کراچی میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے آپریشن کیا جائے سپریم کورٹ

جن ملزمان کو عدالتیں سزائیں دیتی ہیں انہیں پیرول پر چھوڑ دیا جاتا ہے،90 فیصد شہری نفسیاتی مریض بن گئے

ایک آدمی پکڑ کر اس پر100مقدمات ڈالنے سے کام نہیں چلے گا،5ہزار قاتل شہر میں گھوم رہے ہیں، کراچی میں18سال سے رینجرز موجود ہے مگراس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ۔ فوٹو: راشد اجمیری/فائل

KARACHI:
کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزروکیا ہے کہ کراچی میں اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ ہے۔

صوبائی حکومت نے متوازی عدالتی نظام قائم کررکھا ہے اور وہ ان ملزم کو پیرول پر رہا کردیتی ہے جنہیں تفتیش کی خامیوں کے باوجود عدالتیں سزائیں سناتی ہیں، کراچی میں ٹارگٹڈ نہیں آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل بینچ نے کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمدکی رپورٹس کا جائزہ مکمل کرلیا۔

اس دوران بینچ آبزرو کیا کہ سندھ حکومت نے متوازی عدالتی نظام قائم کررکھا ہے اور عدالتیں جن ملزمان کو سزائیں سناتی ہیں حکومت انھیں پیرول پررہا کردیتی ہے، جو ریلیف سپریم کورٹ نہیں دی سکتی ہوم ڈپارٹمنٹ وہ ریلیف دیدیتا ہے ، ہزاروں قاتل شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں ایسے میں امن کیسے قائم ہوسکتاہے، بدامنی کے باعث کراچی کے90 فیصد شہری نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ ، پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم نے بھی اعتراف کرلیا کہ ایسے ملزمان کو بھی پیرول پر رہاکردیا گیا جس کی قانون میں ممانعت ہے ا ور اس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔

سماعت کے آغاز پرایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے بینچ کی جانب سے طلب کی گئی پولیس ، اینٹی کارلفٹنگ سیل ، اینٹی وائلنٹ کرائم سیل، اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کی کارکردگی رپورٹس پیش کیں ، اے جی نے کراچی کے مختلف تھانوں کی حدود اور مختلف اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے چارٹ ونقشہ جات بھی پیش کیے ، فاضل بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے کراچی بدامنی کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے اب تک ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونیوالے شہریوں کی تعداد، مقدمات ، چالان ، گرفتار اور مفرور ملزمان کے بارے میں بھی تفصیلات طلب کیں ، ڈی آئی جی بشیرمیمن نے فاضل بینچ کو بتایا کہ کراچی میں قیام امن کی کوششوں میں سی آئی ڈی سمیت پولیس کے مختلف شعبوں نے انتہائی جانفشانی کا مظاہرہ کیا ہے اور اہلکاروں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

جسٹس سرمد نے استفسار کیا کہ پولیس اہلکاروںکی ہلاکتیںاپنی جگہ لیکن یہ بتایا جائے کہ شہر میں امن کیلییکون سے اقدامات کیے گئے ، ایک آدمی پکڑ کر اس پر100مقدمات ڈالنے سے کام نہیں چلے گا، ہمیں بتائیں کہ سہراب گوٹھ پر آخری آپریشن کب کیا، ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ وقتاً فوقتاً ٹارگٹڈکارروائیاں کی جاتی ہیں ، جسٹس سرمد نے ریمارکس دیے کہ ایک دوکارروائیوں اور کچھ افراد کی گرفتاریوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے ،ایڈووکیٹ جنرل نے بینچ کو بتایا کہ گزشتہ13ماہ میں 2381مقدمات درج کیے گئے جبکہ761 ملزمان کیگرفتاری ہوئی ،3461 ملزمان مفرور ہیں ، مفرور ملزمان کی حیثیت کے بارے میں ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود اور پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان میں اختلاف پایا گیا،اقبال محمود کا موقف تھا کہ یہ مفرورملزمان تھے لیکن گرفتارکرلیا گیا جبکہ شہادت اعوان کا موقف تھا کہ یہ مفرور ملزمان ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ اس دوران2659افراد قتل کیے گئے ، عدالت نے اپنی آبزرویشن میںکہا کہ ایسا لگتا ہے جان بوجھ معلومات چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے ، جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ5ہزار قاتل شہر میں گھوم رہے ہیں،جسٹس امیر ہانی مسلم کے استفسارپرایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ پولیس کے محکمے میں خامیاں ہیں ، عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ رینجرز کے پاس ملزمان کی گرفتاری کا اختیار ہے مگر تفتیش پولیس ہی کرتی ہے، پراسیکیوٹرجنرل شہادت اعوان نے بتایا کہ رینجرز کو پولیس پر اعتماد نہیں تاہم ورکنگ ریلیشن شپ کیلیے لائحہ عمل جلد وضع کرلیا جائیگا، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے بتایا کہ رینجرز نے تفتیش اور اپنے تھانوں کی پیش کش بھی مسترد کردی ہے، جسٹس گلزار نے کہا کہ رینجرز کو تفتیش دینے میں ایک قباحت یہ بھی ہوگی کہ رینجرز وفاقی ادارہ ہے۔


عدالتوں میں شہادت قلمبند کرانے کے موقع پر ہوسکتا ہے کہ تفتیشی افسرکراچی کے بجائے وزیرستان میں ہو،ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ رینجرز1995سے کراچی میں موجود ہے،جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے ریمارکس میں کہا افسوس ہے کہ گزشتہ18سال سے مطلوبہ نتائج نہیں ملے ،بجٹ کا بڑاحصہ رینجرز پرخرچ کیا جاتا ہے اگر پولیس کی تنخواہ دُگنی کردی جائے تو پولیس بھی بہتر نتائج دے سکتی ہے جیسا کہ پولیس افسران موٹر وے پولیس میںجاکر ایماندار اور فرض شناس بن جاتے ہیں ، عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ2003میں 35ملزمان کو پیرول پر رہاکیا گیا تھا،عدالت نے محکمہ داخلہ کی پیش کردہ فہرست پر انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جن ملزمان کیخلاف مقدمات ابھی زیر سماعت تھے انھیں کیسے رہا کردیا گیا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے محکمہ داخلہ کے افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس انداز میں کام کررہے ہیں اس کے مطابق تو جو لوگ پیرول پر رہا ہوگئے انکی جگہ آپ کو جیل جانا چاہیے، جسٹس امیرہانی مسلم نے پراسیکیوٹر جنرل سے استفسار کیاکہ زیر سماعت قیدیوں کے مقدمات کے علاوہ سزا یافتہ ملزمان کو بھی غیر معینہ مدت کیلیے کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ، شہادت اعوان نے جواب دیاکہ اچھے چال چلن کی بنیاد پر جیل حکام قیدیوں کو پیرول پر رہاکرسکتے ہیں ، تاہم جسٹس ہانی نے پھر استفسار کیا قتل اور اغوا برائے تاوان کے ملزمان جو کہ دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں انھیں کیسے رہا کیا جاسکتا، قتل کے معاملے میں قصاص ودیت کا قانون دیگر قوانین سے بالاتر ہے ، اس کے علاوہ کسی بھی جسمانی ایذا کے مقدمے میں متاثرہ شخص کی رضامندی کے علاوہ کسی اور کو سزا میں کمی یا معافی کا اختیار نہیں۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ یہاں تو5/5قتل کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو محض اچھے چال چلن کی بنیاد بنا کر رہا کردیا گیا ، اس موقع پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد اور ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح ملک نے تسلیم کیا کہ مذکورہ ملزمان کو غیر قانونی طور رہا کیا گیا، پراسیکیوٹر جنرل نے بھی قانون کی تشریح کرنے کی کوشش کی تو بینچ نے ان سے کہا کہ ہمیں بتانے کی بجائے یہ قانون حکومت کو کیوں نہیں بتاتے ، شہادت اعوان نے معصومیت سے کہا کہ وہ پوچھتے ہی نہیں ، عدالت نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت ایسے ملزمان کو چھوڑا گیا جن کے مقدمات زیرسماعت تھے ، وسیم احمد نے بتایا کہ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا، اسی لیے انھوں نے2008میں آئی جی سندھ کو ایک خط بھی لکھا تھا مگر کسی کوگرفتار نہیں کیاگیا ۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ پانچ پانچ قتل کرنے والوں کو کیسے رہا کردیا گیا؟

اگر یہی کرناہے تو جیل کے دروازے کھول دیں اور سب کوگھر جانے دیں،جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ یہ تو اندھیرنگری چوپٹ راج ہے، بمشکل کسی ملزم کو سزا ہوتی ہے، ان ملزمان میں سے ایک ایسا بھی جس کی عدالت نے ضمانت مستردکردی تھی ، لیکن حکومت ان سزا یافتہ دہشت گردوں کوکسی عدالتی کارروائی کے بغیر رہا کردیتی ہے ، پیرول پر رہائی کی بھی مدت ہوتی ہے ،2003میں پیرول پر رہا کیے گئے ان ملزمان کے پیرول کی مدت2005 میں مکمل ہوچکی اب وہ کہاں ہیں ، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ پتہ نہیں کہ اب وہ کس ملک میں ہوں ،ایڈووکیٹ جنرل نے خود حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جو شخص قتل کے پانچ مقدمات میں ملوث ہواس کے چال چلن کا اندازہ کرنے کا کوئی اور معیار ہوہی نہیں سکتا ، یہ بہت غلط ہوا ہے ،اس معاملے کو میں خود دیکھوں گا۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ حکومت کے یہ جو معاملات ہیں اس کے بارے میں آپ ہماری معاونت کریں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسارکیا کہ آئی جی سندھ کہاں ہیں ،جس پربتایا گیا کہ وہ مصروفیت باعث پیش نہیں ہوئے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئی جی سندھ سو رہے ہیں تو انھیں سو نے دیں،آئوٹ آف ٹرن ترقیاں لینے والے پولیس افسران سے اچھی کارکردگی امید بھی نہیں کی جاسکتی ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر غلطی سے قاتلوں کو پکڑ بھی لیاجائے تو انھیں پیرول پر رہاکردیا جاتا ہے۔

عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ2003میں 35ملزمان کو عارضی پیرول پر چھوڑا گیا تھا جو کہ تدفین میں شرکت یا کسی ایمرجنسی کی صورت میں دو دن کیلیے چھوڑا جاتا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ مذکورہ ملزمان کو گزشتہ دور حکومت میں چھوڑا گیا تھا،جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں سے اعلان برات نہیں کرسکتے اس لیے حکومت بھی گزشتہ حکومتوں کے اقدامات کی ذمے داری کو تسلیم کرے، جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اتنی لاقانونیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،عدالت نے آئندہ سیشن کیلیے سماعت ملتوی کردی۔

Recommended Stories

Load Next Story