کاش کہ ایسا ہوتا
مغرب نے دو جنگ عظیم میں سبق یہ سیکھا کہ یورپی یونین بنا لی، ایک سکہ یورو بنا لیا
مغرب نے دو جنگ عظیم میں سبق یہ سیکھا کہ یورپی یونین بنا لی، ایک سکہ یورو بنا لیا، ایک نہیں کئی راہداریاں بنا لیں اور یورپ کو آشتی کا گہوارہ بنا لیا، بس یونان کے ساحل پر اترنے کی دیر ہے کہ ایک راستہ سربیا، ہنگری، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی، دوسری راہداری مقدونیہ، البانیہ، کروشیا، چیکوسلواکیہ، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی اور پھر جرمنی، ہالینڈ، فرانس، نہ بندشیں، نہ روک ٹوک، نہ نسلی اور مذہبی فسادات کا ڈر، نہ لوٹ مار، نہ ٹرینیں جلائے جانے کا خوف۔ یورپ سے خوف کا ڈر 1946ء سے گزر گیا اور بہتر سے بہتر وقت آتا گیا جب کہ 1946ء سے برصغیر میں بھی ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔
1955 تک تو دونوں ملکوں کے درمیان پاسپورٹ بھی نہ تھا بلکہ گاندھی جی اور جناح صاحب میں اتنے اچھے تعلقات تھے کہ اثاثوں کی تقسیم کے لیے گاندھی جی نے پاکستان کے حق میں مرن برت رکھا اور حیدر آباد دکن کے اثاثہ جات تقسیم ہوئے۔ اگر آج جیسے حالات ہوتے تو تقسیم ہند آسان نہ ہوتی۔ ہندو مسلم فساد انگریز کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، وہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دراڑیں ڈالنا اور کشمیر کی لکیر مرکز رزم گاہ بنا رہا۔ 40 لاکھ کی آبادی کے علاقے نے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ آنیوالی نسلوں میں میل ملاپ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
تمام تر سائنسی ترقی محض جنگ کی جستجو میں گزر رہی ہے۔ پنڈت نہرو نے ہندوستان کو سیکولر ملک قرار دیا۔ ہمارے ملک کا موازنہ تو کر کے دیکھیں کہ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کو ملک کے حکمرانوں نے کوئی بھی انعام نہ دیا، فیض صاحب کے علاوہ، حبیب جالب، احمد فراز اور بلوچی شاعر گل خان نصیر اور پشتو کے شاعر اجمل خٹک کو کوئی مقام نہ مل سکا البتہ زندگی کے اختتام پر ان کی پذیرائی ہوئی البتہ اجمل خٹک کو موت کے بعد بھی شہرت نہ مل سکی کیونکہ انھوں نے سیاست میں رقم نہ کمائی کیونکہ اسفند یار ولی نے ولی خان کی سیاست کو جاری نہ رکھا اور نہ اجمل خٹک نے اردو شاعری کی اور ان کا پشتو کلام چھپوانے پر کوئی تیار ہوا۔ ممکن ہے کہ اب کوئی صاحب ذوق سامنے آئے جو امن کے گیت چھپوا سکے۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، برصغیر میں ان کی سیاست چمکتی جارہی ہے جو دونوں ممالک میں نفاق کی سیاست کا دم بھرتے ہیں اور ایسے لیڈروں کی بھارت اور پاکستان میں سرپرستی جاری ہے۔ بھارت اور پاکستان میں گزرتے وقت کے ساتھ مذہبی انتہاپسندوں کی سیاست کا پلڑا بھاری ہے، کوئی لیڈر ایسا نہیں جو پیار و محبت کا پلڑا بھاری کر دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ایک ماسکو کے اشاروں پر چلتا تھا تو دوسرا واشنگٹن کے اشارے پر مگر اب دونوں ہی ایک کی چاپلوسی میں سرگرداں ہیں۔
امریکا کی اسلحے کی پروڈکشن بہت زیادہ ہے لہٰذا امن کا دامن کوتاہ ہی رہے گا۔ دونوں ممالک یعنی بھارت اور پاکستان جنگ کے خطرات کے پیش نظر اسلحے کے انبار دونوں جانب لگائے جاتے ہیں، اب ایسی صورتحال میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، بمبئی پر حملہ ہو یا پٹھان کوٹ پر، معاملات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت کشمیر کے بارے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے اور پاکستان بلوچستان کے معاملے میں بھارت کو، غرض دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ نوآبادیاتی دور جاتا رہا اور اب تو پراکسی وار کا دور ہے۔ حالات خراب کرو اور روبرو جنگ کرو۔ خود مقامی طور پر اپنے ہمنوا پیدا کر کے جنگ کرو۔ اس کا موجد بھی امریکا ہی رہا ہے۔
عراق اور لیبیا کے بعد اب شام میں جنگ جاری ہے، جب تک روس عالمی افق سے غائب رہا، یہ جنگ یکطرفہ طور سے امریکا مخالف قوتوں کی ہوتی رہیں مگر جب سے روس نے عالمی سیاست میں دوبارہ قدم رکھا مزاحمت جاری رہی۔ یہاں تک کہ شام کے صدر بشارالاسد گرتے گرتے سنبھل گئے داعش اور النصرہ کی پسپائی شروع ہوئی، مشرق وسطی کے واحد کھلاڑی امریکا کے مقاصد حاصل نہ ہو سکے اور اب وہ خود اپنی تنظیم پر بمباری پر مجبور ہوا۔ مغرب میں پناہ گزینوں کی یلغار نے سیاسی تبدیلیاں پیدا کیں۔
عراق شام اور ترکی کی سرحدوں پر کردوں کی قوت دیکھنے میں آئی، ترکی جو امریکا کی پراکسی وار لڑ رہا تھا اس کو کردوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جلد یا بدیر کردستان نامی ملک اس سرزمین پر ابھرنے کو ہے اور جلد یا دیر سے یعنی دو برس کے اندر عراق اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا اور سعودی عرب میں سیاسی مذبحہ خانہ بھی جاتا رہے گا کہ اب وہاں بھی عوام گردن کٹوانے پر تیار ہو رہے ہیں۔
مختلف شہروں میں گزشتہ دنوں پہلی بار سعودی عرب کے کئی شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے جس سے سیاسی رخ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ایسی ہی کچھ صورت بحرین کی بھی ہے، دنیا کی ٹیکنالوجی میں تبدیلی نے بڑی سرعت سے سیاسی گرد و پیش کا منظرنامہ نمایاں کر دیا ہے۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ کسی ملک میں چھپا کر ظلم کیا جا سکے خواہ گردن زنی ہو یا حقوق انسانی کی پامالی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا کے نقشے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔
ملکوں کی آزادی کے علاوہ نئے ملکوں کا وجود میں آنا، جرمنی کی تقسیم مشرقی اور مغربی جرمنی کا وجود جو خالصتاً جنگی نتیجہ تھا مگر عوامی شعور کی بلندی نے تقسیم کی یہ دیوار گرا ڈالی۔ ایسی ہی ایک تقسیم 50ء کی ابتدا میں شمالی اور جنوبی کوریا کی ہے جو دو نظریاتی جنگ کی ہے۔ جمہوری کوریا جس پر سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے اور شمالی کوریا جہاں سوشلسٹ نظام جس کے بانی کامریڈ کم ال سنگ ہیں، ان دونوں ممالک کے حالات میں کبھی بہتری نہ آئی بہت حد تک پاکستان اور بھارت کے حالات کوریا سے ملتے ہیں، گو دونوں ملکوں میں جنگ تقسیم کا سبب ہے حالانکہ بھارت کی تقسیم عوامی استصواب کا نتیجہ ہے۔
1955ء تک پاسپورٹ بھی نہ تھا مگر پھر صورتحال ایسی بنی کہ بھارت کے مسلمان اور پاکستان کے ہندو باآسانی اپنے آبائی علاقوں میں آ جا نہ سکے۔ تقسیم ہند تو عالمی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے لہٰذا اس کو انسانی اور تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد خاندان تقسیم ہوئے بھائی پاکستان تو ماں بہنیں بھارت میں، پھوپھی بھارت میں بھتیجا پاکستان میں، اس کی ایک مثال کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے ایک استاد سید حسن ریاض تھے جو 1968-70ء میں اردو صحافت کے استاد تھے، وہ اکیلے ہی پاکستان ملک کی محبت میں چلے آئے اور پھر واپس نہ جا سکے جب کہ بیوی اور باقی خاندان بھارت میں مقیم رہا، مکمل صد فیصد نقل مکانی تو نہ ہو سکی اس وجہ سے اس کی باقیات کے مسائل باقی ہیں۔
یہ عجیب المیہ ہے کہ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات نے عوام کو مشکلات میں ڈال رکھا ہے، یہ کوئی دس بیس لاکھ کا مسئلہ نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کا مسئلہ ہے۔ اچھے تعلقات ہی بھارت اور پاکستان کی ترقی کے ضامن ہیں جب تقسیم ہند ہوئی اس بات کا امکان نہ تھا کہ تقسیم کے بعد ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکیں گے۔ افغانستان سے لاکھوں آ کے بس گئے مگر استصواب میں حصہ لینے والے اپنے لوگوں کو دیکھ نہ سکے اور نسل اپنی طبعی زندگی ختم کرتی گئی۔
بچھڑنے والے بچھڑتے جا رہے ہیں۔ دونوں طرف کے سیاستداں اپنی سیاسی بازی کھیل رہے ہیں اور عوام مرتے جا رہے ہیں کیا ایسا ممکن نہ تھا کہ وادی کالام سے ٹورسٹوں کا قافلہ اگر چلے براستہ سڑک کراچی آئے اور پھر کراچی سے تیز رفتار بحری جہاز Ferry فیری میں بیٹھ کر بمبئی تاج محل کی سیر کرتا ہوا کھٹمنڈو پہنچے تو کیا کوئی مشکل تھی زر کی فراوانی ہوتی جنگ و جدل کے اخراجات ماند پڑتے، لوگوں کے چہروں پر چاند چمکتے۔
1955 تک تو دونوں ملکوں کے درمیان پاسپورٹ بھی نہ تھا بلکہ گاندھی جی اور جناح صاحب میں اتنے اچھے تعلقات تھے کہ اثاثوں کی تقسیم کے لیے گاندھی جی نے پاکستان کے حق میں مرن برت رکھا اور حیدر آباد دکن کے اثاثہ جات تقسیم ہوئے۔ اگر آج جیسے حالات ہوتے تو تقسیم ہند آسان نہ ہوتی۔ ہندو مسلم فساد انگریز کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، وہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دراڑیں ڈالنا اور کشمیر کی لکیر مرکز رزم گاہ بنا رہا۔ 40 لاکھ کی آبادی کے علاقے نے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ آنیوالی نسلوں میں میل ملاپ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
تمام تر سائنسی ترقی محض جنگ کی جستجو میں گزر رہی ہے۔ پنڈت نہرو نے ہندوستان کو سیکولر ملک قرار دیا۔ ہمارے ملک کا موازنہ تو کر کے دیکھیں کہ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کو ملک کے حکمرانوں نے کوئی بھی انعام نہ دیا، فیض صاحب کے علاوہ، حبیب جالب، احمد فراز اور بلوچی شاعر گل خان نصیر اور پشتو کے شاعر اجمل خٹک کو کوئی مقام نہ مل سکا البتہ زندگی کے اختتام پر ان کی پذیرائی ہوئی البتہ اجمل خٹک کو موت کے بعد بھی شہرت نہ مل سکی کیونکہ انھوں نے سیاست میں رقم نہ کمائی کیونکہ اسفند یار ولی نے ولی خان کی سیاست کو جاری نہ رکھا اور نہ اجمل خٹک نے اردو شاعری کی اور ان کا پشتو کلام چھپوانے پر کوئی تیار ہوا۔ ممکن ہے کہ اب کوئی صاحب ذوق سامنے آئے جو امن کے گیت چھپوا سکے۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، برصغیر میں ان کی سیاست چمکتی جارہی ہے جو دونوں ممالک میں نفاق کی سیاست کا دم بھرتے ہیں اور ایسے لیڈروں کی بھارت اور پاکستان میں سرپرستی جاری ہے۔ بھارت اور پاکستان میں گزرتے وقت کے ساتھ مذہبی انتہاپسندوں کی سیاست کا پلڑا بھاری ہے، کوئی لیڈر ایسا نہیں جو پیار و محبت کا پلڑا بھاری کر دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ایک ماسکو کے اشاروں پر چلتا تھا تو دوسرا واشنگٹن کے اشارے پر مگر اب دونوں ہی ایک کی چاپلوسی میں سرگرداں ہیں۔
امریکا کی اسلحے کی پروڈکشن بہت زیادہ ہے لہٰذا امن کا دامن کوتاہ ہی رہے گا۔ دونوں ممالک یعنی بھارت اور پاکستان جنگ کے خطرات کے پیش نظر اسلحے کے انبار دونوں جانب لگائے جاتے ہیں، اب ایسی صورتحال میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، بمبئی پر حملہ ہو یا پٹھان کوٹ پر، معاملات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت کشمیر کے بارے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے اور پاکستان بلوچستان کے معاملے میں بھارت کو، غرض دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ نوآبادیاتی دور جاتا رہا اور اب تو پراکسی وار کا دور ہے۔ حالات خراب کرو اور روبرو جنگ کرو۔ خود مقامی طور پر اپنے ہمنوا پیدا کر کے جنگ کرو۔ اس کا موجد بھی امریکا ہی رہا ہے۔
عراق اور لیبیا کے بعد اب شام میں جنگ جاری ہے، جب تک روس عالمی افق سے غائب رہا، یہ جنگ یکطرفہ طور سے امریکا مخالف قوتوں کی ہوتی رہیں مگر جب سے روس نے عالمی سیاست میں دوبارہ قدم رکھا مزاحمت جاری رہی۔ یہاں تک کہ شام کے صدر بشارالاسد گرتے گرتے سنبھل گئے داعش اور النصرہ کی پسپائی شروع ہوئی، مشرق وسطی کے واحد کھلاڑی امریکا کے مقاصد حاصل نہ ہو سکے اور اب وہ خود اپنی تنظیم پر بمباری پر مجبور ہوا۔ مغرب میں پناہ گزینوں کی یلغار نے سیاسی تبدیلیاں پیدا کیں۔
عراق شام اور ترکی کی سرحدوں پر کردوں کی قوت دیکھنے میں آئی، ترکی جو امریکا کی پراکسی وار لڑ رہا تھا اس کو کردوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جلد یا بدیر کردستان نامی ملک اس سرزمین پر ابھرنے کو ہے اور جلد یا دیر سے یعنی دو برس کے اندر عراق اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا اور سعودی عرب میں سیاسی مذبحہ خانہ بھی جاتا رہے گا کہ اب وہاں بھی عوام گردن کٹوانے پر تیار ہو رہے ہیں۔
مختلف شہروں میں گزشتہ دنوں پہلی بار سعودی عرب کے کئی شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے جس سے سیاسی رخ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ایسی ہی کچھ صورت بحرین کی بھی ہے، دنیا کی ٹیکنالوجی میں تبدیلی نے بڑی سرعت سے سیاسی گرد و پیش کا منظرنامہ نمایاں کر دیا ہے۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ کسی ملک میں چھپا کر ظلم کیا جا سکے خواہ گردن زنی ہو یا حقوق انسانی کی پامالی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا کے نقشے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔
ملکوں کی آزادی کے علاوہ نئے ملکوں کا وجود میں آنا، جرمنی کی تقسیم مشرقی اور مغربی جرمنی کا وجود جو خالصتاً جنگی نتیجہ تھا مگر عوامی شعور کی بلندی نے تقسیم کی یہ دیوار گرا ڈالی۔ ایسی ہی ایک تقسیم 50ء کی ابتدا میں شمالی اور جنوبی کوریا کی ہے جو دو نظریاتی جنگ کی ہے۔ جمہوری کوریا جس پر سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے اور شمالی کوریا جہاں سوشلسٹ نظام جس کے بانی کامریڈ کم ال سنگ ہیں، ان دونوں ممالک کے حالات میں کبھی بہتری نہ آئی بہت حد تک پاکستان اور بھارت کے حالات کوریا سے ملتے ہیں، گو دونوں ملکوں میں جنگ تقسیم کا سبب ہے حالانکہ بھارت کی تقسیم عوامی استصواب کا نتیجہ ہے۔
1955ء تک پاسپورٹ بھی نہ تھا مگر پھر صورتحال ایسی بنی کہ بھارت کے مسلمان اور پاکستان کے ہندو باآسانی اپنے آبائی علاقوں میں آ جا نہ سکے۔ تقسیم ہند تو عالمی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے لہٰذا اس کو انسانی اور تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد خاندان تقسیم ہوئے بھائی پاکستان تو ماں بہنیں بھارت میں، پھوپھی بھارت میں بھتیجا پاکستان میں، اس کی ایک مثال کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے ایک استاد سید حسن ریاض تھے جو 1968-70ء میں اردو صحافت کے استاد تھے، وہ اکیلے ہی پاکستان ملک کی محبت میں چلے آئے اور پھر واپس نہ جا سکے جب کہ بیوی اور باقی خاندان بھارت میں مقیم رہا، مکمل صد فیصد نقل مکانی تو نہ ہو سکی اس وجہ سے اس کی باقیات کے مسائل باقی ہیں۔
یہ عجیب المیہ ہے کہ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات نے عوام کو مشکلات میں ڈال رکھا ہے، یہ کوئی دس بیس لاکھ کا مسئلہ نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کا مسئلہ ہے۔ اچھے تعلقات ہی بھارت اور پاکستان کی ترقی کے ضامن ہیں جب تقسیم ہند ہوئی اس بات کا امکان نہ تھا کہ تقسیم کے بعد ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکیں گے۔ افغانستان سے لاکھوں آ کے بس گئے مگر استصواب میں حصہ لینے والے اپنے لوگوں کو دیکھ نہ سکے اور نسل اپنی طبعی زندگی ختم کرتی گئی۔
بچھڑنے والے بچھڑتے جا رہے ہیں۔ دونوں طرف کے سیاستداں اپنی سیاسی بازی کھیل رہے ہیں اور عوام مرتے جا رہے ہیں کیا ایسا ممکن نہ تھا کہ وادی کالام سے ٹورسٹوں کا قافلہ اگر چلے براستہ سڑک کراچی آئے اور پھر کراچی سے تیز رفتار بحری جہاز Ferry فیری میں بیٹھ کر بمبئی تاج محل کی سیر کرتا ہوا کھٹمنڈو پہنچے تو کیا کوئی مشکل تھی زر کی فراوانی ہوتی جنگ و جدل کے اخراجات ماند پڑتے، لوگوں کے چہروں پر چاند چمکتے۔