ایک اور سیاہ دن
’16 دسمبر‘ کے بعد ’20 جنوری‘۔ آخر ہم آخرکب تک تاریخوں کو شہیدوں کے نام کرتے رہیں گے؟
SUKKUR:
باچا خان یونیورسٹی پردہشت گردوں کا حملہ ۔۔۔ متعدد ہلاکتوں کا خدشہ ۔۔۔ فوج نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کارروائی شروع کردی۔ ہر چینل پر بس ایک ہی خبر چل رہی تھی۔ ''کیا آرمی پبلک سکول جیسا ایک اور سانحہ رونما ہونے جا رہا ہے؟ اللہ نہ کرے ایسا ہو۔'' اُس نے بے چینی کےعالم میں ٹی وی بند کر کے ریموٹ ایک طرف رکھ دیا، مگر بے چینی ایسے کہاں ختم ہونے والی تھی کچھ ہی دیر بعد ٹی وی دوبارہ آن ہوگیا۔
پاک آرمی فلاں گیٹ سے یونیورسٹی میں داخل ہوچکی ہے، فلاں بلاک میں اتنے طالبعلم ہیں اور فلاں ہال میں اتنے، اگر خدانخواستہ دہشت گرد فلاں ہال تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو بہت زیادہ جانی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، اب کمانڈوز اُس ہاسٹل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔ بعض بیوقوف چینلز ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے چکر میں دہشت گردوں کو لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے با خبر رکھ کر اُن کا کام آسان کرنے میں مگن تھے۔
اور ایک مرتبہ پھر مائیں دروازہ تکتی رہ گئیں، جنہیں کچھ دیر پہلے ہنستے مسکراتے رخصت کیا تھا، اُن کے خون میں لَت پَت لاشے دیکھ کر ماؤں کا کلیجہ تو ویسے ہی پھٹ گیا ہوگا، نہ جانے بوڑھے باپ نے جوان بیٹے کی میت کو کیسے کاندھا دیا ہوگا، کیسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارا ہوگا۔ ایک بار پھر وہی دردناک مناظر، وہی تسلیاں، وہی دلاسے، وہی مذمتی بیانات، وہی دہشتگردوں کو کچل دینے کا عزم، سب کچھ وہی تھا۔
اگر یہ دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے تو ہم نے اُنہیں روکنے کا کیا بندوبست کیا تھا؟ کیا وہ یونہی آتے رہیں گے؟ معصوموں کا خون بہاتے رہیں گے اور اُنہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا؟ اگر چین سینکڑوں سال پہلے دشمنوں کے حملوں سے بچنے کے لئے 5 ہزار 5 سو میل طویل دیوارتعمیر کرسکتا ہے تو آج کے اس جدید دورمیں، تمام تر وسائل مہیا ہونے کے باوجود بھی ہمارے بارڈر غیر محفوظ کیوں ہیں؟
انڈیا میں چیونٹی بھی مرجائے تو الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے، 16 جنوری کو انڈیا کا وزیرِ دفاع کھلے عام پاکستان کو دھمکی دیتا ہے، اور20 جنوری کو باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوجاتا ہے، مگر ہم نہ جانے کس مصلحت کے تحت خاموش بیٹھے ہیں۔ اگر انڈیا کی فراہم کردہ معلومات پر ہم پاکستان میں کاروائی کرسکتے ہیں تو ہمیں بھی بتایا جائے کہ ہمارے فراہم کردہ بھارتی مداخلت کے ثبوتوں پر آج تک کیا کاروائی ہوئی ہے؟
جب انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک ہفتہ قبل ہی خبردار کردیا تھا کہ دہشت گرد خیبر پختونخواہ میں اے پی ایس طرز کے ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، تو ہم نے پیشگی اطلاع کے باوجود تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے؟ اس کا جواب کون دے گا؟ ان 21 معصوموں کے لہو کا حساب کون دے گا؟
''16 دسمبر'' کے بعد ''20 جنوری'' ہم آخرکب تک تاریخوں کو شہیدوں کے نام کر کے، کب دہشتگردوں سے اپنے تعلیمی ادارے، اپنے بازار، اپنی مساجد کو بچا پائیں گے؟ ہم کب تک بس آنسوبہاتے رہیں گے؟ سوالوں کا ایک طوفان تھا جو اُس کے دماغ کے درو دیوار ہلا رہا تھا، مگر اُس کے پاس کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
باچا خان یونیورسٹی پردہشت گردوں کا حملہ ۔۔۔ متعدد ہلاکتوں کا خدشہ ۔۔۔ فوج نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کارروائی شروع کردی۔ ہر چینل پر بس ایک ہی خبر چل رہی تھی۔ ''کیا آرمی پبلک سکول جیسا ایک اور سانحہ رونما ہونے جا رہا ہے؟ اللہ نہ کرے ایسا ہو۔'' اُس نے بے چینی کےعالم میں ٹی وی بند کر کے ریموٹ ایک طرف رکھ دیا، مگر بے چینی ایسے کہاں ختم ہونے والی تھی کچھ ہی دیر بعد ٹی وی دوبارہ آن ہوگیا۔
پاک آرمی فلاں گیٹ سے یونیورسٹی میں داخل ہوچکی ہے، فلاں بلاک میں اتنے طالبعلم ہیں اور فلاں ہال میں اتنے، اگر خدانخواستہ دہشت گرد فلاں ہال تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو بہت زیادہ جانی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، اب کمانڈوز اُس ہاسٹل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔ بعض بیوقوف چینلز ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے چکر میں دہشت گردوں کو لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے با خبر رکھ کر اُن کا کام آسان کرنے میں مگن تھے۔
''بریکنگ نیوز'' حملے میں ایک پروفیسر اورطلباء سمیت 21 افراد کی شہادت کی تصدیق، یونیورسٹی کو دہشت گردوں سے پاک کرا لیا گیا۔
اور ایک مرتبہ پھر مائیں دروازہ تکتی رہ گئیں، جنہیں کچھ دیر پہلے ہنستے مسکراتے رخصت کیا تھا، اُن کے خون میں لَت پَت لاشے دیکھ کر ماؤں کا کلیجہ تو ویسے ہی پھٹ گیا ہوگا، نہ جانے بوڑھے باپ نے جوان بیٹے کی میت کو کیسے کاندھا دیا ہوگا، کیسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارا ہوگا۔ ایک بار پھر وہی دردناک مناظر، وہی تسلیاں، وہی دلاسے، وہی مذمتی بیانات، وہی دہشتگردوں کو کچل دینے کا عزم، سب کچھ وہی تھا۔
اگر یہ دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے تو ہم نے اُنہیں روکنے کا کیا بندوبست کیا تھا؟ کیا وہ یونہی آتے رہیں گے؟ معصوموں کا خون بہاتے رہیں گے اور اُنہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا؟ اگر چین سینکڑوں سال پہلے دشمنوں کے حملوں سے بچنے کے لئے 5 ہزار 5 سو میل طویل دیوارتعمیر کرسکتا ہے تو آج کے اس جدید دورمیں، تمام تر وسائل مہیا ہونے کے باوجود بھی ہمارے بارڈر غیر محفوظ کیوں ہیں؟
انڈیا میں چیونٹی بھی مرجائے تو الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے، 16 جنوری کو انڈیا کا وزیرِ دفاع کھلے عام پاکستان کو دھمکی دیتا ہے، اور20 جنوری کو باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوجاتا ہے، مگر ہم نہ جانے کس مصلحت کے تحت خاموش بیٹھے ہیں۔ اگر انڈیا کی فراہم کردہ معلومات پر ہم پاکستان میں کاروائی کرسکتے ہیں تو ہمیں بھی بتایا جائے کہ ہمارے فراہم کردہ بھارتی مداخلت کے ثبوتوں پر آج تک کیا کاروائی ہوئی ہے؟
جب انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک ہفتہ قبل ہی خبردار کردیا تھا کہ دہشت گرد خیبر پختونخواہ میں اے پی ایس طرز کے ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، تو ہم نے پیشگی اطلاع کے باوجود تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے؟ اس کا جواب کون دے گا؟ ان 21 معصوموں کے لہو کا حساب کون دے گا؟
''16 دسمبر'' کے بعد ''20 جنوری'' ہم آخرکب تک تاریخوں کو شہیدوں کے نام کر کے، کب دہشتگردوں سے اپنے تعلیمی ادارے، اپنے بازار، اپنی مساجد کو بچا پائیں گے؟ ہم کب تک بس آنسوبہاتے رہیں گے؟ سوالوں کا ایک طوفان تھا جو اُس کے دماغ کے درو دیوار ہلا رہا تھا، مگر اُس کے پاس کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔