اب کوئی مارشل لا آئے گا نہ ایمرجنسی نافذ ہوگی چیف جسٹس
ملک میں صرف قانون کی حکمرانی چلے گی،مقدمات کا فیصلہ دیر سے آنے کے تاثر سے اتفاق نہیں کرتا ،سرگودھا بارسے خطاب.
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ماضی میں حکومتوں کو دو ڈھائی سال بعد فارغ کر دیا جاتاتھا۔
عدلیہ بحالی تحریک میں وکلاکی جدوجہد نے یہ پیغام دے دیاکہ اب نہ مارشل لاء لگے گااور نہ ہی ایمرجنسی نافذ ہو گی، صرف قانون کی حکمرانی ہو گی اور لوگوں کو ان کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ڈسٹرکٹ بار سرگودھا میں وکلاسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے کہا کہ تین نومبر کے بعدملک میں آئین کی بالادستی کی مہم شروع ہوئی اور اب عدلیہ بحالی تحریک کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہو گی اور ملک کودر پیش مسائل کا حل نکلنا چاہیے ،انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہے۔
بار اوربینچ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں، کالے کوٹ اور ٹائی کی جو عزت آج ہے پانچ سال پہلے نہیں تھی،9 اپریل کو کراچی میں وکلاء کو زندہ جلایا گیا تھا اور 12 مئی کو وکلاپر کراچی میں فائرنگ ہوئی، کراچی میں وکلاکے قتل کو نہیں بھلایا جا سکتا،عام خیال یہ ہے کہ مقدمات کا فیصلہ دیر سے آتا ہے مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، عدلیہ بحالی کے بعد عوام کی توقعات عدلیہ سے بڑھتی جا رہی ہیں اور عوام کو انصاف کی فوری فراہمی ہونی چاہیے جس کیلیے ضلعی جوڈیشری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
سرگودھا اور فیصل آباد ہائی کورٹ بینچز کے قیام کے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ انھوں نے لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کا قابل قبول حل نکالیں اور اس معاملے کو دیکھیں۔قبل ازیں چیف جسٹس نے مقامی ججزکے ساتھ نیشنل جوڈیشنل پالیسی کے جائزہ اجلاس کی صدارت سرکٹ ہائوس میں کی جس میں انھوں نے کہا کہ نوجوان ججز پاکستان کا مستقبل ہیں، 2009کے بعد نوجوان ججز ابھر کر سامنے آئے ہیں اور اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام دے رہے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو اچھے ججز میں ہوتی ہیں،چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہاکہ عدل کرنا اللہ کی صفت ہے اور اس صفت پر عمل پیرا ہو کر ججز کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
عدلیہ بحالی تحریک میں وکلاکی جدوجہد نے یہ پیغام دے دیاکہ اب نہ مارشل لاء لگے گااور نہ ہی ایمرجنسی نافذ ہو گی، صرف قانون کی حکمرانی ہو گی اور لوگوں کو ان کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ڈسٹرکٹ بار سرگودھا میں وکلاسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے کہا کہ تین نومبر کے بعدملک میں آئین کی بالادستی کی مہم شروع ہوئی اور اب عدلیہ بحالی تحریک کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہو گی اور ملک کودر پیش مسائل کا حل نکلنا چاہیے ،انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہے۔
بار اوربینچ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں، کالے کوٹ اور ٹائی کی جو عزت آج ہے پانچ سال پہلے نہیں تھی،9 اپریل کو کراچی میں وکلاء کو زندہ جلایا گیا تھا اور 12 مئی کو وکلاپر کراچی میں فائرنگ ہوئی، کراچی میں وکلاکے قتل کو نہیں بھلایا جا سکتا،عام خیال یہ ہے کہ مقدمات کا فیصلہ دیر سے آتا ہے مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، عدلیہ بحالی کے بعد عوام کی توقعات عدلیہ سے بڑھتی جا رہی ہیں اور عوام کو انصاف کی فوری فراہمی ہونی چاہیے جس کیلیے ضلعی جوڈیشری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
سرگودھا اور فیصل آباد ہائی کورٹ بینچز کے قیام کے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ انھوں نے لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کا قابل قبول حل نکالیں اور اس معاملے کو دیکھیں۔قبل ازیں چیف جسٹس نے مقامی ججزکے ساتھ نیشنل جوڈیشنل پالیسی کے جائزہ اجلاس کی صدارت سرکٹ ہائوس میں کی جس میں انھوں نے کہا کہ نوجوان ججز پاکستان کا مستقبل ہیں، 2009کے بعد نوجوان ججز ابھر کر سامنے آئے ہیں اور اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام دے رہے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو اچھے ججز میں ہوتی ہیں،چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہاکہ عدل کرنا اللہ کی صفت ہے اور اس صفت پر عمل پیرا ہو کر ججز کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔