ہم کیا ہیں
جس دن تنویر نقوی کے کفن کے لیے چندا جمع کرنے کا منظر دیکھا اسی دن فلمی دنیا چھوڑ دی۔
''جس دن تنویر نقوی کے کفن کے لیے چندا جمع کرنے کا منظر دیکھا اسی دن فلمی دنیا چھوڑ دی۔'' دل میں ذرا بھی درد رکھنے والے انسان کا دل یہ جملہ سن کر کانپ جائے گا۔ جسے فلمی دنیا کے مشہور و مقبول نغمہ نگار کے بارے میں تھوڑا بہت بھی علم ہوگا تو اس کا دل مزید دکھی ہوجائے گا۔ روزنامہ ''ایکسپریس'' کے چودہ جنوری کے شخصیت والے رنگین صفحے کے اس جملے نے دل کو غمگین کردیا کہ بات بہت دردناک ہے۔ ملک کے حکمرانوں کو یونس قیاسی کی اس بات سے سمجھنا چاہیے کہ معاملہ کس قدر نازک صورتحال اختیار کرگیا ہے۔
تنویر نقوی کا نام لکھ کر گوگل پر جائیں تو دو افراد کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ صدر پرویز مشرف کے دور کے ایک لیفٹیننٹ جنرل کے علاوہ مشہور فلمی نغمہ نگار تنویر نقوی۔ یہ وہی ہیں جن کی موت کے بعد تدفین کے لیے چندا جمع کیا گیا۔ اسی بات نے اردو اور پشتو زبان کے شاعر، ڈرامہ نویس، نغمہ نگار اور صحافی کو فلمی دنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ انارکلی، کوئل، نیند، ایاز، شکوہ، اجنبی، سسرال، گھونگھٹ اور بہشت جیسی فلموں کے شاہکار گیت لکھنے والے کو ہمارے معاشرے نے اتنا کچھ بھی نہیں دیا کہ اس کی آخری رسومات بھی عزت کے ساتھ ادا ہوجاتیں۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
ہم نے ایک قابل اور پڑھے لکھے شاعر کو اس شعر کے دوسرے مصرعے کے بھی قابل نہیں سمجھا۔ ریاست نے کسی کی روٹی، کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم کی ذمے داری لی ہی نہیں ہے۔ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ اقبال کی شاعری تک ہی محدود ہے۔ ریاست ماں تو کیا سوتیلی ماں کی طرح بھی نہیں ہے۔ ایک ہی دن کے ایک ہی لمحے میں ایک ہی اخبار کے دو مختلف صفحوں پر ایک ہی جیسی دو خبریں پڑھی ہوں تو کیا کیجیے؟
''فالج کا شکار ماجد جہانگیر مالی مشکلات میں گھر گئے'' یہ اسی دن کے اسی اخبار کے ''شوبز'' کا صفحہ نمبر دس ہے۔ بیمار فنکار کا کہنا ہے کہ نصف صدی کے لگ بھگ فن کی خدمت کی، اب بیماری کے باعث بے روزگار اور مقروض ہوچکا ہوں۔ ماجد جہانگیر بدقسمتی سے ذہنی طور پر فالج زدہ معاشرے سے اپنے فالج کے مرض کے علاج کے لیے رقم مانگ رہے ہیں۔ ہوائی روزی کمانے والے یہ فنکار کسی ادارے سے وابستہ نہیں ہوتے، نہ وہ سرکاری خادم ہوتے ہیں کہ انھیں پنشن ملے اور نہ وہ ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازم رہے ہوتے ہیں کہ انھیں گریجویٹی ملے۔ نہ یہ کسی نیم سرکاری بینک کے افسر ہوتے ہیں کہ ادارہ ان کے برے وقت یا بیماری میں مدد کو آگے آئے۔
ریاست نے کسی کی کوئی ذمے داری نہیں لی۔ تم جیتے ہو تو جیو اور مرتے ہو تو مرو۔ کروڑوں لوگ اسی طرح بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مرتے رہتے ہیں۔ لاکھوں بے روزگار اسی طرح سسک سسک کر دم توڑ جاتے ہیں۔ ہر شہری سے کہہ دیا گیا ہے کہ اگر تمہارے پاس پیسے ہوں تو تم کھانا کھا لو ورنہ بھوکے رہو۔ اگر کپڑے کے لیے تمہاری جیب میں کچھ روپے ہیں تو بہت خوب، لنڈا جاکر بھی اپنی ضرورتیں پوری کرلو۔ اگر اتنا کچھ بھی نہیں ہے تو ننگے رہو کہ ریاست تمہاری سترپوشی کو آگے نہیں آئے گی۔ اگر تم غریب ہو تو مکان کا تصور بھی نہ کرو۔ اگر تم کو قبر کے لیے دو گز زمین بھی مل جائے تو شکر کرو کہ بڑے بڑے بادشاہوں کی اولاد کوئے یار میں اس کے لیے ترس گئی تھی۔
تنویر نقوی اور ماجد جہانگیر بڑے فنکار اور بڑے نام رہے ہیں۔ ہم اپنے محلے کے کسی نتھو فتو کا ذکر نہیں کررہے اور نہ ہی کسی فضلو اور رمضانی کی بات کر رہے ہیں۔ ایک دن کے اخبار کے دو صفحات پر ایک جیسی باتیں۔ جب بڑے شاعر انتقال کرگئے تو عبرت ناک منظر دیکھ کر ایک شاعر نے فلمی دنیا چھوڑ دی۔ اس سے قبل عالم چنا بھی علاج کے لیے ترس گیا۔ دنیا کا سب سے طویل القامت انسان اپنی مشہوری کے باوجود کچھ حاصل نہ کرسکا۔ گلوکار اخلاق احمد کو کینسر کے مرض کے علاج کے لیے پچیس لاکھ نہ دیے گئے اور وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ لہری، مہدی حسن اور ببوبرال جیسے فنکار چند لاکھ روپوں کے لیے حکمرانوں کی خوشامد کرتے دیکھے گئے ہیں۔ جب ان نامور فنکاروں کا یہ حال ہو تو عام آدمی کو کوئی مہلک بیماری لگ جائے تو وہ کیا کرے؟
ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائے کہ نہ ریاست ماں کے جیسی ہے اور نہ معاشرہ باپ کے جیسا ہے۔مہدی حسن نے دو شادیاں کیوں کیں اور امان اللہ کی زوجیت میں تین بیویاں کیوں ہیں؟ ببوبرال نے بچت کیوں نہ کی؟ کچھ فنکاروں کے درجن بھر بچے کیوں ہیں؟ منٹو نے اپنی رقم شراب کی نذر کیوں کردی؟ یہ جواز تراشے جاتے ہیں اور بڑی حد تک درست بھی ہیں۔ یہ سب کچھ کہنے والے قلمکار غریب باپ کے بیٹے ہیں۔ اتفاقاً باپ بیٹا امیر ہوگئے اور اپنا برا وقت بھلا بیٹھے۔ حکومت سے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ سب کچھ ریاست سے کہا جا رہا ہے۔ اگر کوئی اپنی جوانی کے عروج اور ادھیڑ عمری میں روپوں کی برسات کی حفاظت نہ کرسکے تو بے شک وہ قصور وار ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صنعتکار غریب ہے اور صرف گزارے کی حد تک کماتا رہا ہے تو کیا ریاست برے وقت میں اس کی مدد کو آئی ہے؟ اگر کوئی فنکار چالیس بیالیس سال کی عمر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر مر جائے تو ان کا کوئی والی وارث نہ ہو؟فلمی دنیا کے وحید مراد، محمد علی اور ندیم کے بارے میں ہم نے ایسی کہانیاں نہیں سنیں... کیوں؟ عمران، میاں داد، انضمام اور یونس خان کے بارے میں ہمیں کوئی توقع نہیں کہ خدانخواستہ یہ لوگ ان حالات کا شکار ہوں گے... کیوں؟ ہر شعبے میں دس فیصد لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ عروج پر پہنچے ہوئے ان لوگوں کو آج کل اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ وہ بچت بھی کرلیتے ہیں اور جائیداد بھی بنالیتے ہیں۔ باقی نوے فیصد لوگ Hand to Mouth ہوتے ہیں۔
اچانک کام بند ہوجانے اور کسی مہلک بیماری کا شکار ہوجانے پر انھیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔''آج کل'' بڑا اہم لفظ ہے۔ پانچ سطروں قبل دیے گئے یہ دو حروف ماضی قریب کی بات کرتے ہیں۔ ساٹھ و ستّر کے عشروں کے ٹاپ کھلاڑی امیر نہیں تھے۔ 80 اور نوے کی دہائی کے عروج تک پہنچے ہوئے صحافی غریب کے غریب ہی تھے۔ اس دور میں کھلاڑی یا صحافی بننے والے صرف اور صرف اچھے مقصد اور پیشے سے رومانس کی خاطر ان شعبوں میں آتے تھے۔ پیسے سے محبت ہوتی تو کچھ اور کرتے۔ حنیف محمد اور عبدالحمید چھاپرا اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ یوں کیا ریاست اور بزنس ایمپائرز اپنے شہریوں و ملازمین کو مرنے کے لیے یوں ہی چھوڑ دیں؟
غریب آدمی فائیو اسٹار ہوٹل کا کھانا نہیں مانگ رہا اور نہ برانڈڈ کمپنیوں کے سلے ہوئے لباس کا متقاضی ہے۔ وہ نہیں کہتا کہ اسے پوش علاقے میں کوٹھی دلائی جائے۔ وہ شاندار اسپتالوں میں علاج کا تقاضا نہیں کرتا۔ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے آکسفورڈ اور کیمبرج میں داخلوں کی فرمائش نہیں کررہا۔ وہ کہہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ ملک کے حکمرانوں اور خوشحالوں کو مبارک۔ اگر وہ تنویر نقوی ہے تو اپنے پیسوں سے خریدا گیا کفن مانگ رہا ہے اور اگر وہ ماجد جہانگیر ہے تو وہ صرف بیماری سے لڑنے کے لیے علاج مانگ رہا ہے۔ ہم پاکستانی نہ اپنے شہریوں کو دفن کے لیے عزت کا کفن دے رہے ہیں اور نہ علاج کے لیے رقم۔ ہماری ریاست کیا ہے اور ہم کیا ہیں؟
تنویر نقوی کا نام لکھ کر گوگل پر جائیں تو دو افراد کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ صدر پرویز مشرف کے دور کے ایک لیفٹیننٹ جنرل کے علاوہ مشہور فلمی نغمہ نگار تنویر نقوی۔ یہ وہی ہیں جن کی موت کے بعد تدفین کے لیے چندا جمع کیا گیا۔ اسی بات نے اردو اور پشتو زبان کے شاعر، ڈرامہ نویس، نغمہ نگار اور صحافی کو فلمی دنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ انارکلی، کوئل، نیند، ایاز، شکوہ، اجنبی، سسرال، گھونگھٹ اور بہشت جیسی فلموں کے شاہکار گیت لکھنے والے کو ہمارے معاشرے نے اتنا کچھ بھی نہیں دیا کہ اس کی آخری رسومات بھی عزت کے ساتھ ادا ہوجاتیں۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
ہم نے ایک قابل اور پڑھے لکھے شاعر کو اس شعر کے دوسرے مصرعے کے بھی قابل نہیں سمجھا۔ ریاست نے کسی کی روٹی، کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم کی ذمے داری لی ہی نہیں ہے۔ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ اقبال کی شاعری تک ہی محدود ہے۔ ریاست ماں تو کیا سوتیلی ماں کی طرح بھی نہیں ہے۔ ایک ہی دن کے ایک ہی لمحے میں ایک ہی اخبار کے دو مختلف صفحوں پر ایک ہی جیسی دو خبریں پڑھی ہوں تو کیا کیجیے؟
''فالج کا شکار ماجد جہانگیر مالی مشکلات میں گھر گئے'' یہ اسی دن کے اسی اخبار کے ''شوبز'' کا صفحہ نمبر دس ہے۔ بیمار فنکار کا کہنا ہے کہ نصف صدی کے لگ بھگ فن کی خدمت کی، اب بیماری کے باعث بے روزگار اور مقروض ہوچکا ہوں۔ ماجد جہانگیر بدقسمتی سے ذہنی طور پر فالج زدہ معاشرے سے اپنے فالج کے مرض کے علاج کے لیے رقم مانگ رہے ہیں۔ ہوائی روزی کمانے والے یہ فنکار کسی ادارے سے وابستہ نہیں ہوتے، نہ وہ سرکاری خادم ہوتے ہیں کہ انھیں پنشن ملے اور نہ وہ ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازم رہے ہوتے ہیں کہ انھیں گریجویٹی ملے۔ نہ یہ کسی نیم سرکاری بینک کے افسر ہوتے ہیں کہ ادارہ ان کے برے وقت یا بیماری میں مدد کو آگے آئے۔
ریاست نے کسی کی کوئی ذمے داری نہیں لی۔ تم جیتے ہو تو جیو اور مرتے ہو تو مرو۔ کروڑوں لوگ اسی طرح بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مرتے رہتے ہیں۔ لاکھوں بے روزگار اسی طرح سسک سسک کر دم توڑ جاتے ہیں۔ ہر شہری سے کہہ دیا گیا ہے کہ اگر تمہارے پاس پیسے ہوں تو تم کھانا کھا لو ورنہ بھوکے رہو۔ اگر کپڑے کے لیے تمہاری جیب میں کچھ روپے ہیں تو بہت خوب، لنڈا جاکر بھی اپنی ضرورتیں پوری کرلو۔ اگر اتنا کچھ بھی نہیں ہے تو ننگے رہو کہ ریاست تمہاری سترپوشی کو آگے نہیں آئے گی۔ اگر تم غریب ہو تو مکان کا تصور بھی نہ کرو۔ اگر تم کو قبر کے لیے دو گز زمین بھی مل جائے تو شکر کرو کہ بڑے بڑے بادشاہوں کی اولاد کوئے یار میں اس کے لیے ترس گئی تھی۔
تنویر نقوی اور ماجد جہانگیر بڑے فنکار اور بڑے نام رہے ہیں۔ ہم اپنے محلے کے کسی نتھو فتو کا ذکر نہیں کررہے اور نہ ہی کسی فضلو اور رمضانی کی بات کر رہے ہیں۔ ایک دن کے اخبار کے دو صفحات پر ایک جیسی باتیں۔ جب بڑے شاعر انتقال کرگئے تو عبرت ناک منظر دیکھ کر ایک شاعر نے فلمی دنیا چھوڑ دی۔ اس سے قبل عالم چنا بھی علاج کے لیے ترس گیا۔ دنیا کا سب سے طویل القامت انسان اپنی مشہوری کے باوجود کچھ حاصل نہ کرسکا۔ گلوکار اخلاق احمد کو کینسر کے مرض کے علاج کے لیے پچیس لاکھ نہ دیے گئے اور وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ لہری، مہدی حسن اور ببوبرال جیسے فنکار چند لاکھ روپوں کے لیے حکمرانوں کی خوشامد کرتے دیکھے گئے ہیں۔ جب ان نامور فنکاروں کا یہ حال ہو تو عام آدمی کو کوئی مہلک بیماری لگ جائے تو وہ کیا کرے؟
ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائے کہ نہ ریاست ماں کے جیسی ہے اور نہ معاشرہ باپ کے جیسا ہے۔مہدی حسن نے دو شادیاں کیوں کیں اور امان اللہ کی زوجیت میں تین بیویاں کیوں ہیں؟ ببوبرال نے بچت کیوں نہ کی؟ کچھ فنکاروں کے درجن بھر بچے کیوں ہیں؟ منٹو نے اپنی رقم شراب کی نذر کیوں کردی؟ یہ جواز تراشے جاتے ہیں اور بڑی حد تک درست بھی ہیں۔ یہ سب کچھ کہنے والے قلمکار غریب باپ کے بیٹے ہیں۔ اتفاقاً باپ بیٹا امیر ہوگئے اور اپنا برا وقت بھلا بیٹھے۔ حکومت سے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ سب کچھ ریاست سے کہا جا رہا ہے۔ اگر کوئی اپنی جوانی کے عروج اور ادھیڑ عمری میں روپوں کی برسات کی حفاظت نہ کرسکے تو بے شک وہ قصور وار ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صنعتکار غریب ہے اور صرف گزارے کی حد تک کماتا رہا ہے تو کیا ریاست برے وقت میں اس کی مدد کو آئی ہے؟ اگر کوئی فنکار چالیس بیالیس سال کی عمر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر مر جائے تو ان کا کوئی والی وارث نہ ہو؟فلمی دنیا کے وحید مراد، محمد علی اور ندیم کے بارے میں ہم نے ایسی کہانیاں نہیں سنیں... کیوں؟ عمران، میاں داد، انضمام اور یونس خان کے بارے میں ہمیں کوئی توقع نہیں کہ خدانخواستہ یہ لوگ ان حالات کا شکار ہوں گے... کیوں؟ ہر شعبے میں دس فیصد لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ عروج پر پہنچے ہوئے ان لوگوں کو آج کل اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ وہ بچت بھی کرلیتے ہیں اور جائیداد بھی بنالیتے ہیں۔ باقی نوے فیصد لوگ Hand to Mouth ہوتے ہیں۔
اچانک کام بند ہوجانے اور کسی مہلک بیماری کا شکار ہوجانے پر انھیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔''آج کل'' بڑا اہم لفظ ہے۔ پانچ سطروں قبل دیے گئے یہ دو حروف ماضی قریب کی بات کرتے ہیں۔ ساٹھ و ستّر کے عشروں کے ٹاپ کھلاڑی امیر نہیں تھے۔ 80 اور نوے کی دہائی کے عروج تک پہنچے ہوئے صحافی غریب کے غریب ہی تھے۔ اس دور میں کھلاڑی یا صحافی بننے والے صرف اور صرف اچھے مقصد اور پیشے سے رومانس کی خاطر ان شعبوں میں آتے تھے۔ پیسے سے محبت ہوتی تو کچھ اور کرتے۔ حنیف محمد اور عبدالحمید چھاپرا اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ یوں کیا ریاست اور بزنس ایمپائرز اپنے شہریوں و ملازمین کو مرنے کے لیے یوں ہی چھوڑ دیں؟
غریب آدمی فائیو اسٹار ہوٹل کا کھانا نہیں مانگ رہا اور نہ برانڈڈ کمپنیوں کے سلے ہوئے لباس کا متقاضی ہے۔ وہ نہیں کہتا کہ اسے پوش علاقے میں کوٹھی دلائی جائے۔ وہ شاندار اسپتالوں میں علاج کا تقاضا نہیں کرتا۔ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے آکسفورڈ اور کیمبرج میں داخلوں کی فرمائش نہیں کررہا۔ وہ کہہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ ملک کے حکمرانوں اور خوشحالوں کو مبارک۔ اگر وہ تنویر نقوی ہے تو اپنے پیسوں سے خریدا گیا کفن مانگ رہا ہے اور اگر وہ ماجد جہانگیر ہے تو وہ صرف بیماری سے لڑنے کے لیے علاج مانگ رہا ہے۔ ہم پاکستانی نہ اپنے شہریوں کو دفن کے لیے عزت کا کفن دے رہے ہیں اور نہ علاج کے لیے رقم۔ ہماری ریاست کیا ہے اور ہم کیا ہیں؟