الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑیں

فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو قربانیاں دے رہی ہے اسے قطعی طور پر رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے

اگر قومی سلامتی پر باہمی اختلافات کو ترجیح دینے کا یہ رجحان یونہی تقویت پکڑتا رہا تو خدشہ ہے کہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی یہ جنگ کہیں نفسیاتی میدان میں شکست نہ کھا جائے۔ فوٹو : فائل

اے پی ایس پشاور کے سانحہ نے پوری قوم کو متحد کر دیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی لہٰذا سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پر متفق ہو گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس ناسور کو جڑ سے ختم کر کے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیا جائے خواہ اس کے لیے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔

سیاسی و عسکری قیادت کے اس اتفاق کا نتیجہ آپریشن ضرب عضب کی صورت میں سامنے آیا اور دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کامیابی ملی، فوج نے جو قربانیاں دیں پوری قوم نے اسے سراہا۔اس کے ساتھ ساتھ ملک میں مستقل اور پائیدار قیام امن کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

اب باچا خان یونیورسٹی چار سدہ پر امن دشمنوں نے ایک بار پھر بے گناہ طالب علموں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تو پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ تعلیمی ادارے دہشت گردوں کی زد پر آنے اور آسان ہدف ہونے کے سبب غیرمحفوظ ہو گئے ہیں اور تقاضائے وقت ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر ان وطن دشمنوں کو نیست و نابود کر کے امن و امان کو یقینی بنائے۔

مگر حیرت انگیز امر ہے کہ سانحہ چار سدہ پر قوم کو متحد کرنے کے بجائے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دبے ہوئے سیاسی اختلافات واضح طور پر ابھر کر سامنے آ گئے اور دونوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے قوم میں اس اضطرابی کیفیت کا ابھرنا قدرتی امر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہو کر لڑنے کے بجائے حکومت اور اپوزیشن کا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کرنا چہ معنی دارد؟

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جمعرات کو نادرا ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ '' چند عناصر اور پیپلز پارٹی کے لوگ قوم میں مایوسی پھیلا رہے ہیں وہ جو پیغام دے رہے ہیں اس سے دہشت گردوں کے ایجنڈے کو تقویت مل رہی ہے' دہشت گردی کے خلاف بندوق کی جنگ تو سیکیورٹی اداروں کی کاوشوں سے جیت رہے ہیں لیکن نفسیاتی جنگ بھی اہم ہے جو ہم ہار رہے ہیں اگر ہم خود ہی فیصلہ کر لیں کہ خوف کی فضا پیدا کرنی ہے تو پھر دشمن کی کیا ضرورت ہے۔


ایک آدھ واقعہ کو بنیاد بنا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سبوتاژ نہ کیا جائے''پیپلز پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے لگائے گئے الزامات کو مسترد کر دیا اور جوابی الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میں شامل لوگ دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں' وفاقی حکومت امن و امان کے قیام کے لیے خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکی اس لیے وہ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے دوسروں پر تنقید بند کرے' سانحہ چار سدہ اور اے پی ایس وفاقی حکومت کی نا اہلی ہے۔

سیاسی قیادت ہی کسی قوم کو بحران سے نکالتی اور ترقی دیتی ہے اگر سیاسی قیادت قومی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی چپقلش کا شکار ہو جائے اور ایک دوسرے پر دہشت گردی کو تقویت دینے کے الزامات عائد کرنے لگے تو ایسی صورت میں قوم میں مایوسی اور بد دلی پھیلنا قدرتی امر ہے۔ نفسیاتی جنگ میں قوم کا مورال بلند کرنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اگر قوم کا مورال زمیں بوس ہو جائے تو میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی جاتی ہے۔

فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو قربانیاں دے رہی ہے اسے قطعی طور پر رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے۔ جنگ میں دشمن بھی پوری قوت سے وار کرتا اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اس لیے جنگ میں ہر قسم کے نقصان کو برداشت کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہنا چاہیے' حوصلوں کو پست کرنے کے بجائے انھیں مضبوط اور بلند رکھنا چاہیے' ثابت قدمی' بلند حوصلگی' ہمت' جرات اور شجاعت کسی جنگ کو جیتنے کا بنیادی جز ہوتے ہیں۔

وزیر داخلہ کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ اگر ہم دہشت گردوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں تو وہ بھی پلٹ کر کارروائی کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوجائے تو طوفان برپا کر دیا جاتا ہے' یہ سرحد کی نہیں اندر کی جنگ ہے۔ سرحد پر لڑی جانے والی جنگ تو گولی سے جیتی جا سکتی ہے مگر اندر کی جنگ قومی اتحاد اور اتفاق کے بغیر جیتنا دیوانے کا خواب ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ نہیں اور غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں جس نے پوری قوم کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔

اگر قومی سلامتی پر باہمی اختلافات کو ترجیح دینے کا یہ رجحان یونہی تقویت پکڑتا رہا تو خدشہ ہے کہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی یہ جنگ کہیں نفسیاتی میدان میں شکست نہ کھا جائے۔ ایسے وقت میں جب پوری قوم حالت جنگ میں ہے سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کے بجائے باہمی اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے ، متحد اور یک سو ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ قوم کا مورال بلند ہو۔
Load Next Story