پیداوار کے مالک کون
سوئس بینک اپنے 10 ہزار ملازمین کی کٹوتی کرنے جا رہا ہے جن میں 3200 سوئٹزرلینڈ میں کام کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں بھوک، افلاس، بے روزگاری، منشیات نوشی، گداگری، عصمت فروشی، خودکشی اور امراض لاعلاج کیوں بن رہے ہیں؟
اس لیے کہ دنیا کی ساری دولت یعنی جنگلات، آبی وسائل، صنعتی پیداوار، زرعی پیداوار، غلہ بانی، معدنیات وغیرہ کے مالکان چند سرمایہ دار، جاگیردار، صنعت کار، فارم ہائوسز اور سپر اسٹورز کے مالکان، جہازرانی اور تیل کمپنیوں ، ابلاغِ عامہ اور ایئر سروسز کے مالکان ہیں اور ان ذرایع پیداوار پر کام کرنے والے دنیا کے اربوں انسان بے ملکیت، بے روزگار، بے خاندان اور بے گھر ہیں۔ جب قدیم پنچایتی نظام رائج تھا تو ساری دولت کے مالک سارے لوگ تھے، کوئی بھوکا مرتا تھا، گداگری کرتا تھا، خودکشی کرتا تھا، عصمت فروشی کرتا تھا اور نہ ڈاکہ زنی۔ جب وسائل و پیداوار چند ہاتھوں میں آئے تو انھوں نے اس کے تحفظ کے لیے قومی ریاستیں تشکیل دیں اور ان کے محافظ قومی اسمبلیاں، قومی فوج، قومی عدالتیں، قومی میڈیا، پولیس، سرمایہ دار، جاگیردار قرار پائے۔ اور یہ کہا گیا کہ یہ ریاستی ادارے عوام کے محافظ ہیں جب کہ یہ ہمیشہ دولت مندوں کی دولت کے محافظ رہے۔
اب عالمی سرمایہ داری میں لوٹ اتنی بڑھ گئی کہ عوام کی قوتِ خرید جواب دیتی جا رہی ہے۔ نتیجتاً پیداوار میں بھی کمی کرنی پڑ رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ دنوں اسپین کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کے نتیجے میں بیشتر ایشیائی حصص مارکیٹس مندی کی لپیٹ میں آگئیں۔ ٹوکیو، سڈنی، سیول اور شنگھائی کی مارکیٹس کم از کم 0.8 فیصد سے 0.78 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہوئیں۔ سوئس بینک اپنے 10 ہزار ملازمین کی کٹوتی کرنے جا رہا ہے جن میں 3200 سوئٹزرلینڈ میں کام کرتے ہیں۔ ادھر 14 اکتوبر کو ٹوکیو میں گلوبل ازم مخالف مظاہرین نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ریلی نکالی اور جاپان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف نعرے بازی کی۔ ان عالمی بدترین مالی بحران کے بھنور میں پاکستان انتہائی نچلی سطح پر چلا گیا ہے۔
آج پاکستان میں چونکہ 70 فیصد شہری غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور کروڑوں بے روزگار ہوچکے ہیں۔ نتیجتاً بیگانگیٔ ذات اور زندگی سے مایوس ہو کر 50 لاکھ افراد ہیروئن پی رہے ہیں۔ فاقے کی نوبت آنے پر تقریباً ایک کروڑ شہری گداگری پر مجبور ہیں۔ ہر روز لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی بینک ڈکیتیاں، کاریں، موٹر سائیکلیں اور موبائل فونز چھینے جارہے ہیں۔ بے روزگاری کے سبب پاکستان میں بعض خواتین اپنی بھوک مٹانے کے لیے عصمت فروشی کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ سال 2011 میں 6000 شہریوں نے خودکشی کی جن میں ڈھائی ہزار نے بے روزگاری کی وجہ سے کی۔
تقریباً 5000 خواتین کا مختلف جھوٹے الزامات اور شبہات کی بِنا پر قتل ہوا۔ گزشتہ برس صرف کراچی میں تقریباً 1000 شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ ایک لاکھ خواتین میں سے زچگی کے دوران 450 خواتین ریڈ ہوموگلوبین کی کمی کے باعث مرگئیں جب کہ دوسری جانب ارب پتیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں کون سا بڑا افسر، سیاسی سربراہ اور نوکر شاہی ارب پتی یا کروڑ پتی نہیں ہے؟ معدنیات کے کانوں کے مالکان زہری، بگٹی، مینگل، بجارانی، مری قبیلوں کے سرداران ہیں نہ کہ پیداواری کارکنان۔ یعنی کہ ان قبیلوں کے حقیقی مالک لاکھوں محنت کش نہیں ہیں بلکہ صرف ان کے سرداران ہیں۔
اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے ساحلِ سمندر ماہی گیروں کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہاں ساحلی ٹھیکے دار اور وڈیرے ہیں۔ کراچی میں ریڑھی، لانڈھی کے ساحل، ابراہیم حیدری کورنگی کے ساحل، ماڑی پور کے ساحل، بھٹ شاہ آئی لینڈ، صلح آئی لینڈ، شمس آئی لینڈ، منوڑہ آئی لینڈ اور گوادر بلوچستان کے ساحلوں کے ماہی گیر دن و رات ایک کرکے ہفتوں سمندر میں رہ کر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مچھلیاں شکار کرتے ہیںجب کہ یہ اپنی شکار کی ہوئی مچھلیاں اپنی مرضی سے فروخت بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ مچھلی شکار کرنے کے بعد ساحل پر جب آتے ہیں تو ان کے مخصوص ٹھیکے دار ہوتے ہیں جنھیں کوڑیوں کے بھائو مچھلیاں حوالے کرنا ہوتا ہے۔
یعنی شکار کرنے والے ماہی گیر مچھلیوں کے مالک نہیں ہوتے بلکہ چند ٹھیکے دار ان کے مالک ہوتے ہیں۔ اسی طرح جنگلات میں کام کرنے والے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر کام کرتے ہیں لیکن مالکان جاگیردار ہوتے ہیں جب کہ یہ سارے جنگلات قدرتی طور پر اگتے، بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ اس میں کسی کا کوئی خرچہ بھی نہیں ہوتا اور مالک چند جاگیردار بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں کوئی شکار نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ غیر ملکی شکاریوں کو وہ اپنی مرضی سے شکار کروا کر معاوضے لیتے ہیں۔ عوام اس کی ملکیت سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور وہ تصور بھی نہیں کر پاتے کہ یہ سب کچھ ان کا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ہیکٹر زمینوں پر دن و رات کسان ہی کام کرتا ہے، پیداوار کرتا ہے، کاٹتا ہے، جمع کرتا ہے اور ذخیرہ کرتا ہے۔
کوئی جاگیردار، وڈیرہ، سردار یا خان ہل چلاتا ہے، ٹریکٹر چلاتا ہے، آب پاشی کرتا ہے نہ کٹائی کرتا ہے جب کہ ان تمام عوامل کے بعد تمام تر پیداوار کا مالک جاگیردار ہوتا ہے۔ یہی حال ہے صنعتوں کا، مٹی کی کھدائی سے لے کر دیواروں کی بنیاد رکھنا، تعمیرات کرنا، مشینری نصب کرنا، خام مال منتقل کرنا، مشین چلانا اور پھر پیداوار کرکے ترسیلات کا عمل بھی مزدور ہی کرتا ہے جب کہ اس کا مالک صنعت کار ہوتا ہے۔ مزدور اپنی قوت محنت اپنی مرضی سے بیچ بھی نہیں سکتا بلکہ اس کی قوت محنت کا بھائو بھی سرمایہ دار لگاتا ہے۔ وہ ایک ایسا ریشم کا کیڑا ہے کہ جسے توت کا پتہ اس لیے کھلایا جاتا ہے کہ اس سے ریشم نکالا جاسکے۔ اسے یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اسے شہتوت کا پتہ کیوں کھلایا جارہا ہے۔ جب محنت کش پیداوار کرلیتا ہے تو اسے تاجر اچک لیتا ہے، اور درآمد، برآمد سمیت تمام تر تجارت تاجر کرتا ہے۔ پیداواری کارکنوں کو اس عمل سے بھی صرف دور ہی نہیں بلکہ ناآشنا رکھا جاتا ہے۔ اسے یہ باور بھی کرنے نہیں دیا جاتا کہ ان سب کا مالک وہ خود ہے۔
اب ان ذرایع پیداوار اور وسائل پیداوار کے پہرہ دار ارکان اسمبلی اور سرکاری اہلکار ہوتے ہیں۔ پھر ان کی نمایندگی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ یہ جماعتیں مختلف رنگ، نسل، قوم، فرقہ، زبان اور مذاہب کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو فروعی اور سطحی نکات پر اختلافات جتاتی ہیں بلکہ اختلافات کو خود پیدا کرواتی ہیں اور پھر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعی شہریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اختلافات رکھتی ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر بلدیہ ٹائون، کراچی اور لاہور میں 1200 مزدور جل کر شہید ہوئے لیکن آیندہ اس طرح کے حادثات سے بچنے کے لیے کوئی اقدامات یا تجاویز پیش نہیں کی گئیں، اب بھی 99.99 فیصد فیکٹریوں میں حادثات کے مواقع پر متبادل راہ سے نکلنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ رزاق آباد کراچی میں پولیس سپاہی فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے شدید بیمار ہوئے مگر اس پر آیندہ کے لیے کوئی تدارک نہیں ہوا بلکہ تحقیقاتی کمیٹی پولیس افسران پر مشتمل بنا دی گئی۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟
اس لیے کہ دنیا کی ساری دولت یعنی جنگلات، آبی وسائل، صنعتی پیداوار، زرعی پیداوار، غلہ بانی، معدنیات وغیرہ کے مالکان چند سرمایہ دار، جاگیردار، صنعت کار، فارم ہائوسز اور سپر اسٹورز کے مالکان، جہازرانی اور تیل کمپنیوں ، ابلاغِ عامہ اور ایئر سروسز کے مالکان ہیں اور ان ذرایع پیداوار پر کام کرنے والے دنیا کے اربوں انسان بے ملکیت، بے روزگار، بے خاندان اور بے گھر ہیں۔ جب قدیم پنچایتی نظام رائج تھا تو ساری دولت کے مالک سارے لوگ تھے، کوئی بھوکا مرتا تھا، گداگری کرتا تھا، خودکشی کرتا تھا، عصمت فروشی کرتا تھا اور نہ ڈاکہ زنی۔ جب وسائل و پیداوار چند ہاتھوں میں آئے تو انھوں نے اس کے تحفظ کے لیے قومی ریاستیں تشکیل دیں اور ان کے محافظ قومی اسمبلیاں، قومی فوج، قومی عدالتیں، قومی میڈیا، پولیس، سرمایہ دار، جاگیردار قرار پائے۔ اور یہ کہا گیا کہ یہ ریاستی ادارے عوام کے محافظ ہیں جب کہ یہ ہمیشہ دولت مندوں کی دولت کے محافظ رہے۔
اب عالمی سرمایہ داری میں لوٹ اتنی بڑھ گئی کہ عوام کی قوتِ خرید جواب دیتی جا رہی ہے۔ نتیجتاً پیداوار میں بھی کمی کرنی پڑ رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ دنوں اسپین کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کے نتیجے میں بیشتر ایشیائی حصص مارکیٹس مندی کی لپیٹ میں آگئیں۔ ٹوکیو، سڈنی، سیول اور شنگھائی کی مارکیٹس کم از کم 0.8 فیصد سے 0.78 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہوئیں۔ سوئس بینک اپنے 10 ہزار ملازمین کی کٹوتی کرنے جا رہا ہے جن میں 3200 سوئٹزرلینڈ میں کام کرتے ہیں۔ ادھر 14 اکتوبر کو ٹوکیو میں گلوبل ازم مخالف مظاہرین نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ریلی نکالی اور جاپان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف نعرے بازی کی۔ ان عالمی بدترین مالی بحران کے بھنور میں پاکستان انتہائی نچلی سطح پر چلا گیا ہے۔
آج پاکستان میں چونکہ 70 فیصد شہری غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور کروڑوں بے روزگار ہوچکے ہیں۔ نتیجتاً بیگانگیٔ ذات اور زندگی سے مایوس ہو کر 50 لاکھ افراد ہیروئن پی رہے ہیں۔ فاقے کی نوبت آنے پر تقریباً ایک کروڑ شہری گداگری پر مجبور ہیں۔ ہر روز لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی بینک ڈکیتیاں، کاریں، موٹر سائیکلیں اور موبائل فونز چھینے جارہے ہیں۔ بے روزگاری کے سبب پاکستان میں بعض خواتین اپنی بھوک مٹانے کے لیے عصمت فروشی کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ سال 2011 میں 6000 شہریوں نے خودکشی کی جن میں ڈھائی ہزار نے بے روزگاری کی وجہ سے کی۔
تقریباً 5000 خواتین کا مختلف جھوٹے الزامات اور شبہات کی بِنا پر قتل ہوا۔ گزشتہ برس صرف کراچی میں تقریباً 1000 شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ ایک لاکھ خواتین میں سے زچگی کے دوران 450 خواتین ریڈ ہوموگلوبین کی کمی کے باعث مرگئیں جب کہ دوسری جانب ارب پتیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں کون سا بڑا افسر، سیاسی سربراہ اور نوکر شاہی ارب پتی یا کروڑ پتی نہیں ہے؟ معدنیات کے کانوں کے مالکان زہری، بگٹی، مینگل، بجارانی، مری قبیلوں کے سرداران ہیں نہ کہ پیداواری کارکنان۔ یعنی کہ ان قبیلوں کے حقیقی مالک لاکھوں محنت کش نہیں ہیں بلکہ صرف ان کے سرداران ہیں۔
اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے ساحلِ سمندر ماہی گیروں کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہاں ساحلی ٹھیکے دار اور وڈیرے ہیں۔ کراچی میں ریڑھی، لانڈھی کے ساحل، ابراہیم حیدری کورنگی کے ساحل، ماڑی پور کے ساحل، بھٹ شاہ آئی لینڈ، صلح آئی لینڈ، شمس آئی لینڈ، منوڑہ آئی لینڈ اور گوادر بلوچستان کے ساحلوں کے ماہی گیر دن و رات ایک کرکے ہفتوں سمندر میں رہ کر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مچھلیاں شکار کرتے ہیںجب کہ یہ اپنی شکار کی ہوئی مچھلیاں اپنی مرضی سے فروخت بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ مچھلی شکار کرنے کے بعد ساحل پر جب آتے ہیں تو ان کے مخصوص ٹھیکے دار ہوتے ہیں جنھیں کوڑیوں کے بھائو مچھلیاں حوالے کرنا ہوتا ہے۔
یعنی شکار کرنے والے ماہی گیر مچھلیوں کے مالک نہیں ہوتے بلکہ چند ٹھیکے دار ان کے مالک ہوتے ہیں۔ اسی طرح جنگلات میں کام کرنے والے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر کام کرتے ہیں لیکن مالکان جاگیردار ہوتے ہیں جب کہ یہ سارے جنگلات قدرتی طور پر اگتے، بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ اس میں کسی کا کوئی خرچہ بھی نہیں ہوتا اور مالک چند جاگیردار بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں کوئی شکار نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ غیر ملکی شکاریوں کو وہ اپنی مرضی سے شکار کروا کر معاوضے لیتے ہیں۔ عوام اس کی ملکیت سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور وہ تصور بھی نہیں کر پاتے کہ یہ سب کچھ ان کا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ہیکٹر زمینوں پر دن و رات کسان ہی کام کرتا ہے، پیداوار کرتا ہے، کاٹتا ہے، جمع کرتا ہے اور ذخیرہ کرتا ہے۔
کوئی جاگیردار، وڈیرہ، سردار یا خان ہل چلاتا ہے، ٹریکٹر چلاتا ہے، آب پاشی کرتا ہے نہ کٹائی کرتا ہے جب کہ ان تمام عوامل کے بعد تمام تر پیداوار کا مالک جاگیردار ہوتا ہے۔ یہی حال ہے صنعتوں کا، مٹی کی کھدائی سے لے کر دیواروں کی بنیاد رکھنا، تعمیرات کرنا، مشینری نصب کرنا، خام مال منتقل کرنا، مشین چلانا اور پھر پیداوار کرکے ترسیلات کا عمل بھی مزدور ہی کرتا ہے جب کہ اس کا مالک صنعت کار ہوتا ہے۔ مزدور اپنی قوت محنت اپنی مرضی سے بیچ بھی نہیں سکتا بلکہ اس کی قوت محنت کا بھائو بھی سرمایہ دار لگاتا ہے۔ وہ ایک ایسا ریشم کا کیڑا ہے کہ جسے توت کا پتہ اس لیے کھلایا جاتا ہے کہ اس سے ریشم نکالا جاسکے۔ اسے یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اسے شہتوت کا پتہ کیوں کھلایا جارہا ہے۔ جب محنت کش پیداوار کرلیتا ہے تو اسے تاجر اچک لیتا ہے، اور درآمد، برآمد سمیت تمام تر تجارت تاجر کرتا ہے۔ پیداواری کارکنوں کو اس عمل سے بھی صرف دور ہی نہیں بلکہ ناآشنا رکھا جاتا ہے۔ اسے یہ باور بھی کرنے نہیں دیا جاتا کہ ان سب کا مالک وہ خود ہے۔
اب ان ذرایع پیداوار اور وسائل پیداوار کے پہرہ دار ارکان اسمبلی اور سرکاری اہلکار ہوتے ہیں۔ پھر ان کی نمایندگی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ یہ جماعتیں مختلف رنگ، نسل، قوم، فرقہ، زبان اور مذاہب کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو فروعی اور سطحی نکات پر اختلافات جتاتی ہیں بلکہ اختلافات کو خود پیدا کرواتی ہیں اور پھر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعی شہریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اختلافات رکھتی ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر بلدیہ ٹائون، کراچی اور لاہور میں 1200 مزدور جل کر شہید ہوئے لیکن آیندہ اس طرح کے حادثات سے بچنے کے لیے کوئی اقدامات یا تجاویز پیش نہیں کی گئیں، اب بھی 99.99 فیصد فیکٹریوں میں حادثات کے مواقع پر متبادل راہ سے نکلنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ رزاق آباد کراچی میں پولیس سپاہی فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے شدید بیمار ہوئے مگر اس پر آیندہ کے لیے کوئی تدارک نہیں ہوا بلکہ تحقیقاتی کمیٹی پولیس افسران پر مشتمل بنا دی گئی۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟