ایک سڑک کی فریاد
میں کب سے یہاں پڑی ہوں، یہ مجھے خود پتا نہیں۔ کافی عرصہ گزر گیا ہے۔
میں کب سے یہاں پڑی ہوں، یہ مجھے خود پتا نہیں۔ کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ مجھ پر ڈامر کی تہہ پہ تہہ جمتی جا رہی ہے۔ گرد و نواح تبدیل ہوچکا اور منظرنامے میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ میں بے زبان اپنی جگہ پر پڑی تماشائے اہل کرم دیکھتی رہتی ہوں۔ اس تماشے میں کیلے کے چھلکے، سگریٹ کے ٹوٹے، ماچس کی تیلیاں، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور گاڑیوں سے گرا ہوا تیل شامل ہے، جس کی بنا پر میں روسیاہ ہوچکی ہوں۔ شنیدن ہے کہ تمدن یافتہ ملکوں میں اگر سگریٹ، ماچس کی تیلی، (ترقی یافتہ ملکوں میں پان کوئی کھاتا ہی نہیں ہے اس لیے سڑک پر کوئی پچکاری نہیں مارتا۔ (یہاں پان کھانے کی بیماری کیوں ہے؟) کوئی اگر سڑک پر کوڑا پھینک دے تو جرمانہ ہوجاتا ہے۔ (یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟)
شنیدن ہے کہ چین میں جب حکومت کوئی سڑک بنانا چاہتی ہے تو لوگوں کو اس کی تعمیر میں ضرور شامل کرتی ہے۔ کارپوریشن کی طرف سے ٹرک آیا اور مٹی گلی کے کونے پر ڈال گیا۔ اب لوگ اسے پیمائش کیمطابق مٹی کو گلی میں پھیلا دیتے ہیں۔ پانی ڈالا جاتا ہے اور مٹی کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر ٹرک آیا اور اس نے پتھر کی چٹانیں لاکر ڈال دیں۔ لوگوں کی ڈیوٹی ہے کہ ان چٹانوں کو توڑیں اور اپنے مکان کے سامنے گٹیاں ڈالیں۔ ان کا کام ختم ہوگیا۔ رولر آیا اور اس نے پتھروں کو ہموار کردیا۔ ڈامر ڈالا گیا اور رولر چلادیا گیا۔ سڑک تیار ہوگئی۔ اس سڑک کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرتا، اس لیے کہ ہر شخص کہتا ہے کہ یہ میری سڑک ہے، اسے میں نے بنایا ہے۔ (یہاں ایسا کب ہوگا؟)سب سے بڑا مسئلہ پارکنگ کا ہے۔
مسئلہ نہیں ہے، بنا دیا گیا ہے۔ کوئی اس طرف توجہ نہیں دینا چاہتا۔ اس لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ دکان دار اپنی موٹر سائیکلیں اور کاریں سڑک کے کنارے کھڑی کردیتے ہیں۔ دوپہر کو کوئی خریدار آتا ہے اور اسے پارکنگ کے لیے جگہ نہیں ملتی تو وہ پہلے سے کھڑی ہوئی قطار کے آگے اپنی گاڑی کھڑی کردیتا ہے۔ اسی نمونے پر دوسرے کنارے پر بھی یہی ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ درمیان میں دوطرفہ ٹریفک کے لیے پانچ فٹ جگہ رہ جاتی ہے۔ ڈرائیور اسی میں دھینگامشتی کرتے رہتے ہیں۔
کسی کو سڑک کے اس پار جانا ہوتا ہے تو وہ بلادھڑک پار چلا جاتا ہے۔ بلاسوچے سمجھے کہ دوسری طرف سے آنیوالی گاڑی اسے کچل دے گی۔ لوگوں کا (خاص طور پر خواتین کا) خیال ہوتا ہے کہ گاڑی کے ڈرائیور ہمیں خود دیکھ لیں گے، ہمیں ان کی طرف دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟سڑک کے کنارے کھلی ہوئی دکانیں (کھوکے) بھی راہ چلتے/ چلتی مخلوق کے لیے عذاب جان بنے ہوئے ہیں۔ کچھ کہو تو یہ سننے میں آتا ہے کہ پاکستان غریب ملک ہے۔ غریب ملک تو مالدیپ بھی ہے۔
جہاں لوگ گھر میں جھاڑو دے کر کوڑا تھیلی میں باندھ کر گھر کے آگے رکھ دیتے ہیں اور گلی کی سڑک کو اپنے مکان کی حد تک صاف کردیتے ہیں۔ (ہمارے ہاں کب ایسا ہوگا؟)شنیدن ہے کہ کراچی میں سڑکیں دھلتی تھیں۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں آبادی کم تھی۔ (کیا زیادہ آبادی والے شہروں میں ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں ہورہا ہے؟) کارپوریشن کے ملازمین میں دیانتداری اور خلوص تھا۔ وہ اسے اپنا فرض سمجھ کر کرتے تھے۔
(فرض اور دیانتداری اب کتابی باتیں ہوکر رہ گئی ہیں)ایک شخص کینیڈا کے کسی شہر سے واپس آیا تو اپنے دوست کو قصہ سنانے لگا کہ وہاں کپڑے میلے نہیں ہوتے ہیں، نہ ہی جوتوں کو روز برش سے صاف کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ باہر گردوغبار ہی نہیں ہوتا۔ سڑکیں صاف اور ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کا فرش شفاف اور چمکدار۔ سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا نہیں ہوتا۔ سڑک کے کنارے لگے ہوئے درختوں سے پتے جھڑ جاتے ہیں تو لوگ انھیں جھاڑو سے سمیٹ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے ہیں اور اپنی سڑکوں کو چمکا دیتے ہیں۔ (کاش کہ میں یہاں کے بجائے وہاں ہوتی)ایک دلچسپ بات بتاؤں؟ یہاں سارا کاروبار فٹ پاتھوں پر ہوتا ہے۔
اس لیے چلنے کی جگہ نہیں ہوتی، بعض افراد تل رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کی بھی جگہ نہیں ملتی، لہٰذا وہ سڑکوں پر چلتے ہیں اور جب گاڑیوں کو جگہ نہیں ملتی تو وہ ان پر چلنے لگتی ہیں، چنانچہ خوب حادثات ہوتے ہیں۔ سرخ رنگ کے ساتھ ان کی تصاویر اخبارات میں آئے دن شایع ہوتی رہتی ہیں۔ یقیناً آپ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہوگا؟میری خوب درگت بنتی ہے۔ چلتے چلتے جب کسی کے منہ میں پان کا لعاب بھر جاتا ہے تو وہ پچکاری سڑک پر مار دیتا ہے۔ کسی نزلہ زکام کے کاشتکار کے حلق میں بلغم پھنسنے لگتا ہے تو وہ کھنکھار کر بلغم کا پٹاخا سڑک پر مار دیتا ہے۔ گویا میری حیثیت اگالدان کے برابر ہے۔ کسی معاملے میں احتجاج ہوتا ہے تو لوگ جذباتی ہوکر، ٹائر جلا کر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔
انھیں منع بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ تو احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹائر جلا کر اپنی گردن میں تو لٹکانے سے رہے، وہ اسے مجھ پر ہی پھینک دیتے ہیں۔بڑی شخصیتوں کے نام پر سڑکیں بھی ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ بڑی شخصیتیں ان ہی سڑکوں پر اپنی جوتیاں چٹخاتے پھر چکے ہوتے ہیں۔ تب ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور نہ پوچھتا ہے کہ آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟ وہ کتبہ یا پتھر کی سل جو دو پلروں پر رکھی جاتی ہے، اس پر لکھا ہوا نام ہرچند کہ قابل احترام ہوتا ہے اور اس شخصیت کے بارے میں جاننے کی دعوت دیتا ہے۔
لیکن پرندے اس پر بیٹ کرتے ہیں اور جنھیں اس کی اہمیت کا علم نہیں ہوتا وہ اس پر پوسٹر چپکا دیتے ہیں کہ گ م گھامڑ آیندہ ہفتے لال باغ میں ''آخر ٹماٹر ہر سال کیوں مہنگے ہوجاتے ہیں؟'' کے موضوع پر تقریر کریں گے، تشریف لائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔بڑی سڑکوں سے چھوٹی سڑکیں نکلتی ہیں۔ وہ چھوٹی سڑکیں ہمیں ہمارے گھر پہنچا دیتی ہیں۔ ہٹلر نے ایک ایسی ہی سڑک (ہائی وے) بنوائی تھی۔ جب اس کا افتتاح کرنے کے بعد وہ کار میں بیٹھ کر ایک طرف سے دوسری طرف گیا تو ایک جگہ اسے زبردست دھچکا لگا، اس لیے کہ سڑک میں گڑھا تھا۔ پس اس نے سڑک بنانیوالے ٹھیکے دار کو بلوایا اور سڑک کھدوا کر اسے اسی گڑھے میں گاڑ دیا۔ (کاش ہمارے ہاں بھی ایسی کوئی مثال قائم ہوجائے)۔
ہمارے ہاں سڑکوں پر گاڑیاں چلتی ہیں تو دھچکوں سے لوگوں کی پسلیوں کا ڈیزائن خراب ہوجاتا ہے۔سڑک پر چلنے کے کیا قوانین ہیں، اسے کیسے اور کہاں سے پار کرنا چاہیے؟ یا منہ اٹھا کر چلتی گاڑیوں کے بیچ چھلانگ لگا دینا چاہیے؟ ہم خود کو کیوں بچائیں، ڈرائیوروں کا فرض ہے کہ وہ ہمیں بچائیں۔تیزگام گاڑی ڈرائیوروں کے فرائض کیا ہیں، اگر کوئی زیبرا کراسنگ سے سڑک پار کرے تو اس پر کیا عنایت کرنا چاہیے؟ گاڑی چلاتے وقت بریکوں پر پاؤں رکھنا چاہیے یا بریکوں کو نکلوا دینا چاہیے؟
اسکول کے ننھے طالبعلم اگر سڑک پار کررہے ہوں تو ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟ ان پر سلامتی بھیجنا چاہیے یا انھیں ملک عدم پہنچادینا چاہیے؟ اس کے لیے کوئی کتابچہ چھپنا چاہیے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ہمارے ہاں اسپیڈ بریکر بنانے کا رواج بھی ترقی پارہا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے گاڑیوں کی رفتار اور ڈرائیوروں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان سے حادثات میں کمی تو نہیں ہوتی، البتہ گاڑی کے مسافروں کی ہڈیاں ضرور ٹیڑھی میڑھی ہوجاتی ہیں۔
کیونکہ سڑک بناتے وقت اسپیڈ بریکر کارپوریشن کے نقشے میں نہیں ہوتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے، جس کی سمجھ میں جو آرہا ہے، وہ کر رہا ہے۔ ڈرائیور تیز رفتاری سے گاڑیاں چلا کر تیزی سے پیسہ بنانے کے چکر میں ہیں اور لوگ اسپیڈ بریکر بنا کر ان کی رفتار سست کررہے ہیں۔ کامیاب کوئی نہیں ہوپا رہا ہے۔ حادثات ہیں کہ ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی پہیوں میں لپٹ جائے اور مرحوم و مغفور ہوجائے تو ڈرائیور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی زندگی ہی اتنی تھی، اس طرح سے نہ مرتا تو دوسرے طریقے سے مرجاتا۔ آج نہیں مرتا تو کل مرجاتا، گھر پر نہیں تو اسپتال کے بستر پر مرتا۔ موت تو برحق ہے نا جی۔ کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے؟
شنیدن ہے کہ چین میں جب حکومت کوئی سڑک بنانا چاہتی ہے تو لوگوں کو اس کی تعمیر میں ضرور شامل کرتی ہے۔ کارپوریشن کی طرف سے ٹرک آیا اور مٹی گلی کے کونے پر ڈال گیا۔ اب لوگ اسے پیمائش کیمطابق مٹی کو گلی میں پھیلا دیتے ہیں۔ پانی ڈالا جاتا ہے اور مٹی کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر ٹرک آیا اور اس نے پتھر کی چٹانیں لاکر ڈال دیں۔ لوگوں کی ڈیوٹی ہے کہ ان چٹانوں کو توڑیں اور اپنے مکان کے سامنے گٹیاں ڈالیں۔ ان کا کام ختم ہوگیا۔ رولر آیا اور اس نے پتھروں کو ہموار کردیا۔ ڈامر ڈالا گیا اور رولر چلادیا گیا۔ سڑک تیار ہوگئی۔ اس سڑک کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرتا، اس لیے کہ ہر شخص کہتا ہے کہ یہ میری سڑک ہے، اسے میں نے بنایا ہے۔ (یہاں ایسا کب ہوگا؟)سب سے بڑا مسئلہ پارکنگ کا ہے۔
مسئلہ نہیں ہے، بنا دیا گیا ہے۔ کوئی اس طرف توجہ نہیں دینا چاہتا۔ اس لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ دکان دار اپنی موٹر سائیکلیں اور کاریں سڑک کے کنارے کھڑی کردیتے ہیں۔ دوپہر کو کوئی خریدار آتا ہے اور اسے پارکنگ کے لیے جگہ نہیں ملتی تو وہ پہلے سے کھڑی ہوئی قطار کے آگے اپنی گاڑی کھڑی کردیتا ہے۔ اسی نمونے پر دوسرے کنارے پر بھی یہی ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ درمیان میں دوطرفہ ٹریفک کے لیے پانچ فٹ جگہ رہ جاتی ہے۔ ڈرائیور اسی میں دھینگامشتی کرتے رہتے ہیں۔
کسی کو سڑک کے اس پار جانا ہوتا ہے تو وہ بلادھڑک پار چلا جاتا ہے۔ بلاسوچے سمجھے کہ دوسری طرف سے آنیوالی گاڑی اسے کچل دے گی۔ لوگوں کا (خاص طور پر خواتین کا) خیال ہوتا ہے کہ گاڑی کے ڈرائیور ہمیں خود دیکھ لیں گے، ہمیں ان کی طرف دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟سڑک کے کنارے کھلی ہوئی دکانیں (کھوکے) بھی راہ چلتے/ چلتی مخلوق کے لیے عذاب جان بنے ہوئے ہیں۔ کچھ کہو تو یہ سننے میں آتا ہے کہ پاکستان غریب ملک ہے۔ غریب ملک تو مالدیپ بھی ہے۔
جہاں لوگ گھر میں جھاڑو دے کر کوڑا تھیلی میں باندھ کر گھر کے آگے رکھ دیتے ہیں اور گلی کی سڑک کو اپنے مکان کی حد تک صاف کردیتے ہیں۔ (ہمارے ہاں کب ایسا ہوگا؟)شنیدن ہے کہ کراچی میں سڑکیں دھلتی تھیں۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں آبادی کم تھی۔ (کیا زیادہ آبادی والے شہروں میں ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں ہورہا ہے؟) کارپوریشن کے ملازمین میں دیانتداری اور خلوص تھا۔ وہ اسے اپنا فرض سمجھ کر کرتے تھے۔
(فرض اور دیانتداری اب کتابی باتیں ہوکر رہ گئی ہیں)ایک شخص کینیڈا کے کسی شہر سے واپس آیا تو اپنے دوست کو قصہ سنانے لگا کہ وہاں کپڑے میلے نہیں ہوتے ہیں، نہ ہی جوتوں کو روز برش سے صاف کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ باہر گردوغبار ہی نہیں ہوتا۔ سڑکیں صاف اور ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کا فرش شفاف اور چمکدار۔ سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا نہیں ہوتا۔ سڑک کے کنارے لگے ہوئے درختوں سے پتے جھڑ جاتے ہیں تو لوگ انھیں جھاڑو سے سمیٹ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے ہیں اور اپنی سڑکوں کو چمکا دیتے ہیں۔ (کاش کہ میں یہاں کے بجائے وہاں ہوتی)ایک دلچسپ بات بتاؤں؟ یہاں سارا کاروبار فٹ پاتھوں پر ہوتا ہے۔
اس لیے چلنے کی جگہ نہیں ہوتی، بعض افراد تل رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کی بھی جگہ نہیں ملتی، لہٰذا وہ سڑکوں پر چلتے ہیں اور جب گاڑیوں کو جگہ نہیں ملتی تو وہ ان پر چلنے لگتی ہیں، چنانچہ خوب حادثات ہوتے ہیں۔ سرخ رنگ کے ساتھ ان کی تصاویر اخبارات میں آئے دن شایع ہوتی رہتی ہیں۔ یقیناً آپ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہوگا؟میری خوب درگت بنتی ہے۔ چلتے چلتے جب کسی کے منہ میں پان کا لعاب بھر جاتا ہے تو وہ پچکاری سڑک پر مار دیتا ہے۔ کسی نزلہ زکام کے کاشتکار کے حلق میں بلغم پھنسنے لگتا ہے تو وہ کھنکھار کر بلغم کا پٹاخا سڑک پر مار دیتا ہے۔ گویا میری حیثیت اگالدان کے برابر ہے۔ کسی معاملے میں احتجاج ہوتا ہے تو لوگ جذباتی ہوکر، ٹائر جلا کر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔
انھیں منع بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ تو احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹائر جلا کر اپنی گردن میں تو لٹکانے سے رہے، وہ اسے مجھ پر ہی پھینک دیتے ہیں۔بڑی شخصیتوں کے نام پر سڑکیں بھی ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ بڑی شخصیتیں ان ہی سڑکوں پر اپنی جوتیاں چٹخاتے پھر چکے ہوتے ہیں۔ تب ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور نہ پوچھتا ہے کہ آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟ وہ کتبہ یا پتھر کی سل جو دو پلروں پر رکھی جاتی ہے، اس پر لکھا ہوا نام ہرچند کہ قابل احترام ہوتا ہے اور اس شخصیت کے بارے میں جاننے کی دعوت دیتا ہے۔
لیکن پرندے اس پر بیٹ کرتے ہیں اور جنھیں اس کی اہمیت کا علم نہیں ہوتا وہ اس پر پوسٹر چپکا دیتے ہیں کہ گ م گھامڑ آیندہ ہفتے لال باغ میں ''آخر ٹماٹر ہر سال کیوں مہنگے ہوجاتے ہیں؟'' کے موضوع پر تقریر کریں گے، تشریف لائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔بڑی سڑکوں سے چھوٹی سڑکیں نکلتی ہیں۔ وہ چھوٹی سڑکیں ہمیں ہمارے گھر پہنچا دیتی ہیں۔ ہٹلر نے ایک ایسی ہی سڑک (ہائی وے) بنوائی تھی۔ جب اس کا افتتاح کرنے کے بعد وہ کار میں بیٹھ کر ایک طرف سے دوسری طرف گیا تو ایک جگہ اسے زبردست دھچکا لگا، اس لیے کہ سڑک میں گڑھا تھا۔ پس اس نے سڑک بنانیوالے ٹھیکے دار کو بلوایا اور سڑک کھدوا کر اسے اسی گڑھے میں گاڑ دیا۔ (کاش ہمارے ہاں بھی ایسی کوئی مثال قائم ہوجائے)۔
ہمارے ہاں سڑکوں پر گاڑیاں چلتی ہیں تو دھچکوں سے لوگوں کی پسلیوں کا ڈیزائن خراب ہوجاتا ہے۔سڑک پر چلنے کے کیا قوانین ہیں، اسے کیسے اور کہاں سے پار کرنا چاہیے؟ یا منہ اٹھا کر چلتی گاڑیوں کے بیچ چھلانگ لگا دینا چاہیے؟ ہم خود کو کیوں بچائیں، ڈرائیوروں کا فرض ہے کہ وہ ہمیں بچائیں۔تیزگام گاڑی ڈرائیوروں کے فرائض کیا ہیں، اگر کوئی زیبرا کراسنگ سے سڑک پار کرے تو اس پر کیا عنایت کرنا چاہیے؟ گاڑی چلاتے وقت بریکوں پر پاؤں رکھنا چاہیے یا بریکوں کو نکلوا دینا چاہیے؟
اسکول کے ننھے طالبعلم اگر سڑک پار کررہے ہوں تو ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟ ان پر سلامتی بھیجنا چاہیے یا انھیں ملک عدم پہنچادینا چاہیے؟ اس کے لیے کوئی کتابچہ چھپنا چاہیے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ہمارے ہاں اسپیڈ بریکر بنانے کا رواج بھی ترقی پارہا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے گاڑیوں کی رفتار اور ڈرائیوروں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان سے حادثات میں کمی تو نہیں ہوتی، البتہ گاڑی کے مسافروں کی ہڈیاں ضرور ٹیڑھی میڑھی ہوجاتی ہیں۔
کیونکہ سڑک بناتے وقت اسپیڈ بریکر کارپوریشن کے نقشے میں نہیں ہوتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے، جس کی سمجھ میں جو آرہا ہے، وہ کر رہا ہے۔ ڈرائیور تیز رفتاری سے گاڑیاں چلا کر تیزی سے پیسہ بنانے کے چکر میں ہیں اور لوگ اسپیڈ بریکر بنا کر ان کی رفتار سست کررہے ہیں۔ کامیاب کوئی نہیں ہوپا رہا ہے۔ حادثات ہیں کہ ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی پہیوں میں لپٹ جائے اور مرحوم و مغفور ہوجائے تو ڈرائیور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی زندگی ہی اتنی تھی، اس طرح سے نہ مرتا تو دوسرے طریقے سے مرجاتا۔ آج نہیں مرتا تو کل مرجاتا، گھر پر نہیں تو اسپتال کے بستر پر مرتا۔ موت تو برحق ہے نا جی۔ کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے؟