جب رہبر ہی بنے ہوں رہزن
اسٹیل ملز کو جس سے اچھا خاصا منافع حاصل کیا جاسکتا تھا ایک مسلسل خسارے کا سبب بنا دیا گیا۔
ISLAMABAD:
پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں کا پہلے پندرہ روزہ تعین اور بعد ازاں اسے ہر ہفتے کی بنیاد پر کیا جانے لگا۔
جس کے لیے ہمارے حکمرانوں کی جانب سے توجیہہ یہ دی گئی کہ چونکہ پیٹرول کی بین الاقوامی قیمتیں اب متواتر بدلتی رہتی ہیں اِس لیے ہمارے یہاں بھی اِسے ہفتہ وار بنیاد پر تبدیل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ عوام بے چارے جو ساڑھے چار سال سے اپنی ہی حکومت کے ظلم و ستم برداشت کرتے چلے آئے تھے حکومت کی اس ذرہ نوازی کو بھی خاموشی اور صبر کے ساتھ قبول کرلیا۔ قوم سے کہا یہ گیا کہ پٹرول کے قیمتوں کے بے لگام گھوڑے کو قابو کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے اور چونکہ یہ ساری دنیا میں یونہی اپنی مرضی و منشا کے مطابق دوڑ رہا ہے اس لیے ہم بھی بے بس و لاچار ہیں۔ ہمارے عوام کو یہ بوجھ اب ہر حال میں اٹھانا ہی پڑے گا۔
حیران کن بات یہ تھی کہ پٹرول جو بقول ہماری حکومت کے باہر سے امپورٹ کیا جاتا ہے (حالانکہ ہماری ضروریات کا پچاس فیصد تیل اب ہماری اپنی زمینوں سے بھی نکالا جارہا ہے) اس لیے ہم قوم کو اس مد میں سبسڈی دے کر اپنے بجٹ خسارے میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ لیکن گیس جو مکمل طور پر ہماری اپنی پیداوار ہے، اسے ہم اب تک باہر سے درآمد نہیں کررہے ہیں، اسے بھی پٹرول کی قیمت سے منسلک کرکے خوب پیسہ کمایا گیا۔ یہ گیس اگر گھریلو صارفین یا ہماری صنعتوںکو سستی دی جاتی تو شاید اتنے مزے ممکن نہ تھے۔ حکومت کی اس دن دہاڑے ڈکیتی پر کسی کو افسوس یا ملال نہیں ہوا۔
عوام دوست سیاسی رہنما سمیت سارے اتحادی اس جرم میں شریک اور باہم شیر و شکر رہے، کسی نے ایک لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالا۔ پہلے سے انتہائی خستہ حال عوام پر ایک غیر ضروری بوجھ لاد دیا گیا اور سارے کے سارے سیاستداں صرف اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی اس ظلم و ستم پر کوئی شور و غوغا نہیں مچایا گیا۔ کہیں سے کوئی تحریک یا توجہ دلاؤ نوٹس نہیں آیا۔ تحریک انصاف کی سونامی پر بھی سکوت طاری رہا۔ کوئی ہلکی سی جنبش یا ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ کوئی بے چین اور بے قابو لہر ساحل سے بھی نہ ٹکرا پائی۔ بالآخر یہ کام بھی ہماری سپریم کورٹ ہی کو کرنا پڑا۔ عوام پر ہونے والی ہر زیادتی اور ناانصافی کا اگر کسی نے نوٹس لیا ہے تو وہ ہماری اعلیٰ عدلیہ ہی ہے۔ جس نے ہمارے عوام کو کئی بار لوٹے جانے سے بچایا ہے۔
کئی ڈکیتوں کو موقع پر پکڑا ہے۔ کئی چوروں کے ہاتھ روکے رکھے ہیں۔ سابقہ جنرل جو اپنی گڈ گورننس اور زبردست پرفارمنس کا صبح وشام تذکرہ کرتے رہتے ہیں، اپنے دور میں پاکستان اسٹیل ملز کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنے نکل پڑے تھے، یہ ہماری عدلیہ اگر آڑے نہ آجاتی تو یہ کام تقریباً ہوچکا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب سابقہ فوجی حکمراں سے ہماری عدلیہ کے اختلافات شروع ہوئے۔ چیف جسٹس کی قیادت میں ہماری عدلیہ نے ہمت و جرأت سے کام لیا اور ایک ایسا فیصلہ کر ڈالا جو عوام اور ملک و قوم کے مفاد میں تھا۔ اسٹیل ملز کو لوٹے جانے سے بچالیا۔ لیکن بعد میں آنے والے جمہوری حکمرانوں نے اس اسٹیل مل کو دیگر طریقوں سے لوٹنا اور تباہ و برباد کرنا شروع کر دیا۔ اب اسے سستے داموں بیچنے کے بجائے اندر ہی سے کھوکھلا کرنے کی گیم کھیلی جانے لگی۔
اس تاریخی اسٹیل ملز کو جس سے اچھا خاصا منافع حاصل کیا جاسکتا تھا ایک مسلسل خسارے کا سبب بنا دیا گیا۔ ایک ایسا خسارہ جو تھمنے کا نام ہی نہ لے اور جس کے ازالے کے لیے عوام کو ہر چند ماہ بعد تین چار ارب روپے اپنے قومی خزانے سے دینے پڑیں۔ اس بار بھی اس نااہلی اور بڑے پیمانے پر قومی ڈکیتی کا اگر کسی نے درد محسوس کیا ہے تو وہ ہماری اعلیٰ عدلیہ ہی ہے۔ جس نے موقعہ واردات پر ہی حکومت کی گرفت اور سرزنش کی اور اسے مزید ہاتھ صاف کرنے سے روک دیا۔ اسی طرح ملک کے دیگر محکموں میں جاری کرپشن کی نئی نئی کہانیاں ہر روز سامنے آتی ہیں اور سارا بوجھ عدلیہ کے کاندھوں ہی پر پڑتا جارہا ہے۔ کبھی رینٹل پاور کے نام پر اربوں روپوں کا غبن تو کبھی بھولے بھالے حاجیوں کو لوٹا گیا تو کبھی این آئی سی ایل میں کمالِ فن دکھایا گیا۔
ریلوے کا جو حال ہے وہ کسی ڈھکا چھپا بھی نہیں۔ لگتا ہے اسے جان بوجھ کر تباہی سے دوچار کیا جا رہا ہے، سسکتی، لڑھکتی اور آخری سانسیں لیتی ہماری ریلوے اب ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بن چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے کوئی مثبت کارروائی ہنوز دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے علاج کے لیے بھی شاید عدلیہ ہی کو نوٹس لینا پڑے گا۔ حکومت اپنی کارکردگی ٹھیک نہیں کرتی اور جب عدلیہ کوئی قدم اٹھاتی ہے تو ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یہ عدلیہ کے کرنے کے کام نہیں ہیں، عدلیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن جس کے پروگراموں کو اس ملک کے عوام اب دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، اسے زندہ رکھنے اور پالنے کے لیے عوام سے ہر ماہ بجلی کے بلوں کے ذریعے تیس سے پچاس روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ یہ زیادتی صرف گھریلو صارفین ہی سے نہیں بلکہ ہر اس دکان دار سے بھی کی جارہی ہے جس کی دکان میں ٹی وی نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں ہے۔کروڑوں افراد ٹی وی لائسنس فیس کے نام پر بلاوجہ یہ جرمانہ ادا کررہے ہیں اور کوئی بولنے والا نہیں۔
بجلی کے بلوں کو اگر بغور دیکھا اور پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مختلف بہانوں سے نجانے کتنے ٹیکس عوام کے سروں پر تھوپ دیے گئے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایک بل جو صارف نے گزشتہ سال وقت پر ادا کردیا تھا اسے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اب ایک نیا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے بہت سے ٹیکس ہمارے عوام اپنے مہربان حکمرانوں کی جیبوں میں ڈالتے آئے ہیں مگر پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھر رہا۔ وہ مالی بدعنوانیوں اورکرپشن کے نئے نئے ذرایع تلاش کرنے میں اب بھی سر گرداں ہیں۔ جس کا جو بس چل رہا ہے وہ اپنا ہاتھ مارنے میں ذرا سی بھی غفلت اور دیر نہیں کر رہا۔
قوم جو ایک طرف سارے ملک میں پھیلی بد امنی کا شکار ہے۔ آئے دن کی ڈکیتی کی وارداتوں، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی کارروائیوں سے نبرد آزما ہمارے عوام کو ریلیف پہنچانے کے بجائے اس کے نام نہاد بہی خواہ حکمرانوں نے اسے لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بجلی کے نرخ ساری دنیا میں ہمارے یہاں سب سے زیادہ ہیں۔ ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمت باہر کی دنیا کے برابر کردی گئی ہے، قطع نظر اس کے کہ ہماری فی کس آمدنی کیا ہے۔ جو اشیا یہاں پیدا نہیں ہوتیں وہ تو اگر مہنگی کردی جائیں تو شاید کسی طور قابلِ قبول ہو مگر جو اشیا ہماری اپنی پیداوار ہیں وہ بھی یورپ اور امریکا کی قیمتوں سے منسلک کردی جائیں تو یہ ایک سراسر ظلم ہے۔
حکومت عوام کو غربت اور بیروزگاری سے نجات دلانے کے بجائے اسے مزید کنگال اور بے حال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ سیکڑوں سیاسی رہنما اور ان گنت سیاسی جماعتیں یا تو ازخود اس سارے کھیل میں ملوث ہیں یا پھر خاموش تماشائی بن کر صرف اپنے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔ عوام کے دکھوں اور غموں سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ نئے الیکشن اب ہونے کو ہیں، عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کریں، صرف ذاتی پسند اور ناپسند کی مجبوریوں سے باہر نکل کر اجتماعی اور قومی سوچ اپنانا ہوگی اور ملکی مفاد میں اپنا حقِ خود اختیاری استعمال کرکے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا ہوگا جن کے ضمیر اور ماتھے پر کرپشن اور لوٹ مار کا کوئی داغ نہ ہو۔ بصورت دیگر ہم اپنی مزید تباہی و بر بادی کے خود ذمے دار ہوں گے۔
پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں کا پہلے پندرہ روزہ تعین اور بعد ازاں اسے ہر ہفتے کی بنیاد پر کیا جانے لگا۔
جس کے لیے ہمارے حکمرانوں کی جانب سے توجیہہ یہ دی گئی کہ چونکہ پیٹرول کی بین الاقوامی قیمتیں اب متواتر بدلتی رہتی ہیں اِس لیے ہمارے یہاں بھی اِسے ہفتہ وار بنیاد پر تبدیل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ عوام بے چارے جو ساڑھے چار سال سے اپنی ہی حکومت کے ظلم و ستم برداشت کرتے چلے آئے تھے حکومت کی اس ذرہ نوازی کو بھی خاموشی اور صبر کے ساتھ قبول کرلیا۔ قوم سے کہا یہ گیا کہ پٹرول کے قیمتوں کے بے لگام گھوڑے کو قابو کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے اور چونکہ یہ ساری دنیا میں یونہی اپنی مرضی و منشا کے مطابق دوڑ رہا ہے اس لیے ہم بھی بے بس و لاچار ہیں۔ ہمارے عوام کو یہ بوجھ اب ہر حال میں اٹھانا ہی پڑے گا۔
حیران کن بات یہ تھی کہ پٹرول جو بقول ہماری حکومت کے باہر سے امپورٹ کیا جاتا ہے (حالانکہ ہماری ضروریات کا پچاس فیصد تیل اب ہماری اپنی زمینوں سے بھی نکالا جارہا ہے) اس لیے ہم قوم کو اس مد میں سبسڈی دے کر اپنے بجٹ خسارے میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ لیکن گیس جو مکمل طور پر ہماری اپنی پیداوار ہے، اسے ہم اب تک باہر سے درآمد نہیں کررہے ہیں، اسے بھی پٹرول کی قیمت سے منسلک کرکے خوب پیسہ کمایا گیا۔ یہ گیس اگر گھریلو صارفین یا ہماری صنعتوںکو سستی دی جاتی تو شاید اتنے مزے ممکن نہ تھے۔ حکومت کی اس دن دہاڑے ڈکیتی پر کسی کو افسوس یا ملال نہیں ہوا۔
عوام دوست سیاسی رہنما سمیت سارے اتحادی اس جرم میں شریک اور باہم شیر و شکر رہے، کسی نے ایک لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالا۔ پہلے سے انتہائی خستہ حال عوام پر ایک غیر ضروری بوجھ لاد دیا گیا اور سارے کے سارے سیاستداں صرف اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی اس ظلم و ستم پر کوئی شور و غوغا نہیں مچایا گیا۔ کہیں سے کوئی تحریک یا توجہ دلاؤ نوٹس نہیں آیا۔ تحریک انصاف کی سونامی پر بھی سکوت طاری رہا۔ کوئی ہلکی سی جنبش یا ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ کوئی بے چین اور بے قابو لہر ساحل سے بھی نہ ٹکرا پائی۔ بالآخر یہ کام بھی ہماری سپریم کورٹ ہی کو کرنا پڑا۔ عوام پر ہونے والی ہر زیادتی اور ناانصافی کا اگر کسی نے نوٹس لیا ہے تو وہ ہماری اعلیٰ عدلیہ ہی ہے۔ جس نے ہمارے عوام کو کئی بار لوٹے جانے سے بچایا ہے۔
کئی ڈکیتوں کو موقع پر پکڑا ہے۔ کئی چوروں کے ہاتھ روکے رکھے ہیں۔ سابقہ جنرل جو اپنی گڈ گورننس اور زبردست پرفارمنس کا صبح وشام تذکرہ کرتے رہتے ہیں، اپنے دور میں پاکستان اسٹیل ملز کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنے نکل پڑے تھے، یہ ہماری عدلیہ اگر آڑے نہ آجاتی تو یہ کام تقریباً ہوچکا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب سابقہ فوجی حکمراں سے ہماری عدلیہ کے اختلافات شروع ہوئے۔ چیف جسٹس کی قیادت میں ہماری عدلیہ نے ہمت و جرأت سے کام لیا اور ایک ایسا فیصلہ کر ڈالا جو عوام اور ملک و قوم کے مفاد میں تھا۔ اسٹیل ملز کو لوٹے جانے سے بچالیا۔ لیکن بعد میں آنے والے جمہوری حکمرانوں نے اس اسٹیل مل کو دیگر طریقوں سے لوٹنا اور تباہ و برباد کرنا شروع کر دیا۔ اب اسے سستے داموں بیچنے کے بجائے اندر ہی سے کھوکھلا کرنے کی گیم کھیلی جانے لگی۔
اس تاریخی اسٹیل ملز کو جس سے اچھا خاصا منافع حاصل کیا جاسکتا تھا ایک مسلسل خسارے کا سبب بنا دیا گیا۔ ایک ایسا خسارہ جو تھمنے کا نام ہی نہ لے اور جس کے ازالے کے لیے عوام کو ہر چند ماہ بعد تین چار ارب روپے اپنے قومی خزانے سے دینے پڑیں۔ اس بار بھی اس نااہلی اور بڑے پیمانے پر قومی ڈکیتی کا اگر کسی نے درد محسوس کیا ہے تو وہ ہماری اعلیٰ عدلیہ ہی ہے۔ جس نے موقعہ واردات پر ہی حکومت کی گرفت اور سرزنش کی اور اسے مزید ہاتھ صاف کرنے سے روک دیا۔ اسی طرح ملک کے دیگر محکموں میں جاری کرپشن کی نئی نئی کہانیاں ہر روز سامنے آتی ہیں اور سارا بوجھ عدلیہ کے کاندھوں ہی پر پڑتا جارہا ہے۔ کبھی رینٹل پاور کے نام پر اربوں روپوں کا غبن تو کبھی بھولے بھالے حاجیوں کو لوٹا گیا تو کبھی این آئی سی ایل میں کمالِ فن دکھایا گیا۔
ریلوے کا جو حال ہے وہ کسی ڈھکا چھپا بھی نہیں۔ لگتا ہے اسے جان بوجھ کر تباہی سے دوچار کیا جا رہا ہے، سسکتی، لڑھکتی اور آخری سانسیں لیتی ہماری ریلوے اب ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بن چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے کوئی مثبت کارروائی ہنوز دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے علاج کے لیے بھی شاید عدلیہ ہی کو نوٹس لینا پڑے گا۔ حکومت اپنی کارکردگی ٹھیک نہیں کرتی اور جب عدلیہ کوئی قدم اٹھاتی ہے تو ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یہ عدلیہ کے کرنے کے کام نہیں ہیں، عدلیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن جس کے پروگراموں کو اس ملک کے عوام اب دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، اسے زندہ رکھنے اور پالنے کے لیے عوام سے ہر ماہ بجلی کے بلوں کے ذریعے تیس سے پچاس روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ یہ زیادتی صرف گھریلو صارفین ہی سے نہیں بلکہ ہر اس دکان دار سے بھی کی جارہی ہے جس کی دکان میں ٹی وی نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں ہے۔کروڑوں افراد ٹی وی لائسنس فیس کے نام پر بلاوجہ یہ جرمانہ ادا کررہے ہیں اور کوئی بولنے والا نہیں۔
بجلی کے بلوں کو اگر بغور دیکھا اور پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مختلف بہانوں سے نجانے کتنے ٹیکس عوام کے سروں پر تھوپ دیے گئے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایک بل جو صارف نے گزشتہ سال وقت پر ادا کردیا تھا اسے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اب ایک نیا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے بہت سے ٹیکس ہمارے عوام اپنے مہربان حکمرانوں کی جیبوں میں ڈالتے آئے ہیں مگر پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھر رہا۔ وہ مالی بدعنوانیوں اورکرپشن کے نئے نئے ذرایع تلاش کرنے میں اب بھی سر گرداں ہیں۔ جس کا جو بس چل رہا ہے وہ اپنا ہاتھ مارنے میں ذرا سی بھی غفلت اور دیر نہیں کر رہا۔
قوم جو ایک طرف سارے ملک میں پھیلی بد امنی کا شکار ہے۔ آئے دن کی ڈکیتی کی وارداتوں، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی کارروائیوں سے نبرد آزما ہمارے عوام کو ریلیف پہنچانے کے بجائے اس کے نام نہاد بہی خواہ حکمرانوں نے اسے لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بجلی کے نرخ ساری دنیا میں ہمارے یہاں سب سے زیادہ ہیں۔ ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمت باہر کی دنیا کے برابر کردی گئی ہے، قطع نظر اس کے کہ ہماری فی کس آمدنی کیا ہے۔ جو اشیا یہاں پیدا نہیں ہوتیں وہ تو اگر مہنگی کردی جائیں تو شاید کسی طور قابلِ قبول ہو مگر جو اشیا ہماری اپنی پیداوار ہیں وہ بھی یورپ اور امریکا کی قیمتوں سے منسلک کردی جائیں تو یہ ایک سراسر ظلم ہے۔
حکومت عوام کو غربت اور بیروزگاری سے نجات دلانے کے بجائے اسے مزید کنگال اور بے حال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ سیکڑوں سیاسی رہنما اور ان گنت سیاسی جماعتیں یا تو ازخود اس سارے کھیل میں ملوث ہیں یا پھر خاموش تماشائی بن کر صرف اپنے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔ عوام کے دکھوں اور غموں سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ نئے الیکشن اب ہونے کو ہیں، عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کریں، صرف ذاتی پسند اور ناپسند کی مجبوریوں سے باہر نکل کر اجتماعی اور قومی سوچ اپنانا ہوگی اور ملکی مفاد میں اپنا حقِ خود اختیاری استعمال کرکے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا ہوگا جن کے ضمیر اور ماتھے پر کرپشن اور لوٹ مار کا کوئی داغ نہ ہو۔ بصورت دیگر ہم اپنی مزید تباہی و بر بادی کے خود ذمے دار ہوں گے۔