امریکا افغان صورتحال پر توجہ دے

رواں سال اب تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی تعداد 369 ہوگئی ہے۔

اے پی پی کے مطابق پینٹا گون سے جاری ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں2014 میں نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد افغان حکومت کی اہلیت پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے. فوٹو: اے ایف پی

افغانستان سے امریکی انخلاء کے حوالے سے اب تک کی رپورٹوں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ افغان آرمی، پولیس،پیرا ملٹری فورسزاور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مربوط اشتراک عمل کا فقدان ہے اور ادارہ جاتی سطح پر بھی کوئی قابل ذکر استحکام نہیں آیا ہے۔

جب کہ طالبان کے مسلسل حملوں اور نیٹو فوجوں کی جھڑپوں اور ہلاکتوں کی وجہ سے صورتحال ابھی تک پیچیدہ ہے ،مختلف گروپوں کے درمیان تاحال کشیدگی، کشت وخون جاری ہے اور سماجی ومعاشی سطح پر ملک میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کا عمل بار آور نہیں ہوسکا ہے جس کی تازہ مثال افغانستان میں مقامی پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ان کے اپنے ہی 4 ساتھیوں کے موت کے گھاٹ اتر جانے کی واردات ہے۔ ذرایع ابلاغ کے مطابق جنوبی صوبہ ہلمند کے ضلع گریشک میں ایک چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے پانچ افغان پولیس اہلکاروں نے اپنے ہی چار ساتھیوں کو ہلاک کر دیا، فائرنگ کرنے والے اہلکار فرار ہوگئے، ضلع گریشک کے پولیس چیف کے مطابق پانچ اہلکاروں کو چیک پوسٹ پر پہلے سے موجود چار اہلکاروں کی مدد کے لیے بھیجا گیا تھا مگر انھوں نے فائرنگ کرکے چار اہلکاروں کو ہلاک کردیا، فائرنگ اور ہلاک کرنے والے اہلکار نئے تعینات ہوئے تھے۔

اطلاعات کے مطابق اتحادی فوج نے جنوبی افغانستان میں مشترکہ آپریشن کے دوران 24 طالبان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز نے طالبان کا اثرو رسوخ ختم کرنے کے کئی جتن کیے اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر وبحالی کے لیے بظاہر بڑے پیمانے پر اقدامات بروئے کار لائے گئے جب کہ عالمی امداد کے ذریعے افغانستان میں جمہوریت ، رواداری ، جدید تعلیم ، حفظان صحت ، انتظامی و مالیاتی اصلاحات کی مد میں اہم منصوبے تیار کرائے مگر داخلی انتشاراور متحارب مذہبی گروپوں کے درمیان خونریزی اور قتل و غارت کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکا ۔


صدر اوباما اگرچہ 2014 ء تک امریکی افواج کی واپسی کا شیڈول دے چکے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے بعض دفاعی اور محکمہ خارجہ کے مشیروں کا استدلال ہے کہ امریکا کو افغانستان سے نکلنے کا فی الحال سوچنا بھی نہیں چاہیے، جب کہ صدر حامد کرزئی کی کوشش یہ ہے کہ ان کا بہرصورت اقتدار قائم رہے، چاہے افغان معیشت اور انتظامی ڈھانچہ کرپشن کی دلدل ہی میں کیوں نہ اتر جائے،چنانچہ اس مخمصے کے باعث امریکی حکام ، سی آئی اے، دیگر ایجنسیوں اور سلامتی کے مشیر اس الجھن کا شکار ہیں کہ افغانستان کو کس طرح اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے تاکہ امریکی فوج کو وہاں سے نکلنے کا راستہ مل سکے۔اصل میں مسئلہ افغان حکومت میں بے پناہ کرپشن کا ہے، وال سٹریٹ جرنل کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو جن وفادار افغان جنرلز اور عمائدین پر ناز تھا اور جن سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں وہ کرپٹ نکلتے ہیں ۔

اس ضمن میں اخبار نے ایک گورنر کے بارے میں حیران کن انکشافات کیے ہیں اور ان پر رقم بٹورنے،طالبان کی سرپرستی کرتے ہوئے انھیں افغانستان میں دراندازی کا موقع مہیا کرنے اور کالا دھن سوٹ کیسوں میں بھر کر سفر کرنے والا وارلارڈ کہا ہے۔ ادھر رواں سال اب تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی تعداد 369 ہوگئی ہے۔ اے پی پی کے مطابق پینٹا گون سے جاری ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں2014 میں نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد افغان حکومت کی اہلیت پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے، واشنگٹن میں قائم امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایک تجزیہ کار گیری شمٹ کا کہناہے کہ 2014 کے بعد یہ کمی اور خامی ملک کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہوگی۔

افغانستان اپنی اہلیت میں کمی کے باعث 2014 میں بین الاقوامی فورسز کے انخلا کے بعد اپنی سیکیورٹی فورسز کو مجتمع نہیں رکھ سکے گا اور نہ ہی فوجیوں کو تنخواہیں مل سکیں گی۔ ان واقعات اور امریکی کارجہ پالیسی میں خطے کے حوالے سے جمود زدہ مائنڈ سیٹ بھی مسئلہ کی جڑ ہے۔ امریکا کو افغانستان کی پیچیدہ صورتحال کو وار لارڈز کی بالادستی اورکرپشن سے الگ کرنا پڑیگا،تبھی افغانستان میں امن، سیاسی استحکام اور ترقی کے اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوسکیں گے۔
Load Next Story