پٹرولیم مصنوعات پر منافع خوری

خام تیل کی عالمی قیمتیں تیرہ سال کی کم ترین سطح پر ہیں،

znzaidi@yahoo.com

QUETTA:
بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے اور خام تیل کی عالمی قیمتیں تیرہ سال کی کم ترین سطح پر ہیں، جب کہ پاکستان میں پٹرول اور دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں کی گئی، یا یوں کہہ لیجیے کہ ہماری جمہوری حکومت اور حکمران کمائی کا یہ، بلکہ کوئی بھی ذریعہ ہاتھ سے جانے دینے کو تیار نہیں۔

خام تیل کی قیمتوں میں کمی بین الاقوامی مارکیٹ پر غلبے کے لیے جاری جنگ کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف اوپیک ممالک ہیں یعنی تیل پیدا کرنے والے وہ ممالک جو اس تنظیم کا حصہ ہیں، دوسرے وہ ممالک جو تیل تو پیدا کرتے ہیں مگر اس تنظیم (اوپیک) کے رکن نہیں ہیں۔ نان اوپیک ممالک کو مارکیٹ سے باہر کرنے کے لیے اوپیک ممالک کسی طور بھی تیل کی پیداوار میں کمی کو تیار نہیں، جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی رسد میں اضافہ ہورہا ہے، اور رسد میں اضافے کے باعث خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا عمل جاری ہے۔ اوپیک اور نان اوپیک ممالک کی کشمکش کے باعث خام تیل کی حالیہ قیمتیں 2003 کی قیمتوں کی سطح پر آچکی ہیں۔

2003 میں خام تیل کی عالمی قیمتیں 28 ڈالر فی بیرل تھیں، جس کے بعد خام تیل کی قیمتوں میں تیزی کا سلسلہ شروع ہوا اور 2007 کے آغاز تک خام تیل 76 ڈالر فی بیرل تک جاپہنچا، 2008 کے آغاز میں خام تیل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح 140 ڈالر فی بیرل تک جاپہنچیں، جس کے بعد وقتی کمی سے 54 ڈالر فی بیرل تک آنے کے بعد 2013 کے آغاز میں 96 ڈالر فی بیرل پر آگئیں، جو 2013 کے وسط تک معمولی اتار چڑھاؤ کے ساتھ برقرار رہیں اور اس کے بعد سے معمولی اتار چڑھاؤ کے ساتھ خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا تسلسل تاحال جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران پر عائد عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران نے خام تیل کی پانچ لاکھ بیرل یومیہ پیداوار کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہونے کا اعلان کیا ہے جس سے رسد میں اضافہ ہوگا اور خام تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی تیزی سے کم ہوتی قیمتوں کا پاکستانی حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایا مگر عوام کو اس کے مکمل فائدے سے دور رکھا گیا۔ عالمی سطح پر تیل کی گرتی قیمتوں کا فائدہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے پہنچایا جاسکتا تھا مگر حکومت نے اپنے دور اقتدار میں ہونے والی 70 فیصد کمی کو بہت سے ٹیکس عائد کرکے زائل کردیا اور قیمتوں کو برقرار رکھا، صرف یہی نہیں بلکہ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے عوام کو نہیں پہنچانا چاہتی تھی تو کم از کم فرنس آئل کی قیمتوں میں کمی کرکے پاور پروڈیوسرز کو فراہم کرنے سے نہ صرف بجلی بحران پر قابو پایا جاسکتا تھا بلکہ بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی لائی جاسکتی تھی۔

2014 میں جب خام تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی اورخام تیل کی فی بیرل قیمت 56 ڈالر تک گرگئی تو موجودہ حکومت نے عوام پر بہت بڑا احسان یہ جتایا کہ پٹرول کی قیمتوں میں 30 فیصد تک کمی کردی، اور اس کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کے لیے بھی بہت زور لگایا حالانکہ ان تمام کوششوں کا عوامی مفاد سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ اس وقت حکومت تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی جانب سے اسلام آباد دھرنوں کے باعث شدید دباؤ کا شکار تھی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی میں عافیت جانی اور پٹرول کی قیمتیں کم کرکے 70 روپے فی لیٹر پر لے آئی۔


پشاور میں سانحہ اے پی ایس کے غم نے پی ٹی آئی، پی اے ٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تو حکومت بھی اپنے فیصلوں میں آزاد ہوگئی اور خام تیل کی عالمی قیمتوں میں انتہائی کمی کے باوجود بھی موقع ملتے ہی پٹرول کی قیمت میں چھ روپے فی لیٹر اضافہ کردیا۔ وہ دھرنوں ہی کا کمال تھا جب نہ صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی تھی بلکہ حکومت نے عام آدمی کو خام تیل کی گرتی قیمتوں کا فائدہ پہنچانے کے لیے بھی اقدامات شروع کردیے تھے، اور تمام شعبوں کو یہ فائدہ پہنچانے پر مجبور کردیا تھا مگر اب چونکہ نہ دھرنا ہے اور نہ کوئی ازخود نوٹس، ہمارے حکمران مکمل طور پر ''آزاد'' ہیں۔

یہاں تک کہ اگر خام تیل کی قیمتیں دس ڈالر پر بھی آجائیں تو وہ اوگرا کی جانب سے پٹرولیم قیمتوں میں ''کمی کی سمری'' کو مسترد کرکے اگلے روز عوام پر احسان جتائیں گے کہ انھوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ''اضافے کی سمری'' کو مسترد کردیا ہے۔خیر ہمارا موضوع یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے ذریعے حکومت اپنا منافع (مختلف ٹیکسوں کی صورت میں) اور حکمران اپنی کمائی (مختلف کمیشنوں کی صورت) کسی طور بھی کم کرنے کو تیار نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں اگرچہ 28 ڈالر فی بیرل تک گرگئیں جو ذرا سنبھل کر 30 ڈالر پر آگئیں تاہم یہ قیمتیں 28 سے 32 ڈالر ہی کے درمیان رہیں، یا رہیں گی، مگر ہمارا انٹرنیشنل مارکیٹ سے واسطہ فقط اعدادوشمار تک محدود ہے، کیونکہ پاکستان خام تیل کی خریداری عرب ممالک سے کرتا ہے۔

عرب تیل کی قیمتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے کم ہوتی ہیں، جو اس وقت 23 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے ہیں۔ پاکستان سعودی عرب سے خام تیل خریدتا ہے، اور سعودی عرب دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے پاکستان کو خام تیل رعایتی نرخوں پر فراہم کرتا ہے، یوں پاکستان کو خام تیل 23 ڈالر فی بیرل سے بھی کم پڑتا ہے، بلکہ ترسیلی اخراجات کے ساتھ بھی بمشکل ہی 23 ڈالر فی بیرل تک پہنچ پاتا ہے۔ یاد رہے ایک بیرل خام تیل 42 گیلن یا 159 لیٹر کے برابر، جب کہ حجم 5.6 مربع فٹ اور وزن 140 کلو کے قریب ہوتا ہے۔ خام تیل صرف ایندھن ہی کے طور پر استعمال نہیں ہوتا بلکہ خام تیل کو صفائی کے مراحل سے گزار کر درجنوں مصنوعات تیار اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کو چھ ہزار کے قریب مختلف اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

خام تیل سے پٹرول، ڈیزل، ایل پی جی، مٹی کا تیل، اسپرٹ، الکوحل، تھنر، موبل آئل، بریک آئل، گریس و دیگر لبریکنٹس، ریفریجریٹر گیس (امونیا وغیرہ)، پٹرولیم جیل، موم، پلاسٹک، کیڑے مار ادویات، کھاد، گلیسرین، اسپرین، سڑکیں بنانے کے لیے تارکول وغیرہ حاصل کیے جاتے ہیں' جب کہ گلیو، پینٹ، کاربیٹری، صابن، ہیئرکلر، ناخن پالش، لپ اسٹک، کولڈ کریم، موم بتی، پائپ، سیفٹی شیشے، مصنوعی اعضا وغیرہ جیسی ہزاروں مصنوعات بھی خام تیل سے حاصل کردہ مصنوعات سے تیار کی جاتی ہیں۔آئل ریفائنریز خام تیل صاف کرنے کا کام انجام دیتی ہیں، یوں ایک بیرل یعنی 42 گیلن خام تیل 23 ڈالر (2415 روپے) بشمول سفری اخراجات کے ساتھ میں خرید کر اس سے پٹرولیم مصنوعات حاصل کرتی، اور انھیں فروخت کرتی ہیں۔

پٹرولیم ماہرین کے مطابق ریفائنری کے اخراجات اتنے زیادہ نہیں ہیں جتنے ریفائننگ کمپنیاں ظاہر کرتی ہیں، تاہم اگر اخراجات کچھ زیادہ بھی ہوں تو 2415 روپے فی بیرل حاصل کیا گیا خام تیل 15.18 روپے فی لیٹر پڑتا ہے، جسے ریفائن کرنے کے بعد بہت سی مصنوعات جیسے امونیاگیس، موبل آئل، ہائی اوکٹین، تھنر، اسپرٹ، الکوحل، گریس، پٹرولیم جیل وغیرہ پٹرول کی نسبت انتہائی مہنگے داموں فروخت کیے جاتے ہیں، ڈیزل کے نرخ بھی پٹرول سے زیادہ ہیں، البتہ فرنس آئل یا تارکول وغیرہ کم داموں میں فروخت کیا جاتا ہے مگر ان کی پیداوار (فریکشن) کا تناسب دیگر مہنگی مصنوعات کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، اسی طرح عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی چند پٹرولیم مصنوعات کی جانب منتقل کی جاتی ہے جب کہ بیشتر مصنوعات اور دیگر پیٹروکیمکلز کی قیمتوں میں بالکل کمی نہیں کی جاتی۔

یوں اگر ریفانننگ کمپنیاں خریداری ریٹ یعنی 15.18 روپے فی لیٹر پر پٹرول فروخت کریں تو بھی بھرپور منافع کماسکتی ہیں (کیونکہ دیگر درجنوں مصنوعات کی فروخت سے وہ کئی گنا منافع کمالیتی ہیں)۔ اگر ریفاننگ کمپنیوں کی ویب سائٹس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایکس ریفائنری نرخ (بشمول تمام ٹیکسز) مارکیٹ ریٹ سے انتہائی کم ہیں۔ہماری موجودہ جمہوری حکومت نے مزید ٹیکس در ٹیکس لگا کر قیمتیں کہاں پہنچا رکھی ہیں؟، کاش یہاں کوئی انھیں پوچھنے والا ہوتا، مگر یہاں تو صاحبان اختیار کالے دھندوں میں لگے ہیں۔ ایسی کسی بھی حکومت سے عوام کی بھلائی کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟
Load Next Story