اسکول
کوئی سناٹا ہے جو دیو کے سائے کی مانند رہتا ہے۔ سنا ہے پنجاب حکومت نے اسکولوں کی چھٹی کچھ ہفتے اور بڑھا دی۔
NOWSHERA:
بہت سے لوگوں کی بہت سی یادیں ہوتی ہونگی، تصویروں کی مانند، کسی چلتے منظروں کی طرح ذہن میں ابھرتی ہوں گی، ہمارے ذہنوں میں ہمارا بچپن رہتا ہے۔ ہم اس بچپن کا تسلسل ہوتے ہیں۔ اچھے والدین وہ ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو ڈر و خوف نہیں دیتے ہیں، اس کے برعکس ان کو ہمت و جرأت دیتے ہیں۔
ان کے ذہنوں میں بند دریچوں کو کھولتے ہیں۔ لوریاں سناتے ہیں، کہانیاں سناتے ہیں تاکہ ان کی سوچ میں سوال پیدا ہوں۔ معصومانہ و میٹھے سوال۔ سنو تو ہنسی آجائے اور جی چاہے کہ ان کو گلے سے لگالیا جائے۔ لتا کے گائے ہوئے ''امر پریم'' فلم میں ان بولوں کی طرح ''آ توہے میں گلے سے لگاؤں، لاگے نہ کسی کی نظر، من میں چھپاؤں''۔ہمارے بچوں کو اب کی بار نظر لگ گئی۔ ان کے اسکولوں کے آگے سوالیہ نشان لگ گئے۔ ایک سانت ہے جو بسیرا کرگئی ہے۔
کوئی سناٹا ہے جو دیو کے سائے کی مانند رہتا ہے۔ سنا ہے پنجاب حکومت نے اسکولوں کی چھٹی کچھ ہفتے اور بڑھا دی۔ ہر طرف ڈر کی فضا ہے۔ کون بھیجے اب بچوں کو اسکول اور حکومت کہے کہ ان اسکولوں کو تحفظ دینے کے اب ہم نہیں ذمے دار۔ میرے بچپن میں تین چیزیں تھیں۔ گھر کا آنگن، محلے کی گلی اور اسکول کے کھیل کے میدان۔ کتنے اچھے تھے وہ دن۔ افتخار عارف کی طرح آج بیٹھے بٹھائے یوں یاد آگئے۔ انھوں نے اسکولوں کو بند کرنے کی بات کی تو سارے خیال ہمارے ماضی کے دریچے یوں کھل کے سامنے آگئے کہ جیسے ہمارے آیندہ کے معماروں سے یہ سب چھینا جا رہا ہے۔
ان کا بچپن یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی جنگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ کتابیں کہاں گری پڑی ہیں، بلا و بال کون لے گیا، رہ گیا تو کہاں اب اسکول کا یونیفارم۔ ہاتھوں میں کپکپی سی ہے کہ یہ اسکول نہ ہوں مقتل گاہیں ہوں اور قاتل نے اب کے بچوںسے انتقام لینا شروع کیا ہے۔ وہ خوف شدید انداز میں پیوست کرنا چاہتا ہے۔ وہ تو ڈرانا چاہتا ہے کہ اس کو ڈرسے مقصد ہے مگرحکمران اس سے ڈر جائے یہ معلوم نہ تھا۔ ہاں تو پھر شیر کے اعزاز سے ہاتھ دھو لیجیے اور اگرنہیں تو پھر اپنا سینہ ان اسکولوں کی نذر کیجیے کہ آپ کی جرأت سے بچوں کا ڈر ختم ہوجائے گا۔ ماؤں کے چہروں پر رونقیں لوٹ آئیں گی۔
اسکولوں کے میدانوں میں بچوں کی آوازوں کا بسیرا ہوگا، کہ پھر سے نیا دن، نیا صبح سویرا ہوگا۔ایک تو ہم اسکول چلا نہیں سکتے۔ دیکھ لیجیے ذرا شوق سے پرسان حال سرکاری اسکول اور اوپر سے جو بچے کچھے چند چار اسکول چلتے بھی ہیں وہ بھی خوف کی نذر ہوجائیں تو کیا اب والدین خود بندوقیں لے کر اسکولوں کی حفاظت کریں؟ تو پھر گھر کے لیے دال روٹی کا بندوبست کون کرے گا؟ اور جو غیر سرکاری اسکول ہیں، وہ سیکیورٹی دینے کے اخراجات بچوں کی فیس میں ڈال دیتے ہیں اور اس طرح ایک تو غریب اپنے بچے ان غیر سرکاری اسکولوں میں بھیج نہیں سکتا اور جو متوسط طبقہ بھیج سکتا ہے اس کو اب نالائق ریاست کے بوجھ بھی اپنی کمزور جیب پر ڈالنے ہوتے ہیں اور پھر یہ کمزور جیب اس کے دل کو بھی کمزور کرتی رہتی ہے۔
مگر صاحب اقتدار کے بچوں پر ایسی کوئی مشکل نہیں آتی۔ سیاسی قیادت ہے تو بیس سیکیورٹی کی گاڑیاں ان کے گرد گھومتی ہیں کہ ان تحفظ کے آڑے اگر کسی غریب کے بچے کی زندگی کا سوال ہے تو کوئی بات نہیں۔ اس شرفاؤں کے پاکستان میں پھر ہمیںحکمرانوں کے یہ بیان بھی سننے کو ملتے ہیں ''ہم نے ان عورتوں کو ہزار روپے کا نوٹ دکھایا جنھوں نے کبھی پچاس کا نوٹ بھی نہیں دیکھا تھا۔''اور ایسے سیکڑوں بیان آپ کو ملیں گے جس میں ایسا ہی لہجہ عیاں ہوگا۔ آپ نے تھر کی ماؤں کے بارے میں بار بار کہا۔ یہ کہہ کر کہ وہ کمزور بچوں کو بھلا آخر کیوں جنم دیتی ہیں۔
غربت کی لکیروں میں رہتی ہوئی مائیں کمزور بچوں کو جنم نہیں دیں گی تو کیا دیں گی۔ صدیوں سے پڑے غلامیوں کے طوق اور اوپر سے کسی بھی صوبے کے حکمران ہوں ۔ بات ایک ہی ہے۔ اس مہینے تھر میں 104 بچے، اسپتالوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے موت کی آغوش میں سو گئے اور شاہ صاحب لکھتے ہیں، ان کی حکومت کو خوامخوا بدنام کیا جارہا ہے۔ غریبوں کا سب کچھ بند ہوگیا ہے۔ اسکول بند، اسپتال بند، انصاف کے دروازے بند۔ اب کون کرے اتنے مہنگے وکیل۔سب کچھ مقفل ہے تو پھر روشن مستقبل کیسے ہو۔ جب جیکب آباد میں امام بارگاہ پر حملہ ہوا، میں گیا، شکار پور کی امام بارگاہ پر حملہ ہوا میں گیا، نہ گیا گر تو وہ سندھ کی سیاسی قیادت ہو۔
وہ امام بارگاہوں پر حملے نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ ڈر کو ہم میں پیوست کر رہے تھے، وہ ڈر جس کی وجہ سے اب شمالی سندھ میں مدرسوں کا راج ہے۔ اور ان کے ساتھ اتحاد میں کوئی اور نہیں خود بے نظیر کی پارٹی ہے۔ وہ پارٹی اب سیکولر ہونے سے زیادہ اپنے شرفا ہونے کے مفاد سے وفادار ہے۔ اور سندھ اب کے بارے جس عدم سرکار کے تذبذب سے گزر رہی ہے شاید ہی اس سے پہلے ایسے کبھی تھی۔ سندھ کے شرفا کوئی برلا و ٹاٹا نہیں کہ یہ سوچیں کہ اسکول ہوں تو غریبوں کے بچے پڑھیں اور وہ بچے ان کے کارخانوں میں ہنرمند بن کے کام کرسکیں۔
یہ شرفا جو سندھ کے شرفا ہیں ان کو اسکول اچھے نہیں لگتے کیونکہ غریب کے بچے اگر پڑھ لکھ گئے تو ان کے پاؤں کون چھوئے گا۔ اور دوسری طرف وہ مذہبی انتہاپرست ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسکول ہوں گے تو مدرسے کیسے چلیں گے۔ اور پھر کس طرح بری حکمرانی، وڈیرا شاہی اپنے ضمیر میں خلل کی وجہ سے خود مذہبی انتہا پرستی کے لیے خود ایک سبب بن جاتی ہے۔ کل غریب کے بچے انتقام کی آگ میں جل کر ڈاکو بن جاتے تھے اور آج۔۔۔۔
خلل کہیں اور نہیں ریاست کے خدوخال میں ہے۔ آج انھوں نے ڈر کے مارے اسکول بند کردیے، کل ڈر کے مارے جج ان کو پھانسی پر نہیں لٹکا سکیں گے، یہ کون سی منطق ہے کہ جمعہ بازار میں بم کا دھماکا ہو جمعہ بازار بند کردو۔ اسکول پر حملہ ہو، اسکول بند کردو، تو کیا پھر ایک دن آپ پاکستان کو بھی بند کردیں گے؟اسکول ہمارے وجود کا بنیادی نقطہ ہے۔ ہماری آیندہ کی نسلوں کا اثاثہ ہے نہ صرف ان کو تحفظ دینا بلکہ بہترین معیار تعلیم دینا پاکستان کا اہم جزو ہے اور یہی ہمارے آئین کا آرٹیکل 25A کہتا ہے۔
بہت سے لوگوں کی بہت سی یادیں ہوتی ہونگی، تصویروں کی مانند، کسی چلتے منظروں کی طرح ذہن میں ابھرتی ہوں گی، ہمارے ذہنوں میں ہمارا بچپن رہتا ہے۔ ہم اس بچپن کا تسلسل ہوتے ہیں۔ اچھے والدین وہ ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو ڈر و خوف نہیں دیتے ہیں، اس کے برعکس ان کو ہمت و جرأت دیتے ہیں۔
ان کے ذہنوں میں بند دریچوں کو کھولتے ہیں۔ لوریاں سناتے ہیں، کہانیاں سناتے ہیں تاکہ ان کی سوچ میں سوال پیدا ہوں۔ معصومانہ و میٹھے سوال۔ سنو تو ہنسی آجائے اور جی چاہے کہ ان کو گلے سے لگالیا جائے۔ لتا کے گائے ہوئے ''امر پریم'' فلم میں ان بولوں کی طرح ''آ توہے میں گلے سے لگاؤں، لاگے نہ کسی کی نظر، من میں چھپاؤں''۔ہمارے بچوں کو اب کی بار نظر لگ گئی۔ ان کے اسکولوں کے آگے سوالیہ نشان لگ گئے۔ ایک سانت ہے جو بسیرا کرگئی ہے۔
کوئی سناٹا ہے جو دیو کے سائے کی مانند رہتا ہے۔ سنا ہے پنجاب حکومت نے اسکولوں کی چھٹی کچھ ہفتے اور بڑھا دی۔ ہر طرف ڈر کی فضا ہے۔ کون بھیجے اب بچوں کو اسکول اور حکومت کہے کہ ان اسکولوں کو تحفظ دینے کے اب ہم نہیں ذمے دار۔ میرے بچپن میں تین چیزیں تھیں۔ گھر کا آنگن، محلے کی گلی اور اسکول کے کھیل کے میدان۔ کتنے اچھے تھے وہ دن۔ افتخار عارف کی طرح آج بیٹھے بٹھائے یوں یاد آگئے۔ انھوں نے اسکولوں کو بند کرنے کی بات کی تو سارے خیال ہمارے ماضی کے دریچے یوں کھل کے سامنے آگئے کہ جیسے ہمارے آیندہ کے معماروں سے یہ سب چھینا جا رہا ہے۔
ان کا بچپن یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی جنگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ کتابیں کہاں گری پڑی ہیں، بلا و بال کون لے گیا، رہ گیا تو کہاں اب اسکول کا یونیفارم۔ ہاتھوں میں کپکپی سی ہے کہ یہ اسکول نہ ہوں مقتل گاہیں ہوں اور قاتل نے اب کے بچوںسے انتقام لینا شروع کیا ہے۔ وہ خوف شدید انداز میں پیوست کرنا چاہتا ہے۔ وہ تو ڈرانا چاہتا ہے کہ اس کو ڈرسے مقصد ہے مگرحکمران اس سے ڈر جائے یہ معلوم نہ تھا۔ ہاں تو پھر شیر کے اعزاز سے ہاتھ دھو لیجیے اور اگرنہیں تو پھر اپنا سینہ ان اسکولوں کی نذر کیجیے کہ آپ کی جرأت سے بچوں کا ڈر ختم ہوجائے گا۔ ماؤں کے چہروں پر رونقیں لوٹ آئیں گی۔
اسکولوں کے میدانوں میں بچوں کی آوازوں کا بسیرا ہوگا، کہ پھر سے نیا دن، نیا صبح سویرا ہوگا۔ایک تو ہم اسکول چلا نہیں سکتے۔ دیکھ لیجیے ذرا شوق سے پرسان حال سرکاری اسکول اور اوپر سے جو بچے کچھے چند چار اسکول چلتے بھی ہیں وہ بھی خوف کی نذر ہوجائیں تو کیا اب والدین خود بندوقیں لے کر اسکولوں کی حفاظت کریں؟ تو پھر گھر کے لیے دال روٹی کا بندوبست کون کرے گا؟ اور جو غیر سرکاری اسکول ہیں، وہ سیکیورٹی دینے کے اخراجات بچوں کی فیس میں ڈال دیتے ہیں اور اس طرح ایک تو غریب اپنے بچے ان غیر سرکاری اسکولوں میں بھیج نہیں سکتا اور جو متوسط طبقہ بھیج سکتا ہے اس کو اب نالائق ریاست کے بوجھ بھی اپنی کمزور جیب پر ڈالنے ہوتے ہیں اور پھر یہ کمزور جیب اس کے دل کو بھی کمزور کرتی رہتی ہے۔
مگر صاحب اقتدار کے بچوں پر ایسی کوئی مشکل نہیں آتی۔ سیاسی قیادت ہے تو بیس سیکیورٹی کی گاڑیاں ان کے گرد گھومتی ہیں کہ ان تحفظ کے آڑے اگر کسی غریب کے بچے کی زندگی کا سوال ہے تو کوئی بات نہیں۔ اس شرفاؤں کے پاکستان میں پھر ہمیںحکمرانوں کے یہ بیان بھی سننے کو ملتے ہیں ''ہم نے ان عورتوں کو ہزار روپے کا نوٹ دکھایا جنھوں نے کبھی پچاس کا نوٹ بھی نہیں دیکھا تھا۔''اور ایسے سیکڑوں بیان آپ کو ملیں گے جس میں ایسا ہی لہجہ عیاں ہوگا۔ آپ نے تھر کی ماؤں کے بارے میں بار بار کہا۔ یہ کہہ کر کہ وہ کمزور بچوں کو بھلا آخر کیوں جنم دیتی ہیں۔
غربت کی لکیروں میں رہتی ہوئی مائیں کمزور بچوں کو جنم نہیں دیں گی تو کیا دیں گی۔ صدیوں سے پڑے غلامیوں کے طوق اور اوپر سے کسی بھی صوبے کے حکمران ہوں ۔ بات ایک ہی ہے۔ اس مہینے تھر میں 104 بچے، اسپتالوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے موت کی آغوش میں سو گئے اور شاہ صاحب لکھتے ہیں، ان کی حکومت کو خوامخوا بدنام کیا جارہا ہے۔ غریبوں کا سب کچھ بند ہوگیا ہے۔ اسکول بند، اسپتال بند، انصاف کے دروازے بند۔ اب کون کرے اتنے مہنگے وکیل۔سب کچھ مقفل ہے تو پھر روشن مستقبل کیسے ہو۔ جب جیکب آباد میں امام بارگاہ پر حملہ ہوا، میں گیا، شکار پور کی امام بارگاہ پر حملہ ہوا میں گیا، نہ گیا گر تو وہ سندھ کی سیاسی قیادت ہو۔
وہ امام بارگاہوں پر حملے نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ ڈر کو ہم میں پیوست کر رہے تھے، وہ ڈر جس کی وجہ سے اب شمالی سندھ میں مدرسوں کا راج ہے۔ اور ان کے ساتھ اتحاد میں کوئی اور نہیں خود بے نظیر کی پارٹی ہے۔ وہ پارٹی اب سیکولر ہونے سے زیادہ اپنے شرفا ہونے کے مفاد سے وفادار ہے۔ اور سندھ اب کے بارے جس عدم سرکار کے تذبذب سے گزر رہی ہے شاید ہی اس سے پہلے ایسے کبھی تھی۔ سندھ کے شرفا کوئی برلا و ٹاٹا نہیں کہ یہ سوچیں کہ اسکول ہوں تو غریبوں کے بچے پڑھیں اور وہ بچے ان کے کارخانوں میں ہنرمند بن کے کام کرسکیں۔
یہ شرفا جو سندھ کے شرفا ہیں ان کو اسکول اچھے نہیں لگتے کیونکہ غریب کے بچے اگر پڑھ لکھ گئے تو ان کے پاؤں کون چھوئے گا۔ اور دوسری طرف وہ مذہبی انتہاپرست ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسکول ہوں گے تو مدرسے کیسے چلیں گے۔ اور پھر کس طرح بری حکمرانی، وڈیرا شاہی اپنے ضمیر میں خلل کی وجہ سے خود مذہبی انتہا پرستی کے لیے خود ایک سبب بن جاتی ہے۔ کل غریب کے بچے انتقام کی آگ میں جل کر ڈاکو بن جاتے تھے اور آج۔۔۔۔
خلل کہیں اور نہیں ریاست کے خدوخال میں ہے۔ آج انھوں نے ڈر کے مارے اسکول بند کردیے، کل ڈر کے مارے جج ان کو پھانسی پر نہیں لٹکا سکیں گے، یہ کون سی منطق ہے کہ جمعہ بازار میں بم کا دھماکا ہو جمعہ بازار بند کردو۔ اسکول پر حملہ ہو، اسکول بند کردو، تو کیا پھر ایک دن آپ پاکستان کو بھی بند کردیں گے؟اسکول ہمارے وجود کا بنیادی نقطہ ہے۔ ہماری آیندہ کی نسلوں کا اثاثہ ہے نہ صرف ان کو تحفظ دینا بلکہ بہترین معیار تعلیم دینا پاکستان کا اہم جزو ہے اور یہی ہمارے آئین کا آرٹیکل 25A کہتا ہے۔