پاکستان میں یہودی… پہلا حصہ
چوہدری صاحب رقم طراز ہیں کہ ’’میں نے پوچھا کیا کراچی میں اب بھی یہودی موجود ہیں؟
کالم نگار جاوید چوہدری نے 14 جنوری 2016 کے ''ایکسپریس'' میں ''کراچی کا یہودی قبرستان'' کے عنوان سے شایع شدہ اپنے مضمون میں پولینڈ کے شہر کراکوف کے سفرنامے کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک ریستوران میں کراچی سے نقل مکانی کرجانے اور اردو بولنے والے یہودی خاندان کے افراد سے اچانک ہوجانے والی اپنی ملاقات کی بابت رقم طراز ہیں کہ ''وہ یہودی خاندان دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی جانب سے پولینڈ کے شہروں کراکوف اور وارسا میں یہودیوں کے قتل عام کے دوران دیگر 30 ہزار یہودی خاندانوں کے ساتھ وہاں سے فرار ہوکر کراچی میں آکر آباد ہوگئے تھے اور جنرل محمد ضیاء الحق کے دور اقتدار میں نامساعد حالات کی وجہ سے کراچی چھوڑ کر تل ابیب میں جاکر آباد ہوئے تھے۔''
چوہدری صاحب رقم طراز ہیں کہ ''میں نے پوچھا کیا کراچی میں اب بھی یہودی موجود ہیں؟ اس کا جواب تھا ''نہیں، زیادہ تر لوگ یورپ، ایران، امریکا، اسرائیل اور بھارت شفٹ ہوگئے، جو باقی بچ گئے ہیں، وہ اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہیں، یہ اب کراچی میں عیسائی یا مسلمان بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے سیناگوگ پر قبضہ ہوچکا ہے، وہاں پلازہ بن چکا ہے، گھر بھی لوگوں نے آپس میں بانٹ لیے ہیں، لہٰذا اب ہمارے بزرگوں کی قبروں کے سوا کچھ نہیں بچا۔''
چوہدری صاحب اس خاندان سے ملاقات کے بعد پاکستان واپس آنے کے بعد بڑی تگ ودو کرکے کراچی کے ایک قبرستان میں ان کے بڑوں کی قبروں تک بھی پہنچے۔ جس پر وہ لکھتے ہیں کہ ''زیادہ تر قبروں پر 1850 سے لے کر 1950 تک کی تاریخیں درج ہیں، جو ثابت کرتا ہے کہ کراچی میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی یہودی موجود تھے اور شاید پولینڈ کے یہودی ان یہودیوں کی وجہ سے کراچی آئے اور یہاں رہائش پذیر ہوگئے۔ ان قبروں میں مختلف شعبوں سے وابستہ یہودی مدفون ہیں۔ ان میں فوجی بھی ہیں، بیوروکریٹس بھی ہیں، تاجر بھی اور استاد بھی۔''
اس کے بعد چوہدری صاحب وفاقی وزارت اوقاف اور سندھ حکومت سے ان یہودی قبرستانوں کی تزئین و آرائش کرکے ان کے لیے سرکاری طور ایک ویب سائٹ بنائے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کام کے لیے یورپی یونین، پولینڈ، جرمنی اور برطانیہ کے سفارت خانوں سے مدد لیے جانے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''ہم مسلمان صرف زندہ لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں، قبروں سے نہیں۔ کیا سندھ کے سائیں سرکار اور اوقاف کے وفاقی وزیر کے پاس اتنی سی توجہ بھی موجود نہیں ؟ کیا یہ کراچی کے سابق شہریوں پر اتنی مہربانی بھی نہیں کرسکتے؟''
جاوید چوہدری ملک کے معروف اشاعتی و نشریاتی ادارے ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں اور اس ادارے کی طرح ان کا بھی صحافتی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام ہے۔ عوامی و ایوانی طبقوں میں ان کے پڑھنے اور سننے والوں کی بہت بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ اس لیے ان کی تحریر کو نظر انداز کیے جانے کے کم ہی امکانات پائے جاتے ہیں۔ بلاشبہ جاوید چوہدری کی تجویز تحریری و نشریاتی اداروں پر مسلم و انسان دشمن قوتوں کی اجارہ داری کے سبب اسلام کو نوک شمشیر پر پھیلائے جانے کے پروپیگنڈا اور موجودہ دہشتگرد تنظیموں کی انسان دشمن کارروائیوں کے نتیجے میں اقوام عالم میں تہذیبوں کے ''لال کپڑے'' پر بپھرے جنگلی سانڈ سے مشابہ متعارف کرائے جانے والے ہمارے ملی تشخص میں کچھ نکھار لاسکتی ہے تو ان کی سوچ کے مطابق عمل کرنے کا ایک نیا تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
کیونکہ مسلمانوں کے قبرستانوں کی تو ایک الگ ہی بھیانک صورتحال ہے، جس پر پھر کبھی بات ہوگی، لیکن پاکستان میں یہودیوں کا مسلمان اور عیسائی بن کر ہم میں ضم ہوجانے کا نکتہ انتہائی غور طلب اور دعوت فکر کا حامل ہے۔ چونکہ ہم بحیثیت مسلمان ان کے مطابق بنیادپرست، قدامت پرست اور ان کی ترقی کے مخالف تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ اسی لیے عالم انسانیت کے حق میں اور استعماری مفادات کو چوٹ پہنچانے والی ہر ایک بات کو ان ہی وسائل سے پرورش پانے والی موجودہ دہشگرد تنظیموں کی حمایت، شدت پسندی و انتہا پسندی قرار دیے جانے میں کوئی دیر ہی نہیں لگتی۔
چونکہ مسلم تاریخ سمیت تاریخ انسانیت کی ضعیف تفسیرات میں ہزاروں قسم کی تحریفات کے باعث اقوام عالم کو ان کے اپنے تہذیبی، تمدنی، مذہبی و تاریخی بنیادی نظریہ حیات سے کوسوں دور کیا جاچکا ہے۔ اس لیے دنیا پر رائج تمام لوازمات تمدن، انتظام معاشرت اور تفاسیر قوانین ان کے حقوق کی پاسداری کرتے رہنے کے عین مطابق ترتیب بھی دیے جاچکے ہیں۔ اور اس تحریف کی بدولت یہ خود کو تاریخ کی مظلوم ترین اور برگزیدہ قوم کے طور پر متعارف کروانے میں مکمل طور پر کامیاب ہوتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ جب کہ اقوام عالم میں تاریخ کا مادی طور پر محققانہ ادراک رکھنے اور حالات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے ارتقائی مرحلے میں یہ گروہ دیگر انسانی گروہوں میں سب سے آگے بھی ہے۔
مالی طور پر یہ قوم مملکتوں کو خریدنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ اعلان بالفور میں انھوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کرکے دکھادیا ہے۔ ان کی اپنے وطن سے محبت اور اپنے وطن سے بچھڑنے کا درد 2500 سال قبل لکھی جانے والی نظم ''By The River Of Babylone'' میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ جس کے تسلسل کے طور پر کراکوف کے علاقے جیوش کوارٹرز میں واقع ریسٹورنٹ میں حبیب ولی محمد کی غزل ''کب میرا نشیمن اہل چمن'' ایک یہودی خاندان سے جاوید چوہدری کی ''اچانک'' ملاقات کا بہانہ بنا تھا۔
اقوام عالم کے بہت سے ترقی پسند دانشور آج بھی اپنے وطن سے محبت اور تنزلی سے ترقی حاصل کرلینے کی جدوجہد کی عملی مثال کے طور پر ان کا حوالہ دیتے ہیں کہ مغربی دنیا کی آسودہ حال تمدنی زندگی کو چھوڑ کر ریتیلی و پتھریلی گلیوں میں رہنے پر مجبور یہودیوں کو آٹھ کونوں والے اسٹار آف ڈیوڈ کے نشان کا پرچم رکھنے والے اسرائیل (ارض فلسطین کے غصب کیے گئے حصے) کے وحشت زدہ صحراؤں اور بے آب وگیاہ زمینوں پر گزرنے والے شب و روز کی مشکلات بھی اپنے وطن سے دور ہونے نہیں دیتی۔ حالانکہ یہ دانشوران کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ اسرائیل میں قیام پذیر نچلے درجے کے وہ یہودی اس وقت بھی بظاہر پسماندہ کہلائے جانے والے اسرائیل میں نیویارک سے زیادہ پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔
راتھس چائلڈ، مرانو، لیور برادرز جیسے اوپری و متوسط طبقات کے مالدار یہودیوں کے لیے عالمی اداروں کے توسط سے اسرائیل کو ماڈل میگاپولیٹن سٹی بنائے جانا دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل انھوں نے اپنے سرمائے سے اپنے مفادات کی خاطر پناما، ہانگ کانگ اور اب دبئی جیسے شہر کھڑے کرکے دکھا دیے ہیں۔ چونکہ پوری دنیا کا سرمایہ اور جدید تیکنیک یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے اس لیے اسرائیل کو مادی لحاظ سے جنت ارضی کا نمونہ بنادیا جانا ان کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ جب کہ وہ صدیوں کے تسلسل میں اپنی ذہانت اور تجارب سے سپر گورنمنٹ یا گریٹر اسرائیل کے نام سے ایسی ورلڈ رولر ماڈل سٹی بنانے کا ایک منظم پروگرام بھی رکھتے ہیں، جہاں سے یہ اقوام عالم کو آئے روز اپنے نئے فرمودات پر چلاتے رہیں۔
(جاری ہے)
چوہدری صاحب رقم طراز ہیں کہ ''میں نے پوچھا کیا کراچی میں اب بھی یہودی موجود ہیں؟ اس کا جواب تھا ''نہیں، زیادہ تر لوگ یورپ، ایران، امریکا، اسرائیل اور بھارت شفٹ ہوگئے، جو باقی بچ گئے ہیں، وہ اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہیں، یہ اب کراچی میں عیسائی یا مسلمان بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے سیناگوگ پر قبضہ ہوچکا ہے، وہاں پلازہ بن چکا ہے، گھر بھی لوگوں نے آپس میں بانٹ لیے ہیں، لہٰذا اب ہمارے بزرگوں کی قبروں کے سوا کچھ نہیں بچا۔''
چوہدری صاحب اس خاندان سے ملاقات کے بعد پاکستان واپس آنے کے بعد بڑی تگ ودو کرکے کراچی کے ایک قبرستان میں ان کے بڑوں کی قبروں تک بھی پہنچے۔ جس پر وہ لکھتے ہیں کہ ''زیادہ تر قبروں پر 1850 سے لے کر 1950 تک کی تاریخیں درج ہیں، جو ثابت کرتا ہے کہ کراچی میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی یہودی موجود تھے اور شاید پولینڈ کے یہودی ان یہودیوں کی وجہ سے کراچی آئے اور یہاں رہائش پذیر ہوگئے۔ ان قبروں میں مختلف شعبوں سے وابستہ یہودی مدفون ہیں۔ ان میں فوجی بھی ہیں، بیوروکریٹس بھی ہیں، تاجر بھی اور استاد بھی۔''
اس کے بعد چوہدری صاحب وفاقی وزارت اوقاف اور سندھ حکومت سے ان یہودی قبرستانوں کی تزئین و آرائش کرکے ان کے لیے سرکاری طور ایک ویب سائٹ بنائے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کام کے لیے یورپی یونین، پولینڈ، جرمنی اور برطانیہ کے سفارت خانوں سے مدد لیے جانے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''ہم مسلمان صرف زندہ لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں، قبروں سے نہیں۔ کیا سندھ کے سائیں سرکار اور اوقاف کے وفاقی وزیر کے پاس اتنی سی توجہ بھی موجود نہیں ؟ کیا یہ کراچی کے سابق شہریوں پر اتنی مہربانی بھی نہیں کرسکتے؟''
جاوید چوہدری ملک کے معروف اشاعتی و نشریاتی ادارے ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں اور اس ادارے کی طرح ان کا بھی صحافتی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام ہے۔ عوامی و ایوانی طبقوں میں ان کے پڑھنے اور سننے والوں کی بہت بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ اس لیے ان کی تحریر کو نظر انداز کیے جانے کے کم ہی امکانات پائے جاتے ہیں۔ بلاشبہ جاوید چوہدری کی تجویز تحریری و نشریاتی اداروں پر مسلم و انسان دشمن قوتوں کی اجارہ داری کے سبب اسلام کو نوک شمشیر پر پھیلائے جانے کے پروپیگنڈا اور موجودہ دہشتگرد تنظیموں کی انسان دشمن کارروائیوں کے نتیجے میں اقوام عالم میں تہذیبوں کے ''لال کپڑے'' پر بپھرے جنگلی سانڈ سے مشابہ متعارف کرائے جانے والے ہمارے ملی تشخص میں کچھ نکھار لاسکتی ہے تو ان کی سوچ کے مطابق عمل کرنے کا ایک نیا تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
کیونکہ مسلمانوں کے قبرستانوں کی تو ایک الگ ہی بھیانک صورتحال ہے، جس پر پھر کبھی بات ہوگی، لیکن پاکستان میں یہودیوں کا مسلمان اور عیسائی بن کر ہم میں ضم ہوجانے کا نکتہ انتہائی غور طلب اور دعوت فکر کا حامل ہے۔ چونکہ ہم بحیثیت مسلمان ان کے مطابق بنیادپرست، قدامت پرست اور ان کی ترقی کے مخالف تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ اسی لیے عالم انسانیت کے حق میں اور استعماری مفادات کو چوٹ پہنچانے والی ہر ایک بات کو ان ہی وسائل سے پرورش پانے والی موجودہ دہشگرد تنظیموں کی حمایت، شدت پسندی و انتہا پسندی قرار دیے جانے میں کوئی دیر ہی نہیں لگتی۔
چونکہ مسلم تاریخ سمیت تاریخ انسانیت کی ضعیف تفسیرات میں ہزاروں قسم کی تحریفات کے باعث اقوام عالم کو ان کے اپنے تہذیبی، تمدنی، مذہبی و تاریخی بنیادی نظریہ حیات سے کوسوں دور کیا جاچکا ہے۔ اس لیے دنیا پر رائج تمام لوازمات تمدن، انتظام معاشرت اور تفاسیر قوانین ان کے حقوق کی پاسداری کرتے رہنے کے عین مطابق ترتیب بھی دیے جاچکے ہیں۔ اور اس تحریف کی بدولت یہ خود کو تاریخ کی مظلوم ترین اور برگزیدہ قوم کے طور پر متعارف کروانے میں مکمل طور پر کامیاب ہوتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ جب کہ اقوام عالم میں تاریخ کا مادی طور پر محققانہ ادراک رکھنے اور حالات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے ارتقائی مرحلے میں یہ گروہ دیگر انسانی گروہوں میں سب سے آگے بھی ہے۔
مالی طور پر یہ قوم مملکتوں کو خریدنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ اعلان بالفور میں انھوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کرکے دکھادیا ہے۔ ان کی اپنے وطن سے محبت اور اپنے وطن سے بچھڑنے کا درد 2500 سال قبل لکھی جانے والی نظم ''By The River Of Babylone'' میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ جس کے تسلسل کے طور پر کراکوف کے علاقے جیوش کوارٹرز میں واقع ریسٹورنٹ میں حبیب ولی محمد کی غزل ''کب میرا نشیمن اہل چمن'' ایک یہودی خاندان سے جاوید چوہدری کی ''اچانک'' ملاقات کا بہانہ بنا تھا۔
اقوام عالم کے بہت سے ترقی پسند دانشور آج بھی اپنے وطن سے محبت اور تنزلی سے ترقی حاصل کرلینے کی جدوجہد کی عملی مثال کے طور پر ان کا حوالہ دیتے ہیں کہ مغربی دنیا کی آسودہ حال تمدنی زندگی کو چھوڑ کر ریتیلی و پتھریلی گلیوں میں رہنے پر مجبور یہودیوں کو آٹھ کونوں والے اسٹار آف ڈیوڈ کے نشان کا پرچم رکھنے والے اسرائیل (ارض فلسطین کے غصب کیے گئے حصے) کے وحشت زدہ صحراؤں اور بے آب وگیاہ زمینوں پر گزرنے والے شب و روز کی مشکلات بھی اپنے وطن سے دور ہونے نہیں دیتی۔ حالانکہ یہ دانشوران کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ اسرائیل میں قیام پذیر نچلے درجے کے وہ یہودی اس وقت بھی بظاہر پسماندہ کہلائے جانے والے اسرائیل میں نیویارک سے زیادہ پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔
راتھس چائلڈ، مرانو، لیور برادرز جیسے اوپری و متوسط طبقات کے مالدار یہودیوں کے لیے عالمی اداروں کے توسط سے اسرائیل کو ماڈل میگاپولیٹن سٹی بنائے جانا دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل انھوں نے اپنے سرمائے سے اپنے مفادات کی خاطر پناما، ہانگ کانگ اور اب دبئی جیسے شہر کھڑے کرکے دکھا دیے ہیں۔ چونکہ پوری دنیا کا سرمایہ اور جدید تیکنیک یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے اس لیے اسرائیل کو مادی لحاظ سے جنت ارضی کا نمونہ بنادیا جانا ان کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ جب کہ وہ صدیوں کے تسلسل میں اپنی ذہانت اور تجارب سے سپر گورنمنٹ یا گریٹر اسرائیل کے نام سے ایسی ورلڈ رولر ماڈل سٹی بنانے کا ایک منظم پروگرام بھی رکھتے ہیں، جہاں سے یہ اقوام عالم کو آئے روز اپنے نئے فرمودات پر چلاتے رہیں۔
(جاری ہے)