پٹھان کوٹ ائر بیس پہ پُراسرارحملہ

شمالی بھارت میں بھارتی فضائیہ کے اہم اڈے پر ’’دہشت گردوں‘‘کا دھاوا اپنے پیچھے کئی اسرار چھوڑ گیا…تحقیقی رپورٹ

شمالی بھارت میں بھارتی فضائیہ کے اہم اڈے پر ’’دہشت گردوں‘‘کا دھاوا اپنے پیچھے کئی اسرار چھوڑ گیا…تحقیقی رپورٹ ۔ فوٹو:فائل

2 جنوری کی صبح بھارتی فضائیہ کے اہم ترین جنگی اڈوں میں سے ایک، پٹھان کوٹ ائرفورس اسٹیشن گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں سے سے گونج اٹھا۔ جلد ہی بھارتی میڈیا میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ پاکستان سے آنے والے ''دہشت گردوں'' نے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کردیا ہے۔

ان کا ٹارگٹ وہاں کھڑے جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر ہیں۔اور یہ کہ انھیں پاکستانی خفیہ ایجنسی،آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔بعد ازاں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استعمار سے نبردآزما تنظیم،جیش ِمحمدپر حملے کا الزام لگا دیا۔یہ دعوی درست ہے،تب بھی حملے کے بعض حقائق آشکارا کرتے ہیں کہ بھارتی سیکورٹی فورسز نے حملہ انجام دینے میں ''دہشت گردوں''کا بھرپور ساتھ دیا۔

بارہ اسرار
بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق 30 دسمبر کی رات چھ دہشت گرد پاکستانی ضلع شکر گڑھ سے بھارتی ضلع گورداسپور میں داخل ہوئے۔ پاک بھارت سرحد کی اس سنسان جگہ اونچی گھاس اُگی ہے، اسی لیے دور سے کسی کو دیکھنا تقریباً ناممکن ہے۔اس علاقے میں سرگرم بھارتی اسمگلروں کا نیٹ ورک دہشت گردوں کا ساتھی تھا۔ اسی نے انہیں بھاری اسلحہ مثلاً رائفلیں، ہینڈ گرینڈ لانچر اور (چھوٹی) مارٹر توپیں فراہم کیں۔ اس مقام کے نزدیک ہی بھارتی قصبہ، بامیال واقع ہے۔

یہ دہشت گرد پھر 31 اگست کی رات شاید پیدل سفر کرتے کھٹانہ چوک پہنچے جو تارا گڑھ۔ دینا گڑھ روڈ پر واقع ہے۔ وہاں سے پٹھان کوٹ ائر بیس24 کلومیٹر دور ہے۔وہ قریبی کھیتوں میں چھپ گئے۔ رات دس بجے وہاں ایک ٹیکسی آئی جو اکاگر سنگھ نامی سکھ چلا رہا تھا۔

دہشت گردوں نے اسے روکا، ٹیکسی پر سوار ہوئے اور پٹھان کوٹ کی سمت چل پڑے۔ ڈیڑھ کلو میٹر بعد ٹیکسی کا ٹائر پھٹ گیا یا وہ کسی چٹان سے جا ٹکرائی۔ تب ڈرائیور نے فرار ہونے کی کوشش کی، تو دہشت گردوں نے اسے مار ڈالا۔بعدازاں انکشاف ہوا کہ اکاگر سنگھ کو پاکستان سے موبائل پر کال موصول ہوئی تھی۔ اکاگر سنگھ نے گھر والوں کو بتایا تھا کہ اس نے نزدیکی گاؤں کے ایک مریض کو ہسپتال لے کر جانا ہے۔ وہ پھر ٹیکسی لیے نکل گیا۔

دہشت گردوں نے کسی طرح ٹیکسی چالو کی اور پھر واپس کٹھانہ چوک پہنچے۔ اسی دوران وہاں ایک سفید منی وین آپہنچی۔ وین کے اوپر نصب نیلی بتی اس امر کا ثبوت تھی کہ وہ پولیس گاڑی ہے۔

چونکہ دہشت گرد بھارتی فوج کی وردی میں ملبوس تھے، اس لیے جب انہوں نے وین کو روکا، تو وہ رک گئی۔اس پر تین افراد سوار تھے، گورداسپور پولیس کا ایس پی سلویندر سنگھ، اس کا باورچی گوپال اور جیولر دوست، راجیش ورما۔ گاڑی راجیش چلا رہا تھا۔ دہشت گردوں نے آناًفاناً ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور انہیں وین میں لٹا دیا۔ وین اب ان کے قابو میں تھی۔اس پر چار دہشت گرد سوار ہوئے جبکہ دو ٹیکسی پہ اور یوں یہ قافلہ چل پڑا۔

مُوقر بھارتی اخبار، دی انڈین ایکسپریس کی رو سے تارا گڑھ۔ دینا گڑھ روڈ پر پولیس چوکیاں واقع ہیں۔ پہلے ایک پولیس چوکی سے دہشت گرد ٹیکسی میں آتے جاتے دوبار گزر چکے تھے۔ یہ پہلا اسرار ہے جب ماتھا ٹھنکتا ہے۔کیا اس پولیس چوکی پر متعین پانچ سپاہیوں کو ٹیکسی میں سوار چھ دہشت گردوں پر شک نہیں ہوا؟چلیے پہلے چکر میں پولیس کو شبہ نہیں ہوا۔

مگر دہشت گرد جب ٹیکسی لے کر واپس آئے اور تب ٹیکسی ڈرائیور بھی موجود نہیں تھا... تو کیا اس وقت بھی سپاہی چوکنا نہیں ہوئے؟ رات کے اس پہر تو پولیس والے تقریباً ہر گاڑی کی چیکنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے پھر اس مشکوک ٹیکسی کو کھٹانہ چوک کیسے واپس جانے دیا؟

پہلے بیان ہوچکا کہ دہشت گرد مسلح تھے، تبھی انہوں نے فائرنگ کرکے ٹیکسی ڈرائیور کو ہلاک کردیا۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کے پاس بھاری اسلحہ موجود نہیں تھا۔ گویا بھاری اسلحہ انہیں پٹھان کوٹ ائربیس کے نزدیک دیا گیا۔ کیا اسمگلروں کا نیٹ ورک بھارتی پنجاب میں اتنا زیادہ اثرو رسوخ رکھتا ہے کہ اس نے چھوٹی توپیں تک پٹھان کوٹ ایئربیس تک پہنچا دیں ۔

جس کا شمار بھارتی فضائیہ کے اہم ترین جنگی اڈوں میں ہوتا ہے اور اسے شناخت تک نہیں کیا گیا؟یہ دوسرا اسرار ہے۔اب تیسری پُراسرار بات دیکھیے۔ جب دہشت گرد ایس پی کی وین پر قبضہ کرچکے، تو اس سے ایک پیغام نشر کیا گیا... یہ کہ ایس پی صاحب پولیس چوکیوں کا ''سرپرائز''جائزہ لینے آرہے ہیں۔

لہٰذا سبھی سپاہی و افسر ہوشیار و مستعد رہیں۔یہ پولیس وین پھر تارا گڑھ۔ دینا گڑھ روڈ پر سفر کرتی رات گیارہ بجے گورداسپور۔ پٹھان کوٹ ہائی وے پہنچی۔ راستے میں نیلی بتی کی وجہ سے کسی نے اسے نہیں روکا۔ حتیٰ کہ درج بالا ہائی وے کے ٹول پلازہ پر بھی کسی پولیس افسر نے وین روکنے کی زحمت نہ کی کیونکہ سبھی کو علم تھا کہ اس میں ایس پی گورداسپور سوار ہیں۔ یہی امر بہت عجیب ہے۔

دراصل پانچ ماتحت خواتین نے شکایت کی تھی کہ ایس پی سلویندر سنگھ ان کا جنسی استحصال کرتا ہے۔ اس شکایت پر سلویندر سنگھ کا تبادلہ پنجاب آرمڈ پولیس کی 75 بٹالین میں کردیا گیا۔ گویا اب وہ ایس پی گورداسپور نہیں رہا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق وہ اپنے دوست، ورما کے ساتھ درگاہ پنج پیر کی یاترا کرنے گیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ضلع گورداسپور کی پولیس اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ اب سلویندر سنگھ ضلع کا ایس پی نہیں رہا؟ یقیناً انہیں ایس پی کے تبادلے کی خبر مل چکی تھی۔

لہٰذا جب اس کی وین سے یہ پیغام نشر ہوا کہ ایس پی سلویندر سنگھ ''سرپرائز'' چیکنگ کرنے آرہے ہیں تو پولیس والے کیوں حیران نہیں ہوئے؟ انہوں نے کیوںنہیں سوچا کہ دال میں کچھ کالا ہے؟ یہ حیرت انگیز چوتھا اسرار ہے کہ کسی پولیس چوکی پر سابق ایس پی کی کار نہیں روکی گئی جبکہ منظر سے سلویندر سنگھ ''غائب'' تھا۔بھارتی میڈیا کے مطابق دہشت گرد خود کار چلا رہے تھے۔ انہوں نے تینوں مسافروں کو رسی سے باندھ کر فرش پر لٹا دیا تھا۔ جب سپاہیوں اور افسروں نے اجنبی لوگوں کو ایس پی کی وین چلاتے دیکھا، تو اسے روکنے کی کیوں کوشش نہ کی؟ وہ شک و شبے میں کیوں مبتلا نہیں ہوئے؟

پانچویں پُراسرار بات یہ کہ سابق ایس پی سرکاری ڈیوٹی پر نہیں تھا، پھر بھی وہ نیلی بتی لگا کر وین پر سوار پایا گیا۔ پولیس افسر جب سرکاری ڈیوٹی پر ہوں، تبھی اپنی گاڑی پر نیلی بتی لگاتے ہیں۔ بہرحال گورداسپور۔ پٹھان کوٹ ہائی وے ٹول پلازہ عبور کرنے کے بعد دہشت گردوں نے ایک سنسان مقام پر بندھے ایس پی اور اس کے باورچی کو پھینکا اور راجیش ورما کو لیے آگے روانہ ہوگئے۔


ایس پی نے خود کو آزاد کرایا اور پھر اپنے باورچی کی رسیاں کھولیں۔ وہ پھر قریبی گاؤں پہنچے۔ وہاں ایک شخص سے موبائل لے کر ایس پی نے اعلیٰ افسروں کو سارا واقعہ سنایا۔ تاہم مشکوک کردار کی وجہ سے کسی نے سلویندر سنگھ کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پولیس نے باورچی کو مارا پیٹا تاکہ اس سے سچ اگلوا سکے۔ پولیس کو یقین تھا کہ باورچی کے ساتھیوں نے گاڑی اغوا کی ہے۔

چھٹا اسرار یہ کہ بھارتی میڈیا کی رو سے پولیس نے ایس پی کی باتوں پر یقین نہیں کیا۔ دوسری طرف ایس پی کا دعویٰ ہے کہ اس کی رپورٹ پر حکومت چوکنا ہوگئی۔ لہٰذا حکومت نے ایئربیس کی حفاظت کے لیے فوجی دستے بھیج دیئے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کون سی بات درست ہے؟

جیولر راجیش ورما کا کہنا ہے کہ کچھ دور آگے جاکر اس نے دہشت گردوں کو بتایا کہ ایک بندھا شخص ایس پی تھا۔ وہ پھر وین موڑ کر اس جگہ پہنچے جہاں ایس پی اور باورچی کو پھینکا گیا تھا مگر وہ جاچکے تھے۔یہ ساتواں اسرار ہے۔دہشت گردوں نے ایک عام ٹیکسی ڈرائیور کو تو قتل کرڈالا مگر سلویندر سنگھ کورہا کردیا۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ بات بھی کھٹکتی ہے کہ دہشت گرد ایس پی کو نہ پہچان سکے۔ وہ چہرے مہرے سے واضح طور پر اعلیٰ پولیس افسر دکھائی دیتا ہے۔ پھر اس کی وین پر نیلی بتی نصب تھی۔ سب سے بڑھ کر ''سرپرائز چیکنگ'' والا پیغام ثابت کرتا ہے کہ دہشت گرد اس کی اصلیت جان چکے تھے۔

مزید آگے جاکر دہشت گردوں نے راجیش ورما کا گلا کاٹا، اسے مرنے کے لیے ایک جگہ پھینکا اور آگے بڑھ گئے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ورما بھی گلا کٹنے کے باوجود زندہ بچ گیا۔ (اور محض دو روز علاج کے بعد گھر چلا گیا)۔ یہ امر آٹھواں اسرار ہے۔اور نواں اس داستان طلسم ہوشربا میں ٹیکسی کا کردار ! وہ وین کے پیچھے تھی یا آگے، یہ پتا نہیں چلتا۔ تاہم ایس پی اور ورما کے بیانات سے عیاں ہے کہ ٹیکسی وین سے آگے سفر کررہی تھی... اور اسے راستے میں کسی پولیس چوکی پر روکا نہیں گیا۔

اس ڈرامے کا شاید اہم ترین اوردسواں اسرار یہ ہے کہ دہشت گرد بھارت پہنچتے ہی مغویوں کے موبائل فونوں سے پاکستان میں موجود اپنے ''ہینڈلروں'' سے باتیں کرنے لگے۔ مثلاً بھارتی سکیورٹی فورسز کے بقول ٹیکسی ڈرائیور کے فون سے آٹھ کالیں پاکستان کی گئیں۔ اسی طرح ایس پی، راجیش ورما اور باورچی کے موبائلوں سے بھی پاکستان کالیںہوئیں۔ زیادہ تر کا لیں بہاولپور کی گئیں' بھارتی میڈیا کی رو سے بہاولپور میں جیش محمد کا ہیڈکوارٹر واقع ہے۔ اسی لیے بھارت میں شور مچ گیا کہ یہ حملہ جیش محمد کے فدائین نے کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ دہشت گرد خفیہ طور پر ایک نہایت خطرناک آپریشن کرنے جارہے تھے۔ درحقیقت پٹھان کوٹ ائربیس پر حملہ خودکش مشن تھا۔ مگر وہ جیسے ہی بھارت میں داخل ہوئے، پاکستان موبائل کالیں کرکے بھارتی سیکورٹی فورسز کو اپنی موجودگی کی اطلاع دینے لگے۔ یہ تو ''آبیل مجھے مار'' والی بات تھی۔دہشت گردوں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ وہ یکم جنوری کی صبح ائربیس کے قریب واقع جنگل میں جاچھپے... اور وہاں بھی مغویوں کے موبائلوں سے پاکستان کالیں کرتے رہے۔ گویا انہوں نے اس بات کا خاص اہتمام کیا کہ بھارتی سکیورٹی فورسز ان کی آمد سے مطلع ہوجائیں۔

یہ نہایت عجیب و غریب بات ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق یکم جنوری کی سہ پہر تک بھارتی سکیورٹی فورسز کو موبائل کالوں کے باعث ہی معلوم ہوگیا کہ دہشت گرد جنگل میں چھپے ہوئے ہیں۔ درست کہ وہ جنگل کئی ہزار ایکڑ پر محیط ہے لیکن اب جدید ترین ٹریکنگ آلات کی مدد سے موبائل فون کرنے والے کو پن پوائنٹ کرنا ممکن ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی، بس ایئربیس کی سکیورٹی بڑھادی گئی۔یہ گیارہواں اسرار ہے۔

یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ دہشت گردوں کی نشان دہی ہو جانے کے بعد انہیں پکڑنے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ اس علاقے میں بھارتی فوج کا پورا ایک ڈویژن تعینات ہے۔ بھارتی حکومت چاہتی، تو تمام وسائل بروئے کار لاکر جنگل میں چھپے دہشت گردوں تک پہنچ جاتی مگر ان کا انتظار کرنے کو ترجیح دی گئی۔مگر یہ حکمت عملی بھی بری طرح ناکام ہوئی۔

دہشت گردوں نے نہ صرف 13 میٹر (42.65 فٹ)بلند دیوار کامیابی سے پھلانگ لی بلکہ اپنے ساتھ بھاری اسلحہ،خوراک اور ادویہ بھی لے جانے میں کامیاب رہے۔وہ ائربیس کے لنگر خانے میں داخل ہوئے اور تمام تر سکیورٹی کے باوجود سات بھارتی فوجی ہلاک کر ڈالے۔ اس کے قریب ہی وہ ہینگر واقع ہیں جہاں جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر کھڑے ہوتے ہیں۔ دہشت گرد اسی علاقے میں مارے گئے وہ بھی قسطوں کی صورت! پہلے 2 جنوری کو چار مرے اور پھر 3 جنوری کو بقیہ دو مارے گئے۔گویا مقابلہ تین دن جاری رہا اتنا طویل مقابلہ ہونا بارہواں اسرار ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق دہشت گرد یکم جنوری کو علی الصبح تین بجے ائربیس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ حملے کا بہترین وقت وہی تھا۔ مگر وہ جنگل میں بیٹھے رات ہونے کا انتظار اور کالیں کرتے رہے۔درج بالا سبھی اسرارعیاں کرتے ہیں کہ حملہ آوروں کو بھارتی سکیورٹی فورسز میں موجود عناصر کی حمایت حاصل تھی۔ 4جنوری کو بھارت کے موقر روزنامے، ''دی ہندو'' میں ایک مضمون ''Terrorists in hiding spring a surprise''شائع ہوا۔ اس کا ایک اقتباس حملے کے ڈرامے کا خلاصہ کچھ یوں پیش کرتا ہے:

''مارے جانے والے لیفٹیننٹ کرنل نرنجن کمار کے ایک ساتھی نے مجھے بتایا ''لگتا ہے، کسی کی شدید خواہش تھی کہ پٹھان کوٹ ایئربیس پہ حملہ ہر قیمت پر ہوجائے۔ اسی لیے بے پناہ عسکری وسائل ہوتے ہوئے بھی دہشت گردوں کو نہیں پکڑا گیا۔''

٭٭

شاید یہ حملہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے عقابوں نے کرایا جو پاکستان سے دوستی کے خواہاں نہیں۔ممکن ہے،یہ حملہ پاکستانی جنگجوؤں نے کیا جنھیں سرحد پہ مصروف کار اسمگلروں اور سکھ تنظیم،ببر خالصہ کی حمایت حاصل تھی۔ہو سکتا ہے،یہ حملہ ان بیرونی طاقتوں نے کرایا جو پاک بھارت دوستی کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتی ہیں،مثلاً دونوں ملکوں کو اسلحہ فروخت کرنے والی سپرپاورز۔لیکن بھارتی حکمران طبقے کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا،دونوں پڑوسی ممالک جنگ کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔

ائربیس ایک نظرمیں
بھارت نے آزادی کے بعد پٹھان کوٹ شہر سے تین کلو میٹر دور ائربیس کی بنیاد رکھی۔ ائربیس کی تنصیبات 75 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ تاہم اس کے اردگرد دو ہزار ایکڑ رقبہ بھی بھارتی فضائیہ کی ملکیت ہے۔ اس رقبے پر درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ واقع ہیں۔پٹھان کوٹ ائربیس پر بھارتی فضائیہ کا 108 سکوارڈن تعینات ہے۔

یہ ''اڑتے قبرستان'' کے خطاب سے موسوم روسی جنگی جہاز مگ 21- سے لیس ہے۔اس امر سے عیاں ہے کہ ائربیس پر حملہ علامتی تھا کیونکہ جدید فضائی جنگ میں مگ 21- کی حیثیت تقریباً صفر ہو چکی۔ (ایک اسکواڈرن میں عموماً 24 جنگی جہاز شامل ہوتے ہیں)۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں پاک فضائیہ نے اس بھارتی ائربیس پر جارحانہ حملے کیے تھے۔
Load Next Story