جینوا میںورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس
ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کا صدر دفتر جنیوا میں ہے اور یہ ایک آزاد، غیرجانبدار ادارہ ہے
ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کا صدر دفتر جنیوا میں ہے اور یہ ایک آزاد، غیرجانبدار ادارہ ہے جس کی کسی قسم کی خصوصی دلچسپیوں سے کوئی وابستگی نہیں۔ ترقی کے لیے یہ لازم ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ جن میں جذبہ ہو اور جن کا اور لوگوں پر اثر ہو ان سب کو اکٹھے ہو کر مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ غیرمعمولی بین الاقوامی تنظیم سرکاری اور نجی شعبہ کے تعاون سے جن میں کہ سیاست، بزنس اور معاشرے کے دیگر شعبوں کے قائدین شامل ہیں نہایت احتیاط کے ساتھ عالمی، علاقائی اور صنعتی ایجنڈا تیار کرتی ہے تا کہ دنیا میں ایک بہتر تبدیلی لائی جا سکے۔
2500 سے زیادہ بزنس لیڈر (جو WEF سے وابستہ سیکڑوں کمپنیوں کے نمایندے ہیں) سرکاری اور بین الاقوامی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور مذہبی تنظیمیں، ماہرین تعلیم، میڈیا اور آرٹس سے تعلق رکھنے والے لوگ 19 سے 23 جنوری تک ڈاوس (Davos) میں منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجلاس کی 250 سے زیادہ نشستیں ہوں گی۔
یہ ساری کارروائی 100 سے زیادہ ویب سائٹس پر لائیو دیکھی جا سکتی ہے۔ WEF کے 46 ویں سالانہ اجلاس کی تھیم تھی ''چوتھے صنعتی انقلاب پر غلبہ حاصل کرنا'' WEF کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین پروفیسر کلاؤس شوآب (Kilaus Schwab) کہتے ہیں کہ آج دنیا میں بہت سے چیلنجز موجود ہیں جن میں سب سے اہم نتائج والا چیلنج ''چوتھے صنعتی انقلاب'' کا راستہ ہموار کرنا ہے اور یہ کام خاصی تیز رفتاری کا متقاضی ہے جس کے لیے اختراعات کے ایک مکمل نئے ضابطے کی ضرورت ہے۔
یہ چیلنجز اس قدر سنگین ہیں کیونکہ مواقع مسلسل ہم کو راغب کر رہے ہیں کہ ان مواقع کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جائے۔ ہمارے پاس یقینی طور پر ایک جامع تفہیم ہونی چاہیے جس کے ذریعے دنیا بھر سے اشتراک کیا جانا چاہیے اور اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں کس طرح تبدیلی پیدا کرتی ہے اور ہماری آیندہ نسلوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے تا کہ اقتصادی، سماجی، ماحولیاتی اور ثقافتی حوالوں کو کس طرح نئی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ یہ چیز بے حد اہم ہے کہ ہم اپنے مستقبل کی مشترکہ طو ر پر تشکیل کریں اور ہمارے مقاصد اور اقدار بھی مشترک ہوں۔
WEF کی گلوبل رسک رپورٹ 2016ء... میں سب سے زیادہ تشویش موسمیاتی تبدیلیوں پر ظاہر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وسیع تباہی کے ہتھیاروں پر قدغن عائد کرنے کو بے حد اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔
نیز جبری طور پر وسیع پیمانے پر ہجرت کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں کشیدگی، خونریزی، لڑائیوں اور جنگوں میں تبدیل ہو چکی ہے لہٰذا سائبر سپیس کے موضوع پر بھی وسیع پیمانے پر مباحث کو ضروری قرار دیا گیا۔ دنیا کو جو خطرات درپیش ہیں ان میں ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ بعض عناصر ملکوں کی موجودہ سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ہی توانائی کے ذرایع کی گرانی اور بے روزگاری بڑے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔
جس رفتار سے ٹیکنالوجی اور اقتصادی میدان میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس سے سیاسی اور ریگولیٹری سسٹم کے لیے اس سے مطابقت قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ معاشرے میں تقسیم در تقسیم کا عمل نمایاں ہے جس سے سیاسی قائدین کی بے چینی ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ پہلے ہی تنزل کا شکار ہے۔
بھروسے اور اعتماد میں کمی معاشرے کے تمام طبقات پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے معاشرے میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ سارے شہری ایک ہی کشتی کے مسافر نہیں ہیں۔ تیسری دنیا کے لیڈروں میں بلا سوچے سمجھے اقدامات کرنے کا رجحان انھیں وقتی فوائد حاصل کرنے پر اکساتا ہے اور وہ گراس روٹ پر سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں روبہ عمل لانے کے بجائے محض کام چلاؤ اقدامات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا نیند کی حالت میں چل رہی ہے جسے اپنے آیندہ اقدامات کی راہ میں حائل خطرات نظر نہیں آ رہے۔ چونکہ اب لڑائی کے میدان کسی ایک جگہ پر محدود نہیں رہے اور اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کے حملوں کے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ کہیں بھی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے صرف ریاستیں ہی ملوث نہیں بلکہ نان اسٹیٹ ریکٹرز بھی حکومت کے عدم اعتماد کا فائدہ اٹھا کر اپنے زیر اثر افراد کو تخریب کاری پر اکساتے ہیں اور اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ شام اور عراق میں جنگ کرنے والوں کا تعلق 100 سے زیادہ ملکوں سے ہے۔ وہ یا تو نظریاتی طور پر یا ذاتی وجوہات کی بناء پر اس میں شامل ہوتے ہیں جب کہ ٹین ایجر لڑکوں کے لیے یہ اس قدر آسان ہے کہ کمپیوٹر پر صرف ایک بٹن دبانے سے یہ فاصلہ طے کر لیا جاتا ہے۔ اس میں اچھی طرح منظم گروہوں کے علاوہ انفرادی طور پر مہم جوئی کرنے والے بھی شامل ہیں جنھیں اصطلاح میں ''Lone Wolves'' (تنہا بھیڑیے) کہا جاتا ہے جب کہ انٹیلی جنس سروسز اس نئی پیدا ہونے والی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
دہشت گردی کے حملے اور بین الریاست تنازعات اب اپنا رنگ تبدیل کر چکے ہیں جس سے جنگ کا منظرنامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ بڑی طاقتوں نے اب ''Hy bird Warfare'' کی تکنیک استعمال کرنا شروع کر دی ہے تا کہ وہی مقاصد جو باقاعدہ جنگ وجدل کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہوں انھیں بغیر لڑے یا پراکسی فورسز کے ذریعے اور جعلی فلیگ آپریشنز کے ذریعے حاصل کیا جائے۔ ریاستیں اقتصادی تعلقات، پابندیاں عائد کرنے اور تجارتی مفادات روکنے یا ارزاں کرنے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
مختلف ممالک اور معاشروں کے مابین بھروسے اور اعتماد کا فقدان انھیں مربوط دنیا سے علیحدہ کر رہا ہے۔ جدید دنیا بھی پرانے زمانے کی طرح شہروں اور آبادیوں کے گرد فصیلیں تعمیر کر رہی ہیں تا کہ باہر سے حملہ آوروں کے امکانات ختم کیے جا سکیں لیکن اس سے زبردست بدنظمی پیدا ہو رہی ہے۔ اس روش کو ''نوووفاشزم'' کہا جا سکتا ہے جس کی ایک علامت امریکا کے ریپبلکن پارٹی کی طرف سے نامزد صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہے جس نے امریکا میں تارکین وطن کے خلاف بیانات دے کر شنگن کے سرحدیں کھولنے والے سمجھوتے کے منافی طرز عمل اختیار کیا ہے۔
اس طرح ایک طرف علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا ملی ہے دوسری طرف مضبوط اور منظم ریاستوں میں تزویراتی مسابقت میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی مثالیں شام، عراق اور یمن میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب میں مستقبل کی برتری کے لیے تصادم کی کیفیت جاری ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں باہمی تعاون کی طرف بڑھ رہی ہیں او راس مقصد کے لیے سفارتی ذرایع سے مدد لی جا رہی ہے۔
ڈیوس 2016ء میں شرکت کرنے والے عالمی رہنماؤں میں امریکی نائب صدر جوبیڈن، وزیر خارجہ جان کیری،وزیر دفاع ایشٹن کارٹر،برطانوی وزیراعظم، ڈیوڈ کیمرون، کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، افغان صدر اشرف غنی، ترک صدر احمد اوگلو، سری لنکن وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے، جنوبی افریقی صدر جیکب زوما، جرمن صدر جوشم گاؤک، اسرائیل وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو اور درجنوں دیگر سربراہان مملکت اور دیگر اعلیٰ حکام اور بڑے بڑے بزنس لیڈر شامل ہیں۔
2500 سے زیادہ بزنس لیڈر (جو WEF سے وابستہ سیکڑوں کمپنیوں کے نمایندے ہیں) سرکاری اور بین الاقوامی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور مذہبی تنظیمیں، ماہرین تعلیم، میڈیا اور آرٹس سے تعلق رکھنے والے لوگ 19 سے 23 جنوری تک ڈاوس (Davos) میں منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجلاس کی 250 سے زیادہ نشستیں ہوں گی۔
یہ ساری کارروائی 100 سے زیادہ ویب سائٹس پر لائیو دیکھی جا سکتی ہے۔ WEF کے 46 ویں سالانہ اجلاس کی تھیم تھی ''چوتھے صنعتی انقلاب پر غلبہ حاصل کرنا'' WEF کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین پروفیسر کلاؤس شوآب (Kilaus Schwab) کہتے ہیں کہ آج دنیا میں بہت سے چیلنجز موجود ہیں جن میں سب سے اہم نتائج والا چیلنج ''چوتھے صنعتی انقلاب'' کا راستہ ہموار کرنا ہے اور یہ کام خاصی تیز رفتاری کا متقاضی ہے جس کے لیے اختراعات کے ایک مکمل نئے ضابطے کی ضرورت ہے۔
یہ چیلنجز اس قدر سنگین ہیں کیونکہ مواقع مسلسل ہم کو راغب کر رہے ہیں کہ ان مواقع کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جائے۔ ہمارے پاس یقینی طور پر ایک جامع تفہیم ہونی چاہیے جس کے ذریعے دنیا بھر سے اشتراک کیا جانا چاہیے اور اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں کس طرح تبدیلی پیدا کرتی ہے اور ہماری آیندہ نسلوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے تا کہ اقتصادی، سماجی، ماحولیاتی اور ثقافتی حوالوں کو کس طرح نئی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ یہ چیز بے حد اہم ہے کہ ہم اپنے مستقبل کی مشترکہ طو ر پر تشکیل کریں اور ہمارے مقاصد اور اقدار بھی مشترک ہوں۔
WEF کی گلوبل رسک رپورٹ 2016ء... میں سب سے زیادہ تشویش موسمیاتی تبدیلیوں پر ظاہر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وسیع تباہی کے ہتھیاروں پر قدغن عائد کرنے کو بے حد اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔
نیز جبری طور پر وسیع پیمانے پر ہجرت کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں کشیدگی، خونریزی، لڑائیوں اور جنگوں میں تبدیل ہو چکی ہے لہٰذا سائبر سپیس کے موضوع پر بھی وسیع پیمانے پر مباحث کو ضروری قرار دیا گیا۔ دنیا کو جو خطرات درپیش ہیں ان میں ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ بعض عناصر ملکوں کی موجودہ سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ہی توانائی کے ذرایع کی گرانی اور بے روزگاری بڑے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔
جس رفتار سے ٹیکنالوجی اور اقتصادی میدان میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس سے سیاسی اور ریگولیٹری سسٹم کے لیے اس سے مطابقت قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ معاشرے میں تقسیم در تقسیم کا عمل نمایاں ہے جس سے سیاسی قائدین کی بے چینی ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ پہلے ہی تنزل کا شکار ہے۔
بھروسے اور اعتماد میں کمی معاشرے کے تمام طبقات پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے معاشرے میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ سارے شہری ایک ہی کشتی کے مسافر نہیں ہیں۔ تیسری دنیا کے لیڈروں میں بلا سوچے سمجھے اقدامات کرنے کا رجحان انھیں وقتی فوائد حاصل کرنے پر اکساتا ہے اور وہ گراس روٹ پر سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں روبہ عمل لانے کے بجائے محض کام چلاؤ اقدامات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا نیند کی حالت میں چل رہی ہے جسے اپنے آیندہ اقدامات کی راہ میں حائل خطرات نظر نہیں آ رہے۔ چونکہ اب لڑائی کے میدان کسی ایک جگہ پر محدود نہیں رہے اور اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کے حملوں کے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ کہیں بھی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے صرف ریاستیں ہی ملوث نہیں بلکہ نان اسٹیٹ ریکٹرز بھی حکومت کے عدم اعتماد کا فائدہ اٹھا کر اپنے زیر اثر افراد کو تخریب کاری پر اکساتے ہیں اور اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ شام اور عراق میں جنگ کرنے والوں کا تعلق 100 سے زیادہ ملکوں سے ہے۔ وہ یا تو نظریاتی طور پر یا ذاتی وجوہات کی بناء پر اس میں شامل ہوتے ہیں جب کہ ٹین ایجر لڑکوں کے لیے یہ اس قدر آسان ہے کہ کمپیوٹر پر صرف ایک بٹن دبانے سے یہ فاصلہ طے کر لیا جاتا ہے۔ اس میں اچھی طرح منظم گروہوں کے علاوہ انفرادی طور پر مہم جوئی کرنے والے بھی شامل ہیں جنھیں اصطلاح میں ''Lone Wolves'' (تنہا بھیڑیے) کہا جاتا ہے جب کہ انٹیلی جنس سروسز اس نئی پیدا ہونے والی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
دہشت گردی کے حملے اور بین الریاست تنازعات اب اپنا رنگ تبدیل کر چکے ہیں جس سے جنگ کا منظرنامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ بڑی طاقتوں نے اب ''Hy bird Warfare'' کی تکنیک استعمال کرنا شروع کر دی ہے تا کہ وہی مقاصد جو باقاعدہ جنگ وجدل کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہوں انھیں بغیر لڑے یا پراکسی فورسز کے ذریعے اور جعلی فلیگ آپریشنز کے ذریعے حاصل کیا جائے۔ ریاستیں اقتصادی تعلقات، پابندیاں عائد کرنے اور تجارتی مفادات روکنے یا ارزاں کرنے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
مختلف ممالک اور معاشروں کے مابین بھروسے اور اعتماد کا فقدان انھیں مربوط دنیا سے علیحدہ کر رہا ہے۔ جدید دنیا بھی پرانے زمانے کی طرح شہروں اور آبادیوں کے گرد فصیلیں تعمیر کر رہی ہیں تا کہ باہر سے حملہ آوروں کے امکانات ختم کیے جا سکیں لیکن اس سے زبردست بدنظمی پیدا ہو رہی ہے۔ اس روش کو ''نوووفاشزم'' کہا جا سکتا ہے جس کی ایک علامت امریکا کے ریپبلکن پارٹی کی طرف سے نامزد صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہے جس نے امریکا میں تارکین وطن کے خلاف بیانات دے کر شنگن کے سرحدیں کھولنے والے سمجھوتے کے منافی طرز عمل اختیار کیا ہے۔
اس طرح ایک طرف علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا ملی ہے دوسری طرف مضبوط اور منظم ریاستوں میں تزویراتی مسابقت میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی مثالیں شام، عراق اور یمن میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب میں مستقبل کی برتری کے لیے تصادم کی کیفیت جاری ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں باہمی تعاون کی طرف بڑھ رہی ہیں او راس مقصد کے لیے سفارتی ذرایع سے مدد لی جا رہی ہے۔
ڈیوس 2016ء میں شرکت کرنے والے عالمی رہنماؤں میں امریکی نائب صدر جوبیڈن، وزیر خارجہ جان کیری،وزیر دفاع ایشٹن کارٹر،برطانوی وزیراعظم، ڈیوڈ کیمرون، کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، افغان صدر اشرف غنی، ترک صدر احمد اوگلو، سری لنکن وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے، جنوبی افریقی صدر جیکب زوما، جرمن صدر جوشم گاؤک، اسرائیل وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو اور درجنوں دیگر سربراہان مملکت اور دیگر اعلیٰ حکام اور بڑے بڑے بزنس لیڈر شامل ہیں۔