تو نگری بہ دل است
آج جس صورتحال کو میں نے اپنے اظہاریے کا موضوع بنایا ہے یوں تو وہ کوئی ایسا اہم موضوع نہیں ہے
آج جس صورتحال کو میں نے اپنے اظہاریے کا موضوع بنایا ہے یوں تو وہ کوئی ایسا اہم موضوع نہیں ہے کیونکہ جس ملک میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کی بدعنوانی معمول کی بات ہو جہاں جہیز کم لانے یا سسرال کے مطالبات پورے نہ کرنے پر نوبیاہتا لڑکیوں کو جلاکر، گلا گھونٹ کر یا پھندا لگا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہو، جہاں راہ چلتے خوش باش نوجوانوں کو بلاجواز گولی ماردی جاتی ہو، جہاں ہر گھنٹے بعد کسی لڑکی کی عصمت تار تار کی جاتی ہو۔
اور پھر ان میں سے کسی بھی جرم کا مرتکب کبھی نشان عبرت نہ بنایا جاسکا ہو، جہاں قاتل دندناتے پھرتے ہوں اور مقتول کے ورثا اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بچانے کے لیے ترک وطن پر مجبور کردیے جائیں، جہاں قانون اور عدلیہ کا مذاق اڑایا جاتا ہو، جہاں اکثریت کی بنیاد پر کالے قوانین کا بِل چند منٹوں میں منظور کرلیا جاتا ہو، وہاں بھلا اس چھوٹے سے استحصالی واقعے کی کیا اہمیت؟ مگر میں پھر بھی اس موضوع پر قلم اٹھانے کو اپنا فرض اس لیے سمجھتی ہوں کہ یہ استحصال معاشرے کے سب سے معتبر (یہ الگ بات ہے کہ اب یہ شعبہ بھی قابل اعتبار نہیں رہا) شعبے، یعنی شعبہ تعلیم سے متعلق ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں موسم گرما کی تعطیلات سے دو روز قبل ایک انتہائی تجربہ کار، فرض شناس اور ذمے دار لائبریرین کو بغیر پیشگی اطلاع اچانک فارغ کردیا گیا، یہ صاحب اس ادارے میں گزشتہ پندرہ سال سے بخوبی اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس طرح اچانک ان کو فارغ کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی ان کو نہیں بتائی گئی۔
اس ادارے کی ہیڈ اس واقعے سے ایک یا دو ماہ قبل ہی تبدیل ہوکر آئی تھیں، انھوں نے آتے ہی اپنی انتظامی صلاحیت کا اظہار اس طرح کیا کہ جن تدریسی اور غیر تدریسی عملے کے افراد کی مدت ملازمت کافی زیادہ ہوچکی تھی اور جن کا مشاہیرہ سالانہ اضافے کے باعث خاصا معقول ہوچکا تھا ان کو اچھی کارکردگی کے باوجود فارغ کردیا تاکہ ان کی جگہ نئے اور کم تجربہ کار افراد کو کم معاوضے پر مقرر کیا جاسکے۔ متذکرہ صاحب اس ادارے کے آغاز سے ہی اس سے وابستہ تھے اور اب ان کا مشاہیرہ سالانہ اضافے کے باعث معقول ہوچکا تھا لہٰذا ان کا موقف سنے بنا، انھیں فارغ کردیا گیا۔
ان صاحب کے نجی حالات کا علم مجھے اس لیے ہوا کہ جب میں حج بیت اللہ کے لیے جا رہی تھی تو تمام اسٹاف نے اپنی اپنی مرادیں تحریری یا زبانی طور پر مجھے بتائیں کہ ہمارے لیے خانہ کعبہ میں یہ خصوصی دعا کیجیے گا، ان صاحب نے بھی اپنے حالات بتائے کہ میری بیوی ڈائیلائسس پر ہے، بیٹا دماغی طور پر کمزور ہے وہ کچھ کرنے کے لائق نہیں اور پوتا پولیو کا شکار ہوکر معذور ہوچکا ہے، پورے کنبے کو میں ہی سنبھالتا ہوں مگر میری پوری تنخواہ صرف ان سب کے علاج پر ہی خرچ ہوجاتی ہے، گھر کے دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے میری بہو گھر پر سلائی وغیرہ کرکے کچھ کما لیتی ہے۔
ان کے حالات سے واقفیت کے باعث اس خبر سے مجھے بے حد دکھ ہوا۔ موسم گرما کی چھٹیوں کا اگلے دن ہی آغاز ہوگیا، مزید کوئی بات ان سے اس سلسلے میں نہ ہوسکی۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ طویل چھٹیوں سے قبل ازخود کوئی ملازمت چھوڑ دے یا ادارے کی جانب سے کسی کو برطرف کردیا جائے تو اس کو تعطیلات کی تنخواہ ادا نہیں کی جاتی، لہٰذا انھیں ان دو ماہ کی تنخواہ سے پندرہ سالہ خدمات کے باوجود محروم ہونا پڑا۔ جب اگست میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا تو دو ماہ گزرنے کے باوجود کسی اور لائبریرین کا بندوبست نہ ہوسکا تھا۔ کتب خانہ کسی نگراں کے نہ ہونے کے باعث طلبہ کا کومن روم بن گیا تھا کیونکہ لڑکیوں اور لڑکوں کے کومن روم کے اے سی خراب تھے، طویل چھٹیوں میں ان کو درست بھی نہیں کرایا گیا تھا۔
اس لیے طالبات اور طلبا نے لائبریری کو مشترکہ کومن روم بنالیا، ہر وقت وہاں طلبا کا رش رہنے لگا، باتیں اور قہقہوں کے باعث وہاں مطالعہ کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ اس صورتحال سے پریشان ہوکر ایک دن موقع پاکر اس کا تذکرہ ڈھکے چھپے الفاظ میں محترمہ سے کیا کہ آج کل طلبا لائبریری میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہیں تو ارشاد ہوا کہ ہاں لائبریرین صاحب طلبا کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو کنٹرول نہ کرنے کے سبب وہاں سے چلے جانے پر مجبور کرتے تھے (گویا ان کو اسی لیے برطرف کیا گیا ہے) میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ہمت کرکے کہا کہ یہ بات تو ہے کہ وہ لائبریری کے تقدس کا بہت خیال کرتے تھے جو طلبا وہاں صرف باتیں کرنے یا کلاس بینک کرکے پناہ کی تلاش میں آتے تھے ۔
ان کو وہ ضرور وہاں سے چلے جانے کے لیے کہتے تھے مگر جو اساتذہ اور طلبا واقعی مطالعے کے لیے آتے ان کی مکمل مدد کرتے، کتب کی تلاش میں رہنمائی کرتے تھے، یہ ایک اچھے لائبریرین کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ مطالعے کے ماحول کو قائم رکھے۔ مجھے ان کے نقطہ نظر کو جان کر بے حد افسوس ہوا کہ صرف دو ماہ میں ایسے شخص کے لیے منفی رائے قائم کرنا جو اپنے کام میں مخلص اور پیشہ ورانہ ذمے داری سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ ہمارا ان کا تقریباً پندرہ سال کا ساتھ رہا، میں کئی گھنٹے لائبریری میں گزارتی، ان کا طلبا پر مکمل کنٹرول تھا مجال نہ تھی کہ وہاں کوئی سرگوشی بھی کرسکے۔
جب کہ اس دوران لائبریری اکھاڑے کا سماں پیش کر رہی تھی، جس کا جی چاہتا چیختا چلاتا دروازہ زور سے بند کرتا ہوا وہاں آتا اور جس سے جی چاہے باآواز بلند گفتگو کرتا رہتا۔ پھر یہی نہیں اگست تا دسمبر کسی لائبریرین کا انتظام نہ ہوسکا، ہر کام کے لیے لائبریری استعمال ہوتی رہی، امتحانی پرچے وہاں ترتیب دیے جاتے، وہیں ان کی جانچ کی جاتی، اساتذہ بھی ایک دوسرے سے بلاتکلف باتیں کرتے رہتے۔اس دوران کئی لوگ بطور لائبریرین انٹرویو دینے آئے مگر تقرر کسی کا نہ ہوسکا۔ اللہ اللہ کرکے جب جنوری میں موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ہم واپس آئے تو ایک بے ضرر سی لائبریرین کو وہاں موجود پایا مگر وہاں کے ماحول میں کوئی فرق نظر نہ آیا، موصوفہ کچھ ڈری سہمی سی اپنی نشست پر بیٹھی سب کچھ دیکھتی رہتی اور کسی کو شور کرنے سے نہ روکتیں۔ موسم سرد ہوچکا تھا لہٰذا طلبا نے بھی یہاں آنا جانا کم کردیا تھا۔ بہرحال حالات کچھ معمول پر آگئے ہیں۔
مگر میں نے اس دوران محسوس کیا کہ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری نبھانے کے ایسے انداز اختیار کرتے ہیں یعنی تقریباً6 ماہ لائبریرین کا مشاہیرہ باآسانی بچالیا گیا۔ پھر کلاس روم اور کومن رومز کے اے سی خراب رہے، طلبا لائبریری میں مزے کرتے رہے، یوں ہی کام ٹلتا رہا اور اب موسم سرما آگیا یوں بجلی کا خرچ بھی بچالیا گیا۔ اس طرح ادارے کو فائدہ پہنچا کر ان کی گڈ بک میں نام شامل کروالیا گیا۔ اس سارے قصے کا جو دردناک پہلو ہے جس نے مجھے یہ سب لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ کہ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ جن صاحب کو بلاجواز برطرف کیا گیا ان پر کیا بیتی۔
ان کا لینڈ فون نمبر اور سیل نمبر تقریباً پورے اسٹاف کے پاس ہے۔ میں نے چھٹیوں ہی کے دوران کئی بار ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مجھے جواب میں بتایا گیا کہ یہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں ہے۔ اب میں اس خدشے میں مبتلا ہوں کہ شاید وہ مکان کرایے کا ہو اور وہ اب اس کا کرایہ ادا نہ کرسکتے ہوں تو کسی اور جگہ منتقل ہوگئے ہوں گے۔ ان کی بہو گھر پر سلائی کرتی تھیں دوسرا ذریعہ معاش ختم ہوجانے کے باعث نہ جانے وہ کس حال میں ہوں گے۔
یوں تو اللہ مسبب الاسباب ہے، مگر سوچتی ہوں کہ اللہ جن کو اتنی دولت دیتا ہے ان کے دل اتنے تنگ کیوں ہوتے ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے اس قدر کما رہے ہیں مگر کسی نہ کسی صورت اپنے ملازمین کے مشاہیروں میں کٹوتی کے بہانے تلاش کرلیتے، بلاسوچے سمجھے کہ کس کے کیا مسائل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تو نگری بہ دل است نہ بہ مال۔
اور پھر ان میں سے کسی بھی جرم کا مرتکب کبھی نشان عبرت نہ بنایا جاسکا ہو، جہاں قاتل دندناتے پھرتے ہوں اور مقتول کے ورثا اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بچانے کے لیے ترک وطن پر مجبور کردیے جائیں، جہاں قانون اور عدلیہ کا مذاق اڑایا جاتا ہو، جہاں اکثریت کی بنیاد پر کالے قوانین کا بِل چند منٹوں میں منظور کرلیا جاتا ہو، وہاں بھلا اس چھوٹے سے استحصالی واقعے کی کیا اہمیت؟ مگر میں پھر بھی اس موضوع پر قلم اٹھانے کو اپنا فرض اس لیے سمجھتی ہوں کہ یہ استحصال معاشرے کے سب سے معتبر (یہ الگ بات ہے کہ اب یہ شعبہ بھی قابل اعتبار نہیں رہا) شعبے، یعنی شعبہ تعلیم سے متعلق ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں موسم گرما کی تعطیلات سے دو روز قبل ایک انتہائی تجربہ کار، فرض شناس اور ذمے دار لائبریرین کو بغیر پیشگی اطلاع اچانک فارغ کردیا گیا، یہ صاحب اس ادارے میں گزشتہ پندرہ سال سے بخوبی اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس طرح اچانک ان کو فارغ کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی ان کو نہیں بتائی گئی۔
اس ادارے کی ہیڈ اس واقعے سے ایک یا دو ماہ قبل ہی تبدیل ہوکر آئی تھیں، انھوں نے آتے ہی اپنی انتظامی صلاحیت کا اظہار اس طرح کیا کہ جن تدریسی اور غیر تدریسی عملے کے افراد کی مدت ملازمت کافی زیادہ ہوچکی تھی اور جن کا مشاہیرہ سالانہ اضافے کے باعث خاصا معقول ہوچکا تھا ان کو اچھی کارکردگی کے باوجود فارغ کردیا تاکہ ان کی جگہ نئے اور کم تجربہ کار افراد کو کم معاوضے پر مقرر کیا جاسکے۔ متذکرہ صاحب اس ادارے کے آغاز سے ہی اس سے وابستہ تھے اور اب ان کا مشاہیرہ سالانہ اضافے کے باعث معقول ہوچکا تھا لہٰذا ان کا موقف سنے بنا، انھیں فارغ کردیا گیا۔
ان صاحب کے نجی حالات کا علم مجھے اس لیے ہوا کہ جب میں حج بیت اللہ کے لیے جا رہی تھی تو تمام اسٹاف نے اپنی اپنی مرادیں تحریری یا زبانی طور پر مجھے بتائیں کہ ہمارے لیے خانہ کعبہ میں یہ خصوصی دعا کیجیے گا، ان صاحب نے بھی اپنے حالات بتائے کہ میری بیوی ڈائیلائسس پر ہے، بیٹا دماغی طور پر کمزور ہے وہ کچھ کرنے کے لائق نہیں اور پوتا پولیو کا شکار ہوکر معذور ہوچکا ہے، پورے کنبے کو میں ہی سنبھالتا ہوں مگر میری پوری تنخواہ صرف ان سب کے علاج پر ہی خرچ ہوجاتی ہے، گھر کے دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے میری بہو گھر پر سلائی وغیرہ کرکے کچھ کما لیتی ہے۔
ان کے حالات سے واقفیت کے باعث اس خبر سے مجھے بے حد دکھ ہوا۔ موسم گرما کی چھٹیوں کا اگلے دن ہی آغاز ہوگیا، مزید کوئی بات ان سے اس سلسلے میں نہ ہوسکی۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ طویل چھٹیوں سے قبل ازخود کوئی ملازمت چھوڑ دے یا ادارے کی جانب سے کسی کو برطرف کردیا جائے تو اس کو تعطیلات کی تنخواہ ادا نہیں کی جاتی، لہٰذا انھیں ان دو ماہ کی تنخواہ سے پندرہ سالہ خدمات کے باوجود محروم ہونا پڑا۔ جب اگست میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا تو دو ماہ گزرنے کے باوجود کسی اور لائبریرین کا بندوبست نہ ہوسکا تھا۔ کتب خانہ کسی نگراں کے نہ ہونے کے باعث طلبہ کا کومن روم بن گیا تھا کیونکہ لڑکیوں اور لڑکوں کے کومن روم کے اے سی خراب تھے، طویل چھٹیوں میں ان کو درست بھی نہیں کرایا گیا تھا۔
اس لیے طالبات اور طلبا نے لائبریری کو مشترکہ کومن روم بنالیا، ہر وقت وہاں طلبا کا رش رہنے لگا، باتیں اور قہقہوں کے باعث وہاں مطالعہ کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ اس صورتحال سے پریشان ہوکر ایک دن موقع پاکر اس کا تذکرہ ڈھکے چھپے الفاظ میں محترمہ سے کیا کہ آج کل طلبا لائبریری میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہیں تو ارشاد ہوا کہ ہاں لائبریرین صاحب طلبا کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو کنٹرول نہ کرنے کے سبب وہاں سے چلے جانے پر مجبور کرتے تھے (گویا ان کو اسی لیے برطرف کیا گیا ہے) میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ہمت کرکے کہا کہ یہ بات تو ہے کہ وہ لائبریری کے تقدس کا بہت خیال کرتے تھے جو طلبا وہاں صرف باتیں کرنے یا کلاس بینک کرکے پناہ کی تلاش میں آتے تھے ۔
ان کو وہ ضرور وہاں سے چلے جانے کے لیے کہتے تھے مگر جو اساتذہ اور طلبا واقعی مطالعے کے لیے آتے ان کی مکمل مدد کرتے، کتب کی تلاش میں رہنمائی کرتے تھے، یہ ایک اچھے لائبریرین کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ مطالعے کے ماحول کو قائم رکھے۔ مجھے ان کے نقطہ نظر کو جان کر بے حد افسوس ہوا کہ صرف دو ماہ میں ایسے شخص کے لیے منفی رائے قائم کرنا جو اپنے کام میں مخلص اور پیشہ ورانہ ذمے داری سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ ہمارا ان کا تقریباً پندرہ سال کا ساتھ رہا، میں کئی گھنٹے لائبریری میں گزارتی، ان کا طلبا پر مکمل کنٹرول تھا مجال نہ تھی کہ وہاں کوئی سرگوشی بھی کرسکے۔
جب کہ اس دوران لائبریری اکھاڑے کا سماں پیش کر رہی تھی، جس کا جی چاہتا چیختا چلاتا دروازہ زور سے بند کرتا ہوا وہاں آتا اور جس سے جی چاہے باآواز بلند گفتگو کرتا رہتا۔ پھر یہی نہیں اگست تا دسمبر کسی لائبریرین کا انتظام نہ ہوسکا، ہر کام کے لیے لائبریری استعمال ہوتی رہی، امتحانی پرچے وہاں ترتیب دیے جاتے، وہیں ان کی جانچ کی جاتی، اساتذہ بھی ایک دوسرے سے بلاتکلف باتیں کرتے رہتے۔اس دوران کئی لوگ بطور لائبریرین انٹرویو دینے آئے مگر تقرر کسی کا نہ ہوسکا۔ اللہ اللہ کرکے جب جنوری میں موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ہم واپس آئے تو ایک بے ضرر سی لائبریرین کو وہاں موجود پایا مگر وہاں کے ماحول میں کوئی فرق نظر نہ آیا، موصوفہ کچھ ڈری سہمی سی اپنی نشست پر بیٹھی سب کچھ دیکھتی رہتی اور کسی کو شور کرنے سے نہ روکتیں۔ موسم سرد ہوچکا تھا لہٰذا طلبا نے بھی یہاں آنا جانا کم کردیا تھا۔ بہرحال حالات کچھ معمول پر آگئے ہیں۔
مگر میں نے اس دوران محسوس کیا کہ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری نبھانے کے ایسے انداز اختیار کرتے ہیں یعنی تقریباً6 ماہ لائبریرین کا مشاہیرہ باآسانی بچالیا گیا۔ پھر کلاس روم اور کومن رومز کے اے سی خراب رہے، طلبا لائبریری میں مزے کرتے رہے، یوں ہی کام ٹلتا رہا اور اب موسم سرما آگیا یوں بجلی کا خرچ بھی بچالیا گیا۔ اس طرح ادارے کو فائدہ پہنچا کر ان کی گڈ بک میں نام شامل کروالیا گیا۔ اس سارے قصے کا جو دردناک پہلو ہے جس نے مجھے یہ سب لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ کہ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ جن صاحب کو بلاجواز برطرف کیا گیا ان پر کیا بیتی۔
ان کا لینڈ فون نمبر اور سیل نمبر تقریباً پورے اسٹاف کے پاس ہے۔ میں نے چھٹیوں ہی کے دوران کئی بار ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مجھے جواب میں بتایا گیا کہ یہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں ہے۔ اب میں اس خدشے میں مبتلا ہوں کہ شاید وہ مکان کرایے کا ہو اور وہ اب اس کا کرایہ ادا نہ کرسکتے ہوں تو کسی اور جگہ منتقل ہوگئے ہوں گے۔ ان کی بہو گھر پر سلائی کرتی تھیں دوسرا ذریعہ معاش ختم ہوجانے کے باعث نہ جانے وہ کس حال میں ہوں گے۔
یوں تو اللہ مسبب الاسباب ہے، مگر سوچتی ہوں کہ اللہ جن کو اتنی دولت دیتا ہے ان کے دل اتنے تنگ کیوں ہوتے ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے اس قدر کما رہے ہیں مگر کسی نہ کسی صورت اپنے ملازمین کے مشاہیروں میں کٹوتی کے بہانے تلاش کرلیتے، بلاسوچے سمجھے کہ کس کے کیا مسائل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تو نگری بہ دل است نہ بہ مال۔