اوباما نے غلط تو نہیں کہا

دسمبر2014ء میں آرمی پبلک اسکول پرحملے کےمحض 400دن بعد باچاخان یونیورسٹی پر حملہ حکمران اشرافیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

گزشتہ منگل کو امریکی صدر بارک اوباما نے اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کیا۔ یہ ان کے دور صدارت کا آخری خطاب تھا۔ اس لیے انھوں نے امریکا سمیت دنیا بھر کے معاملات پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔ اس خطاب کے دوران انھوں نے بعض ممالک اور خطوں کے بارے میں اپنے مطالعہ و مشاہدے کی روشنی میں بعض پیش گوئیاں بھی کیں۔ ان کے خیال میں پاکستان اور افغانستان سمیت وسطی امریکا، ایشیا اور افریقہ کے بعض حصوں اور مشرق وسطیٰ کا مزید کئی دہائیوں تک غیر مستحکم رہنے کا امکان ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ ممالک اور خطے بعض پرانے اور نئے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بھی بن سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ ممالک جو پناہ گزینوں کی مہمان نوازی کر رہے ہیں، نئے لسانی تضادات اور خوراک کی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔

بارک اوباما کی پاکستان سے متعلق پیش گوئیوں کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے رد کر دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دہشت گردی کے مظہر پر 80 فیصد قابو پایا جا چکا ہے، اس لیے 2016ء اس کے خاتمہ کا سال ہے۔ مگر ان کے اس دعوے کے چند روز کے اندر ہی خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے تین واقعات رونما ہو گئے۔ جن میں سب سے ہولناک واقعہ گزشتہ بدھ کو باچاخان یونیورسٹی چارسدہ میں ہونے والی دہشت گردی تھی۔ جس میں طلبا و طالبات سمیت دو درجن کے قریب افراد نے جام شہادت نوش کیا اور کئی درجن افراد شدید زخمی ہوئے۔ یوں سرتاج عزیز کا دعویٰ چند ہی روز کے اندر زمین بوس ہو گیا، جب کہ بارک اوباما کی پیش گوئی پر مہر ثبت ہو گئی۔

دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے محض 400 دن بعد باچاخان یونیورسٹی پر حملہ حکمران اشرافیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ دراصل حکمران اشرافیہ مذہبی شدت پسندی کے مظہر کے حوالے سے مختلف نوعیت کے ابہام اور خدشات میں مبتلا چلی آ رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ کوئی ٹھوس اور دیرپا اقدام نہیں کر پاتی۔ بعض حلقوں کی یہ بھی رائے ہے کہ ریاستی منصوبہ ساز جو فکری اور تہذیبی نرگسیت کے سحر میں گرفتار ہیں، دانستہ اس مظہر کو مکمل طور پر ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ کیونکہ اس مظہر کے مکمل طور پر ختم ہو جانے سے ان کے اپنے عزائم خاک میں مل سکتے ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ نیشنل ایکشن پلان (NAP) پر اب تک اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے علاوہ حکمران اشرافیہ ان ڈھائی برسوں کے دوران نہ تو پولیس کے نظام میں اصلاحات اور تطہیری عمل شروع کر سکی ہے اور نہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس قسم کے سنگین واقعات سے pro-active انداز میں نمٹنے کے لیے تیار کر سکی ہے، جو کچھ اب تک کیا گیا ہے، وہ محض لیپاپوتی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

حکمران اشرافیہ کی شدت پسندی پر قابو پانے میں بے دلی کے کئی شواہد سامنے آ رہے ہیں۔ اول، یہ ان جماعتوں اور تنظیموں سے صرف نظر کیے ہوئے ہے، جن پر مذہبی شدت پسند عناصر کو تربیت دینے، انھیں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے اور ان کے اقدامات کو جواز فراہم کرنے کا وقتاً فوقتاً الزام لگتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس پوری توجہ ملک کی لبرل سیاسی جماعتوں کا میڈیا ٹرائل کرنے پر مبذول کر رکھی ہے۔ وزارت داخلہ کا یہ وتیرہ بن گیا ہے کہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس سے عوام کی توجہ ہٹانے اور اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی خاطر لندن میں ہونے والے قتل کا راگ نئے انداز میں شروع کر دیتی ہے، جس کا پاکستان کے موجودہ معروضی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما قمر منصور پر تو تشدد ہوتا ہے مگر ان جماعتوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا جو دہشت گرد عناصر کو حقیقی معنی میں سہولت کاری فراہم کر رہی ہیں، جن کے سہولت کاری کے واضح شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ اسی طرح ذرایع ابلاغ بھی انھی جماعتوں کے رہنماؤں کو مقبول سیاسی جماعتوں سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے، جو مذہبی شدت پسند عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں اور جن کا عوامی مینڈیٹ 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے علاوہ ذرایع ابلاغ میں موجود بعض عناصر کی یہ روش اور رویے شدت پسندی کے خاتمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ شدت پسندی سے توجہ ہٹانے کے لیے جن دیگر معاملات کو جس انداز میں ابھارا جا رہا ہے، اس کے نتیجے میں ملک میں لسانی اور قومیتی بنیادوں پر نفرتوں میں شدید اضافہ ہو رہا ہے اور عدم اعتماد کی خلیج گہری ہو رہی ہے۔


دراصل پاکستان میں دہشت گردی کے مظہر (Phenomenon) کے پروان چڑھنے کے کئی اسباب ہیں، جن میں پہلا سبب ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے سیاستدانوں، منصوبہ سازوں اور اسٹیبلشمنٹ کی فکری و تہذیبی نرگسیت ہے، جس نے حکمران اشرافیہ کو مسلسل غلط فیصلوں پر مجبور کیا ہوا ہے۔ دوسرا سبب بین الاقوامی قوتوں کا کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے اس خطے کے مذہبی عناصر کا استعمال کیا جانا ہے۔ چونکہ دونوں اسباب ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ ہو گئے، اس لیے ان کی مذہبی شدت پسندانہ رجحانات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

چنانچہ امریکی صدر اوباما نے مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا، ان پر انگشت نمائی کی گنجائش نہیں ہے۔ مگر ساتھ ہی انھیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ان عناصر کو پروان چڑھانے میں خود ان کے اپنے ملک کے منصوبہ سازوں کا کس قدر اہم کردار رہا ہے؟ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب سرد جنگ کا آغاز ہوا تو یہ امریکا ہی تھا، جس نے کمیونزم کا راستہ روکنے کی خاطر کسی بھی سفاکانہ اقدام سے گریز نہیں کیا۔ معروف منحرف امریکی دانشور نوم چومسکی اپنی کتاب Deterring Democracy میں لکھتے ہیں کہ 1948ء میں جنگ کے خاتمہ کے صرف تین سال بعد امریکا نے یونان، اٹلی اور اسپین میں مقبول حکومتوں کا تختہ الٹنے کی خاطر فاشسٹ قوتوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ کیونکہ اسے شک تھا کہ ان حکومتوں کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب ہے۔

اس کے بعد امریکا نے اسلام کو کمیونزم کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے مسلم ممالک کی ان جماعتوں پر عنایتوں کی بوچھاڑ کی گئی، جو کمیونزم مخالف لٹریچر تیار کر کے تقسیم کرنے میں مہارت رکھتی تھیں۔ پھر 1980ء کے عشرے میں افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمت اور ان کا راستہ روکنے کی خاطر امریکا ہی نے پاکستان کی مدد سے مختلف قبائل کو جہاد کے نام پر گوریلا جنگ کے لیے مجتمع کیا۔ یوں غیر ریاستی عناصر کے جنگجویانہ اقدامات کو جواز فراہم ہو گیا۔

اب جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، تو یہاں شدت پسندی کے فروغ کا ایک اہم سبب وقفے وقفے سے چار فوجی آمریتوں کا قائم ہونا، جنھوں نے ملک پر مجموعی طور پر 32 برس حکمرانی کی اور ملک کے سیاسی و سماجی Fabric کو تباہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب کہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں بھی اشرافیائی کلچر کے زیر اثر ہونے کے باعث اسی فکری اور تہذیبی نرگسیت کا شکار رہیں، جس نے پاکستان کو فلاحی کے بجائے سیکیورٹی ریاست بنا دیا ہے۔ لہٰذا اب کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان میں 68 برسوں کے دوران حقیقت پسندی پر مبنی داخلہ، خارجہ اور معاشی پالیسیاں نہ بننے کا سبب حکمرانوں کے غلط تصورات اور فیصلے ہیں، جن پر آج بھی مسلسل اصرار کیا جاتا ہے۔

پھر عرض ہے کہ باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والی دہشت گردی حکمران اشرافیہ کے غلط فیصلوں اور اقدامات کا شاخسانہ ہے۔ اس سانحہ نے اس کے دعوؤں اور منافقانہ روش کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حکمران اس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے ٹھوس اور دیرپا اقدامات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، بلکہ اپنی نااہلی اور غلط فیصلوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کبھی پڑوسی ممالک پر الزام تراشیاں کرتے ہیں اور کبھی اندرونی صورتحال کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کی اسی کوتاہ بینی اور غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ ملک تقسیم درتقسیم کا شکار ہو کر انتشار کی راہ پر گامزن ہے۔ جس کی طرف امریکی صدر نے اشارہ کیا ہے۔ مگر تنگ نظر اور نااہل حکمرانوں میں اتنی بھی بصیرت نہیں کہ یہ سمجھ سکیں کہ ان کے فیصلے اور اقدامات ملک کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں۔ لہٰذا امریکی صدر اوباما نے پاکستان میں سیاسی افراتفری، انتشار اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے، وہ حکمران اشرافیہ کے غیر ذمے دارانہ رویوں کے باعث درست ثابت ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔
Load Next Story