حضرت عثمان غنی ؓ
دورِ عثمانی میں فتوحات اور مال غنیمت کی فراوانی کے باعث امن و خوش حالی کا دور دورہ رہا
حضرت عثمان ابنِ عفّانؓ تیسرے خلیفۂ راشد اور حضور اکرم ﷺ کے داماد تھے۔
آپ ؓ عشرۂ مبشرہ میں سے تھے۔ آپؓ کی شرم و حیا اور فیاضی کا شہرہ اُس وقت بھی تھا جب آپ اسلام کی آغوش میں نہیں آئے تھے۔ آپ کا تعلق قریش کی شاخ بنو اُمیہ سے تھا۔ اس خاندان کو عرب میں مال و دولت کے باعث برتری بھی حاصل تھی اور معزز بھی جانا جاتا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے والد کا پیشہ تجارت تھا۔ کم عمری میں والد سے محروم ہوئے تو انہی کا پیشہ اختیار کیا۔ محنت و دیانت سے کامیابی حاصل کی اور حضرت عثمان غنی کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ ایک روز شام سے تجارت کے بعد گھر لوٹے تو معلوم ہوا کہ محمد ابن عبداﷲ نے ایک اﷲ کی عبادت کرنے کا اعلان اور بتوں کی پرستش سے انکار کردیا ہے۔ حضرت عثمان غنی کی عمر اس وقت 34برس تھی جب اسلام کی روشنی دنیا میں پھیلی، لیکن رسول کریمﷺ کے اس اعلان پر عرب کے قبائل، سردار اور بت پرست آپے سے باہر ہوگئے۔
ان لوگوں کو رسول پاکؐ کا بتایا ہوا راستہ پسند نہیں تھا، اس لیے وہ سب آپؐ اور اسلام کے دشمن بن گئے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق، رسول کریم ؐ کی نبوت پر ایمان لاچکے تھے۔ وہ رسول اﷲ کے بھی قریب تھے اور حضرت عثمان غنی کے بھی۔ چناں چہ صدیقِ اکبر نے دوستی کا حق اس طرح ادا کیا کہ انھوں نے عثمان غنی کو دین کی دعوت دی اور اسلام قبول کرنے پر رضامند کرلیا، کیوں کہ ان کے دل نے گواہی دی کہ یہی حق ہے۔ دل تو اپنا کام کرچکا تھا، اب صرف زبان سے اقرار کرنا باقی تھا۔ چناں چہ یہ معاملہ بھی جلد طے ہوگیا۔ رسول عربی ؐ کی قربت نے انھیں ہر شے سے بے نیاز کردیا۔ مال و دولت اور خونی رشتے بے وقعت ہوگئے۔ حضرت عثمان غنی کے اسلام قبول کرنے پر بنو امیّہ نے سخت ردّعمل ظاہر کیا۔ ماں اور بہن بھائیوں نے تعلق توڑنے کی دھمکی دی، طرح طرح سے تنگ کیا، مگر حضرت عثمان غنی ثابت قدم رہے۔ اس موقعے پر خاندان کی دو معزز خواتین نے جن میں ایک آپ کی سوتیلی بہن تھیں، اس مرحلے پر آپ کا ساتھ دیا۔ وہ خود بھی ایمان لا چکی تھیں۔
حضرت عثمانؓ قبولِ اسلام سے قبل بھی نیک اور باکردار مشہور تھے۔ انھیں زمانۂ جاہلیت میں بھی اپنے خاندان اور دیگر عرب قبائل میں انہی اوصاف کی بنا پر یاد کیا جاتا تھا۔ سب سے بڑھ کر آپؓ کی حیا مشہور تھی۔ قبولِ اسلام کے بعد آپؓ کی زندگی کا مقصد اسلام کی سربلندی اور نبی کریمﷺ کی خوش نودی حاصل کرنا بن گیا۔ آپ صاحب ثروت تھے۔ آپ کے قبول اسلام سے صحابۂ کرام نہایت مسرور ہوئے۔ آپ کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے دین اور مسلمانوں کو مالی طاقت عطا فرمائی۔ اس وقت مسلمانوں کو مال اور طاقت دونوں کی ضرورت تھی، تاکہ وہ مشرکین کا مقابلہ کرسکیں۔ چناں چہ آپ نے اپنی دولت اسلام کی راہ میں بے دریغ خرچ کی۔ حاجت مندوں کی مشکلات دور کیں۔ آپ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت محمدﷺ کے حکم پر اپنے مال کے ذریعے اسلام کو طاقت بخشی۔ اسلام سے بے پناہ محبت اور اس کی خاطر دی جانے والی قربانیوں پر اﷲ کے نبیﷺ نے حضرت عثمان پر خصوصی شفقت فرمائی۔
رسول پاکؐ نے آپ کی دل جوئی کی خاطر اپنی صاحب زادی حضرت رقیہ کو آپ کے نکاح میں دے دیا۔ قبول اسلام کے بعد حضرت عثمان غنی نے قریش کے مظالم سے تنگ آکر 11 مرد اور 11 عورتوں کے ہم راہ مکے سے حبشہ ہجرت کی۔ وہاں آپ تجارت کی غرض سے جاتے رہے تھے۔ آپ نے ایک بار پھر وہاں تجارت کا آغاز کیا جو جلد ہی وسیع ہوتا گیا۔ حبشہ ہجرت کے دو سال بعد ایک واقعے نے آپ کو واپس مکہ جانے پر مجبور کردیا۔ وہاں یہ بات مشہور ہوگئی کہ قریش مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اس پر حضرت عثمان،ؓ آپ کی شریک حیات اور چند دیگر مسلمانوں نے واپسی اختیار کی۔ مکہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ حضرت عثمان نے اپنے گھرانے کے ساتھ مکہ ہی میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ دیگر لوگ حبشہ واپس چلے گئے۔ مکے میں انھوں نے دوبارہ معاشی جدوجہد کی۔
ابتدا میں انھیں دشواری تو ہوئی، لیکن بعد میں ان کے قدم جم گئے اور انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ کچھ عرصے بعد آپؓ نے اپنی زوجہ کے ہم راہ مدینے ہجرت کی۔ مدینے جانے والوں کا یہ تیسرا قافلہ تھا جس میں آپ بھی شامل تھے۔ مدینے کے مقامی افراد تجارت کے بجائے کھیتی باڑی پر زیادہ توجہ کرتے تھے۔
یہاں تجارت زیادہ تر یہودیوں کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت عثمانؓ مسلمان اور صحابی ہونے کے باعث مقامی لوگوں کی نظر میں اہمیت رکھتے تھے۔ آپ نے وہاں تجارت کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنی دیانت اور محنت کے باعث کاروبار کو وسعت دینے میں کام یاب رہے۔ جلد ہی آپ کا شمار مدینے کے مال دار افراد میں ہونے لگا۔
حضرت عثمان غنیؓ نے صرف اپنی دولت اور مال ہی اﷲ کی راہ میں نہیں خرچ کیا، بلکہ جنگوں کے مواقع پر بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ رہے۔ آپ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت کی۔ جنگ بدر کے موقع پر آپؓ کی زوجہ حضرت رقیہ سخت علیل تھیں، اس لیے وہ جنگ میں حصہ نہ لے سکے۔ اس بیماری میں آپؓ کی زوجہ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت عثمانؓ اس پر بہت رنجیدہ تھے۔ جنگ کے باعث رسول کریمﷺ ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوسکے تھے۔ آپؐ نے بعد میں اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم کو حضرت عثمان غنی کے نکاح میں دے دیا۔ اسی باعث آپ کو ذوالنورین یعنی ''دو نوروں والا'' کہا گیا۔ جنگ احد کے بعد آپ کا نکاح اُم کلثومؓ سے ہوا۔
ایک اور موقعے پر صحابہ کرام اور دیگر مسلمانوں پر آپؓ کی بزرگی اور رسول خداﷺ کی آپؓ سے محبت واضح ہوئی۔ صلح حدیبیہ کے موقعے پر آپؓ اہل مکہ کے پاس سفیر بناکر بھیجے گئے۔ اس دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ عثمانؓ شہید کردیے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ مشتعل ہوگئے۔ اس موقعے پر رسول اﷲ نے صحابۂ کرام سے کفارِ مکّہ کے خلاف بیعت لی جسے 'بیعت رضوان' کہا جاتا ہے۔ بعد میں یہ اطلاع جھوٹی ثابت ہوئی، لیکن اس کے ذریعے اﷲ نے اپنے حبیبؐ کی رفاقت کا حق ادا کرنے والے صحابی کا مرتبہ بلند فرمایا۔ قریش کی جانب سے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑنے پر مسلمانوں نے مکے پر حملہ کیا اور فتح حاصل کی۔ اس موقعے پر حضرت عثمان کے گھرانے نے اسلام قبول کرلیا۔ یوں آپؓ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں سے جاملے۔
غزوۂ تبوک کے موقعے پر عرب میں سخت قحط سالی تھی۔ تمام صحابہ نے جنگی اخراجات کے لیے مالی مدد فراہم کی۔ اس اہم اور مشکل موقعے پر حضرت عثمانؓ نے بھی اپنا مال بے دریغ خرچ کیا۔ اس جنگ کے لیے آپ نے آدھی یا تہائی فوج کے اخراجات اپنے ذمے لیے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، گھوڑے اور ایک ہزار دینار نقد پیش کیے۔ حضرت عثمانؓ کی اس خدمت کو تمام مسلمانوں نے سراہا۔ رسول کریمﷺ نے اس موقعے پر پر ارشاد فرمایا:''آج کے بعد حضرت عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا۔''
اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے آپ کے کارنامے تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے مدینے کا مشہور کنواں رومہ آٹھ ہزار دینار میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ اس سے پہلے اس کا یہودی مالک اس کنویں کا پانی مسلمانوں کو استعمال نہیں کرنے دیتا تھا۔
خلیفۂ سوم کاتب وحی بھی رہے اور عہد صدیق و عہد فاروقی میں خلیفۂ راشد کے معتمد خاص اور مشیر اعلیٰ تھے۔ ہر اہم کام کے لیے آپؓ سے مشورہ کیا جاتا تھا۔
خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ پر حملے کے بعد جب ان کے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صحابہ نے حضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے کافی سوچ بچار کے بعد چھے افراد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جن میں حضرت عثمان ابن عفان کا نام بھی شامل تھا۔ اس کے ساتھ تین دن میں حتمی فیصلہ کرنے کو کہا۔ ان صحابہ نے انصار و مہاجرین کے معزز سرداروں سے مشورے کیے اور تیسرے روز فجر کی نماز کے وقت حضرت عثمانؓ کی خلافت کا اعلان کردیا گیا۔ صحابہ اور سرداروں نے نئے خلیفہ کی بیعت کرلی۔ یہ دیکھ کر دوسرے بھی آگے بڑھے اور بیعت کرلی۔ اس طرح حضرت عثمان مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔
ملکی نظم و نسق
حضرت عثمانؓ کے دور میں نظام حکومت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی، بلکہ عہد فاروقی میں کیے گئے فیصلوں اور اداروں کو مستحکم اور فعال رکھا گیا۔ آپؓ کے عہد میں بحری فوج کا قیام عمل میں لایا گیا جس سے مسلمانوں کی عسکری قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ بحری فوج کا قیام تاریخ میں آپؓ کے دور میں ہونے والا اہم ترین کارنامے کے طور پر درج ہے۔
امن اور خوش حالی
دورِ عثمانی کے ابتدائی پانچ برس نہایت امن و خوبی سے گزرے۔ فتوحات ہوئیں، مال غنیمت کی فراوانی، محاصل و اخراج کی زیادتی کے باعث خوش حالی اور امن کا دور دورہ رہا۔ زراعت و تجارت کے شعبوں میں ترقی ہوئی۔
بغاوتیں اور شورشیں
دور عثمانی میں سازشوں اور بغاوتوں نے بھی سر اٹھایا۔ اس کی بہت سی وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ آپؓ نہایت نرم خو اور درگزر کرنے والوں میں سے تھے۔ دشمنانِ اسلام اور صحابہ کرام سے بغض رکھنے والوں نے حضرت عثمان کی اسی عادت سے فائدہ اٹھایا اور بگاڑ پیدا کیے۔ خلیفۂ وقت پر جھوٹے الزامات لگا کر امت کو گمراہ کیا گیا۔ لیکن حضرت عثمان نے اپنی فراست سے اُمت کو انتشار سے بچایا اور تمام الزامات کی تردید بھی کی اور اعتراضات کے جواب بھی دیے۔ اس موقعے پر حضرت علیؓ اور چند دیگر صحابہ نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔
شہادت
حضرت عثمان غنی کی پوری کوشش تھی کہ خون خرابہ نہ ہو۔ انھوں نے اپنی جانب سے مخالفین کو بہت سمجھایا، مگر وہ نہ مانے۔ ایک روز باغی حضرت عثمان کے مکان میں داخل ہوگئے۔ اس وقت آپؓ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے کہ ایک شقی القلب نے تلوار کا وار کرکے آپؓ کو شہید کردیا۔
عظیم کارنامہ
حضرت عثمانؓ کا سب سے بڑا کارنامہ عالم اسلام کو ایک قرآن پر جمع کرنا تھا۔ آپؓ کے دور میں سلطنت کو بے انتہا وسعت نصیب ہوئی اور خصوصاً غیر عرب علاقوں میں اسلامی تعلیمات اور قرآن پڑھنے والے بڑھ گئے تو معلوم ہوا کہ عربی سے ناواقفیت کی بنا پر لوگ اﷲ کی کتاب کو مختلف طریقوں اور تلفظ کے ساتھ پڑھ رہے ہیں۔ اس پر آپ نے تمام علاقوں سے قرآن کے نسخے منگوالیے اور حضرت عمرؓ کا محفوظ نسخہ حاصل کرکے اسے عام کیا۔ اس نسخے کی متعدد نقلیں تیار کرائی گئیں اور مختلف ملکوں میں روانہ کردی گئیں۔ یہ حضرت عثمانؓ کا امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے۔ اسی بنا پر آج دنیا بھر میں مسلمان ایک قرآن پر متفق ہیں۔ آپؓ کو اسی لیے جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے۔
مسجد نبوی کی توسیع
مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کا روشن کارنامہ بھی عثمان غنی نے انجام دیا۔ اگرچہ حضرت عمر نے بھی مسجد کو وسیع کیا تھا، لیکن حضرت عثمانؓ نے اس پر زیادہ توجہ دی اور اسے وسعت دے کر رسول اﷲ سے اپنی انتہا درجے کی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔
آپ ؓ عشرۂ مبشرہ میں سے تھے۔ آپؓ کی شرم و حیا اور فیاضی کا شہرہ اُس وقت بھی تھا جب آپ اسلام کی آغوش میں نہیں آئے تھے۔ آپ کا تعلق قریش کی شاخ بنو اُمیہ سے تھا۔ اس خاندان کو عرب میں مال و دولت کے باعث برتری بھی حاصل تھی اور معزز بھی جانا جاتا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے والد کا پیشہ تجارت تھا۔ کم عمری میں والد سے محروم ہوئے تو انہی کا پیشہ اختیار کیا۔ محنت و دیانت سے کامیابی حاصل کی اور حضرت عثمان غنی کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ ایک روز شام سے تجارت کے بعد گھر لوٹے تو معلوم ہوا کہ محمد ابن عبداﷲ نے ایک اﷲ کی عبادت کرنے کا اعلان اور بتوں کی پرستش سے انکار کردیا ہے۔ حضرت عثمان غنی کی عمر اس وقت 34برس تھی جب اسلام کی روشنی دنیا میں پھیلی، لیکن رسول کریمﷺ کے اس اعلان پر عرب کے قبائل، سردار اور بت پرست آپے سے باہر ہوگئے۔
ان لوگوں کو رسول پاکؐ کا بتایا ہوا راستہ پسند نہیں تھا، اس لیے وہ سب آپؐ اور اسلام کے دشمن بن گئے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق، رسول کریم ؐ کی نبوت پر ایمان لاچکے تھے۔ وہ رسول اﷲ کے بھی قریب تھے اور حضرت عثمان غنی کے بھی۔ چناں چہ صدیقِ اکبر نے دوستی کا حق اس طرح ادا کیا کہ انھوں نے عثمان غنی کو دین کی دعوت دی اور اسلام قبول کرنے پر رضامند کرلیا، کیوں کہ ان کے دل نے گواہی دی کہ یہی حق ہے۔ دل تو اپنا کام کرچکا تھا، اب صرف زبان سے اقرار کرنا باقی تھا۔ چناں چہ یہ معاملہ بھی جلد طے ہوگیا۔ رسول عربی ؐ کی قربت نے انھیں ہر شے سے بے نیاز کردیا۔ مال و دولت اور خونی رشتے بے وقعت ہوگئے۔ حضرت عثمان غنی کے اسلام قبول کرنے پر بنو امیّہ نے سخت ردّعمل ظاہر کیا۔ ماں اور بہن بھائیوں نے تعلق توڑنے کی دھمکی دی، طرح طرح سے تنگ کیا، مگر حضرت عثمان غنی ثابت قدم رہے۔ اس موقعے پر خاندان کی دو معزز خواتین نے جن میں ایک آپ کی سوتیلی بہن تھیں، اس مرحلے پر آپ کا ساتھ دیا۔ وہ خود بھی ایمان لا چکی تھیں۔
حضرت عثمانؓ قبولِ اسلام سے قبل بھی نیک اور باکردار مشہور تھے۔ انھیں زمانۂ جاہلیت میں بھی اپنے خاندان اور دیگر عرب قبائل میں انہی اوصاف کی بنا پر یاد کیا جاتا تھا۔ سب سے بڑھ کر آپؓ کی حیا مشہور تھی۔ قبولِ اسلام کے بعد آپؓ کی زندگی کا مقصد اسلام کی سربلندی اور نبی کریمﷺ کی خوش نودی حاصل کرنا بن گیا۔ آپ صاحب ثروت تھے۔ آپ کے قبول اسلام سے صحابۂ کرام نہایت مسرور ہوئے۔ آپ کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے دین اور مسلمانوں کو مالی طاقت عطا فرمائی۔ اس وقت مسلمانوں کو مال اور طاقت دونوں کی ضرورت تھی، تاکہ وہ مشرکین کا مقابلہ کرسکیں۔ چناں چہ آپ نے اپنی دولت اسلام کی راہ میں بے دریغ خرچ کی۔ حاجت مندوں کی مشکلات دور کیں۔ آپ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت محمدﷺ کے حکم پر اپنے مال کے ذریعے اسلام کو طاقت بخشی۔ اسلام سے بے پناہ محبت اور اس کی خاطر دی جانے والی قربانیوں پر اﷲ کے نبیﷺ نے حضرت عثمان پر خصوصی شفقت فرمائی۔
رسول پاکؐ نے آپ کی دل جوئی کی خاطر اپنی صاحب زادی حضرت رقیہ کو آپ کے نکاح میں دے دیا۔ قبول اسلام کے بعد حضرت عثمان غنی نے قریش کے مظالم سے تنگ آکر 11 مرد اور 11 عورتوں کے ہم راہ مکے سے حبشہ ہجرت کی۔ وہاں آپ تجارت کی غرض سے جاتے رہے تھے۔ آپ نے ایک بار پھر وہاں تجارت کا آغاز کیا جو جلد ہی وسیع ہوتا گیا۔ حبشہ ہجرت کے دو سال بعد ایک واقعے نے آپ کو واپس مکہ جانے پر مجبور کردیا۔ وہاں یہ بات مشہور ہوگئی کہ قریش مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اس پر حضرت عثمان،ؓ آپ کی شریک حیات اور چند دیگر مسلمانوں نے واپسی اختیار کی۔ مکہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ حضرت عثمان نے اپنے گھرانے کے ساتھ مکہ ہی میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ دیگر لوگ حبشہ واپس چلے گئے۔ مکے میں انھوں نے دوبارہ معاشی جدوجہد کی۔
ابتدا میں انھیں دشواری تو ہوئی، لیکن بعد میں ان کے قدم جم گئے اور انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ کچھ عرصے بعد آپؓ نے اپنی زوجہ کے ہم راہ مدینے ہجرت کی۔ مدینے جانے والوں کا یہ تیسرا قافلہ تھا جس میں آپ بھی شامل تھے۔ مدینے کے مقامی افراد تجارت کے بجائے کھیتی باڑی پر زیادہ توجہ کرتے تھے۔
یہاں تجارت زیادہ تر یہودیوں کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت عثمانؓ مسلمان اور صحابی ہونے کے باعث مقامی لوگوں کی نظر میں اہمیت رکھتے تھے۔ آپ نے وہاں تجارت کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنی دیانت اور محنت کے باعث کاروبار کو وسعت دینے میں کام یاب رہے۔ جلد ہی آپ کا شمار مدینے کے مال دار افراد میں ہونے لگا۔
حضرت عثمان غنیؓ نے صرف اپنی دولت اور مال ہی اﷲ کی راہ میں نہیں خرچ کیا، بلکہ جنگوں کے مواقع پر بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ رہے۔ آپ نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت کی۔ جنگ بدر کے موقع پر آپؓ کی زوجہ حضرت رقیہ سخت علیل تھیں، اس لیے وہ جنگ میں حصہ نہ لے سکے۔ اس بیماری میں آپؓ کی زوجہ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت عثمانؓ اس پر بہت رنجیدہ تھے۔ جنگ کے باعث رسول کریمﷺ ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوسکے تھے۔ آپؐ نے بعد میں اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم کو حضرت عثمان غنی کے نکاح میں دے دیا۔ اسی باعث آپ کو ذوالنورین یعنی ''دو نوروں والا'' کہا گیا۔ جنگ احد کے بعد آپ کا نکاح اُم کلثومؓ سے ہوا۔
ایک اور موقعے پر صحابہ کرام اور دیگر مسلمانوں پر آپؓ کی بزرگی اور رسول خداﷺ کی آپؓ سے محبت واضح ہوئی۔ صلح حدیبیہ کے موقعے پر آپؓ اہل مکہ کے پاس سفیر بناکر بھیجے گئے۔ اس دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ عثمانؓ شہید کردیے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ مشتعل ہوگئے۔ اس موقعے پر رسول اﷲ نے صحابۂ کرام سے کفارِ مکّہ کے خلاف بیعت لی جسے 'بیعت رضوان' کہا جاتا ہے۔ بعد میں یہ اطلاع جھوٹی ثابت ہوئی، لیکن اس کے ذریعے اﷲ نے اپنے حبیبؐ کی رفاقت کا حق ادا کرنے والے صحابی کا مرتبہ بلند فرمایا۔ قریش کی جانب سے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑنے پر مسلمانوں نے مکے پر حملہ کیا اور فتح حاصل کی۔ اس موقعے پر حضرت عثمان کے گھرانے نے اسلام قبول کرلیا۔ یوں آپؓ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں سے جاملے۔
غزوۂ تبوک کے موقعے پر عرب میں سخت قحط سالی تھی۔ تمام صحابہ نے جنگی اخراجات کے لیے مالی مدد فراہم کی۔ اس اہم اور مشکل موقعے پر حضرت عثمانؓ نے بھی اپنا مال بے دریغ خرچ کیا۔ اس جنگ کے لیے آپ نے آدھی یا تہائی فوج کے اخراجات اپنے ذمے لیے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، گھوڑے اور ایک ہزار دینار نقد پیش کیے۔ حضرت عثمانؓ کی اس خدمت کو تمام مسلمانوں نے سراہا۔ رسول کریمﷺ نے اس موقعے پر پر ارشاد فرمایا:''آج کے بعد حضرت عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا۔''
اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے آپ کے کارنامے تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے مدینے کا مشہور کنواں رومہ آٹھ ہزار دینار میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ اس سے پہلے اس کا یہودی مالک اس کنویں کا پانی مسلمانوں کو استعمال نہیں کرنے دیتا تھا۔
خلیفۂ سوم کاتب وحی بھی رہے اور عہد صدیق و عہد فاروقی میں خلیفۂ راشد کے معتمد خاص اور مشیر اعلیٰ تھے۔ ہر اہم کام کے لیے آپؓ سے مشورہ کیا جاتا تھا۔
خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ پر حملے کے بعد جب ان کے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صحابہ نے حضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے کافی سوچ بچار کے بعد چھے افراد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جن میں حضرت عثمان ابن عفان کا نام بھی شامل تھا۔ اس کے ساتھ تین دن میں حتمی فیصلہ کرنے کو کہا۔ ان صحابہ نے انصار و مہاجرین کے معزز سرداروں سے مشورے کیے اور تیسرے روز فجر کی نماز کے وقت حضرت عثمانؓ کی خلافت کا اعلان کردیا گیا۔ صحابہ اور سرداروں نے نئے خلیفہ کی بیعت کرلی۔ یہ دیکھ کر دوسرے بھی آگے بڑھے اور بیعت کرلی۔ اس طرح حضرت عثمان مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔
ملکی نظم و نسق
حضرت عثمانؓ کے دور میں نظام حکومت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی، بلکہ عہد فاروقی میں کیے گئے فیصلوں اور اداروں کو مستحکم اور فعال رکھا گیا۔ آپؓ کے عہد میں بحری فوج کا قیام عمل میں لایا گیا جس سے مسلمانوں کی عسکری قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ بحری فوج کا قیام تاریخ میں آپؓ کے دور میں ہونے والا اہم ترین کارنامے کے طور پر درج ہے۔
امن اور خوش حالی
دورِ عثمانی کے ابتدائی پانچ برس نہایت امن و خوبی سے گزرے۔ فتوحات ہوئیں، مال غنیمت کی فراوانی، محاصل و اخراج کی زیادتی کے باعث خوش حالی اور امن کا دور دورہ رہا۔ زراعت و تجارت کے شعبوں میں ترقی ہوئی۔
بغاوتیں اور شورشیں
دور عثمانی میں سازشوں اور بغاوتوں نے بھی سر اٹھایا۔ اس کی بہت سی وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ آپؓ نہایت نرم خو اور درگزر کرنے والوں میں سے تھے۔ دشمنانِ اسلام اور صحابہ کرام سے بغض رکھنے والوں نے حضرت عثمان کی اسی عادت سے فائدہ اٹھایا اور بگاڑ پیدا کیے۔ خلیفۂ وقت پر جھوٹے الزامات لگا کر امت کو گمراہ کیا گیا۔ لیکن حضرت عثمان نے اپنی فراست سے اُمت کو انتشار سے بچایا اور تمام الزامات کی تردید بھی کی اور اعتراضات کے جواب بھی دیے۔ اس موقعے پر حضرت علیؓ اور چند دیگر صحابہ نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔
شہادت
حضرت عثمان غنی کی پوری کوشش تھی کہ خون خرابہ نہ ہو۔ انھوں نے اپنی جانب سے مخالفین کو بہت سمجھایا، مگر وہ نہ مانے۔ ایک روز باغی حضرت عثمان کے مکان میں داخل ہوگئے۔ اس وقت آپؓ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے کہ ایک شقی القلب نے تلوار کا وار کرکے آپؓ کو شہید کردیا۔
عظیم کارنامہ
حضرت عثمانؓ کا سب سے بڑا کارنامہ عالم اسلام کو ایک قرآن پر جمع کرنا تھا۔ آپؓ کے دور میں سلطنت کو بے انتہا وسعت نصیب ہوئی اور خصوصاً غیر عرب علاقوں میں اسلامی تعلیمات اور قرآن پڑھنے والے بڑھ گئے تو معلوم ہوا کہ عربی سے ناواقفیت کی بنا پر لوگ اﷲ کی کتاب کو مختلف طریقوں اور تلفظ کے ساتھ پڑھ رہے ہیں۔ اس پر آپ نے تمام علاقوں سے قرآن کے نسخے منگوالیے اور حضرت عمرؓ کا محفوظ نسخہ حاصل کرکے اسے عام کیا۔ اس نسخے کی متعدد نقلیں تیار کرائی گئیں اور مختلف ملکوں میں روانہ کردی گئیں۔ یہ حضرت عثمانؓ کا امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے۔ اسی بنا پر آج دنیا بھر میں مسلمان ایک قرآن پر متفق ہیں۔ آپؓ کو اسی لیے جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے۔
مسجد نبوی کی توسیع
مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کا روشن کارنامہ بھی عثمان غنی نے انجام دیا۔ اگرچہ حضرت عمر نے بھی مسجد کو وسیع کیا تھا، لیکن حضرت عثمانؓ نے اس پر زیادہ توجہ دی اور اسے وسعت دے کر رسول اﷲ سے اپنی انتہا درجے کی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔