لہروں کا گیت

اکثر وہ لوگ فطرت کو کھوجتے ہیں، جو اپنی ذات میں رہنا جانتے ہیں۔ یہ داخلی دنیا ہے

shabnumg@yahoo.com

اکثر وہ لوگ فطرت کو کھوجتے ہیں، جو اپنی ذات میں رہنا جانتے ہیں۔ یہ داخلی دنیا ہے، ایک ایسا سفر جو آپ کو خارجی دنیا سے جوڑ کے رہتا ہے۔ یہ سفر ہر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ راستہ دشوار گزار ہے، جس کے لیے ذہن کے شور سے نجات حاصل کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایک ایسی خاموش دنیا ہے جو فطرت کی آوازوں سے بھری ہوئی ہے۔

ہر طرف سمندر کا شور سنائی دیتا ہے، تاحد نگاہ لہریں ہیں۔ یہ سورج، سمندر اور ریت کا سفر ہے۔ نہ آنکھیں تھکتی ہیں اور نہ ہی ذہن اس بے کراں خوبصورتی سے غافل ہونا چاہتا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے سری لنکا کے خوبصورت شہر Hikkaduwa پہنچے ہیں۔ سمندر کے کنارے بنا سٹرس ہوٹل سمندر کے دیوانوں کے لیے ایک حسین اور منفرد جائے پناہ ہے۔

انڈین اوشن کی شفاف بلیو اور مور کے رنگوں جیسے مناظر سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ سری لنکا کے جنوبی ساحلی علاقے میں واقع یہ خوبصورت علاقہ سیاحوں کے لیے بڑی کشش کا حامل ہے۔ مئی سے اکتوبر تک سری لنکا میں مون سون (بارشوں) کی وجہ سے سیاحوں کے لیے یہ آف سیزن کہلاتا ہے۔

کتل گالا سے چینی خاندان ایک بڑی سی وین میں ہماری گاڑی کے ساتھ چلتے ہوئے اس ہوٹل میں داخل ہوئے ہیں۔ کتل گالا کے ریسٹورنٹ کے پرسکون ماحول کا سکون ان لوگوں نے غارت کر کے رکھ دیا۔ یہ شور مچاتے اور زور زور سے بولتے ہوئے ہر طرف پھیل گئے تھے۔ انھیں سٹرس ہوٹل میں داخل ہوتے دیکھ کے میرا منہ بن گیا۔ ہوٹل کے کمرے میں سامان وغیرہ رکھ کے جب ہم لاؤنج کی طرف آ رہے تھے تو چند چینی خواتین راستہ روک کے کھڑی تھیں۔ اپنی بات ختم کر کے وہاں سے ہٹیں۔

سہ پہر کی دھوپ کے حسین رنگ ساحل سمندر پر پھیلے ہوئے تھے۔ آسمان کا رنگ گہرا نیلا ہو چلا تھا کہ اوپر دیکھتے ہی آنکھوں میں نیند کا خمار اترنے لگتا۔ ہوائیں، ناریل کے درختوں کو چھوتیں تو بے اختیار سبز پتوں کی پائیل چھنکنے لگتی۔ ایزی چیئر پر لیٹے میاں اور بچے سمندر کا نظارہ کر رہے تھے۔

دوسری طرف سوئمنگ پول کے سبز پانی میں یورپی لڑکیاں جل پریوں کی طرح تیر رہی تھیں۔ ایک حسین لڑکی ایزی چیئر پر لیٹی دھوپ تاپ رہی تھی۔ اس کے پیٹ پر ٹیٹو کے نقش و نگار نمایاں تھے۔ یہاں اکثر غیر ملکیوں کو اس خبط میں مبتلا دیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں نچلہ طبقہ، فوجی، ملاح و جرائم پیشہ لوگ ٹیٹو بنوایا کرتے تھے۔ برطانیہ میں ہر سال لندن میں ٹیٹو انٹرنیشنل کنونشن منعقد کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں تین ہزار سے زیادہ ٹیٹو پارلرز کام کر رہے ہیں۔

ٹیٹو بنانے کا خرچہ چھ سو پونڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ ٹیٹو مٹانے کے لیے لیزر مشین سے مدد لی جاتی ہے جس کے لیے آٹھ سے دس ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ لیزر کے یہ سیشنز کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ یہ عجیب شوق مضر صحت بھی ہے۔ منفرد دکھائی دینے کی خواہش میں اکثر لوگ خطرات کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ خون کا عطیہ نہیں دے سکتے۔ جسم کی کھال کا رنگ بدلنے کی وجہ سے خون متاثر ہوتا ہے۔

سورج ڈوبنے کے وقت بہت سارے لوگ لہروں میں شفق کے رنگوں کو کھوجتے رہے۔ میرے قریب ہی آسٹریلیا کا معمر جوڑا آرام دہ کرسیوں پر دنیا و مافیہا سے بے خود پڑا تھا۔ گہری سانسیں لیتے وہ سمندری مخلوق بن گئے اور لہروں کا گیت سننے لگے۔


شاید زندگی میں فنا کا لمس محسوس کر رہے تھے۔ وجود کی نفی سے زندگی کے دنوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بے خود لمحوں کے پاس گہری قوت ہوتی ہے۔ آگہی کے عذاب سے دور لاتعلقی کی جنت بستی ہے۔ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر لمحہ باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ چاہے اپنی ذات سے کتنے ہی انجان کیوں نہ ہوں! لیکن ہر گھڑی دوسروں کے ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ اس حد تک کہ ہم فطرت کی خوبصورتی کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اور معاشرتی زندگی کا انتشار خود پر طاری کر لیتے ہیں۔

لیکن یہاں آ کر احساس ہوا کہ کس طرح دنیا کے دور دراز ملکوں سے لوگ یہاں آ کر، مسائل سے اپنا راستہ منقطع کر لیتے ہیں اور فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ میرے قریب بیٹھی ہوئی فرانس کی کیتھرین کہنے لگی ''میں دنیا کے بہت سے ملکوں میں گھوم چکی ہوں۔ کئی ساحل سمندر دیکھے مگر یہاں کے سمندرکی الگ بات ہے۔ یہاں خاموشی اور سکون ہے۔ جس کی تلاش میں بار بار اس ملک کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔''

وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی۔ ماحولیاتی آلودگی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں فطرت کے رنگ خالص اور منفرد نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک میں فطری خوبصورتی کی فراوانی ہے۔ دریا، پہاڑ، سمندر، سبزہ و جنگلات وغیرہ موجود ہیں مگر ان کی صحیح دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہمارے دریا و سمندر اپنا اثر و افادیت کھو چکے ہیں، لیکن سری لنکا میں ہر جگہ لوگ صفائی و ستھرائی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہوٹل، ریسٹورنٹ اور کاروباری مراکز میں گندا کچرا بڑی پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند کر کے ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے۔

مقررہ وقت پرگاڑیاں آ کر وہ پلاسٹک کی تھیلیاں اٹھا کے لے جاتی ہیں۔ عام لوگوں اور انتظامیہ کے درمیان واضح تعاون نظر آیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ کراچی میں جگہ جگہ گند کچرے کے ڈھیر دکھائی دیے۔ گل پلازہ کے سامنے کچرے کی حالت تشویشناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ ہمارے ملک کے تمام بڑے شہروں کی حالت ایک جیسی ہے۔ ساری ذمے داری حکمرانوں اور انتظامیہ پر ڈال دی جاتی ہے۔ عوامی زندگی میں کہیں بھی نہ تنظیم ہے اور نہ ہی ذاتی ذمے داری کا احساس۔ صفائی و ستھرائی کا فقدان ہونے کی وجہ سے آئے دن وبائی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔ خیر ہر جگہ ایک آئینہ نظر آیا۔

سمندر کے بدلتے ہوئے رنگ مختلف اوقات میں منفرد دکھائی دیتے ہیں۔ لہروں پر چاندنی کی چنبیلی مہک رہی تھی۔ ہر شخص وجد کی کیفیت میں گم صم بیٹھا تھا۔

چینی خواتین خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ ان کی باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ کبھی ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کرتیں تو کبھی کھلکھلا کے ہنس پڑتیں۔ کچھ ساحل سمندر پر ایک دوسرے کے پیچھے دوڑنے لگتیں اور ہر طرف زندگی کا احساس رقص کرنے لگتا۔

بہت سے لوگ لہروں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ جدید تحقیق کے مطابق سمندر میں نہانے سے نہ فقط مزاج میں بہتری آتی ہے بلکہ جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ ہیپوکریٹس نے سب سے پہلے تھیلاسو تھیراپی کا لفظ استعمال کیا تھا۔ جس کے مطابق سمندر میں نہانے کے شفایاب اثرات بیان کیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ساحل سمندر ہمیشہ آباد رہتے ہیں۔ سمندری نمک اور لہروں کا کیمیائی اثر صحت بخش کہلاتا ہے۔

ھکادوا شہر میں واقع یہ ساحل سمندر فطری خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ ہوٹل بھی منفرد ہے کہ یہ سمندر کے رنگوں اور ماحول کو پوری طرح سے اجاگر کرتا ہے۔

یہاں لہریں جس سے گنگناتی ہیں وہ گیت میں نے اس سے پہلے کہیں نہیں سنا۔
Load Next Story