پرویز مشرف کی رہائی
عوام الناس کی اکثریت ابھی تک جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کو بھولی نہیں ہے۔
''بھئی واہ مزا آگیا۔ بڑا دلچسپ تماشا ہوگیا، اسے کہتے ہیں سانچ کو آنچ نہیں ہوتی، کیا خیال ہے آپ کا جناب؟'' اچانک میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا، میں نے گردن گھما کر انھیں دیکھا۔ وہ کوئی ستر یا پچھتر سالہ بزرگ تھے جو بس میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
''کون سا تماشا؟'' میں نے بے دلی سے پوچھا۔
''ارے بھئی وہی پرویز مشرف صاحب کو باعزت رہا کردیا گیا ہے، اس پر اکبر بگٹی کے بیٹے اور پوتے وغیرہ چیخ چلا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔'' ان صاحب نے تفصیل چھیڑی مگر میں نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے فوراً ہی انھیں ٹوک دیا ''جناب مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی میں اس موضوع پر کوئی بات کرنا چاہتا ہوں''۔
وہ صاحب خاموش ہوگئے، مجھے قدرے شرمندگی بھی ہوئی لیکن میں بس کے سفر میں بلاضرورت کسی سے گفتگو کو اچھا نہیں سمجھتا۔ لیکن وہ صاحب حقیقتاً درست فرما رہے تھے۔ تمام ٹی وی چینلز پر واقعی ایک نیا تماشا شروع ہوچکا تھا۔ ایک نئی بحث چھڑ چکی تھی۔ آج کل ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف (ر) موضوعِ بحث بن گئے ہیں اور ایک نئی بحث چھڑگئی تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے جس یقین دہانی پر استعفیٰ دیا تھا اس پر مسلم لیگ (ن) سے بھی مشورہ کیا گیا تھا اور وہ سابق صدر کے ملک سے باعزت واپس جانے پر رضامند ہوچکی تھی لہٰذا بعد ازاں ان پر جو مقدمات درج کروائے گئے وہ تمام کے تما م سیاسی تھے۔
ان میں ہی ایک مقدمہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کا بھی تھا۔ ٹی وی چینلز پر صدر مشرف کے حوالے سے شروع ہونے والی بحث نے عوامی حلقوں کو بھی گرمادیا تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ بھی اسی گرماہٹ کے زیرِ اثر تھے۔
وہ اب اگرچہ مجھ سے تو مخاطب نہیں تھے لیکن جیسے خود سے ہمکلام ہوتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ پرویز مشرف کی عزت اور ناموس پر آنچ بھی نہیں آئے گی اور وہ باعزت بری ہوجائیں گے، جو بدخواہ ہیں اور جنرل صاحب کے مخالف ہیں ان کی خواہش ہے کہ انھیں سزا ہوجائے۔ ان میں پیش پیش زرد صحافت کے علمبردار معرفت اور دوستی کا دم بھرنے والے وہ بعض کالم نگار ہیں جن کی ہرزہ سرائی سن کر عام آدمی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ پے رول پر ہیں اور حق نمک ادا کررہے ہیں۔
عوام الناس کی اکثریت ابھی تک جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کو بھولی نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا وہ سنہرا دور جو 2000 سے لے کر 2007 پر مشتمل ہے۔ وہ ایک مثالی دور تھا جس کی نظیر نہ 2000 سے پہلے ملتی ہے اور نہ 2008 کے بعد۔ لوگ خوشحال تھے، آسودہ حال تھے۔ لوگوں کی آمدن اور خرچ میں ایک توازن تھا۔ اسٹریٹ کرائم آٹے میں نمک کے برابر تھے اور اکادکا اگر واردات ہو بھی جاتی تھی تو دو کروڑ کے شہر میں تو یہ کچھ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے تھے جو سختی سے کچل دیے جاتے تھے۔ CNG کے لیے لائنیں نہیں لگتی تھیں اور نہ اس کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ اس دور میں کوئی بیرونی قرضہ نہیں لیا گیا تھا۔ سونے پر سہاگہ پچھلی حکومتوں کے لیے ہوئے قرضوں پر مارک اپ بھی حکومتی خزانے سے ادا ہوتے تھے۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر 16 بلین ڈالر سے تجاوز کرگئے تھے۔
بیرون ملک پاکستانی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ حکومت وقت جنرل صاحب کی تمام اچھائیوں کو پس پشت ڈال کر 3 نومبر 2007 کے واقعہ کو بنیاد بنا کر غداری کا مقدمہ چلانے پر مصر ہے۔ 3 نومبر 2007 کو نہ آئین توڑا گیا اور نہ کوئی ایسی غلطی سرزد ہوئی جو غداری کے زمرے میں آتی ہو۔ صرف آئین کی چند شقوں کو قانون سازی کی خاطر معطل کیا گیا تھا، جو 15 دسمبر 2007 کو بحال کردی گئی تھیں۔
میں صبح ہی اخبار میں پڑھ چکا تھا اور ٹی چینلز پر یہ خبر دیکھ لی تھی کہ پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی سے باعزت رہائی عمل میں آگئی، انسداد دہشت گردی کوئٹہ کی کورٹ ون کے جج جان محمد گوہر نے بلوچ قوم پرست رہنما نواب محمد اکبر بگٹی کے مقدمہ قتل میں نامزد ملزمان جنر ل ریٹائرڈ پرویز مشرف، سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ اور سابق وزیرداخلہ میر شعیب نوشیروانی کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کیے جب کہ مقدمے کو سردخانے میں رکھنے کا بھی حکم دیا۔ اس طرح یہ باب اب ختم ہوگیا ہے ۔مرحوم نواب اکبر بگٹی کے ورثا کا کہنا ہے کہ ہم بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے کیونکہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔ ان پر آمر ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے باوجود سب سے زیادہ جمہوریت ان ہی کے دور میں پھلی پھولی۔ جس کی واضح مثال ان کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات تھے، جن کے ذریعے اقتدار کی منتقلی نچلی سطح تک پہنچی اور پہلی بار عوام کے اپنے نمایندوں کو کام کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے لوگوں کی آمد کو یقینی بنانے کے اقدات کیے گئے اور الیکشن لڑنے کے لیے بی اے کی شرط لازمی قرار دیدی گئی۔
ان کے ہی دور میں خواتین کو بھرپور یعنی 33 فیصد نمایندگی کا موقع ملا جب کہ ان کے دور حکومت میں کراچی میں جو ترقیاتی کام ہوئے وہ سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہلی بار ان کاموں کی بدولت کراچی کو دیکھ کر یہ محسو س ہونے لگا تھا کہ حقیقتاً یہ بین الاقوامی اور دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ لیکن آج کراچی کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ اقتدار پر براجمان لوگوں نے کراچی کو لوٹ کھسوٹ لیا اور کرپشن کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود کراچی کو کسی بیوہ کی طرح اپنے مقدر پر رونے کے لیے چھوڑ دیا۔
میں نے مسکراتے ہوئے ان بزرگ کی جانب کنکھیوں سے دیکھا، وہ ابھی تک خودکلامی کا شکار تھے۔ میں ان کی باتیں بڑے غور سے انھیں احساس دلائے بغیر سن رہا تھا۔ بالآخر مجھ سے نہ رہا گیا اور بول پڑا۔ ''قبلہ آپ درست فرما رہے ہیں، موجودہ صورت حال دیکھتے ہوئے ساری دنیا ہماری حکومت پر ہنس رہی ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ جنرل پرویز مشرف سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو پھر وہ گناہ تو 12 اکتوبر کو ہوا تھا، جب میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا، لیکن اس کے لیے بھی پرویز مشرف کو الزام نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ وہ تو اس وقت فضا میں تھے اور سری لنکا کے دورے کے بعد وطن واپس لوٹ رہے تھے۔
ان کا ہوائی جہاز ابھی پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا کہ جہاز کے کیپٹن کو یہ پیغام دیا گیا کہ جہاز کو لینڈ نہ کیا جائے بلکہ کسی دوسرے ملک خصوصاً بھارت میں اتارا جائے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق پرویز مشرف پر ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین سے غداری کا مرتکب قرار دے کر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس مقدمے میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ کو رکھا گیا تھا وہ تو خود وزیراعظم کے ساتھ ایک دورہ کراچی میں ان کے ہمراہ تھے اور تقریباً ہر اہم دورے میں ہمرکابی فرماتے تھے۔''
میری گفتگو ادھوری رہ گئی، اسٹاپ آچکا تھا۔ میں اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور چلتے چلتے ان سے کہا ''اس تماشے پر کسی اور سے گفتگو جاری رکھیے گا، ہمارے ملک میں روز ہی تماشا ہوتا ہے۔''
''کون سا تماشا؟'' میں نے بے دلی سے پوچھا۔
''ارے بھئی وہی پرویز مشرف صاحب کو باعزت رہا کردیا گیا ہے، اس پر اکبر بگٹی کے بیٹے اور پوتے وغیرہ چیخ چلا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔'' ان صاحب نے تفصیل چھیڑی مگر میں نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے فوراً ہی انھیں ٹوک دیا ''جناب مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی میں اس موضوع پر کوئی بات کرنا چاہتا ہوں''۔
وہ صاحب خاموش ہوگئے، مجھے قدرے شرمندگی بھی ہوئی لیکن میں بس کے سفر میں بلاضرورت کسی سے گفتگو کو اچھا نہیں سمجھتا۔ لیکن وہ صاحب حقیقتاً درست فرما رہے تھے۔ تمام ٹی وی چینلز پر واقعی ایک نیا تماشا شروع ہوچکا تھا۔ ایک نئی بحث چھڑ چکی تھی۔ آج کل ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف (ر) موضوعِ بحث بن گئے ہیں اور ایک نئی بحث چھڑگئی تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے جس یقین دہانی پر استعفیٰ دیا تھا اس پر مسلم لیگ (ن) سے بھی مشورہ کیا گیا تھا اور وہ سابق صدر کے ملک سے باعزت واپس جانے پر رضامند ہوچکی تھی لہٰذا بعد ازاں ان پر جو مقدمات درج کروائے گئے وہ تمام کے تما م سیاسی تھے۔
ان میں ہی ایک مقدمہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کا بھی تھا۔ ٹی وی چینلز پر صدر مشرف کے حوالے سے شروع ہونے والی بحث نے عوامی حلقوں کو بھی گرمادیا تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ بھی اسی گرماہٹ کے زیرِ اثر تھے۔
وہ اب اگرچہ مجھ سے تو مخاطب نہیں تھے لیکن جیسے خود سے ہمکلام ہوتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ پرویز مشرف کی عزت اور ناموس پر آنچ بھی نہیں آئے گی اور وہ باعزت بری ہوجائیں گے، جو بدخواہ ہیں اور جنرل صاحب کے مخالف ہیں ان کی خواہش ہے کہ انھیں سزا ہوجائے۔ ان میں پیش پیش زرد صحافت کے علمبردار معرفت اور دوستی کا دم بھرنے والے وہ بعض کالم نگار ہیں جن کی ہرزہ سرائی سن کر عام آدمی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ پے رول پر ہیں اور حق نمک ادا کررہے ہیں۔
عوام الناس کی اکثریت ابھی تک جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کو بھولی نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا وہ سنہرا دور جو 2000 سے لے کر 2007 پر مشتمل ہے۔ وہ ایک مثالی دور تھا جس کی نظیر نہ 2000 سے پہلے ملتی ہے اور نہ 2008 کے بعد۔ لوگ خوشحال تھے، آسودہ حال تھے۔ لوگوں کی آمدن اور خرچ میں ایک توازن تھا۔ اسٹریٹ کرائم آٹے میں نمک کے برابر تھے اور اکادکا اگر واردات ہو بھی جاتی تھی تو دو کروڑ کے شہر میں تو یہ کچھ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے تھے جو سختی سے کچل دیے جاتے تھے۔ CNG کے لیے لائنیں نہیں لگتی تھیں اور نہ اس کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ اس دور میں کوئی بیرونی قرضہ نہیں لیا گیا تھا۔ سونے پر سہاگہ پچھلی حکومتوں کے لیے ہوئے قرضوں پر مارک اپ بھی حکومتی خزانے سے ادا ہوتے تھے۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر 16 بلین ڈالر سے تجاوز کرگئے تھے۔
بیرون ملک پاکستانی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ حکومت وقت جنرل صاحب کی تمام اچھائیوں کو پس پشت ڈال کر 3 نومبر 2007 کے واقعہ کو بنیاد بنا کر غداری کا مقدمہ چلانے پر مصر ہے۔ 3 نومبر 2007 کو نہ آئین توڑا گیا اور نہ کوئی ایسی غلطی سرزد ہوئی جو غداری کے زمرے میں آتی ہو۔ صرف آئین کی چند شقوں کو قانون سازی کی خاطر معطل کیا گیا تھا، جو 15 دسمبر 2007 کو بحال کردی گئی تھیں۔
میں صبح ہی اخبار میں پڑھ چکا تھا اور ٹی چینلز پر یہ خبر دیکھ لی تھی کہ پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی سے باعزت رہائی عمل میں آگئی، انسداد دہشت گردی کوئٹہ کی کورٹ ون کے جج جان محمد گوہر نے بلوچ قوم پرست رہنما نواب محمد اکبر بگٹی کے مقدمہ قتل میں نامزد ملزمان جنر ل ریٹائرڈ پرویز مشرف، سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ اور سابق وزیرداخلہ میر شعیب نوشیروانی کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کیے جب کہ مقدمے کو سردخانے میں رکھنے کا بھی حکم دیا۔ اس طرح یہ باب اب ختم ہوگیا ہے ۔مرحوم نواب اکبر بگٹی کے ورثا کا کہنا ہے کہ ہم بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے کیونکہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔ ان پر آمر ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے باوجود سب سے زیادہ جمہوریت ان ہی کے دور میں پھلی پھولی۔ جس کی واضح مثال ان کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات تھے، جن کے ذریعے اقتدار کی منتقلی نچلی سطح تک پہنچی اور پہلی بار عوام کے اپنے نمایندوں کو کام کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے لوگوں کی آمد کو یقینی بنانے کے اقدات کیے گئے اور الیکشن لڑنے کے لیے بی اے کی شرط لازمی قرار دیدی گئی۔
ان کے ہی دور میں خواتین کو بھرپور یعنی 33 فیصد نمایندگی کا موقع ملا جب کہ ان کے دور حکومت میں کراچی میں جو ترقیاتی کام ہوئے وہ سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہلی بار ان کاموں کی بدولت کراچی کو دیکھ کر یہ محسو س ہونے لگا تھا کہ حقیقتاً یہ بین الاقوامی اور دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ لیکن آج کراچی کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ اقتدار پر براجمان لوگوں نے کراچی کو لوٹ کھسوٹ لیا اور کرپشن کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود کراچی کو کسی بیوہ کی طرح اپنے مقدر پر رونے کے لیے چھوڑ دیا۔
میں نے مسکراتے ہوئے ان بزرگ کی جانب کنکھیوں سے دیکھا، وہ ابھی تک خودکلامی کا شکار تھے۔ میں ان کی باتیں بڑے غور سے انھیں احساس دلائے بغیر سن رہا تھا۔ بالآخر مجھ سے نہ رہا گیا اور بول پڑا۔ ''قبلہ آپ درست فرما رہے ہیں، موجودہ صورت حال دیکھتے ہوئے ساری دنیا ہماری حکومت پر ہنس رہی ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ جنرل پرویز مشرف سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو پھر وہ گناہ تو 12 اکتوبر کو ہوا تھا، جب میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا، لیکن اس کے لیے بھی پرویز مشرف کو الزام نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ وہ تو اس وقت فضا میں تھے اور سری لنکا کے دورے کے بعد وطن واپس لوٹ رہے تھے۔
ان کا ہوائی جہاز ابھی پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا کہ جہاز کے کیپٹن کو یہ پیغام دیا گیا کہ جہاز کو لینڈ نہ کیا جائے بلکہ کسی دوسرے ملک خصوصاً بھارت میں اتارا جائے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق پرویز مشرف پر ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین سے غداری کا مرتکب قرار دے کر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس مقدمے میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ کو رکھا گیا تھا وہ تو خود وزیراعظم کے ساتھ ایک دورہ کراچی میں ان کے ہمراہ تھے اور تقریباً ہر اہم دورے میں ہمرکابی فرماتے تھے۔''
میری گفتگو ادھوری رہ گئی، اسٹاپ آچکا تھا۔ میں اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور چلتے چلتے ان سے کہا ''اس تماشے پر کسی اور سے گفتگو جاری رکھیے گا، ہمارے ملک میں روز ہی تماشا ہوتا ہے۔''