بھارتی اہلِ دانش کیا سوچ رہے ہیں
پٹھانکوٹ ائیربیس پر ’’دہشت گردوں‘‘ کے حملوں کے پس منظر میں بھارت نے پاکستان پر جتنے الزامات لگانے تھے، لگا لیے ہیں۔
بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کہا ہے کہ پٹھانکوٹ حملے پر تحقیقات کے لیے آنے والی پاکستانی ٹیم کو (متاثرہ) ائیربیس کے اندر داخل نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پٹھانکوٹ حملے کے نتائج ایک سال کے اندر اندر ساری دنیا دیکھے گی۔ اس لہجے پر اظہارِ افسوس تو کیا ہی جانا چاہیے مگر بھارتی وزیر دفاع نے جو دھمکی دی ہے، ایٹمی پاکستان اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف کے حکم پر پاکستان کے تقریباً تمام متعلقہ ادارے پٹھانکوٹ میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات کا کھُرا ناپنے میں بھارت سے تعاون کر رہے ہیں لیکن پاریکر ایسی قبیل کے لوگ ہمارے حکمرانوں کے اس تعاون کو پاکستان کی کوئی کمزوری خیال کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی پاکستان کو دھمکانے اور یرکانے پر اُتر آئے ہیں۔
پہلے تو انڈیا نے پوری توانائی سے دعویٰ کیا کہ دہشت گرد بامیان سیکٹر سے سرحد عبور کر کے بھارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے اور اب بھارت کے اپنے ہی معتبر اخبارات بھارت سرکار کے ان دعووں کی تکذیب کر رہے ہیں۔ مثلاً: سترہ جنوری 2016ء کو اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس بات کا ابھی تک ایک فیصد بھی ثبوت نہیں ملا ہے کہ پٹھانکوٹ پر حملہ کرنے والے سرحد پار سے آئے تھے، یہ کہ انھوں نے سرحد پر لگی آہنی باڑ کاٹی تھی اور یہ کہ انھوں نے پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ بہتے برساتی نالوں سے بننے والے خلا استعمال کیے۔ بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (BSF) کے سربراہ مسٹر پاٹھک نے بھی اس ناکامی کی تصدیق کر دی ہے۔ ایسے میں کیونکر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے فرسٹریشن سے مغلوب ہو کر پاکستان کے خلاف جو بھی زبان استعمال کی ہے، اس اشتعال انگیزی کے اصل ذمے دار نریندر مودی ہیں جو ووٹوں کے حصول اور اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کے خلاف غیر متوازن ہو کر اتنے آگے چلے گئے تھے کہ اب ان منفی اثرات کو کم ہوتے ہوتے وقت لگے گا۔ جن ناکامیوں کی بنیاد پر مودی اور بی جے پی اپنی حریف سیاسی جماعت (کانگریس) کو رگیدتی اور بے عزتی کیا کرتی تھی، اب یہ خود بھی اسی کا ہدف اور شکار بن کر رہ گئے ہیں۔
چنانچہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور وقتی سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے نریندر مودی کے کارندے کبھی پاکستان کے خلاف بیانات کا طومار باندھتے ہیں تا کہ اپنے مایوس ووٹروں کو مطمئن کیا جا سکے، کبھی پٹھانکوٹ کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے تا کہ دہشت کی فضا قائم کر کے سیکیورٹی اداروں کو انگیج کیا جا سکے اور کبھی اپنی کٹر ہندو جماعتوں کو اشارہ کر کے بھارت آئے پاکستانی فنکاروں اور سیاستدانوں پر حملے کروائے جاتے ہیں۔ کیا حکومتیں ایسے چلا کرتی ہیں؟ نریندر مودی نے اپنی جبلّت سے ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت کے وزیراعظم نہیں، بلکہ محض بی جے پی کے وزیراعظم ہیں۔ ان کا ایجنڈا محض یہ رہ گیا ہے کہ اپنی ہندو فرقہ پرست جماعت، آر ایس ایس، کے دیرینہ (اور بے جا) مطالبے پر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ ''رام مندر'' تعمیر کر دیا جائے۔
پٹھانکوٹ ائیربیس پر ''دہشت گردوں'' کے حملوں کے پس منظر میں بھارت نے پاکستان پر جتنے الزامات لگانے تھے، لگا لیے ہیں۔ دو ہفتے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود وہ پاکستان کو ایک بھی مضبوط اور ناقابلِ تردید ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ جو نام نہاد ثبوت دیے ہیں، ان پر عدم اعتماد اور بے اطمینانی کا اظہار کھلے بندوں خود بھارت کے اندر کیا جا رہا ہے۔
ایک بھارتی انگریزی اخبار نے جب ان ثبوتوں اور دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں بار بار اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو بنیاد پرست اور شدت پسند ''ہندو سَینا'' کے سربراہ وشنو گُپتا اور اس کے غنڈوں سے اخبار پر حملہ کرایا گیا۔ گویا بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے ہی ملک کے اخبار کی آزادانہ آواز کو بند کرنے کی قابلِ مذمت کوشش کی ہے۔ ایسے میں اگر بھارت یہ چاہتا ہے کہ پاکستان ''اَنّے وا'' اس کے الزامات کے سامنے سرنگوں ہو جائے اور ''ملزمان'' کو تہ تیغ کر دے تو ایسا قطعی ممکن نہیں ہے۔ تو پھر بھارت کو کیا کرنا چاہیے؟ آسان، اطمینان بخش، پائیدار اور ثمر آور راستہ کیا ہو سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب بھارت ہی کے ممتاز اہلِ دانش بھارتی حکومت کو دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر راجندر سچر کا مشورہ۔ راجندر صاحب دہلی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اور معزز اہلِ دانش میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے طویل آرٹیکل لکھ کر (''دی ملّی گزٹ'' میں) مودی جی سے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں جو بھی سر پھٹول ہوتی رہی ہے، جتنی بھی ناراضیاں اور جنگیں ہوئی ہیں، ان سب پر مٹی ڈال کر اب آگے بڑھنا چاہیے، پاکستان سے مکالمے کا دامن تھام کر دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنا دینے چاہئیں اور خبردار پاک بھارت مذاکرات کا عمل ٹوٹنے نہ پائے۔
ممتاز بھارتی کالم نگار اور کئی کتابوں کی مصنفہ تولین سنگھ نے بھارتی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ مستقل طور پر روکنے اور پاک بھارت مذاکرات کو بامراد بنانے کے لیے اگر بھارت کی سیاسی قیادت کو براہ راست پاکستان کی عسکری قیادت سے بھی بات چیت کرنی پڑ جائے تو اس پر بھی عمل کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں۔ یہ تجویز اور مشورہ بڑا ہی بولڈ ہے۔
شِو شنکر مینن بھی ان مہذب اور سمجھ دار بھارتیوں میں سے ایک ہیں جو پاکستان سے ڈائیلاگ منقطع نہ کرنے کے حق میں ہیں۔ شِو شنکر مینن نہ صرف سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر رہے ہیں بلکہ اسرائیل اور پاکستان میں بھارتی سفیر اور ہائی کمشنر کے اعلیٰ سفارتی فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ''بھارت کو پاکستان سے کٹّی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ پالیسی اپنانا بھارت کے معاشی مفاد میں نہیں۔
بھارت کے لیے اگرچہ پٹھانکوٹ کا سانحہ بہت دل شکن ہے لیکن اس کی بنیاد پر بھارت کو پاکستان سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں۔ اس سے پہلے بھی بھارت نے جب بھی پاکستان سے کٹّی کی پالیسی اپنائی، پاکستان سے کہیں زیادہ بھارت کو نقصان اٹھانا پڑا۔ 2002ء میں تو اسی وجہ سے بھارتی جی ڈی پی دو فیصد نیچے گر گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا سے بھارت کے اپنے معاشی مفادات پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ جُڑے ہوئے ہیں۔'' اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکومت بھارت کے اہلِ دانش کے مشوروں پر کان دھرتی ہے یا پاکستان کو دھمکیاں دینے کا فضول اور بیکار سلسلہ جاری رکھتی ہے!!
وزیر اعظم محمد نواز شریف کے حکم پر پاکستان کے تقریباً تمام متعلقہ ادارے پٹھانکوٹ میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات کا کھُرا ناپنے میں بھارت سے تعاون کر رہے ہیں لیکن پاریکر ایسی قبیل کے لوگ ہمارے حکمرانوں کے اس تعاون کو پاکستان کی کوئی کمزوری خیال کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی پاکستان کو دھمکانے اور یرکانے پر اُتر آئے ہیں۔
پہلے تو انڈیا نے پوری توانائی سے دعویٰ کیا کہ دہشت گرد بامیان سیکٹر سے سرحد عبور کر کے بھارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے اور اب بھارت کے اپنے ہی معتبر اخبارات بھارت سرکار کے ان دعووں کی تکذیب کر رہے ہیں۔ مثلاً: سترہ جنوری 2016ء کو اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس بات کا ابھی تک ایک فیصد بھی ثبوت نہیں ملا ہے کہ پٹھانکوٹ پر حملہ کرنے والے سرحد پار سے آئے تھے، یہ کہ انھوں نے سرحد پر لگی آہنی باڑ کاٹی تھی اور یہ کہ انھوں نے پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ بہتے برساتی نالوں سے بننے والے خلا استعمال کیے۔ بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (BSF) کے سربراہ مسٹر پاٹھک نے بھی اس ناکامی کی تصدیق کر دی ہے۔ ایسے میں کیونکر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے فرسٹریشن سے مغلوب ہو کر پاکستان کے خلاف جو بھی زبان استعمال کی ہے، اس اشتعال انگیزی کے اصل ذمے دار نریندر مودی ہیں جو ووٹوں کے حصول اور اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کے خلاف غیر متوازن ہو کر اتنے آگے چلے گئے تھے کہ اب ان منفی اثرات کو کم ہوتے ہوتے وقت لگے گا۔ جن ناکامیوں کی بنیاد پر مودی اور بی جے پی اپنی حریف سیاسی جماعت (کانگریس) کو رگیدتی اور بے عزتی کیا کرتی تھی، اب یہ خود بھی اسی کا ہدف اور شکار بن کر رہ گئے ہیں۔
چنانچہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور وقتی سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے نریندر مودی کے کارندے کبھی پاکستان کے خلاف بیانات کا طومار باندھتے ہیں تا کہ اپنے مایوس ووٹروں کو مطمئن کیا جا سکے، کبھی پٹھانکوٹ کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے تا کہ دہشت کی فضا قائم کر کے سیکیورٹی اداروں کو انگیج کیا جا سکے اور کبھی اپنی کٹر ہندو جماعتوں کو اشارہ کر کے بھارت آئے پاکستانی فنکاروں اور سیاستدانوں پر حملے کروائے جاتے ہیں۔ کیا حکومتیں ایسے چلا کرتی ہیں؟ نریندر مودی نے اپنی جبلّت سے ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت کے وزیراعظم نہیں، بلکہ محض بی جے پی کے وزیراعظم ہیں۔ ان کا ایجنڈا محض یہ رہ گیا ہے کہ اپنی ہندو فرقہ پرست جماعت، آر ایس ایس، کے دیرینہ (اور بے جا) مطالبے پر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ ''رام مندر'' تعمیر کر دیا جائے۔
پٹھانکوٹ ائیربیس پر ''دہشت گردوں'' کے حملوں کے پس منظر میں بھارت نے پاکستان پر جتنے الزامات لگانے تھے، لگا لیے ہیں۔ دو ہفتے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود وہ پاکستان کو ایک بھی مضبوط اور ناقابلِ تردید ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ جو نام نہاد ثبوت دیے ہیں، ان پر عدم اعتماد اور بے اطمینانی کا اظہار کھلے بندوں خود بھارت کے اندر کیا جا رہا ہے۔
ایک بھارتی انگریزی اخبار نے جب ان ثبوتوں اور دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں بار بار اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو بنیاد پرست اور شدت پسند ''ہندو سَینا'' کے سربراہ وشنو گُپتا اور اس کے غنڈوں سے اخبار پر حملہ کرایا گیا۔ گویا بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے ہی ملک کے اخبار کی آزادانہ آواز کو بند کرنے کی قابلِ مذمت کوشش کی ہے۔ ایسے میں اگر بھارت یہ چاہتا ہے کہ پاکستان ''اَنّے وا'' اس کے الزامات کے سامنے سرنگوں ہو جائے اور ''ملزمان'' کو تہ تیغ کر دے تو ایسا قطعی ممکن نہیں ہے۔ تو پھر بھارت کو کیا کرنا چاہیے؟ آسان، اطمینان بخش، پائیدار اور ثمر آور راستہ کیا ہو سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب بھارت ہی کے ممتاز اہلِ دانش بھارتی حکومت کو دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر راجندر سچر کا مشورہ۔ راجندر صاحب دہلی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اور معزز اہلِ دانش میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے طویل آرٹیکل لکھ کر (''دی ملّی گزٹ'' میں) مودی جی سے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں جو بھی سر پھٹول ہوتی رہی ہے، جتنی بھی ناراضیاں اور جنگیں ہوئی ہیں، ان سب پر مٹی ڈال کر اب آگے بڑھنا چاہیے، پاکستان سے مکالمے کا دامن تھام کر دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنا دینے چاہئیں اور خبردار پاک بھارت مذاکرات کا عمل ٹوٹنے نہ پائے۔
ممتاز بھارتی کالم نگار اور کئی کتابوں کی مصنفہ تولین سنگھ نے بھارتی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ مستقل طور پر روکنے اور پاک بھارت مذاکرات کو بامراد بنانے کے لیے اگر بھارت کی سیاسی قیادت کو براہ راست پاکستان کی عسکری قیادت سے بھی بات چیت کرنی پڑ جائے تو اس پر بھی عمل کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں۔ یہ تجویز اور مشورہ بڑا ہی بولڈ ہے۔
شِو شنکر مینن بھی ان مہذب اور سمجھ دار بھارتیوں میں سے ایک ہیں جو پاکستان سے ڈائیلاگ منقطع نہ کرنے کے حق میں ہیں۔ شِو شنکر مینن نہ صرف سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر رہے ہیں بلکہ اسرائیل اور پاکستان میں بھارتی سفیر اور ہائی کمشنر کے اعلیٰ سفارتی فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ''بھارت کو پاکستان سے کٹّی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ پالیسی اپنانا بھارت کے معاشی مفاد میں نہیں۔
بھارت کے لیے اگرچہ پٹھانکوٹ کا سانحہ بہت دل شکن ہے لیکن اس کی بنیاد پر بھارت کو پاکستان سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں۔ اس سے پہلے بھی بھارت نے جب بھی پاکستان سے کٹّی کی پالیسی اپنائی، پاکستان سے کہیں زیادہ بھارت کو نقصان اٹھانا پڑا۔ 2002ء میں تو اسی وجہ سے بھارتی جی ڈی پی دو فیصد نیچے گر گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا سے بھارت کے اپنے معاشی مفادات پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ جُڑے ہوئے ہیں۔'' اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکومت بھارت کے اہلِ دانش کے مشوروں پر کان دھرتی ہے یا پاکستان کو دھمکیاں دینے کا فضول اور بیکار سلسلہ جاری رکھتی ہے!!