تنخواہیں دو
پورٹ قاسم کراچی کے قریب واقع اس ادارے کے ہزاروں ملازمین کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے
چند روز پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست نے ایک ایسے فرد سے ملایا جو کہ ہم سے ملاقات کا شدت کے ساتھ متمنی تھا اور خواہش رکھتا تھا کہ ہم کسی طرح بھی اس ملک کی مخیر نامور شخصیات کے نام کالم لکھ دیں۔ جب ہم نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے اپنا دکھڑا سنا ڈالا کہ وہ جس ادارے میں کام کرتے ہیں وہاں ملازمین کو گذشتہ چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ پورٹ قاسم کراچی کے قریب واقع اس ادارے کے ہزاروں ملازمین کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، مالی بحران کے باعث وقت پر تنخواہ نہ مل نے کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور نوبت اب یہاں تک آپہنچی ہے کہ ریٹائر ہونیوالے ملازمین کو ان کے ریٹائرمنٹ کے پیسے نہیں ملتے، جو ملازمین اپنے ہی فنڈ سے پیسے نکلوا لیتے تھے اس پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، میڈیکل کی سہولت ایک عرصے سے بالکل ہی بند ہے۔
اب بتائیے کہ ملازمین کیا کریں؟ گھر کا چولہا کیسے جلائیں؟ بچوں کے اسکول کی فیسیں کہاں سے دیں؟ ریٹائرمنٹ کا پیسہ نہ ملنے سے بہت سے ملازمین اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے سے قاصر ہیں، اب تو اس ادارے کا ملازم ہونے پر کوئی انھیں ادھا ر بھی نہیں دیتا کہ یہ ادھار واپس کیسے کریں گے؟ ان کا شکوہ تھا کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں ہے اور یہ ادارہ اس جماعت کے بانی بھٹو کی نشانی ہے مگر افسوس یہ برسراقتدار جماعت بھی کچھ نہیں کرتی۔ راقم ان کی بپتا سن کر نہایت اداس ہوگیا اور پوچھا کہ کوئی مخیر شخص کیسے ان کی مدد کرسکتا ہے، یہ تو حکومت کے کرنے کا کام ہے۔
یہ صاحب بولے کہ اگر کوئی مخیر شخص اس ادارے کو خرید لے تو کم از کم ہم اپنی ریٹائرمنٹ لے لیں گے، ہمیں یقین ہے کہ پھر ہمیں ریٹائرمنٹ کے پیسے بھی مل جائیں گے اور دیگر ملازمین کو ان کی تنخواہیں بھی۔ ہم نے ان سے دوسرا سوال کیا کہ آخر اس ادارے کا کوئی مخیر شخص کیا کرے گا؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس ادارے کی اتنی وسیع زمین ہے کہ وہ اس پر اپنے نئے پروجیکٹ بھی بناسکتے ہیں۔
ویسے بھی کوئی رحمدل انسان ہماری آواز پر کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لے گا۔بحیثیت ایک کالم نگار مجھے بھی پاکستان کے کئی ایک ایسے اداروں کے ملازمین کی حالت زار کا علم ہے جو کئی کئی ماہ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں، لہٰذا ہم نے ان صاحب کے کہنے پر اپنا ایک کالم وقف کرنے کا فیصلہ کیا، اگر کوئی امیر اور نامور بزنس مین اس ضمن میں کوئی کردار ادا کرکے انسانیت کی خدمت کرسکے تو اس ملک و قوم کی بڑی خدمت ہوگی، ہماری تمام کاروباری بڑی بڑی شخصیات سے یہ درخواست بھی ہے کہ وہ ضرور اپنے اداروں میں کام کرنیوالے ملازمین کے مسائل وقفے وقفے سے ازخود جائزہ لیا کریں، خاص کر تنخواہوں کی ادائیگی اور ان میں اضافے کے مسئلے کو جانچا کریں، کیوںکہ عموماً کسی بھی ادارے کے مالک کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ادارے میں ملازمین کے ساتھ کس قدر زیادتی ہورہی ہے۔
بحثیت مسلم ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ حقوق العباد معاف نہیں ہوتے جب تک کہ متاثرہ فریق معاف نہ کرے۔یہ ایک خوف ناک ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ اب کچھ ادارے اپنے ملازمین کو کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں دیتے، دو ہفتے قبل ایک ٹی وی چینل پر اساتذہ کرام کے کراچی میں احتجاج کے حوالے سے پروگرام نشر ہورہا تھا جس میں اسکول کے اساتذہ شکوہ کر رہے تھے کہ انھیں چار، پانچ ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، ایک خاتون نے کہا کہ انھیں بھی چار ماہ سے کوئی تنخواہ نہیں ملی جب کہ ان کے شوہر جو فشری کے محکمے میں کام کرتے ہیں انھیں تو ایک سال سے تنخواہ نہیں ملی۔
ہمارے سماجی ماہرین، حکومتی ذمے داروں، مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں اور معاشرے کے تمام افراد کو اس مسئلے پر سوچ بچار کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جس خاندان کے معاشی کفیل کی ماہانہ آمدنی بند ہوگئی ہو وہ گھر کے اخراجات کیسے پورے کررہا ہوگا؟ اس کے گھر کا چولہا کیسے جل رہا ہوگا؟ اگر گھر کا چولہا نہیں جل رہا ہے تو لوگوں کی ایک ایسی بڑی تعداد ہمارے معاشرے میں فاقے سے ہے؟
ہم تو سنتے ہیں کہ (اسلامی نقطہ نظر سے) اگر کوئی کتا بھی بھوکا مرجائے تو اس کا حساب روز قیامت حکمران کو دینا ہوگا (اگر سول سوسائٹی والے ماڈرن نظریے سے دیکھا جائے تو ایک انسان کو روٹی تو کیا اس کو تعلیم و صحت سمیت اور بھی بہت سے حقوق دینا ہوں گے) اور اگر بالفرض ایسے افراد کے ہاں گھر کا چولہا جل رہا ہے تو اور بھی فکر کی بات ہے کہ آخر ان کے پاس اخراجات کے لیے پیسے کہاں سے آرہے ہیں؟ کسی سے ادھار لے کر وہ قرض کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں یا کہ ناجائز ذرایع سے رجوع کررہے ہیں؟ (ایسے پریشان حال لوگ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے لیے استعمال بھی ہو سکتے ہیں کہ بھوک انسان کو بہت کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
پھر جس ملک میں اداروں سے تنخواہیں بھی نہ ملیں، اس سے وفاداری میں بھی کمی آسکتی ہے)۔ ناجائز ذرایع استعمال کرنے کا مطلب ان کی تنخواہ روکنے والوں نے اس معاشرے میں ناجائز ذرایع کے استعمال کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ویسے بھی جس شخص کی مہینوں کی تنخواہیں ادا نہ کی جائیں وہ آخر کب تک حلال و حرام یا جائز و ناجائز کے فلسفے پر چل سکتا ہے؟مختصر الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاشرے میں تنخواہیں روکنے کے کلچر کو فروغ دے کر درحقیقت ہم ناجائز اور غلط ذرایع آمدنی کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں، بلکہ ایسے افراد کو کردار سے عاری بنا کر اپنے معاشرے کو برائی اور تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔
بھوک نہ تو آداب کے سانچوں میں ڈھل سکتی ہے اور نہ ہی کسی فرد کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز سکھا سکتی ہے اور ذرا ایک نظر اس طبقے پر تو ڈالیے جو مستقبل کے معماروں کی تربیت کرکے انھیں ملک کے لیے ایک اچھے شہری کے طور پر تیار کرتے ہیں، ان میں اعلیٰ قدریں پیدا کرتے ہیں اور اس کے لیے نہ صرف انھیں درس دیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ایک نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غور کیجیے کہ جب ایک طالبعلم کے لیے ایک استاد بہترین نمونہ ہی نہ رہے، وہ خود چار، چار ماہ تنخواہ نہ ملنے پر اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے کے لیے جائز و ناجائز کے اصول کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوجائے تو پھر طالبعلم بھلا کیا تربیت پا سکے گا؟
طالب علم کے سامنے جب سڑکوں پر پولیس کے ہاتھوں مار کھاتا استاد نظر آئے، واٹر کینن سے بھیگا ہوا اور مہینوں سے تنخواہوں سے محروم استاد نظر آئے تو وہ طالب علم کسی استاد کا کیا مقام و مرتبہ سمجھے گا؟بہرکیف تنخواہوں سے محروم ایک استاد ہو یا عام آدمی، اس معاشرے کے لیے ناسور تو بن سکتا ہے، اس معاشرے کو خراب تو کرسکتا ہے، مگر بطور ایک شہری کبھی بھی مثبت کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری و نجی اداروں میں لوگوں کا کئی کئی ماہ تنخواہوں سے محروم ہونا انتہائی شرمناک بھی ہے اور خطرناک بھی ہے۔
یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں، اس سے معاشرہ منفی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے، لہٰذا ہماری سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے کو جو ایک عام سا رویہ بنتا جارہا ہے، بھرپور طریقے سے روکنے کی کوشش کریں اورنجی و سرکاری اداروں میں اس عمل کو روکنے کے لیے متحرک کردار ادا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ پورٹ قاسم کراچی کے قریب واقع اس ادارے کے ہزاروں ملازمین کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، مالی بحران کے باعث وقت پر تنخواہ نہ مل نے کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور نوبت اب یہاں تک آپہنچی ہے کہ ریٹائر ہونیوالے ملازمین کو ان کے ریٹائرمنٹ کے پیسے نہیں ملتے، جو ملازمین اپنے ہی فنڈ سے پیسے نکلوا لیتے تھے اس پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، میڈیکل کی سہولت ایک عرصے سے بالکل ہی بند ہے۔
اب بتائیے کہ ملازمین کیا کریں؟ گھر کا چولہا کیسے جلائیں؟ بچوں کے اسکول کی فیسیں کہاں سے دیں؟ ریٹائرمنٹ کا پیسہ نہ ملنے سے بہت سے ملازمین اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے سے قاصر ہیں، اب تو اس ادارے کا ملازم ہونے پر کوئی انھیں ادھا ر بھی نہیں دیتا کہ یہ ادھار واپس کیسے کریں گے؟ ان کا شکوہ تھا کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں ہے اور یہ ادارہ اس جماعت کے بانی بھٹو کی نشانی ہے مگر افسوس یہ برسراقتدار جماعت بھی کچھ نہیں کرتی۔ راقم ان کی بپتا سن کر نہایت اداس ہوگیا اور پوچھا کہ کوئی مخیر شخص کیسے ان کی مدد کرسکتا ہے، یہ تو حکومت کے کرنے کا کام ہے۔
یہ صاحب بولے کہ اگر کوئی مخیر شخص اس ادارے کو خرید لے تو کم از کم ہم اپنی ریٹائرمنٹ لے لیں گے، ہمیں یقین ہے کہ پھر ہمیں ریٹائرمنٹ کے پیسے بھی مل جائیں گے اور دیگر ملازمین کو ان کی تنخواہیں بھی۔ ہم نے ان سے دوسرا سوال کیا کہ آخر اس ادارے کا کوئی مخیر شخص کیا کرے گا؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس ادارے کی اتنی وسیع زمین ہے کہ وہ اس پر اپنے نئے پروجیکٹ بھی بناسکتے ہیں۔
ویسے بھی کوئی رحمدل انسان ہماری آواز پر کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لے گا۔بحیثیت ایک کالم نگار مجھے بھی پاکستان کے کئی ایک ایسے اداروں کے ملازمین کی حالت زار کا علم ہے جو کئی کئی ماہ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں، لہٰذا ہم نے ان صاحب کے کہنے پر اپنا ایک کالم وقف کرنے کا فیصلہ کیا، اگر کوئی امیر اور نامور بزنس مین اس ضمن میں کوئی کردار ادا کرکے انسانیت کی خدمت کرسکے تو اس ملک و قوم کی بڑی خدمت ہوگی، ہماری تمام کاروباری بڑی بڑی شخصیات سے یہ درخواست بھی ہے کہ وہ ضرور اپنے اداروں میں کام کرنیوالے ملازمین کے مسائل وقفے وقفے سے ازخود جائزہ لیا کریں، خاص کر تنخواہوں کی ادائیگی اور ان میں اضافے کے مسئلے کو جانچا کریں، کیوںکہ عموماً کسی بھی ادارے کے مالک کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ادارے میں ملازمین کے ساتھ کس قدر زیادتی ہورہی ہے۔
بحثیت مسلم ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ حقوق العباد معاف نہیں ہوتے جب تک کہ متاثرہ فریق معاف نہ کرے۔یہ ایک خوف ناک ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ اب کچھ ادارے اپنے ملازمین کو کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں دیتے، دو ہفتے قبل ایک ٹی وی چینل پر اساتذہ کرام کے کراچی میں احتجاج کے حوالے سے پروگرام نشر ہورہا تھا جس میں اسکول کے اساتذہ شکوہ کر رہے تھے کہ انھیں چار، پانچ ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، ایک خاتون نے کہا کہ انھیں بھی چار ماہ سے کوئی تنخواہ نہیں ملی جب کہ ان کے شوہر جو فشری کے محکمے میں کام کرتے ہیں انھیں تو ایک سال سے تنخواہ نہیں ملی۔
ہمارے سماجی ماہرین، حکومتی ذمے داروں، مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں اور معاشرے کے تمام افراد کو اس مسئلے پر سوچ بچار کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جس خاندان کے معاشی کفیل کی ماہانہ آمدنی بند ہوگئی ہو وہ گھر کے اخراجات کیسے پورے کررہا ہوگا؟ اس کے گھر کا چولہا کیسے جل رہا ہوگا؟ اگر گھر کا چولہا نہیں جل رہا ہے تو لوگوں کی ایک ایسی بڑی تعداد ہمارے معاشرے میں فاقے سے ہے؟
ہم تو سنتے ہیں کہ (اسلامی نقطہ نظر سے) اگر کوئی کتا بھی بھوکا مرجائے تو اس کا حساب روز قیامت حکمران کو دینا ہوگا (اگر سول سوسائٹی والے ماڈرن نظریے سے دیکھا جائے تو ایک انسان کو روٹی تو کیا اس کو تعلیم و صحت سمیت اور بھی بہت سے حقوق دینا ہوں گے) اور اگر بالفرض ایسے افراد کے ہاں گھر کا چولہا جل رہا ہے تو اور بھی فکر کی بات ہے کہ آخر ان کے پاس اخراجات کے لیے پیسے کہاں سے آرہے ہیں؟ کسی سے ادھار لے کر وہ قرض کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں یا کہ ناجائز ذرایع سے رجوع کررہے ہیں؟ (ایسے پریشان حال لوگ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے لیے استعمال بھی ہو سکتے ہیں کہ بھوک انسان کو بہت کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
پھر جس ملک میں اداروں سے تنخواہیں بھی نہ ملیں، اس سے وفاداری میں بھی کمی آسکتی ہے)۔ ناجائز ذرایع استعمال کرنے کا مطلب ان کی تنخواہ روکنے والوں نے اس معاشرے میں ناجائز ذرایع کے استعمال کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ویسے بھی جس شخص کی مہینوں کی تنخواہیں ادا نہ کی جائیں وہ آخر کب تک حلال و حرام یا جائز و ناجائز کے فلسفے پر چل سکتا ہے؟مختصر الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاشرے میں تنخواہیں روکنے کے کلچر کو فروغ دے کر درحقیقت ہم ناجائز اور غلط ذرایع آمدنی کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں، بلکہ ایسے افراد کو کردار سے عاری بنا کر اپنے معاشرے کو برائی اور تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔
بھوک نہ تو آداب کے سانچوں میں ڈھل سکتی ہے اور نہ ہی کسی فرد کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز سکھا سکتی ہے اور ذرا ایک نظر اس طبقے پر تو ڈالیے جو مستقبل کے معماروں کی تربیت کرکے انھیں ملک کے لیے ایک اچھے شہری کے طور پر تیار کرتے ہیں، ان میں اعلیٰ قدریں پیدا کرتے ہیں اور اس کے لیے نہ صرف انھیں درس دیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ایک نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غور کیجیے کہ جب ایک طالبعلم کے لیے ایک استاد بہترین نمونہ ہی نہ رہے، وہ خود چار، چار ماہ تنخواہ نہ ملنے پر اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے کے لیے جائز و ناجائز کے اصول کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوجائے تو پھر طالبعلم بھلا کیا تربیت پا سکے گا؟
طالب علم کے سامنے جب سڑکوں پر پولیس کے ہاتھوں مار کھاتا استاد نظر آئے، واٹر کینن سے بھیگا ہوا اور مہینوں سے تنخواہوں سے محروم استاد نظر آئے تو وہ طالب علم کسی استاد کا کیا مقام و مرتبہ سمجھے گا؟بہرکیف تنخواہوں سے محروم ایک استاد ہو یا عام آدمی، اس معاشرے کے لیے ناسور تو بن سکتا ہے، اس معاشرے کو خراب تو کرسکتا ہے، مگر بطور ایک شہری کبھی بھی مثبت کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری و نجی اداروں میں لوگوں کا کئی کئی ماہ تنخواہوں سے محروم ہونا انتہائی شرمناک بھی ہے اور خطرناک بھی ہے۔
یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں، اس سے معاشرہ منفی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے، لہٰذا ہماری سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے کو جو ایک عام سا رویہ بنتا جارہا ہے، بھرپور طریقے سے روکنے کی کوشش کریں اورنجی و سرکاری اداروں میں اس عمل کو روکنے کے لیے متحرک کردار ادا کریں۔