’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘

سندھ کے 18 لاکھ ، بلوچستان کے 5 لاکھ 40 ہزار ، خیبرپختونخواہ کے 4 لاکھ اور پنجاب کے 29 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے

ر سال صرف پانچویں جماعت تک 80 فیصد بچے نامساعد حالات اور معاشرے کی ناانصافیوں کی وجہ تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں فوٹو : فائل

آئی ایس پی آر نے جب سے یہ نغمہ ریلیز کیا ہے ''مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے'' ، تب سے پاکستان کے تعلیمی منظرنامے کے تناظر میں اس پر بہت تنقید کی جارہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کے مفلوک الحال بچوں کو پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ کوڑا کرکٹ اٹھاتے یا موٹر مکینک کے طور پر کام کرتے دکھایا اور پہلے انہیں خواندہ بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔

پاک فوج کی جانب سے اس نغمے میں جس عزم کا اظہار کیا ہے ، یقینا بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے ۔ یہ نغمہ آرمی پبلک سکول پشاور اور باچاخان یونیورسٹی چارسدہ کے شہید طلباء کے پُرعزم بھائیوں ، دوستوں اور ساتھیوں کی پکار ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے بھی شہدائے پشاور کی پہلی برسی کے موقع پر آئندہ سے ہر سال 16 دسمبر کو ''قومی عزم تعلیم'' کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے ۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے 122 سکولوں اور کالجوں کو شہید طلبہ سے موسوم کیا ہے ۔ یہ اقدامات واضح پیغام ہیں کہ آئندہ ایسے واقعات کا مقابلہ تعلیم کے ذریعے کیا جائے گا ۔ تاہم اس ضمن میں ہمارا معیار تعلیم کہاں کھڑا ہے ، یہ ایک الگ سوال ہے جو یقینا کسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے ۔ البتہ اس نغمے پر تنقید کرنے والوں سے اختلاف کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات ، دہشت گردی اور افراتفری کے اس غیر یقینی ماحول میں اس سے بڑا اور کوئی انتقام نہیں کہ بندوق کا مقابلہ قلم سے کیاجائے ۔

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت سندھ کے 18 لاکھ ، بلوچستان کے 5 لاکھ 40 ہزار ، خیبرپختونخواہ کے 4 لاکھ اور پنجاب کے 29 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے اور جو جارہے ہیں ان میں سے بھی تعلیمی عمل کے عین درمیان سکول چھوڑ دینے والوں کی سالانہ تعداد کم و بیش 60 فیصد سے زائد ہے۔ ہر سال صرف پانچویں جماعت تک 80 فیصد بچے نامساعد حالات اور معاشرے کی ناانصافیوں کی وجہ تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ بلاشبہ اس ڈراپ آؤٹ ریشو کو کم کرنا دشمن کے بچوں کو پڑھانے سے بڑا چیلنج ہے۔

اس امر سے بھی اختلاف نہیں کہ ہم بحیثیت قوم 68 سال گزر جانے کے بعد بھی مجموعی شرح خواندگی محض 58 فیصد تک ہی لے جا سکے ہیں بالخصوص دیہاتوں میں وڈیروں اور جاگیرداروں کا خوف ختم کرتے ہوئے آؤٹ آف سکول بچوں کو پڑھانا ایک بڑا ٹیسٹ کیس ہے ۔

اس ''قومی بدقسمتی'' پر بھی ندامت ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ملینئم ڈویلپمنٹ گول کے طے شدہ اہداف کے مطابق 2015 تک یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے سو فیصد حصول کا ہدف بڑے بڑے دعوؤں اور مہمات کے باوجود حاصل نہیں ہو سکااور بلاشبہ مذکورہ تمام صورتحال دشمن کے بچوں سے بڑھ کر اپنے بچوں کی تعلیم کا تقاضا کرتی ہے ۔ یہ بچے تعلیم یافتہ ہوں گے تو اپنے کردار اور عمل سے بندوق و بم بردار انتہاپسندوں کا مقابلہ کریں گے۔


اس ضمن میں میری رائے ہے کہ یہ ''دشمن'' وہ نہیں جو عمومی طور پر مراد لیے جاتے ہیں ۔ اس نغمے میں انڈیا ، امریکہ یا افغانستان کے انتہاپسندوں کی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب ، فاٹا ، وزیرستان وغیرہ سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں مذہب ، جہاد اور حقوق کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے والے عناصر کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی بات کی گئی ہے ۔

دشمن ممالک ہمارے جن لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو کالعدم تنظیموں کے نام سے وطن عزیز کا امن تار تار کررہے ہیں ۔ اگر ہم نے آغاز میں ہی انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان بچوں کی ذمہ داری اٹھائی ہوتی تو آج دشمن کو انہیں ''پڑھانے'' یا برین واشنگ کا موقع نہ ملتا ۔ اس نغمے کے مطابق ان امن دشمنوں کے بچوں کو پڑھا کر انہیں تعلیم کے ذریعے جرم سے نفرت سکھائی جائے گی ۔ اس میں یہی پیغام دیا گیا ہے کہ یہاں کے حالات ''ضرب قلم'' سے ہی سنوریں گے ۔

بدقسمتی سے ہم ہر بات میں اپنا من پسند مطلب اخذ کرنے میں جلد باز واقع ہوئے ہیں ۔ ''مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے'' کے عزم کو بھی ہم نے اپنے اسی رویے سے تولا ہے اور اس پربنا سوچے سمجھے تنقید شروع کر دی ہے۔ آئی ایس پی آر کے اس نغمے میں دئیے گئے پیغام کا مقصد اور لُبِ لباب بھی یہی ہے کہ آپ اپنے کردار و عمل اور تعلیم کی قوت سے دہشت گردی کے عفریت کے آگے بند باندھیں۔ جب ہمارا طرز زندگی ایسا ہوگا تو ''دشمن'' نہیں تو کم از کم اس کے بچے ضرور ہم سے مانوس ہوں گے۔ وہ ہم سے سیکھیں گے اور ہمارے ہمدرد اور ہمدم بنیں گے۔ ان کے ذہنوں میں مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کے خلاف نفرت اور انتقام کا جو بیج بویا جا رہا ہے وہ اگر تناور درخت بن بھی گیا تو وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کاٹ ڈالیں گے اور اس کی جگہ امن و محبت کا پودا اُگے گا۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب تعلیمی اصلاحات کے نام پر دھوکہ دہی کی بجائے مساوی بنیادوں پر اس کی فراہمی ممکن بنائی جائے ۔

اکیسویں صدی میں تعلیم ایسی ضرورت بن چکی ہے جس کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن ہی نہیںلیکن بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان کا تعلیمی منظر نامہ کچھ زیادہ خوش کن نہیں ۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد شرح خواندگی بڑھانے کا چیلنج صوبوں کو دیا گیا تھا جس پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے گذشتہ دنوں اسکول ریفارمز پروگرام کا اعلان کرکے تعلیمی اصلاحات کے اس پروگرام کی اسلام آباد سے شروعات ایک خوش آئیند پیش رفت ہے۔ اگر یہ اصلاحات بلوچستان ، اندرون سندھ ، جنوبی پنجاب سے کی جاتیں تو بہتر تھا ۔ وہاں تعلیم وینٹی لیٹر پر ہے اور اس کی صحت یابی کی قریب قریب کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ اسی طرح یو ایس ایڈ کی جانب سے مشعل اوبامہ نے پاکستان میں Let Girls Learn کے نام سے لڑکیوں کی تعلیم کیلئے 20 ملین فنڈ جاری کیا ہے ، اس رقم کی فی الفور صوبوں کو تقسیم کا طریقہ وضع کیا جانا چاہئے تھا ، جوکہ ابھی تک نہیں ہوا ۔ ایسی ہی غیرمنصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے معاشرہ انتشار کا شکار اور لوگ منحرف ہورہے ہیں ۔ جس کا احساس دلاکر ''دشمن'' پیدا کئے جارہے ہیں ۔

ان دشمنوں سے نجات کیلئے ہمیں نچلی سطح پر کام کا آغاز کرنا ہے ۔ بالکل اسی طرح ، جیسے پنجاب میں آؤٹ آف سکول بچوں اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں ۔ پنجاب میں آؤٹ آف سکول بچوں کیلئے خصوصی پراجیکٹ کے تحت چائلڈ لیبر کے تدارک کیلئے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے 14 سال سے کم عمر بچوں کے کام کرنے پر پابندی لگاتے ہوئے ایسے بھٹے سیل کرنے کے ساتھ ساتھ بھٹہ مالکان کو 5 لاکھ جرمانہ اور 6 ماہ قید کا آرڈیننس منظور کیا گیا ہے جبکہ بھٹہ مزدور بچوں کیلئے خصوصی تعلیمی پیکج کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔

جس کے تحت ایسے بچوں کو سوفیصد مفت تعلیمی اخراجات کے علاوہ ایک ہزار روپے ماہانہ خصوصی وظیفہ ، کتابیں، سٹیشنری، یونیفارم، جوتے ، سکول بیگ اور علاج معالجہ و ٹرانسپورٹ کی مفت سہولتیں مہیا کی جائیںگی ۔ ایسے ہی اقدامات اگر ہر سطح پر کئے جائیں گے تو ہی ہم ''دشمن'' کے بچوں کو پڑھا پائیں گے ، وگرنہ حالات بدلنے کی امید بیکار ہے ۔
Load Next Story