ہم کہاں کھڑے ہیں … آخری حصہ

کیا آج ہم اس تیز رفتار دور میں دیگر ممالک کے ساتھ خود کو سائنس وٹیکنالوجی کی دوڑ میں شامل سمجھتے ہیں

کیا آج ہم اس تیز رفتار دور میں دیگر ممالک کے ساتھ خود کو سائنس وٹیکنالوجی کی دوڑ میں شامل سمجھتے ہیں یا اپنی کوئی پہچان کرانے پر تلے ہوئے ہیں؟ جواب نہیں میں ہے ، ہم ابھی تک لنگڑی پالاکھیل رہے ہیں، افسوس کہ موجودہ دور میں ہمیں ڈاکٹر قدیرخان جیسا قدآور دوسرا پاکستانی سائنسدان نظر نہیں آتا ۔

ہم اتنے ناشکرے اورغافل ہیں کہ ہمیں کچھ اندازہ نہیں ہے کہ اللہ کی عظیم کتاب قرآن پاک کی صورت میں نازل ہوئی ہے اور ہم ہیں کہ دنیاوی لذتوں میں غرق ہوکر اپنا وقار، عزت نفس اور ایمان کوداؤ پرلگا رہے ہیں، حتیٰ کہ قرآن پاک میں انسانی زندگی گزارنے کے احکامات کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کا ذکر بھی ہے۔

زمین کے اندر، پہاڑوں، دریاؤں، جنگلات حتیٰ کہ حیوانوں سے کس طرح اورکیسے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں، کیونکہ غور و فکر اور ریسرچ کرنا ہم نے چھوڑ دیا ہے۔ مسلمانوں کی تنزلی کا سبب یہ ہے کہ وہ عملی صورتوں کو بھول گئے، اسپین کے مسلمانوں کے بعد ہم نے غوروفکرکرنا چھوڑ دیا اور روز بروز تنزلی کا شکار ہوتے چلے گئے اور پھر یہی نہیں بدنصیبی کی بات ہے کہ حضرت امام غزالیؒ کے بعد پوری اسلامی دنیا نے کوئی بڑی علمی ہستی پیدا نہیں کی۔

ہم احکام خداوندی تو ضرور مانتے ہیں ،جوعبادات کا مظہر رہی ہیں، جن کا قرآن پاک میں 136 بار ذکر کیا گیا ہے، لیکن 768 مرتبہ کیا گیا ذکر جس میں ہمیں کائنات کا کھوج لگانے، زمین سے قدرتی معدنیات، سورج، چاند ستارے کی روشنی جڑی بوٹیوں اور قدرتی وسائل پر غورکرنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے ، ہم مسلمان بحیثیت قوم عروج پر تھے قرآن اور حدیث کے قریب قریب تھے، اس تیز رفتار، بناوٹی دنیا میں بنائے گئے اصول پر تو چل رہے ہیں لیکن وہ اصول وضوابط جس کی پیروی کرنے کے بعد ہی ہم اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکتے ہیں ان پر چلنے سے قاصر ہیں۔

آج اگر دوسرے ممالک میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو مسلمان قوم پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، نائن الیون ہو یا پیرس کا حملہ، یا لاس اینجلس کی کارروائی، یہ گمراہ کیوں بنے ہیں، ایمان کی کمزوری نے جاہلانہ رویوں اور پریکٹس کو مضبوط کرکے رکھ دیا ہے، جس وجہ سے باقی مسلم امت کے سر شرم سے جھک گئے ہیں لیکن وقار بھی مجروح ہوئے۔


ہماری مسلم قوم ایسی تو نہ تھی، مسلمانوں نے تو تاریخ رقم کی ہے چاہے وہ سائنس ہو یا طب، ہم اگر سرسری جائزہ بھی لیں تو بے تحاشا بڑے ایسے نام ہیں جنھوں نے اپنی تعلیم اور ریسرچ کو بروئے کار لاکر نہ صرف نام کمایا ہے بلکہ یورپی اقوام انھیں اپنا رہبر اور استاد مانتی ہیں ۔

ابو مالک اسمائی، علی بن سہل، یعقوب بن اسحاق القندی، ابوالقاسم عباس، ابو موسیٰ بن جابر بن حیان، یہ ساری ہستیاں کون تھیں، مسلمان تھیں، ماہر ادویات، ماہر نفسیات، ماہر ریاضیات کے علم میں دنیا کو متعارف کرایا۔ جسمانی حرارت کو ناپنے کا پہلا طریقہ جس کو آج کے دور میں تھرما میٹر کہتے ہیں بہت سوں کو علم نہیں ہوگا کہ ابن سینا کی ایجاد ہے، جوکہ ایک مسلمان تھے۔ ان کی کتاب ''القانون الطب'' مدتوں تک یورپ میں پڑھائی جاتی رہی اور ''کتاب الادویہ'' طب کی انجیل بنی رہی۔ ابن سینا نے دس برس میں قرآن فقہ ادب کا مطالعہ کرچکے تھے بو علی سینا کا قول ہے کہ:

''منطق اور علم ہمیں اتنی جلد خدا کے قریب نہیں کرتے، جتنا ایمان اور تصوف۔ گویا زہد و تقویٰ اور ریاضت سے خدا کی ہستی کا علم عقل و منطق کی بہ نسبت جلد اور بہتر طور پر حاصل ہوتا ہے۔

یہی نہیں ابو بکر محمد بن ذکریا نے سرجری، آپریشن کے بعد جلد کو بہتر طور پر سینے کا طریقہ بھی ان کی ہی ایجاد ہے۔

ہم اگر تاریخ کے پنے کھول کر دیکھیں تو ہمیں ہر جگہ مسلمان ہی فاتح نظر آئے لیکن تب جب تک قرآن و سنت اور اس کی پیروی کرتے رہے اور زندگی کے مسائل کے حل قرآن پاک اور سنت کی روشنی میں کرتے رہے۔ ہم بہت عظیم قوم ہیں ہم نے آپس میں گروہ بنا ڈالے ہیں۔ بٹ کر رہ گئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری مسلمان قوم ریسرچ سے علم وفکر سے اجتناب کرتے ہوئے نظر آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ دوسرے مسائل اور بے جا فضولیات میں لگے ہوئے ہیں۔
Load Next Story