وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں
پاکستان کے ایک شہر میانوالی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے قوم کو عمران خان کے روپ میں ایک کوہ نور ہیرا دیا ہے
ISLAMABAD:
پاکستان کے ایک شہر میانوالی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے قوم کو عمران خان کے روپ میں ایک کوہ نور ہیرا دیا ہے اور اس کے علاوہ موسیقی کی دنیا کو بھی دو انمول رتن دیے ہیں۔
جن میں ایک منفرد گائیکی کا مالک عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی ہے اور دوسرا مدھ بھری آواز کا سنگر مجیب عالم جس نے فلمی دنیا کے لیے بڑے خوبصورت گیت گائے، مگر اس کی عمر اس کے ساتھ وفا نہ کرسکی اور وہ بھی گلوکار اخلاق احمد کی طرح عالم شباب ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا مگر اس کے سریلے گیتوں کی گونج آج بھی لاکھوں دلوں کو گرماتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میانوالی کے ایک قصبے بھکر میں پیدا ہونے والے اس آواز کے جادوگر کو شہرت کراچی یا لاہور نے نہیں دی بلکہ اس کی آواز مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ سے ابھری اور پھر خوشبو کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ ڈھاکہ کی اردو فلم ''چکوری'' نے جہاں کراچی کے نذیر بیگ کو ہیرو ندیم بناکر عروج کی بلندیوں تک پہنچایا وہاں اس فلم ''چکوری'' کے ایک گیت نے جس کے بول تھے:
وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں
مرے ہر خواب کی تعبیر بنے بیٹھے ہیں
اس ایک گیت نے جسے شاعر اختر یوسف نے لکھا اور جس کی موسیقی روبن گھوش نے دی۔ مجیب عالم کی زندگی بدل دی تھی حالانکہ مجیب عالم بطورگلوکار ''چکوری'' سے پہلے بھی ڈھاکہ کی فلم ''پیاسا'' اور ''جنگلی پھول'' میں گائیکی کا مظاہرہ کر سکا تھا مگر وہ دونوں ناکام فلمیں تھیں لیکن فلم چکوری کی بے مثال کامیابی نے فلم کے ہیرو ندیم، ہیروئن شبانہ، شاعر اختر یوسف اور گلوکار مجیب عالم شہرت کے راستے کا ہم سفر بنا دیا تھا۔
میری مجیب عالم سے پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں لاہور میں صرف فلمی صحافی تھا اور مجیب عالم ایورنیو اسٹوڈیو کے ریکارڈنگ چینل میں موسیقار نثار بزمی کے ساتھ گیت کی ریہرسل کر رہا تھا وہ سانولا سلونا جواں سال گلوکار جو میانوالی سے اپنے بڑے بھیا کے ساتھ ڈھاکہ گیا تھا پھر ڈھاکہ میں ہی ہدایت کار احتشام کی اردو فلم ''چکوری'' میں کامیاب گیت گا کر لاہور آیا تو مجیب عالم کے راستے کی ساری رکاوٹیں دور ہوچکی تھیں اور مجیب عالم کو لاہور کے موسیقار ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے جس گلوکار کو موسیقار نثار بزمی نے اپنی فلم کے لیے منتخب کیا پھر وہ لاہور کے ہر موسیقار کا انتخاب بن چکا تھا۔ نثار بزمی نے فلم ''شمع اور پروانہ'' میں جو پہلا گیت مجیب عالم سے گوایا اس کے بول تھے:
میں ترے اجنبی شہر میں
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے
مجھ کو آواز دے، مجھ کو آواز دے
شاعر مسرور انور کا لکھا ہوا یہ گیت فلم میں ندیم پر فلمایا گیا تھا، یہ فلم 1970 میں ریلیز ہوئی تھی اور فلم ''سنگدل'' کے بعد اس فلم نے بھی اپنی کامیابی کے ہر طرف جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد لاہور میں بھی ہر فلمساز، ہر ڈائریکٹر اور موسیقار کو مجیب عالم کی آواز بڑی پسند آرہی تھی، مجیب عالم کی شخصیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی یہ جب بھی کسی فلم کی ریکارڈنگ کے لیے آتا تھا سفید کرتہ شلوار پہنے ہوتا تھا اس کے سر کے بالوں میں تیل چک رہا ہوتا تھا اور آنکھوں میں کچھ سرمہ بھی زیادہ لگا ہوا ہوتا تھا۔
یہ ایک نہایت ہی سیدھا سادا انسان تھا، زیادہ تر ریکارڈنگ کے موقعے پر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہی نظر آتا تھا انھیں بھی موسیقی کا بڑا شوق تھا اور مجیب عالم کے پہلے استاد اس کے اپنے بڑے بھائی ہی تھے فلم ''لاکھوں میں ایک'' میں نثار بزمی صاحب کی موسیقی میں میڈم نور جہاں کے ساتھ مجیب عالم کا دوگانا جس کے بول تھے ''ساتھی کہاں ہو'' نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مجیب عالم صف اول کے گلوکاروں میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ پھر ''شمع اور پروانہ'' کے بعد لاکھوں میں ایک، سوغات، آواز، میں کہاں منزل کہاں، انجان، جلوہ، حاتم طائی، دل دے کے دیکھو، گھر پیارا گھر،، افسانہ اور بے شمار فلموں میں مجیب عالم کے گائے ہوئے گیت بے پناہ مقبولیت کا باعث بنے تھے۔
موسیقار نثار بزمی سے لے کر موسیقار ناشاد تک سب ہی نامور موسیقاروں نے مجیب عالم کی آواز کو خوبصورت آواز کا خطاب دیا تھا۔ وہ دور مہدی حسن اور احمد رشدی کا بھی دور تھا مگر مجیب عالم نے گائیکی کی دنیا میں اپنا ایک جداگانہ مقام بنالیا تھا جب کہ مجیب عالم کو لیجنڈ گلوکار مہدی حسن بھی بہت پسند کرتے تھے اور وراسٹائل گلوکار احمد رشدی کو بھی مجیب عالم بڑا محبوب تھا کیونکہ مجیب عالم ایک سریلا گلوکار تھا اس کے گلے میں بھی ایک خاص رچاؤ تھا جو قدرت کی طرف سے ایک عطیہ تھا یہ جس خوبصورتی کے ساتھ ہلکے پھلکے گیت گاتا تھا، اسی خوبصورتی اور مدھر انداز میں بڑے رچاؤ کے ساتھ غزلیں بھی گاتا تھا۔ موسیقی کے بعض ماہرین کی رائے میں مجیب عالم مہدی حسن اور احمد رشدی کی آوازوں کا ایک دلآویز مکسچر تھا اور اس بات کا ثبوت اس کے گائے ہوئے گیتوں اور غزلوں سے بھی ملتا ہے چھوٹی چھوٹی مرکیاں اس کی آواز کے حسن میں چار چاند لگا دیتی تھیں۔
لاہور میں مجیب عالم سے میری بھی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ جب لاہور کی فلم انڈسٹری کو زوال آیا اور موسیقار نثار بزمی لاہور چھوڑ کر کراچی آگئے تو مجیب عالم بھی لاہور چھوڑ کر کراچی آگیا تھا پھر کراچی کی موسیقی کی محفلوں کو ایک شاندار اور جاندار آواز مجیب عالم کی صورت میں مل گئی تھی، مشہور مزاحیہ آرٹسٹ اور نامور ٹی وی آرٹسٹ اور کمپیئر معین اختر کے ساتھ مجیب عالم کی بڑی گہری دوستی ہوگئی تھی اور پھر کراچی کے ہر اس بڑے فنکشن میں جس کا میزبان معین اختر ہوتا تھا مجیب عالم کے بغیر وہ فنکشن مکمل نہیں ہوتا تھا۔
اکثر معین اختر فنکشنوں میں احمد رشدی اور مجیب عالم کے ساتھ اپنی آواز کا جادو بھی جگاتا تھا۔کبھی احمد رشدی کا کوئی گیت، کبھی مجیب عالم کا کوئی گیت معین کے اختر کے ہونٹوں پر ہوا کرتا تھا اکثر احمد رشدی مذاق میں کہہ دیا کرتا تھا'' یار معین اختر تم صرف کامیڈی کرتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہو یہ گانا وانا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔'' یہ انھی دنوں کی بات ہے معین اختر کے گھر راتیں جاگتی تھیں اور دن سوتے تھے۔ معین اختر روزانہ رات بھر جاگتا رہتا تھا اور پھر صبح کی روشنی طلوع ہونے سے پہلے سو جاتا تھا پھر اس کی صبح شام چھ بجے ہوا کرتی تھی۔
وہ شام کی چائے کے ساتھ اپنی صبح کا ناشتہ کیا کرتا تھا۔ ایک رات معین کے گھر پر مجیب عالم کراچی کا گلوکار جمیل کشور اور میں بھی موجود تھا۔ معین نے کہا یار ہمدم! میری خواہش ہے کہ میں اپنے گائے ہوئے گیتوں کا ایک البم تیار کروں اور پھر مارکیٹ میں لاؤں۔ یہ کہہ کر اس نے مجیب عالم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ''یار مجیب! تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔'' مجیب عالم نے مسکراتے ہوئے بڑا خوبصورت جواب دیا تھا۔'' یار! مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر تمہارے گائے ہوئے گیتوں کے سروں کو بڑا دکھ ہوگا وہ بعد میں بڑا روئیں گے'' اور پھر قہقہے بکھر گئے تھے۔ مجیب عالم مشہور گلوکار ہونے کے بعد بھی ریڈیو پاکستان کے گیتوں کی ریکارڈنگ کو بھی وہ بڑی اہمیت دیتا تھا اور اکثر و بیشتر ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے گیتوں کی ریکارڈنگ میں حصہ لیتا رہتا تھا۔ اسی دوران اس نے میری ایک غزل بھی ریڈیو کے لیے گائی تھی۔ جس کا مطلع تھا:
یہ مہکتا شباب کیا کہنا نو شگفتہ گلاب کیا کہنا
بات کرتے ہوئے پھول جھڑتے ، حسن یہ لاجواب کیا کہنا
اس غزل کی دھن استاد امیر احمد خان نے بڑی دلکش مرتب کی تھی۔ اسی زمانے میں مجیب عالم کو ایک بار انجائنا کا اٹیک ہوا وہ اسپتال میں چند دن رہ کر اور صحت یاب ہوکر آیا تو معین اختر بولا'' ابے کیوں گھبراتا ہے یہ دل کا مرض بڑے لوگوں کو ہوتا ہے مجھے بھی ہے میرا تو بائی پاس ہوچکا تھا۔ فکر نہ کیا کر زندگی جتنی ملی ہے اس کا ایک لمحہ بھی کوئی چھین نہیں سکتا یہ زندگی تو اوپر والے کی امانت ہے وہ کب واپس لے لے بس وہی جانتا ہے۔'' پھر ایک دن مجیب عالم کے بارے میں پتا چلا کہ وہ شدید ہارٹ اٹیک کے بعد اس دنیا سے سدھار گیا مگر اس کے زندگی سے بھرے گیت ہمیشہ اس کی یاد دلاتے رہیں گے۔
پاکستان کے ایک شہر میانوالی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے قوم کو عمران خان کے روپ میں ایک کوہ نور ہیرا دیا ہے اور اس کے علاوہ موسیقی کی دنیا کو بھی دو انمول رتن دیے ہیں۔
جن میں ایک منفرد گائیکی کا مالک عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی ہے اور دوسرا مدھ بھری آواز کا سنگر مجیب عالم جس نے فلمی دنیا کے لیے بڑے خوبصورت گیت گائے، مگر اس کی عمر اس کے ساتھ وفا نہ کرسکی اور وہ بھی گلوکار اخلاق احمد کی طرح عالم شباب ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا مگر اس کے سریلے گیتوں کی گونج آج بھی لاکھوں دلوں کو گرماتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میانوالی کے ایک قصبے بھکر میں پیدا ہونے والے اس آواز کے جادوگر کو شہرت کراچی یا لاہور نے نہیں دی بلکہ اس کی آواز مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ سے ابھری اور پھر خوشبو کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ ڈھاکہ کی اردو فلم ''چکوری'' نے جہاں کراچی کے نذیر بیگ کو ہیرو ندیم بناکر عروج کی بلندیوں تک پہنچایا وہاں اس فلم ''چکوری'' کے ایک گیت نے جس کے بول تھے:
وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں
مرے ہر خواب کی تعبیر بنے بیٹھے ہیں
اس ایک گیت نے جسے شاعر اختر یوسف نے لکھا اور جس کی موسیقی روبن گھوش نے دی۔ مجیب عالم کی زندگی بدل دی تھی حالانکہ مجیب عالم بطورگلوکار ''چکوری'' سے پہلے بھی ڈھاکہ کی فلم ''پیاسا'' اور ''جنگلی پھول'' میں گائیکی کا مظاہرہ کر سکا تھا مگر وہ دونوں ناکام فلمیں تھیں لیکن فلم چکوری کی بے مثال کامیابی نے فلم کے ہیرو ندیم، ہیروئن شبانہ، شاعر اختر یوسف اور گلوکار مجیب عالم شہرت کے راستے کا ہم سفر بنا دیا تھا۔
میری مجیب عالم سے پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں لاہور میں صرف فلمی صحافی تھا اور مجیب عالم ایورنیو اسٹوڈیو کے ریکارڈنگ چینل میں موسیقار نثار بزمی کے ساتھ گیت کی ریہرسل کر رہا تھا وہ سانولا سلونا جواں سال گلوکار جو میانوالی سے اپنے بڑے بھیا کے ساتھ ڈھاکہ گیا تھا پھر ڈھاکہ میں ہی ہدایت کار احتشام کی اردو فلم ''چکوری'' میں کامیاب گیت گا کر لاہور آیا تو مجیب عالم کے راستے کی ساری رکاوٹیں دور ہوچکی تھیں اور مجیب عالم کو لاہور کے موسیقار ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے جس گلوکار کو موسیقار نثار بزمی نے اپنی فلم کے لیے منتخب کیا پھر وہ لاہور کے ہر موسیقار کا انتخاب بن چکا تھا۔ نثار بزمی نے فلم ''شمع اور پروانہ'' میں جو پہلا گیت مجیب عالم سے گوایا اس کے بول تھے:
میں ترے اجنبی شہر میں
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے
مجھ کو آواز دے، مجھ کو آواز دے
شاعر مسرور انور کا لکھا ہوا یہ گیت فلم میں ندیم پر فلمایا گیا تھا، یہ فلم 1970 میں ریلیز ہوئی تھی اور فلم ''سنگدل'' کے بعد اس فلم نے بھی اپنی کامیابی کے ہر طرف جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد لاہور میں بھی ہر فلمساز، ہر ڈائریکٹر اور موسیقار کو مجیب عالم کی آواز بڑی پسند آرہی تھی، مجیب عالم کی شخصیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی یہ جب بھی کسی فلم کی ریکارڈنگ کے لیے آتا تھا سفید کرتہ شلوار پہنے ہوتا تھا اس کے سر کے بالوں میں تیل چک رہا ہوتا تھا اور آنکھوں میں کچھ سرمہ بھی زیادہ لگا ہوا ہوتا تھا۔
یہ ایک نہایت ہی سیدھا سادا انسان تھا، زیادہ تر ریکارڈنگ کے موقعے پر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہی نظر آتا تھا انھیں بھی موسیقی کا بڑا شوق تھا اور مجیب عالم کے پہلے استاد اس کے اپنے بڑے بھائی ہی تھے فلم ''لاکھوں میں ایک'' میں نثار بزمی صاحب کی موسیقی میں میڈم نور جہاں کے ساتھ مجیب عالم کا دوگانا جس کے بول تھے ''ساتھی کہاں ہو'' نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مجیب عالم صف اول کے گلوکاروں میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ پھر ''شمع اور پروانہ'' کے بعد لاکھوں میں ایک، سوغات، آواز، میں کہاں منزل کہاں، انجان، جلوہ، حاتم طائی، دل دے کے دیکھو، گھر پیارا گھر،، افسانہ اور بے شمار فلموں میں مجیب عالم کے گائے ہوئے گیت بے پناہ مقبولیت کا باعث بنے تھے۔
موسیقار نثار بزمی سے لے کر موسیقار ناشاد تک سب ہی نامور موسیقاروں نے مجیب عالم کی آواز کو خوبصورت آواز کا خطاب دیا تھا۔ وہ دور مہدی حسن اور احمد رشدی کا بھی دور تھا مگر مجیب عالم نے گائیکی کی دنیا میں اپنا ایک جداگانہ مقام بنالیا تھا جب کہ مجیب عالم کو لیجنڈ گلوکار مہدی حسن بھی بہت پسند کرتے تھے اور وراسٹائل گلوکار احمد رشدی کو بھی مجیب عالم بڑا محبوب تھا کیونکہ مجیب عالم ایک سریلا گلوکار تھا اس کے گلے میں بھی ایک خاص رچاؤ تھا جو قدرت کی طرف سے ایک عطیہ تھا یہ جس خوبصورتی کے ساتھ ہلکے پھلکے گیت گاتا تھا، اسی خوبصورتی اور مدھر انداز میں بڑے رچاؤ کے ساتھ غزلیں بھی گاتا تھا۔ موسیقی کے بعض ماہرین کی رائے میں مجیب عالم مہدی حسن اور احمد رشدی کی آوازوں کا ایک دلآویز مکسچر تھا اور اس بات کا ثبوت اس کے گائے ہوئے گیتوں اور غزلوں سے بھی ملتا ہے چھوٹی چھوٹی مرکیاں اس کی آواز کے حسن میں چار چاند لگا دیتی تھیں۔
لاہور میں مجیب عالم سے میری بھی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ جب لاہور کی فلم انڈسٹری کو زوال آیا اور موسیقار نثار بزمی لاہور چھوڑ کر کراچی آگئے تو مجیب عالم بھی لاہور چھوڑ کر کراچی آگیا تھا پھر کراچی کی موسیقی کی محفلوں کو ایک شاندار اور جاندار آواز مجیب عالم کی صورت میں مل گئی تھی، مشہور مزاحیہ آرٹسٹ اور نامور ٹی وی آرٹسٹ اور کمپیئر معین اختر کے ساتھ مجیب عالم کی بڑی گہری دوستی ہوگئی تھی اور پھر کراچی کے ہر اس بڑے فنکشن میں جس کا میزبان معین اختر ہوتا تھا مجیب عالم کے بغیر وہ فنکشن مکمل نہیں ہوتا تھا۔
اکثر معین اختر فنکشنوں میں احمد رشدی اور مجیب عالم کے ساتھ اپنی آواز کا جادو بھی جگاتا تھا۔کبھی احمد رشدی کا کوئی گیت، کبھی مجیب عالم کا کوئی گیت معین کے اختر کے ہونٹوں پر ہوا کرتا تھا اکثر احمد رشدی مذاق میں کہہ دیا کرتا تھا'' یار معین اختر تم صرف کامیڈی کرتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہو یہ گانا وانا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔'' یہ انھی دنوں کی بات ہے معین اختر کے گھر راتیں جاگتی تھیں اور دن سوتے تھے۔ معین اختر روزانہ رات بھر جاگتا رہتا تھا اور پھر صبح کی روشنی طلوع ہونے سے پہلے سو جاتا تھا پھر اس کی صبح شام چھ بجے ہوا کرتی تھی۔
وہ شام کی چائے کے ساتھ اپنی صبح کا ناشتہ کیا کرتا تھا۔ ایک رات معین کے گھر پر مجیب عالم کراچی کا گلوکار جمیل کشور اور میں بھی موجود تھا۔ معین نے کہا یار ہمدم! میری خواہش ہے کہ میں اپنے گائے ہوئے گیتوں کا ایک البم تیار کروں اور پھر مارکیٹ میں لاؤں۔ یہ کہہ کر اس نے مجیب عالم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ''یار مجیب! تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔'' مجیب عالم نے مسکراتے ہوئے بڑا خوبصورت جواب دیا تھا۔'' یار! مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر تمہارے گائے ہوئے گیتوں کے سروں کو بڑا دکھ ہوگا وہ بعد میں بڑا روئیں گے'' اور پھر قہقہے بکھر گئے تھے۔ مجیب عالم مشہور گلوکار ہونے کے بعد بھی ریڈیو پاکستان کے گیتوں کی ریکارڈنگ کو بھی وہ بڑی اہمیت دیتا تھا اور اکثر و بیشتر ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے گیتوں کی ریکارڈنگ میں حصہ لیتا رہتا تھا۔ اسی دوران اس نے میری ایک غزل بھی ریڈیو کے لیے گائی تھی۔ جس کا مطلع تھا:
یہ مہکتا شباب کیا کہنا نو شگفتہ گلاب کیا کہنا
بات کرتے ہوئے پھول جھڑتے ، حسن یہ لاجواب کیا کہنا
اس غزل کی دھن استاد امیر احمد خان نے بڑی دلکش مرتب کی تھی۔ اسی زمانے میں مجیب عالم کو ایک بار انجائنا کا اٹیک ہوا وہ اسپتال میں چند دن رہ کر اور صحت یاب ہوکر آیا تو معین اختر بولا'' ابے کیوں گھبراتا ہے یہ دل کا مرض بڑے لوگوں کو ہوتا ہے مجھے بھی ہے میرا تو بائی پاس ہوچکا تھا۔ فکر نہ کیا کر زندگی جتنی ملی ہے اس کا ایک لمحہ بھی کوئی چھین نہیں سکتا یہ زندگی تو اوپر والے کی امانت ہے وہ کب واپس لے لے بس وہی جانتا ہے۔'' پھر ایک دن مجیب عالم کے بارے میں پتا چلا کہ وہ شدید ہارٹ اٹیک کے بعد اس دنیا سے سدھار گیا مگر اس کے زندگی سے بھرے گیت ہمیشہ اس کی یاد دلاتے رہیں گے۔