیں تو اُنہیں جمہوری انداز میں دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
باہمی گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے اُنہیں سلجھانے کی تدبیریں کی جا رہی ہیں۔ یہ سب جمہوریت کے ثمرات نہیں تو اور کیا ہیں۔ بھارت سے معاملات بھی برابری کی بنیا د پر طے کیے جا رہے ہیں۔ پٹھانکوٹ پر حملے کو حقیقت پسندانہ انداز میں نمٹایا جا رہا ہے۔ دونوں جانب سے وسیع القلبی، بصیرت اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ حکومت اپنے ہر فیصلے میں اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے نقطہ نظر کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
معاملہ سعودی حکومت کے یمن اور ایران کے ساتھ تنازع یا دفاعی امور کا ہو یا پھر 34 ممالک کے فوجی اتحاد کا ہر اہم اور بڑے قومی فیصلے میں عسکری اور سول قیادت کے درمیان ہم آہنگی، اتفاق اور یگانگت ہے۔ ایسا معجزہ پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے، ورنہ اِس سے قبل ہمارے یہاں فریقین کے خیالات اور نظریات کبھی ایک سے نہیں رہے۔ دونوں کی ترجیحات میں فرق اور اختلاف قوم کی اجتماعی کامیابیوں کے راستے میں ہمیشہ حائل ہی رہا۔
ملک میں پہلی بار کسی جمہوری دورِ حکومت میں بلدیاتی الیکشن بخیر و خوبی ہو پائے ہیں اور ضلع اور نچلی سطح تک عوام کو اُس کا جمہوری اور بنیادی حق دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ڈھائی برسوں میں کئی مسائل حل ہو چکے ہیں اور ابھی گرچہ بہت سے باقی بھی ہیں، توقع رکھنی چاہیے کہ آیندہ آنے والے دنوں میں وہ بھی حل ہو جائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ ملک آگے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وقت رُک سا گیا ہو یا پیچھے کی جانب جاتا محسوس ہو رہا ہے، جیسا کہ سابقہ دور میں واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ ہم ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے سبب دہشت گردی کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو رہے تھے۔
کرپشن اور مالی بدعنوانیوں نے ملک و قوم کو مائل بہ زوال کر رکھا تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روشن مستقبل ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہمارے سیاسی، معاشرتی اور جغرافیائی حالات رفتہ رفتہ سدھرتے جا رہے ہیں۔ ہم بے یقینی اور نااُمیدی کے مایوس کن اندھیروں سے باہر نکل آئے ہیں۔
حکومتی اداروں میں تطہیری عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ سرکاری وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن کی وارداتوں میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ساٹھ پینسٹھ سال کی خرابیوں کو چند مہینوں یا سالوں میں درست نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ارادے نیک ہوں، نیتیں پُرخلوص ہوں اور عزائم غیر متزلزل ہوں تو اللہ کی نصرت اور مدد یقینا کارفرما ہوتی ہے اور معاملات خود بخود بہتری اور اچھائی کی جانب گامزن ہونے لگتے ہیں۔ پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ۔