ہم اور ہمارے اپنے
اس آتشزدگی کے حادثے نے دبئی میں اتنے اہم موقع پر ہلچل سی مچا دی
ہر سال کی طرح اس سال کے آغاز پر جس طرح آتشبازی اور رنگ و میلے سجے ظاہر ہے کہ وہ ہر سال کے مقابلے میں بہتر تھے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی اور جدت طرازی نے اس فن میں کچھ اور نکھار پیدا کردیا ہے۔ دبئی میں بھی اس برس کا آغاز پورے جوش و خروش سے کیے جانے کا امکان تھا کہ اچانک ایک ہوٹل سے آگ بھڑک اٹھی اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے کئی فلورز کو نگلنا شروع کردیا، ایک ایسی اسٹیٹ جہاں ایک عام عمارت میں بھی دھوئیں کی بدبو پھیلتے ہی خطرے کے الارم بجنے شروع ہوجاتے ہیں اور فوری طور پر فائر بریگیڈ کا عملہ اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ آن موجود ہوتا ہے آگ کا اس طرح پھیلنا ایک تشویشناک امر تھا۔ لیکن اس آگ پر قابو پالیا گیا۔
اس آتشزدگی کے حادثے نے دبئی میں اتنے اہم موقع پر ہلچل سی مچا دی، مسکراتے چہرے خوفزدہ اور ہراساں سے نظر آئے، لیکن ایسے موقع پر فائر بریگیڈ کا عملہ تندہی سے اپنی ذمے داری نبھاتا رہا۔ اس عملے کے ساتھ دبئی کے حاکم شیخ محمد بن راشد المکتوم کے صاحبزادے شیخ منصور بن محمود بھی شامل تھے۔ ٹوئیٹر پر شایع ہونے والی اس تصویر میں انھیں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، یہ ایک حیران کن بات ہے کہ دبئی جو ایک امیر مملکت کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہے اس کے حاکم کے صاحبزادے فائرفائٹرز کے ساتھ آگ بجھانے میں شامل رہے۔
حالانکہ حاکم دبئی کے ایک جواں سال صاحبزادے کچھ عرصہ قبل ہی اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے، یہ داغ کتنا گہرا ہے اس کا اندازہ ایک باپ ہی کرسکتا ہے لیکن جس طرح شیخ منصور نے آگ بجھانے کے عمل میں حصہ لیا اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، میرے اور آپ جیسے نجانے کتنے افراد ایک عام درجے کے عام سی سوچ رکھنے والے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ ایک اتنی بڑی اسٹیٹ کے حاکم کا بیٹا اور آگ بجھانے کا عمل۔ ایک نظر اپنے اردگرد ڈالیے ایک عام سا افسر، ایک عام سا دکاندار، ایک عام سا زمیندار، اور بہت سے عام سے لوگ اپنے جیسے کتنے عام سے کام جو ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے انجام دے کر ثواب وصول کرسکتے ہیں لیکن بس یہ سوچ کر نہیں کرتے کہ ہم کیوں کریں۔ ہمیں اس سے کیا۔ پھر ایک بڑے باپ کا بڑا بیٹا؟
بڑے باپ کے حوالے سے بات شروع ہوئی ہے تو تذکرہ ہوجائے پچھلے برس کے آخری ہفتے کی ایک خبر کی کہ جس میں ایک اڑتالیس پینتالیس برس کے آدمی کی خودکشی کی خبر تھی جس نے دو تین مہینے قبل اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور اس کے بعد وہ پریشان رہتا تھا نفسیاتی الجھنوں میں گھر گیا تھا اس کے دو بیٹے نو اور سات سالہ بھی بیوی کے پاس تھے وہ شخص اکیلا گھر میں رہتا تھا لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم کردیا تھا، پڑوسیوں کو گھر سے بدبو محسوس ہوئی تو پولیس کو فون کیا اور پولیس نے گھر سے دو دن پرانی لاش برآمد کرلی اس شخص پر شک ہے کہ اس نے کنپٹی پر پستول رکھ کر فائر کیا تھا۔
جس سے اس کا آدھا دماغ اڑ چکا تھا۔ یہ خبر ایکسپریس میں ہی چھپی تھی ایک بڑے گھرانے کا چشم و چراغ جس کے دادا پاکستان بننے سے قبل پردیس ڈاکٹری پڑھنے گئے تھے جو آلو ابال ابال کر کھاتے تھے کیونکہ انھیں پردیس کے کھانوں پر شک تھا کہ اس میں حرام جانور کی چربی کی ملاوٹ نہ ہو اس بڑے ڈاکٹر کا بڑا سا گھر لکھنو میں واقع تھا جس کا ایک حصہ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک ریٹائرڈ استاد کو کرایے پر دے رکھا تھا جہاں وہ استاد خدمت خلق کے جذبے کے تحت مسلمان بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔
یہ گہما گہمی کا وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے قیام کی اہمیت بڑھتی جا رہی تھی بس لفظ پاکستان مملکت کے حوالے سے طے نہ ہوا تھا، تعلیم اور مذہب کے خوبصورت انگ کو نجانے کتنے ان گنت گم نام مجاہد اپنے تئیں ایک شناخت ایک پہچان کے لیے جیسے موتی سے پرو رہے تھے۔ اس بے نام کے اسکول سے نجانے کتنے ہیرے تراشے گئے، ڈاکٹر صاحب کی خاصی جائیداد تھی، وہیں ان کے دل میں دوائیوں کی پروڈکشن کا خیال ابھرا اس زمانے میں دوائیں خاصی مقدار سے بیرون ملک سے آیا کرتی تھیں، وقت کا دھارا بدلا، پاکستان بنا، اس بڑے گھرانے کی جب پاکستان منتقلی ہوئی تو مہاجرین کے ساتھ وہ بھی لٹے پٹے آئے۔
یہاں کچھ جمع پونجی نے کام دکھایا اور دوائیوں کی ایک فیکٹری کی بنیاد رکھی گئی ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے صاحبزادے فیکٹری میں ہی سلفر سے جل کر جوانی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ خاندانی مسائل اور دشواریوں نے بڑے صاحبزادے کو کچھ پریشان کردیا تھا کچھ آسائشوں اور آسانیوں نے بھی انھیں پست ہمت کردیا تھا۔ انھوں نے دو شادیاں کیں۔ مسائل الجھتے گئے بڑے خاندان اونچی شان، اعلیٰ اسٹیٹس کی چبھن بچوں میں سرائیت کرتی گئی بڑی بیگم کے بچے اپنے قدم جما چکے تھے جب کہ چھوٹی بیگم کے بچے کچھ غفلت لاپرواہی سے دو معیاروں کے بیچ پھنس کر رہ گئے تھے، خاندان کے سب لوگ پوش علاقوں میں بڑے بڑے بنگلوں اور کوٹھیوں میں رہتے تھے جب کہ ان کا گھر ان کے لحاظ سے کم حیثیت کا تھا، نہ گاڑی تھی، نہ وہ عیاشیاں ۔ بس ذہنوں پر سوار تھا تو اعلیٰ ہونے کا احساس جو انھیں زندگی کے کسی خانے میں مطمئن نہ رک سکا۔
اگر ہم نے یہ کم حیثیت کا کام کرلیا تو خاندان والے کیا کہیں گے، کیا سوچیں گے؟ یہ احساس کتنا کاری تھا اس کا احساس ایک شخص کی خودکشی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جس کا دادا حرام چیزوں سے اتنا دور رہتا تھا کہ جسے آلو ابال ابال کر کھانا منظور تھا اس کے پوتے نے حرام موت کو گلے لگا لیا یہ کیسا تضاد ہے؟ یہ تضاد ہماری ان معاشرتی ناہمواریوں کو ظاہر کرتا ہے جو ہمیں ہمارے اپنوں سے دور مادیت پرستی کے اس اندھیرے کنوئیں میں دھکیل چکا ہے جس میں غرور، انا، اقربا پروری، کرپشن، نفرتوں کے ناسور کی پھپھوند لگ چکی ہے، ہم تھوڑا سا مال کما لینے، تھوڑا سا نام بنا لینے اور تھوڑے سے رقبے کو پالینے پر غور سے اپنی گردن اتنی اکڑا لیتے ہیں کہ جس کے بعد ہم اردگرد نظر گھما کر دیکھنے کی بھی اہلیت کھو دیتے ہیں۔ ہم وی آئی پی کلچر کا رونا روتے روتے 69 ویں برس میں داخل ہوچکے ہیں۔
لیکن ایک دوسرے کو کم مائیگی کا احساس دلانے میں ذرا چوک نہیں کرتے اور اپنوں کو ہی اپنے سے یوں الگ کردیتے ہیں کہ جیسے ان کا ہمارے وجود سے تعلق ہی نہ ہو۔ بڑے باپ کا بڑا بیٹا بننے کے لیے اگر چھوٹا سا کام بھی کرلیا جائے کہ جس سے خالق باری خوش ہو تو اس میں حرج ہی کیا ہے لیکن رب العزت کو خوش کرنے کے لیے ان کے بندوں کو خوش کرنا ضروری ہے، وسیلہ بس یہی ہے۔
اس آتشزدگی کے حادثے نے دبئی میں اتنے اہم موقع پر ہلچل سی مچا دی، مسکراتے چہرے خوفزدہ اور ہراساں سے نظر آئے، لیکن ایسے موقع پر فائر بریگیڈ کا عملہ تندہی سے اپنی ذمے داری نبھاتا رہا۔ اس عملے کے ساتھ دبئی کے حاکم شیخ محمد بن راشد المکتوم کے صاحبزادے شیخ منصور بن محمود بھی شامل تھے۔ ٹوئیٹر پر شایع ہونے والی اس تصویر میں انھیں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، یہ ایک حیران کن بات ہے کہ دبئی جو ایک امیر مملکت کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہے اس کے حاکم کے صاحبزادے فائرفائٹرز کے ساتھ آگ بجھانے میں شامل رہے۔
حالانکہ حاکم دبئی کے ایک جواں سال صاحبزادے کچھ عرصہ قبل ہی اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے، یہ داغ کتنا گہرا ہے اس کا اندازہ ایک باپ ہی کرسکتا ہے لیکن جس طرح شیخ منصور نے آگ بجھانے کے عمل میں حصہ لیا اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، میرے اور آپ جیسے نجانے کتنے افراد ایک عام درجے کے عام سی سوچ رکھنے والے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ ایک اتنی بڑی اسٹیٹ کے حاکم کا بیٹا اور آگ بجھانے کا عمل۔ ایک نظر اپنے اردگرد ڈالیے ایک عام سا افسر، ایک عام سا دکاندار، ایک عام سا زمیندار، اور بہت سے عام سے لوگ اپنے جیسے کتنے عام سے کام جو ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے انجام دے کر ثواب وصول کرسکتے ہیں لیکن بس یہ سوچ کر نہیں کرتے کہ ہم کیوں کریں۔ ہمیں اس سے کیا۔ پھر ایک بڑے باپ کا بڑا بیٹا؟
بڑے باپ کے حوالے سے بات شروع ہوئی ہے تو تذکرہ ہوجائے پچھلے برس کے آخری ہفتے کی ایک خبر کی کہ جس میں ایک اڑتالیس پینتالیس برس کے آدمی کی خودکشی کی خبر تھی جس نے دو تین مہینے قبل اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور اس کے بعد وہ پریشان رہتا تھا نفسیاتی الجھنوں میں گھر گیا تھا اس کے دو بیٹے نو اور سات سالہ بھی بیوی کے پاس تھے وہ شخص اکیلا گھر میں رہتا تھا لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم کردیا تھا، پڑوسیوں کو گھر سے بدبو محسوس ہوئی تو پولیس کو فون کیا اور پولیس نے گھر سے دو دن پرانی لاش برآمد کرلی اس شخص پر شک ہے کہ اس نے کنپٹی پر پستول رکھ کر فائر کیا تھا۔
جس سے اس کا آدھا دماغ اڑ چکا تھا۔ یہ خبر ایکسپریس میں ہی چھپی تھی ایک بڑے گھرانے کا چشم و چراغ جس کے دادا پاکستان بننے سے قبل پردیس ڈاکٹری پڑھنے گئے تھے جو آلو ابال ابال کر کھاتے تھے کیونکہ انھیں پردیس کے کھانوں پر شک تھا کہ اس میں حرام جانور کی چربی کی ملاوٹ نہ ہو اس بڑے ڈاکٹر کا بڑا سا گھر لکھنو میں واقع تھا جس کا ایک حصہ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک ریٹائرڈ استاد کو کرایے پر دے رکھا تھا جہاں وہ استاد خدمت خلق کے جذبے کے تحت مسلمان بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔
یہ گہما گہمی کا وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے قیام کی اہمیت بڑھتی جا رہی تھی بس لفظ پاکستان مملکت کے حوالے سے طے نہ ہوا تھا، تعلیم اور مذہب کے خوبصورت انگ کو نجانے کتنے ان گنت گم نام مجاہد اپنے تئیں ایک شناخت ایک پہچان کے لیے جیسے موتی سے پرو رہے تھے۔ اس بے نام کے اسکول سے نجانے کتنے ہیرے تراشے گئے، ڈاکٹر صاحب کی خاصی جائیداد تھی، وہیں ان کے دل میں دوائیوں کی پروڈکشن کا خیال ابھرا اس زمانے میں دوائیں خاصی مقدار سے بیرون ملک سے آیا کرتی تھیں، وقت کا دھارا بدلا، پاکستان بنا، اس بڑے گھرانے کی جب پاکستان منتقلی ہوئی تو مہاجرین کے ساتھ وہ بھی لٹے پٹے آئے۔
یہاں کچھ جمع پونجی نے کام دکھایا اور دوائیوں کی ایک فیکٹری کی بنیاد رکھی گئی ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے صاحبزادے فیکٹری میں ہی سلفر سے جل کر جوانی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ خاندانی مسائل اور دشواریوں نے بڑے صاحبزادے کو کچھ پریشان کردیا تھا کچھ آسائشوں اور آسانیوں نے بھی انھیں پست ہمت کردیا تھا۔ انھوں نے دو شادیاں کیں۔ مسائل الجھتے گئے بڑے خاندان اونچی شان، اعلیٰ اسٹیٹس کی چبھن بچوں میں سرائیت کرتی گئی بڑی بیگم کے بچے اپنے قدم جما چکے تھے جب کہ چھوٹی بیگم کے بچے کچھ غفلت لاپرواہی سے دو معیاروں کے بیچ پھنس کر رہ گئے تھے، خاندان کے سب لوگ پوش علاقوں میں بڑے بڑے بنگلوں اور کوٹھیوں میں رہتے تھے جب کہ ان کا گھر ان کے لحاظ سے کم حیثیت کا تھا، نہ گاڑی تھی، نہ وہ عیاشیاں ۔ بس ذہنوں پر سوار تھا تو اعلیٰ ہونے کا احساس جو انھیں زندگی کے کسی خانے میں مطمئن نہ رک سکا۔
اگر ہم نے یہ کم حیثیت کا کام کرلیا تو خاندان والے کیا کہیں گے، کیا سوچیں گے؟ یہ احساس کتنا کاری تھا اس کا احساس ایک شخص کی خودکشی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جس کا دادا حرام چیزوں سے اتنا دور رہتا تھا کہ جسے آلو ابال ابال کر کھانا منظور تھا اس کے پوتے نے حرام موت کو گلے لگا لیا یہ کیسا تضاد ہے؟ یہ تضاد ہماری ان معاشرتی ناہمواریوں کو ظاہر کرتا ہے جو ہمیں ہمارے اپنوں سے دور مادیت پرستی کے اس اندھیرے کنوئیں میں دھکیل چکا ہے جس میں غرور، انا، اقربا پروری، کرپشن، نفرتوں کے ناسور کی پھپھوند لگ چکی ہے، ہم تھوڑا سا مال کما لینے، تھوڑا سا نام بنا لینے اور تھوڑے سے رقبے کو پالینے پر غور سے اپنی گردن اتنی اکڑا لیتے ہیں کہ جس کے بعد ہم اردگرد نظر گھما کر دیکھنے کی بھی اہلیت کھو دیتے ہیں۔ ہم وی آئی پی کلچر کا رونا روتے روتے 69 ویں برس میں داخل ہوچکے ہیں۔
لیکن ایک دوسرے کو کم مائیگی کا احساس دلانے میں ذرا چوک نہیں کرتے اور اپنوں کو ہی اپنے سے یوں الگ کردیتے ہیں کہ جیسے ان کا ہمارے وجود سے تعلق ہی نہ ہو۔ بڑے باپ کا بڑا بیٹا بننے کے لیے اگر چھوٹا سا کام بھی کرلیا جائے کہ جس سے خالق باری خوش ہو تو اس میں حرج ہی کیا ہے لیکن رب العزت کو خوش کرنے کے لیے ان کے بندوں کو خوش کرنا ضروری ہے، وسیلہ بس یہی ہے۔