نعمت غیر مترقبہ اور غریب عوام
لیکن ہمارے جیسے غیر ترقی یافتہ ملکوں کے لیے یہ ایک نادر اور سنہری موقع ہے،
مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ اس کے آتے ہی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں اچانک کم ہونا شروع ہو گئیں اور گرتے گرتے 30 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے کی سطح پر آ گئیں۔ تیل نکالنے اور اسے برآمد کرنے والے ان ملکوں کے لیے تو یہ ایک انتہائی کٹھن، ناخوشگوار اور اذیت ناک دور ہے جہاں ان کی معیشت کا سارا دارومدار ہی تیل کی آمدنی سے وابستہ اور منسلک ہے۔
لیکن ہمارے جیسے غیر ترقی یافتہ ملکوں کے لیے یہ ایک نادر اور سنہری موقع ہے، جن کی معیشت تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ مگر ہماری حکومت نے اس نعمت غیر مترقبہ کو چپ چاپ اکیلے ہی اکیلے سمیٹ لینے کا ارادہ کر لیا اور اپنے عوام تک اس کے ثمرات پہنچانے میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا۔ جب تک اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے اس طرزعمل کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوتی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی اور ہر ماہ تیل کی قیمتوں میں معمولی ردوبدل کر کے اسے جوں کا توں برقرار رکھنے کا فرمان امروز جاری کرتی رہتی ہے۔
دیکھا جائے تو ہماری حکومت نے اس ایک سال میں صرف تیل کی مد میں اربوں روپے کما لیے ہیں اور وہ عوام کی بے بسی اور خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سارے فوائد میں سے تھوڑا بہت بھی عوام کو منتقل کرنا نہیں چاہ رہی۔ جب بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھنے لگتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ ہر حکومت اسے فوراً ہی عوام کے سروں پر لاد دینے میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہیں کرتی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ سارے منافع خور دکاندار، تاجر اور بزنس مین بھی حرکت میں آ جاتے ہیں جو اپنے غریب عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لینے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔
وہ فوراً ہی ساری اشیائے خور و نوش اور دیگر چیزوں کی قیمتوں کو اسی تناسب سے یا اس سے بھی زائد سطح پر لے آتے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ لوگوں کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے ایسے تاجروں کے خلاف تادیبی کارروائی کے اعلانات تو ضرور ہوتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد ندارد۔ نتیجتاً عوام اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو اپنا مقدر سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب جب تیل کی قیمت عالمی منڈی میں انتہائی نچلی سطح پر آ گئی ہے تو ہمارے حکمران اسے اپنے عوام کو منتقل کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں یا اس میں معمولی سی کمی بیشی کر کے ہر ماہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔
اور اگر کسی دباؤ کے تحت وہ ایسا کرنے پر مجبور بھی ہو جائیں تو دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اسی لحاظ سے کمی کرنے میں نا صرف ناکام ہوتے ہیں بلکہ انتہائی غفلت اور اپنے منصبی فرائض اور ذمے داریاں پوری نہ کرنے کے ضمن میں بھی قومی جرم کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو اپنے سرکاری اختیارات استعمال کر کے تمام تاجروں، منافع خور دکانداروں اور بزنس مینوں سے ان احکامات پر مکمل عمل برداری بھی کروا سکتے ہیں۔ لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھانے میں تغافل اور نااہلی کا شکار ہوتی رہی ہے۔
تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کے سارے ثمرات بالا ہی بالا اکیلے سمیٹ لینے کے باوجود حکومت نے اپنے عوام پر ایک ستم اور یہ کیا کہ دو ماہ قبل اچانک چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس نافذ کر دیے۔ سالانہ بجٹ کو آئے ہوئے ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک اور منی بجٹ پیش کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری اپوزیشن جو رینجرز کے اختیارات کے معاملے میں تو حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی باتیں کرتی ہے اور خم ٹھونک کر میدان جنگ میں اتر آتی ہے لیکن جب معاملہ غریب عوام کے حقوق کا آتا ہے تو سب کو سانپ سونگھ لیتا ہے۔
نہ پاکستان پیپلز پارٹی کوئی بھرپور احتجاج کرتی ہے اور نہ تحریک انصاف کوئی تاریخی دھرنا دیتی ہے۔ چار حلقے کھولنے کے ایشو کو لے کر 126 دنوں تک سارے اسلام آباد کو تو مفلوج کیا جا سکتا ہے مگر عوام کی تکالیف پر کوئی بھرپور احتجاج بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر عوام کی حمایت مطلوب ہو تو ایسے ہی قومی معاملات کو ہوا دی جاتی ہے اور انھیں لے کر آگے بڑھا جاتا ہے۔ یہ وہ ایشوز ہوتے ہیں جن پر سخت سے سخت جابر حکومت بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جایا کرتی ہے۔ کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ عوام اگر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر کوئی اسے بچا نہیں سکتا۔
ذرا غور کیجیے، تیل کی عالمی قیمت آج کس سطح پر ہے اور ہمارے یہاں پٹرول کس بھاؤ مل رہا ہے۔ ریفائنری پروسس، ترسیل اور ٹیکس کی مد میں ہونے والے تمام اخراجات نکال کر بھی وہ اسے اس قیمت پر نہیں ہونا چاہیے جس پر ہمیں وہ آج مل رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرایع بس، رکشہ، ٹیکسی، ریل، ہوائی جہاز کے کرایوں سمیت تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہونی چاہیے جو نہیں ہو رہی۔ ان سب کوتاہیوں اور نااہلیوں کو ہم کس کے کھاتے میں ڈالیں گے۔
اپنے عوام کی تکالیف کا مداوا کرنا کس کی ذمے داری ہے۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت اگلے ماہ سے پٹرول کی مصنوعات میں 10 سے 14 روپے کی کمی کا اعلان کرنے والی ہے۔ ایسے خوش کن اعلانات ہمارے عوام پہلے بھی سنتے رہے ہیں لیکن جب وہ مرحلہ آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ پٹرول میں توقعات سے نہایت کم شرح پر کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ غریب عوام یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ چلو انھیں کچھ نہ کچھ تو ریلیف ملا۔ تیل کی قیمتوں کا تعین کرنے والا محکمہ اوگرا ہر ماہ ایک ایسی سمری تیار کر کے منظوری کے لیے حکومت کے کورٹ میں ڈال کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے جس میں منافع کا پلڑا پہلے ہی اپنے حق میں رکھا گیا ہوتا ہے۔
پھر جب حکومت اس پر غور کرتی ہے تو مزید ردوبدل کر کے اسے مکمل طور پر اپنے فائدے کا بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے اور عوام کو صرف چند ٹکوں پر ہی ٹرخا دیا جاتا ہے۔ پٹرول کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر کے حکومت اپنے لوگوں پر کوئی احسان نہیں کر رہی ہوتی ہے، جب وہ عالمی منڈی میں اضافہ کو بہانہ بنا کر سارا بوجھ اپنے لوگوں کے کاندھوں پر منتقل کر سکتی ہے تو اب جب وہ اتفاقاً ساری دنیا میں نہایت ارزاں اور سستا ہو رہا ہے تو اس میں ہچکچاہٹ اور تذبذب کیوں؟ حکومت کو یہ قطعاً زیب نہیں دیتا کہ وہ عوام پر عائد ٹیکسوں میں تو کمی نہ کرے لیکن قدرت کی طرف سے دی ہوئی غیر متوقع نعمتوں کو بھی اندرونِ خانہ اکیلے اکیلے ہی اپنی جیبوں میں ڈال لے۔ یہ قوم کے حق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوں فوراً اسی تناسب سے اپنے یہاں بھی تیل سستا کر دیا جائے نا کہ پس و پیش سے کام لے کر بلاوجہ تاخیری حربے اختیار کیے جائیں۔ حکومت کو عوام کی جانب سے کسی ردعمل کے انتظار کے بجائے خود اپنے طور پر یہ قدم اٹھانا چاہیے۔ موجودہ حکومت عوام کی بھلائی و بہبود کے اپنے منشور اور دعوؤں میں اگر مخلص ہے تو پھر اسے ایسے کاموں سے یقیناً اجتناب کرنا چاہیے جن سے اس کے دعوؤں کی نفی ہوتی ہو۔ عوام یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جہاں دیگر معاملات میں حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہاں اس معاملے میں بھی کسی غیر ذمے داری یا بدنیتی کی مرتکب نہیں ہو گی اور تیل کی مد میں ہونے والی اضافی آمدنی میں اپنے عوام کو بھی حصہ دار بنائے گی۔
لیکن ہمارے جیسے غیر ترقی یافتہ ملکوں کے لیے یہ ایک نادر اور سنہری موقع ہے، جن کی معیشت تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ مگر ہماری حکومت نے اس نعمت غیر مترقبہ کو چپ چاپ اکیلے ہی اکیلے سمیٹ لینے کا ارادہ کر لیا اور اپنے عوام تک اس کے ثمرات پہنچانے میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا۔ جب تک اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے اس طرزعمل کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوتی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی اور ہر ماہ تیل کی قیمتوں میں معمولی ردوبدل کر کے اسے جوں کا توں برقرار رکھنے کا فرمان امروز جاری کرتی رہتی ہے۔
دیکھا جائے تو ہماری حکومت نے اس ایک سال میں صرف تیل کی مد میں اربوں روپے کما لیے ہیں اور وہ عوام کی بے بسی اور خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سارے فوائد میں سے تھوڑا بہت بھی عوام کو منتقل کرنا نہیں چاہ رہی۔ جب بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھنے لگتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ ہر حکومت اسے فوراً ہی عوام کے سروں پر لاد دینے میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہیں کرتی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ سارے منافع خور دکاندار، تاجر اور بزنس مین بھی حرکت میں آ جاتے ہیں جو اپنے غریب عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لینے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔
وہ فوراً ہی ساری اشیائے خور و نوش اور دیگر چیزوں کی قیمتوں کو اسی تناسب سے یا اس سے بھی زائد سطح پر لے آتے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ لوگوں کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے ایسے تاجروں کے خلاف تادیبی کارروائی کے اعلانات تو ضرور ہوتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد ندارد۔ نتیجتاً عوام اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو اپنا مقدر سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب جب تیل کی قیمت عالمی منڈی میں انتہائی نچلی سطح پر آ گئی ہے تو ہمارے حکمران اسے اپنے عوام کو منتقل کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں یا اس میں معمولی سی کمی بیشی کر کے ہر ماہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔
اور اگر کسی دباؤ کے تحت وہ ایسا کرنے پر مجبور بھی ہو جائیں تو دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اسی لحاظ سے کمی کرنے میں نا صرف ناکام ہوتے ہیں بلکہ انتہائی غفلت اور اپنے منصبی فرائض اور ذمے داریاں پوری نہ کرنے کے ضمن میں بھی قومی جرم کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو اپنے سرکاری اختیارات استعمال کر کے تمام تاجروں، منافع خور دکانداروں اور بزنس مینوں سے ان احکامات پر مکمل عمل برداری بھی کروا سکتے ہیں۔ لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھانے میں تغافل اور نااہلی کا شکار ہوتی رہی ہے۔
تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کے سارے ثمرات بالا ہی بالا اکیلے سمیٹ لینے کے باوجود حکومت نے اپنے عوام پر ایک ستم اور یہ کیا کہ دو ماہ قبل اچانک چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس نافذ کر دیے۔ سالانہ بجٹ کو آئے ہوئے ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک اور منی بجٹ پیش کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری اپوزیشن جو رینجرز کے اختیارات کے معاملے میں تو حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی باتیں کرتی ہے اور خم ٹھونک کر میدان جنگ میں اتر آتی ہے لیکن جب معاملہ غریب عوام کے حقوق کا آتا ہے تو سب کو سانپ سونگھ لیتا ہے۔
نہ پاکستان پیپلز پارٹی کوئی بھرپور احتجاج کرتی ہے اور نہ تحریک انصاف کوئی تاریخی دھرنا دیتی ہے۔ چار حلقے کھولنے کے ایشو کو لے کر 126 دنوں تک سارے اسلام آباد کو تو مفلوج کیا جا سکتا ہے مگر عوام کی تکالیف پر کوئی بھرپور احتجاج بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر عوام کی حمایت مطلوب ہو تو ایسے ہی قومی معاملات کو ہوا دی جاتی ہے اور انھیں لے کر آگے بڑھا جاتا ہے۔ یہ وہ ایشوز ہوتے ہیں جن پر سخت سے سخت جابر حکومت بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جایا کرتی ہے۔ کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ عوام اگر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر کوئی اسے بچا نہیں سکتا۔
ذرا غور کیجیے، تیل کی عالمی قیمت آج کس سطح پر ہے اور ہمارے یہاں پٹرول کس بھاؤ مل رہا ہے۔ ریفائنری پروسس، ترسیل اور ٹیکس کی مد میں ہونے والے تمام اخراجات نکال کر بھی وہ اسے اس قیمت پر نہیں ہونا چاہیے جس پر ہمیں وہ آج مل رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرایع بس، رکشہ، ٹیکسی، ریل، ہوائی جہاز کے کرایوں سمیت تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہونی چاہیے جو نہیں ہو رہی۔ ان سب کوتاہیوں اور نااہلیوں کو ہم کس کے کھاتے میں ڈالیں گے۔
اپنے عوام کی تکالیف کا مداوا کرنا کس کی ذمے داری ہے۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت اگلے ماہ سے پٹرول کی مصنوعات میں 10 سے 14 روپے کی کمی کا اعلان کرنے والی ہے۔ ایسے خوش کن اعلانات ہمارے عوام پہلے بھی سنتے رہے ہیں لیکن جب وہ مرحلہ آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ پٹرول میں توقعات سے نہایت کم شرح پر کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ غریب عوام یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ چلو انھیں کچھ نہ کچھ تو ریلیف ملا۔ تیل کی قیمتوں کا تعین کرنے والا محکمہ اوگرا ہر ماہ ایک ایسی سمری تیار کر کے منظوری کے لیے حکومت کے کورٹ میں ڈال کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے جس میں منافع کا پلڑا پہلے ہی اپنے حق میں رکھا گیا ہوتا ہے۔
پھر جب حکومت اس پر غور کرتی ہے تو مزید ردوبدل کر کے اسے مکمل طور پر اپنے فائدے کا بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے اور عوام کو صرف چند ٹکوں پر ہی ٹرخا دیا جاتا ہے۔ پٹرول کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر کے حکومت اپنے لوگوں پر کوئی احسان نہیں کر رہی ہوتی ہے، جب وہ عالمی منڈی میں اضافہ کو بہانہ بنا کر سارا بوجھ اپنے لوگوں کے کاندھوں پر منتقل کر سکتی ہے تو اب جب وہ اتفاقاً ساری دنیا میں نہایت ارزاں اور سستا ہو رہا ہے تو اس میں ہچکچاہٹ اور تذبذب کیوں؟ حکومت کو یہ قطعاً زیب نہیں دیتا کہ وہ عوام پر عائد ٹیکسوں میں تو کمی نہ کرے لیکن قدرت کی طرف سے دی ہوئی غیر متوقع نعمتوں کو بھی اندرونِ خانہ اکیلے اکیلے ہی اپنی جیبوں میں ڈال لے۔ یہ قوم کے حق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوں فوراً اسی تناسب سے اپنے یہاں بھی تیل سستا کر دیا جائے نا کہ پس و پیش سے کام لے کر بلاوجہ تاخیری حربے اختیار کیے جائیں۔ حکومت کو عوام کی جانب سے کسی ردعمل کے انتظار کے بجائے خود اپنے طور پر یہ قدم اٹھانا چاہیے۔ موجودہ حکومت عوام کی بھلائی و بہبود کے اپنے منشور اور دعوؤں میں اگر مخلص ہے تو پھر اسے ایسے کاموں سے یقیناً اجتناب کرنا چاہیے جن سے اس کے دعوؤں کی نفی ہوتی ہو۔ عوام یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جہاں دیگر معاملات میں حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہاں اس معاملے میں بھی کسی غیر ذمے داری یا بدنیتی کی مرتکب نہیں ہو گی اور تیل کی مد میں ہونے والی اضافی آمدنی میں اپنے عوام کو بھی حصہ دار بنائے گی۔