موسیٰ بلوچ کی یادیں اور باتیں
لیاری کی ممتاز تعلیمی شخصیت محمد موسیٰ بلوچ بھی 17 جنوری 2016 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
موت برحق ہے ہر جاندار کو اس کا مزہ چکھنا ہے، لیاری کی ممتاز تعلیمی شخصیت محمد موسیٰ بلوچ بھی 17 جنوری 2016 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ موسیٰ بلوچ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک مزدور کے طور پر کیا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے شوق نے انہیں ماہر تعلیم بنا دیا۔ 10 جنوری 1936 کو ملّا شہداد کے گھر پیدا ہونے والے محمد موسیٰ بلوچ نے اپنی جوانی کے اوائل میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے شروع کیے اور بہت جلد شہر کراچی کے ممتاز ماہر تعلیم میں ان کا شمار ہونے لگا۔
1955 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد یہ نوجوان جولائی 1955 میں ٹیچر بنا اور ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اسلامیہ کالج کراچی سے ایم ایڈ کیا۔ 1972 میں باقاعدہ امتحان پاس کر کے پرائمری گزیٹڈ آفیسر بنا جس کے تحت گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول نمبر 2 لیاری میں ہیڈ ماسٹر تعینات ہوگیا۔ 1975 میں ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر تعینات ہوئے۔ ڈپٹی ایجوکیشن کی حیثیت سے لیاری اور اس میں بسنے والے لوگوں کی بلاتفریق خدمت کی۔
اگست 1977 میں کراچی کو چار ڈسٹرکٹ میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں سینٹرل، ایسٹ، ویسٹ اور ساؤتھ شامل تھے، جس کے تحت سب ڈویژن ایجوکیشن آفیسر (ایس ڈی ای او) تعینات کیے گئے اور موسیٰ بلوچ کو ضلع جنوبی کا ایس ڈی ای او مقرر کیا گیا۔ 1986 میں دوبارہ ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر بنا۔ اپریل 1990 میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر تعینات ہوا اور اسی عہدے پر 10 جنوری 1996 کو گریڈ 19 میں ریٹائر ہوئے۔ لیکن ان کی تعلیمی خدمات کے پیش نظر ان کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کی گئی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد میٹرک بورڈ میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر (ریگولیشن آفیسر بورڈ آف سیکنڈری کراچی) تعینات ہوئے۔ موسیٰ بلوچ نے اپنے دور ملازمت میں لیاری کے تمام پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کو اپ گریڈ کیا، سیکڑوں کی تعداد میں لیاری کے لوگوں کو ملازمتیں دلوائیں۔
موسیٰ بلوچ 1964 سے 1968 تک انجمن قمر قندی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے بھی سماجی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1964 سے 1995 تک علاقے کی مسجد قبا نیا آباد لیاری کے صدر بھی رہ چکے ہیں اس لحاظ سے دینی معاملات میں بھی فرائض ادا کرتے رہے ہیں۔ تعلیمی محکمہ جاتی سطح پر اسپورٹس کے میدان میں بھی سرگرم عمل رہے ہیں۔ خاص طور پر فٹبال کے بہت سے ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا۔ تعلیمی آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکاؤٹ کمشنر بھی تھے۔
اسکاؤٹ کمشنر کی حیثیت سے دو مرتبہ اسکاؤٹ صدارتی ایوارڈز اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحق خان اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں وصول کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں 1994 میں گورنر سندھ کمال اظفر کے ہاتھوں گورنر ایوارڈ بھی وصول کیا ہے۔
دسمبر 2008 کو میں نے محمد موسیٰ بلوچ کا انٹرویو کیا تھا۔ جس کے اقتباسات نذر قارئین ہیں۔ موسیٰ بلوچ نے بتایا تھا کہ ''بنیادی طور پر میرا تعلق ایک مذہبی خاندان سے ہے، والد محترم مسجد قبا نیا آباد لیاری کے پیش امام تھے، اس مسجد میں ہمارے خاندان نے ایک سو سال تک امامت کی۔ میرے خاندان میں اکثریت عالموں کی ہے، لیکن میں اور دوسرا بھائی عالم نہ بن سکے، جو ایک طرح سے بغاوت بھی ہے، لیکن یہ بغاوت نظریاتی نہیں تھی بلکہ اس میں ٹیچر بننے کا شوق کارفرما تھا۔
یہ شوق اس وقت پروان چڑھا جب میں ایک گجراتی بوہری کی دکان میں مزدور تھا۔ یہ 1948 کی بات ہے، وہاں ایک پوسٹ مین کا آنا جانا تھا، جو بلوچ تھا۔ اس نے روزانہ مجھے ایک ''حرف'' سبق سکھایا۔ یہیں سے تعلیم کا شوق بڑھا۔ کلری ذکری پرائمری اسکول لیاری سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب میں ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر بنا تو میرا تبادلہ بولٹن مارکیٹ میں واقع ایجوکیشن آفس میں ہوگیا۔ جس پر عجیب صورت حال پیدا ہوئی۔ لیاری کے لوگ میری اس تعیناتی پر اعتراض کرنے لگے۔
ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ چونکہ میرا تعلق لیاری سے ہے اور بطور ہیڈ ماسٹر لیاری اسکول میں بہتر طور پر لیاری کی تعلیمی صورتحال کو ترقی کی راہ پر گامزن کر رہا تھا، میرے جانے کے بعد یہ تمام کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں، لیکن میں نے ان سادہ لوح لوگوں کو سمجھایا کہ میں ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر تعینات ہوا ہوں جس کے دائرے کار میں لیاری کے تمام اسکولوں کے انتظامات بھی شامل ہیں۔ میری بات کو وہ لوگ سمجھ گئے۔ اس طرح میں نے لیاری کے اسکولوں کو ترقی دی جس سے مجھے دلی مسرت ہوئی۔''
مزید سوالات کے جواب میں محمد موسیٰ بلوچ کا کہنا تھا کہ جس زمانے میں، میں نے ٹیچنگ شروع کی تھی، اس وقت لیاری میں صرف ایک سیکنڈری اسکول ''ایس ایم لیاری سیکنڈری اسکول'' قائم تھا، جو سندھ مدرسہ اسلام کی ایک شاخ تھا۔ یہیں سے لیاری کے اکثر طالب علموں نے میٹرک پاس کیا جب کہ تقسیم ہند سے پہلے جب کراچی بمبئی کا ایک حصہ تھا، اگر کسی کو پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنا ہوتی تو وہ بمبئی کا رخ کرتا اور وہیں سے میٹرک کا امتحان دیتا۔ لیاری کے بہت سے پرانے لوگوں نے بمبئی سے تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔
اگر اس زمانے میں لیاری میں سیکنڈری اسکولوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو یقیناً شرح تعلیم میں بھی اضافہ ہوتا۔ لیاری میں صرف ایک ہی سیکنڈری اسکول ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم طالب علم میٹرک کرسکے تھے اور زیادہ تر مڈل پاس ہوئے۔ اس زمانے کی خاص بات یہ تھی کہ درسگاہوں میں کوئی بدمعاشی نہیں تھی، استاد کو باپ کا درجہ حاصل تھا، طالب علم شوق سے پڑھتے تھے جب کہ آج کل کا ماحول مایوس کن ہے۔ تعلیمی صورتحال ابتری کی جانب رواں دواں ہے، شریفانہ ماحول کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے۔ انگریزوں کے زمانے کے بنائے ہوئے اسکولوں میں جب میں نے ٹیچنگ شروع کی تو ماحول خوشگوار تھا۔
اسکولوں کی کوئی نئی عمارت نہیں تھی۔ کافی وقتوں بعد نئے اسکول قائم کیے گئے۔ سر عبداللہ ہارون اسکول جسے بعد میں کالج کا درجہ دیا گیا اور میر ایوب اسکول لیاری میں تقسیم ہند سے قبل قائم ہیں۔ اس زمانے میں زیادہ تر اسکولوں کے نام ہندو برادری کے افراد کے ناموں سے منسوب تھے اور سڑکوں کے نام انگریزوں کے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت انگریزوں اور ہندوؤں کی تھی۔ اس زمانے میں صرف سرکاری نل ہوا کرتے تھے، جو مخصوص جگہوں پر لگائے گئے تھے اور ان کا ٹائم ٹیبل ہوا کرتا تھا، جہاں پانی بھرنے کے لیے لوگ لائن لگاتے تھے۔ اس بنا پر اسکولوں میں پانی کے مسائل تھے، لیکن ہم نے ان مسائل کو گمبھیر نہیں ہونے دیا۔ ہم نے اسکولوں میں مٹکے رکھے تھے اور مشکی کے ذریعے پانی حاصل کرتے تھے۔
آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں اسکول میں پینے کے پانی کا مسئلہ ہے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ پانی کی لائنیں ہر گلی اور گھر گھر موجود ہیں۔ سادہ واٹر کولر اور الیکٹرانک واٹر کولر بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، مگر پانی کی فراہمی نہ ہونا مسئلہ بیان کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لیاری میں تعلیمی صورتحال بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ میں نے بڑی محنت سے ایک اسکول میں 1200 طالبات داخل کروائی تھیں، یہ جان کر مجھے افسوس ہوا کہ اب اس اسکول میں 10 طالبات بھی نہیں ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تھی، لیکن سب سے زیادہ لڑکیوں کے اسکول تباہ حال ہیں۔ میری تعلیمی اور اسپورٹس و اسکاؤٹنگ کی قدر و منزلت اپنی جگہ مسلمہ ہے، لیکن مجھے اس وقت زیادہ خوشی ہوتی ہے جب میرے کسی عمل سے کوئی شخص خوش ہوتا ہے، اس لیے میں لیاری کے نوجوانوں کو پیغام دیتا ہوں کہ وہ حصول تعلیم کو اپنا شعار اور خدمت خلق کو اپنا نصب العین بنائیں۔''
محمد موسیٰ بلوچ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی خدمات ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے (آمین ثمہ آمین)
1955 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد یہ نوجوان جولائی 1955 میں ٹیچر بنا اور ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اسلامیہ کالج کراچی سے ایم ایڈ کیا۔ 1972 میں باقاعدہ امتحان پاس کر کے پرائمری گزیٹڈ آفیسر بنا جس کے تحت گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول نمبر 2 لیاری میں ہیڈ ماسٹر تعینات ہوگیا۔ 1975 میں ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر تعینات ہوئے۔ ڈپٹی ایجوکیشن کی حیثیت سے لیاری اور اس میں بسنے والے لوگوں کی بلاتفریق خدمت کی۔
اگست 1977 میں کراچی کو چار ڈسٹرکٹ میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں سینٹرل، ایسٹ، ویسٹ اور ساؤتھ شامل تھے، جس کے تحت سب ڈویژن ایجوکیشن آفیسر (ایس ڈی ای او) تعینات کیے گئے اور موسیٰ بلوچ کو ضلع جنوبی کا ایس ڈی ای او مقرر کیا گیا۔ 1986 میں دوبارہ ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر بنا۔ اپریل 1990 میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر تعینات ہوا اور اسی عہدے پر 10 جنوری 1996 کو گریڈ 19 میں ریٹائر ہوئے۔ لیکن ان کی تعلیمی خدمات کے پیش نظر ان کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کی گئی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد میٹرک بورڈ میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر (ریگولیشن آفیسر بورڈ آف سیکنڈری کراچی) تعینات ہوئے۔ موسیٰ بلوچ نے اپنے دور ملازمت میں لیاری کے تمام پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کو اپ گریڈ کیا، سیکڑوں کی تعداد میں لیاری کے لوگوں کو ملازمتیں دلوائیں۔
موسیٰ بلوچ 1964 سے 1968 تک انجمن قمر قندی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے بھی سماجی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1964 سے 1995 تک علاقے کی مسجد قبا نیا آباد لیاری کے صدر بھی رہ چکے ہیں اس لحاظ سے دینی معاملات میں بھی فرائض ادا کرتے رہے ہیں۔ تعلیمی محکمہ جاتی سطح پر اسپورٹس کے میدان میں بھی سرگرم عمل رہے ہیں۔ خاص طور پر فٹبال کے بہت سے ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا۔ تعلیمی آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکاؤٹ کمشنر بھی تھے۔
اسکاؤٹ کمشنر کی حیثیت سے دو مرتبہ اسکاؤٹ صدارتی ایوارڈز اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحق خان اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں وصول کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں 1994 میں گورنر سندھ کمال اظفر کے ہاتھوں گورنر ایوارڈ بھی وصول کیا ہے۔
دسمبر 2008 کو میں نے محمد موسیٰ بلوچ کا انٹرویو کیا تھا۔ جس کے اقتباسات نذر قارئین ہیں۔ موسیٰ بلوچ نے بتایا تھا کہ ''بنیادی طور پر میرا تعلق ایک مذہبی خاندان سے ہے، والد محترم مسجد قبا نیا آباد لیاری کے پیش امام تھے، اس مسجد میں ہمارے خاندان نے ایک سو سال تک امامت کی۔ میرے خاندان میں اکثریت عالموں کی ہے، لیکن میں اور دوسرا بھائی عالم نہ بن سکے، جو ایک طرح سے بغاوت بھی ہے، لیکن یہ بغاوت نظریاتی نہیں تھی بلکہ اس میں ٹیچر بننے کا شوق کارفرما تھا۔
یہ شوق اس وقت پروان چڑھا جب میں ایک گجراتی بوہری کی دکان میں مزدور تھا۔ یہ 1948 کی بات ہے، وہاں ایک پوسٹ مین کا آنا جانا تھا، جو بلوچ تھا۔ اس نے روزانہ مجھے ایک ''حرف'' سبق سکھایا۔ یہیں سے تعلیم کا شوق بڑھا۔ کلری ذکری پرائمری اسکول لیاری سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب میں ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر بنا تو میرا تبادلہ بولٹن مارکیٹ میں واقع ایجوکیشن آفس میں ہوگیا۔ جس پر عجیب صورت حال پیدا ہوئی۔ لیاری کے لوگ میری اس تعیناتی پر اعتراض کرنے لگے۔
ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ چونکہ میرا تعلق لیاری سے ہے اور بطور ہیڈ ماسٹر لیاری اسکول میں بہتر طور پر لیاری کی تعلیمی صورتحال کو ترقی کی راہ پر گامزن کر رہا تھا، میرے جانے کے بعد یہ تمام کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں، لیکن میں نے ان سادہ لوح لوگوں کو سمجھایا کہ میں ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر تعینات ہوا ہوں جس کے دائرے کار میں لیاری کے تمام اسکولوں کے انتظامات بھی شامل ہیں۔ میری بات کو وہ لوگ سمجھ گئے۔ اس طرح میں نے لیاری کے اسکولوں کو ترقی دی جس سے مجھے دلی مسرت ہوئی۔''
مزید سوالات کے جواب میں محمد موسیٰ بلوچ کا کہنا تھا کہ جس زمانے میں، میں نے ٹیچنگ شروع کی تھی، اس وقت لیاری میں صرف ایک سیکنڈری اسکول ''ایس ایم لیاری سیکنڈری اسکول'' قائم تھا، جو سندھ مدرسہ اسلام کی ایک شاخ تھا۔ یہیں سے لیاری کے اکثر طالب علموں نے میٹرک پاس کیا جب کہ تقسیم ہند سے پہلے جب کراچی بمبئی کا ایک حصہ تھا، اگر کسی کو پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنا ہوتی تو وہ بمبئی کا رخ کرتا اور وہیں سے میٹرک کا امتحان دیتا۔ لیاری کے بہت سے پرانے لوگوں نے بمبئی سے تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔
اگر اس زمانے میں لیاری میں سیکنڈری اسکولوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو یقیناً شرح تعلیم میں بھی اضافہ ہوتا۔ لیاری میں صرف ایک ہی سیکنڈری اسکول ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم طالب علم میٹرک کرسکے تھے اور زیادہ تر مڈل پاس ہوئے۔ اس زمانے کی خاص بات یہ تھی کہ درسگاہوں میں کوئی بدمعاشی نہیں تھی، استاد کو باپ کا درجہ حاصل تھا، طالب علم شوق سے پڑھتے تھے جب کہ آج کل کا ماحول مایوس کن ہے۔ تعلیمی صورتحال ابتری کی جانب رواں دواں ہے، شریفانہ ماحول کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے۔ انگریزوں کے زمانے کے بنائے ہوئے اسکولوں میں جب میں نے ٹیچنگ شروع کی تو ماحول خوشگوار تھا۔
اسکولوں کی کوئی نئی عمارت نہیں تھی۔ کافی وقتوں بعد نئے اسکول قائم کیے گئے۔ سر عبداللہ ہارون اسکول جسے بعد میں کالج کا درجہ دیا گیا اور میر ایوب اسکول لیاری میں تقسیم ہند سے قبل قائم ہیں۔ اس زمانے میں زیادہ تر اسکولوں کے نام ہندو برادری کے افراد کے ناموں سے منسوب تھے اور سڑکوں کے نام انگریزوں کے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت انگریزوں اور ہندوؤں کی تھی۔ اس زمانے میں صرف سرکاری نل ہوا کرتے تھے، جو مخصوص جگہوں پر لگائے گئے تھے اور ان کا ٹائم ٹیبل ہوا کرتا تھا، جہاں پانی بھرنے کے لیے لوگ لائن لگاتے تھے۔ اس بنا پر اسکولوں میں پانی کے مسائل تھے، لیکن ہم نے ان مسائل کو گمبھیر نہیں ہونے دیا۔ ہم نے اسکولوں میں مٹکے رکھے تھے اور مشکی کے ذریعے پانی حاصل کرتے تھے۔
آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں اسکول میں پینے کے پانی کا مسئلہ ہے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ پانی کی لائنیں ہر گلی اور گھر گھر موجود ہیں۔ سادہ واٹر کولر اور الیکٹرانک واٹر کولر بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، مگر پانی کی فراہمی نہ ہونا مسئلہ بیان کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لیاری میں تعلیمی صورتحال بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ میں نے بڑی محنت سے ایک اسکول میں 1200 طالبات داخل کروائی تھیں، یہ جان کر مجھے افسوس ہوا کہ اب اس اسکول میں 10 طالبات بھی نہیں ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تھی، لیکن سب سے زیادہ لڑکیوں کے اسکول تباہ حال ہیں۔ میری تعلیمی اور اسپورٹس و اسکاؤٹنگ کی قدر و منزلت اپنی جگہ مسلمہ ہے، لیکن مجھے اس وقت زیادہ خوشی ہوتی ہے جب میرے کسی عمل سے کوئی شخص خوش ہوتا ہے، اس لیے میں لیاری کے نوجوانوں کو پیغام دیتا ہوں کہ وہ حصول تعلیم کو اپنا شعار اور خدمت خلق کو اپنا نصب العین بنائیں۔''
محمد موسیٰ بلوچ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی خدمات ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے (آمین ثمہ آمین)