صدارت اور پھولوں کی کاشت

یوراگوئے ان دنوں اگر خبروں میں ہے تو اس کا سبب اس کے صدر جوزے موجیکا ہیں جو مارچ 2010ء میں برسراقتدار آئے۔

zahedahina@gmail.com

60ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہمارے یہاں اسکولوں میں تاریخ اور جغرافیہ کے مضامین پڑھائے جاتے تھے، اس کے ساتھ ہی کچھ دنوں پہلے تک سندھی بھی شامل تھی۔

ان ہی دنوں میں ہم نے جنوبی امریکا کے ملکوں کے بارے میں پڑھا تھا۔ ان کے نقشے بنا کر ان میں رنگ بھرا تھا! یہ جانا تھا کہ برازیل اور ارجنٹائن جیسے بڑے ملکوں کے بیچ میں یوراگوئے ہے ۔ بحر اوقیانوس کے کنارے دل کی شکل کا ایک چھوٹا سا ملک۔

دنیا کی سیاست کو سمجھنے کے لیے تاریخ اور جغرافیہ جیسے مضامین نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس نکتے کو جنرل ایوب خان کے عہد کے ماہرین تعلیم بہ خوبی سمجھتے تھے، اسی لیے انھوں نے مناسب یہی جانا کہ تاریخ اور جغرافیہ نصاب سے خارج کر دیے جائیں۔ سندھ میں آباد مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھنے کو روکنے کے لیے سندھ کے شہروں کے اسکولوں سے سندھی کی تعلیم ختم کی گئی۔

بات تاریخ اور جغرافیہ کی ہو رہی تھی، ہم خوش نصیب تھے کہ اسکول میں تاریخ سے بھی آگہی حاصل ہوئی اور جغرافیے سے بھی آشنائی ہوئی، یوراگوئے کا نام ایک ایسے چھوٹے سے ملک کے طور پر محفوظ رہا جو انیسویں صدی میں اسپین اور پرُتگال کے نوآبادیاتی تسلط سے نکل کر آزاد ہوا تھا اور جنوبی امریکا کے دو بڑے ملکوں کے درمیان گھرے ہوئے ہونے کے باوجود اس نے اپنے لوگوں کی بہبود پر توجہ دی تھی۔ تب ہی آج اس کے یہاں خواندگی کا تناسب مردوں میں 98 اور عورتوں میں97 فی صد ہے جب کہ 77 فیصد آبادی میٹرک تعلیم حاصل کر چکی ہے۔

یہ ایک غور طلب نکتہ ہے جس زمانے میں برصغیر کے مختلف علاقے انگریزوں کے قبضے میں جا رہے تھے، عین ان ہی دنوں اس ملک کے لوگوں نے اپنے ہسپانوی اور پرُتگالی آقاؤں سے لڑ کر آزادی حاصل کی ۔ یہ 1836ء کی بات ہے۔ اس کے فوراً بعد یہاں آئین کو تشکیل دی گئی اور ایک جمہوری حکومت قائم ہوگئی۔

یوراگوئے ابتدا سے ایک زرعی ملک رہا۔ یہاں کی زرخیز زمین اور وسیع چراگاہوں نے دور دراز کے کسانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا اور یہاں جرمنی، اٹلی ، روس، سوئٹزرلینڈ، آرمینیا کے لوگوں نے اور مختلف ملکوں میں رہنے والے یہودیوں نے یہاں کا رخ کیا۔ انھوں نے زراعت اور مویشیوں کی افزائش میں بہت محنت کی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ خود بھی خوشحال ہوئے اور ملک کی اقتصادی حالات بھی مستحکم ہوئی۔ بھانت بھانت کی نسلوں، زبانوں اور ریت رواجوں کی آمیزش نے ایک کثیر الثقافتی تہذیب کی پرورش میں بڑا کردار ادا کیا۔

اس وقت یوراگوئے کی آبادی 34 لاکھ ہے جن میں سے مقامی آبادی صرف 7 فیصد اور یورپی آباد کار 93 فیصد ہیں۔ اکثریتی مذہب رومن کیتھولک ہے ، زبان اسپینش اور ان کی موسیقی اور رقص TANGO دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ اس کی فٹ بال ٹیم بھی کھیل کے میدان میں بڑے معرکے سر کرتی ہے۔ ووٹ ڈالنے کی عمر 18برس ہے اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔ کلیسا اور سیاست ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں اور ریاستی معاملات میں مذہبی عناصر مداخلت نہیں کر سکتے۔ اس اصول پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں انتہا پسندی اور مذہبی جنون جڑ نہیں پکڑ سکے ہیں۔

ایک طویل جمہوری نظم حکومت کے باوجود جب بدعنوانی، رشوت ستانی اور اقرباپروری نے زور پکڑا تو ملک کے معاشی حالات خراب ہوئے جن کے اثرات امن عامہ کی صورت حال پر بھی مرتب ہوئے۔ الجھے ہوئے سیاسی اور معاشی مسائل نے فوج کو یہ سنہرا موقع دیا کہ وہ سیاست دانوں کو برُا بھلا کہتے ہوئے اور تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے اقتدار پر ناجائز طور سے قابض ہوجائے۔ فوج کے برسراقتدار آتے ہی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، اسی کے بعد بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وہ گروہ سامنے آئے جنھوں نے ہتھیار اٹھالیے ، جنگلوں میں چلے گئے اور چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔

یہ چھاپہ مار کارروائیاں کئی دہائیوں تک جاری رہیں۔ آخر کار فوج کو ان محب وطن گوریلوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور ایک بار پھر سے جمہوری دور کا آغاز ہوا، اس کے بعد پہلے منتخب جمہوری صدر نے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں کرنے والے جرنیلوں کو عام معافی دی ، وہیں جنگلوں میں چھپے ہوئے گوریلوں کے لیے بھی عام معافی کا اعلان کیا اور ان سے کہا کہ وہ واپس آکر سیاسی عمل میں شریک ہوجائیں تاکہ یوراگوئے کو مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھایا جاسکے۔ اس عام معافی کا ہر طبقے نے خیرمقدم کیا اور ملک میں بڑے پیمانے پر سیاسی، اقتصادی اور سماجی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔


یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ چند دنوں پہلے آئی ایم ایف نے ملکوں کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں جو سالانہ جائزہ جاری کیا ہے، اس میں یوراگوئے کی اقتصادی ترقی کو اطمینان بخش ہی نہیں شاندار قرار دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس چھوٹے سے ملک نے اپنے قرضوں سے بڑے پیمانے پر نجات حاصل کی ہے۔ اس کے بینک مستحکم ہیں اور ملک میں شان و شوکت کا بے جا مظاہرہ کرنے کے بجائے ٹھوس اقتصادی ترقی پر زور دیا جا رہا ہے۔ معاوضوں اور تنخواہوں میں اضافے نے عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے بازاروں میں گہما گہمی نظر آتی ہے اور خوش حالی اس کی دکانوں اور خریداروں سے جھلکتی ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ اگلے برس یوراگوئے میں افراط زر 4 فیصد رہے گا جو اس کے پڑوسی ملکوں سے بہت کم ہے۔

عالمی کساد بازاری کے حالیہ دور میں بھی یوراگوئے کساد بازاری سے محفوظ رہا اور اس نے اپنی شرحِ نمود گرنے نہیں دی جو اس زمانے میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔

یہ بات ہمیں ناقابل یقین معلوم ہوگی کہ 1999ء سے 2003ء تک یوراگوئے کے کسی باشندے کو امریکا میں داخل ہونے کے لیے ویزا کی ضرورت نہیں پڑتی تھی لیکن جب یہ اندازہ لگایا گیا کہ وہاں سے امریکا نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھنے لگی ہے تو یہ سہولت ختم کر دی گئی۔

یوراگوئے ان دنوں اگر خبروں میں ہے تو اس کا سبب اس کے صدر جوزے موجیکا ہیں جو مارچ 2010ء میں برسراقتدار آئے۔ وہ اطالوی آبادکاروں کے بیٹے ہیں۔ وہ پانچ برس کے تھے جب ان کے باپ کا انتقال ہوا، اس سے پہلے وہ دیوالیہ ہوچکے تھے اور اپنی بیوی اور یتیم بیٹے کے لیے قرضوں کے سوا کچھ نہیں چھوڑ کر گئے تھے۔ موجیکا کو ان کی ماں نے پالا اور 13 برس کی عمر سے موجیکا نے خود چھوٹے بڑے کام شروع کر دیے تھے۔ سیاست سے انھیں بڑی دل چسپی تھی۔ 60ء کی دہائی میں وہ بائیں بازو کے ایک مسلح سیاسی گروہ سے وابستہ ہوگئے۔

ایک ناکام بغاوت میں حصہ لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یوراگوئے کے بہت سے نوجوان ملک کو فوج سے نجات دلانے کو ایک مقدس فرض سمجھتے تھے۔ موجیکا کئی مرتبہ گرفتار ہوئے، جیل بھیجے گئے، وہاں سے فرار ہوئے اور اس کے بعد پھر گرفتار ہوئے۔ ایک مرتبہ پولیس نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی لیکن اس سے بچ نکلے۔ آخری بار جب فوج نے انھیں گرفتار کیا تو 14 برس کی قید بامشقت کی سزا سنائی۔ ان میں سے 2 برس انھوں نے ایک خشک کنویں کی تہہ میں گزارے۔

فوجی اقتدار کا خاتمہ ہوا اور 1985ء میں جمہوریت بحال ہوئی تو دوسرے کئی گوریلا لیڈروں کے ساتھ انھیں بھی عام معافی ملی اور وہ پرُامن جمہوری جدوجہد میں جُڑ گئے۔ انھوں نے 'ایک ایمان دار حکومت ایک بہترین ملک' کے نعرے پر سینیٹ کا انتخاب کئی مرتبہ لڑا اور ہر بار پہلے سے زیادہ بڑی اکثریت سے کام یاب ہوئے۔

2010ء سے وہ یوراگوئے کے صدر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مجھے سمجھنے میں دہائیاں لگ گئیںکہ اقتدار اور طاقت کا سرچشمہ لوگوں کے دلوں سے پھوٹتا ہے۔

یوراگوئے میں حشیش اور دوسری منشیات کی پیداوار اور فروخت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ موجیکا اسے ناسور سمجھتے ہیں اور اس کے لیے بھی انھوں نے کئی اقدامات کیے ہیں جنھیں ملک میں اور ملک سے باہر سراہا گیا ہے۔

2005ء میں انھوں نے اپنی بہت پرانی اور وفادار دوست کے ساتھ شادی کی جو ان کی پرانی سیاسی رفیق ہیں۔ یہ لاولد جوڑا دارالحکومت کے مضافات میں گھانس پھونس کے بنے ہوئے ایک مکان میں رہتا ہے۔ یہ مکان ان کے ذاتی فارم پر بنا ہوا ہے۔ جو ان کی سینیٹر بیوی کی ملکیت ہے۔ اس فارم میں دونوں پھولوں کی کاشت کرتے ہیں اور یہی ان کی گزر اوقات کا ذریعہ ہے صدر موجیکا اپنی صدارتی تنخواہ کا 87 فی صد اور ان کی بیوی بہ طور سینیٹر ملنے والی تنخواہ کا 60 فی صد سے زیادہ حصہ فلاحی کاموں میں صرف کرتی ہیں۔ صدر موجیکا کی واحد ذاتی ملکیت 23 برس پرانی ان کی ایک کھٹارا فوکس ویگن ہے۔ صدارتی عہدے سے فارغ ہونے کے بعد وہ دونوں پھولوںکی کاشت کرکے زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ کہا جائے تو کیا غلط ہوگا کہ ان کے لیے صدارت کا عہدہ کانٹوں کا بستر نہیں پھولوں کا سیج ہے۔
Load Next Story