مین میں جینوئن آرٹ کی تخلیق کے لیے سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے جالینوس جالی

پاکستان کے ممتاز مصوّر جالینوس جالی سے مکالمہ

پاکستان کے ممتاز مصوّر جالینوس جالی سے مکالمہ ۔ فوٹو : فائل

تصویر کی تاثیر سے کسے انکار ہے۔ایک اچھی تصویر تفہیم کے عمل میں اکثر الفاظ کو بھی مات دے جاتی ہے۔ حد درجہ حساس لوگ ہی مصوری کے فن میں تخلیقی جوہر دِکھا سکتے ہیں ۔ وہ اپنے ماحول پر کسی شاعر کی طرح نگاہ رکھتے ہیں اور پھر ہاتھ میں برش تھام کر اپنے تجربات و مشاہدات کی کہانی کینوس پر رنگوں کی صورت بکھیر دیتے ہیں۔

عام طور پر مصوّر خود کو کسی ایک موضوع یا نظریے کا اسیر نہیں بناتے۔ وہ ہر اس چیز کو پینٹ کرتے ہیں جو ان کے دل کو لگتی ہے یا جس چیز کی ان سے فرمائش کی جاتی ہے لیکن پاکستان کے نامور مصوّر جالی کا انداز ذرا ہٹ کر ہے ۔ ان کی پینٹنگز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت کچھ جسے سمونے کے لیے ان گنت صفحات درکار ہیں، جالی اسے اپنی ایک پینٹنگ میں بیان کر دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔وہ فن برائے فن کے قائل نہیں ہیں ۔

ان کے نزدیک فن کا مقصد تخلیق ِحسن ہے۔اس میں ظاہری پہلو تناسب اور توازن کامتقاضی ہے جبکہ اس کا معنوی پہلو ابدی سچائیوں کی جستجو اور ابلاغ سے تعلق رکھتا ہے۔ جالی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے فن کے ذریعے انہی ابدی سچائیوں کی تلاش کی ہے۔

جالی نے اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات، امّت مسلمہ کے مسائل اور درخشان عہد کے احیاء کی تمنّاکو اپنے کام کا مرکزی موضوع بنایا ہے۔ کہتے ہیں مصوّر حقیقی نے مجھے تخلیقی صلاحیتیں عطا نہ کی ہوتیں تو میرا مصوّر بننا محال تھا۔ مذہب اسلام کے ساتھ گہری وابستگی کے زیر اثر انہوں نے مسجد اقصیٰ ،فلسطین اور خانہ کعبہ کو اپنے مخصوص انداز میں پینٹ کیا ہے ۔ جالی نے ہر آرٹسٹ کی طرح اپنے فن کی ابتداء کمر شل بنیادوں پر کی مگر زیادہ دیر تک دل اس میں نہیں لگ سکا۔

ان کے فن کو نیا رخ ایک الم ناک سانحے نے دیا۔یہ اگست 1969ء کہ بات ہے جب صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا تو انہیں شدید صدمہ پہنچا۔ ان کے بقول اس واقعے نے میرے اندرحمیت ِ دینی کے جذبے کو جِِلا بخشی ۔ پھر انہوں نے اسلام کی انقلابی تعلیمات ،اسلاف کے شاندار کارناموں کو اپنے فن کا موضوع بنایا۔جالی بیت المقدس کی آزادی اور اسلام کی سربلندی کا خواب دیکھتے ہیں۔ ان کی کئی پینٹنگز میں کشمیر کے مقہور و مظلوم مسلمانوں کے دُکھوںکی عکاسی کی گئی ہے۔

ان تمام پینٹنگز کو وہ ایک قسم کا ردعمل قرار دیتے ہیں۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں ان کے خاکوں کی اشاعت ایک قومی اخبار نے کی تھی جن میں جالی نے تقسیم ہند کے بعد کے حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان موضوعات پر بنائی گئی تصاویر میں درد نمایاں نظر آتا ہے۔ کچھ پینٹنگز میں سرمایہ داری نظام کی تباہ کاریوں تو بعض میں اشتراکیت کے انسانیت سوز پہلوئوںکو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔


مصور جالی کا ماننا ہے کہ کام اچھا ہو تو وہ خود ہی اپنا تعارف کراتا ہے۔ سچے اور جنوئین فنکار کو تشہیری حربے آزمانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ان کاماننا ہے کہ فن آپ کی مکمل سپردگی مانگتا ہے۔اس کے لیے سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے فن کے ذریعے بڑے مقاصد کی خدمت کے اصول پر کاربند ہیں۔ ڈگریوں کی بجائے علم کے عملی اطلاق پر زیادہ زور دیتے ہیں۔انہیں اپنے تخلیقی کام کی بنیاد پر کئی ایوارڈز اور تعریقی اسناد سے نوازا گیا ہے مگر مصور جالی انہیں اپنے کام کے سامنے کچھ بھی نہیں سمجھتے ۔ بہت سی ایسی دستاویزات کھو بھی چکی ہیں مگر انہیں اس پر کوئی قلق بھی نہیں۔ جالی عظیم مسلم کیمیادان جابر بن حیان کی فلاسفی کا بہت ذکر کرتے ہیں ۔

ان کے نزدیک جو علم انسان عملی طریقے سے حاصل کرتا ہے وہ کتابیں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کتابوں سے ایک طرح کی رہنمائی ملتی ہے مگر پریٹیکلی کام کے دوران آدمی کئی قسم کے تجربات سے گزرتا ہے۔ بارہا نقصان ہوتا ہے ۔ ناکامیاں بھی ملتی ہیں۔ مصور جالی اپنے تخلیقی سفر میں ان تمام کٹھن مراحل سے گزرے ہیں ۔ بہت سی پینٹنگز خراب بھی ہوئیں جنہیں بار بار نئے سرے سے بنانا پڑا ۔کچھ پینٹنگز کی تیاری میں توکئی کئی ماہ بھی لگے ۔ بتاتے ہیں کہ مجھے اکثر اپنے نگار خانے میںکام کرتے ہوئے آدھی رات کا وقت ہو جاتا تھا۔ میں سنسان سڑکوں سے ہوتا ہوا گھر واپس لوٹتا تھا۔



مصور جالی نے طویل عرصے تک اپنا نگار خانہ (اسٹوڈیو) انار کلی میں قائم کیے رکھا جہاں وہ دنیاو مافیہا سے الگ تھلک اپنے خیالات کے رنگ کینوس پر بکھیرا کرتے تھے۔ان کا وہ کمرہ پینٹنگز اور ان کے لوازمات کے علاوہ ادب ،آرٹ ،جغرافیہ اور نہ جانے کن کن موضوعات پر مبنی کتابوں سے اٹا پڑا ہوتا تھا۔ اپنے ہم عصر فن کاروں کے برعکس جالی کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر برش کو حرکت میں لانے سے قبل خوب تحقیق اور مطالعہ کرتے ہیں۔

جب کوئی ان کی تصاویر دیکھنے اسٹوڈیو آتا تو وہ اسے قوالی سنواتے تھے ۔یہ ان کامخصوص اسٹائل تھا۔ ان کے نگارخانے میںادب وفن سے وابستہ اس عہد کی نامور ہستیوں کی آمد لگی رہتی تھی۔حبیب جالب ،احمد ندیم قاسمی، اے حمید، اشفاق احمد،ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی،احسان دانش ،مجید نظامی،ڈاکٹر برھان احمد فاروقی ،خلیفہ عبدالحکیم،امتیاز علی تاج،ناصر کاظمی،،مولانا صلاح الدین احمد ،مشکور حسین یاد سمیت کئی ایک نابغوں کے ساتھ ان کی یاد اللہ رہی ہے۔

مصور جالی نے پاکستان کے عظیم سیاسی زعماء کی پینٹنگزبڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے بنائی ہیں۔ ان کے ہاتھ کی بنی قائداعظم ،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال، محترمہ فاطمہ جناح کی تصاویر پورے ملک میں عام ہوئیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ مال روڈ لاہورکی عمارت میں جالی کی بہت سی قد آدم پینٹنگزآج بھی آویزاں ہیں ۔

ان کی پینٹنگزکی تصاویر تقریباً ہر سرکاری دفتر اور ادارے میں نظر آتی ہیں ۔ جالی کی تصاویر پوسٹرز اورکیلنڈرز میں ان کے نام کے بغیر شائع ہورہی ہیں جالی ہیں کہ یکسر بے نیاز بیٹھے ہیں۔

مصورجالی کے فن کو ادب وفن سے وابستہ قدآور شخصیات نے بھرپور انداز میں سراہا ہے۔ احسان دانش نے اپنی ایک طویل نظم میں جالی کے فن پاروں کو خراج تحسین پیش کیا۔

حبیب جالب نے ان کے پاس بیٹھ کر ان کی تعریف میں کئی ایک شعر رقم کیے۔مشتاق شاد نے ان کے لیے ''فن کا کَرب'' نظم لکھی۔ فرزند ِشاعر ِ مشرق جسٹس (ر)ڈاکٹر جاوید اقبال سے ان کا خصوصی تعلق تھا ۔وہ جالی کا تعارف کچھ اس طرح کرواتے ہیں۔ ''جالی ایک بے قرار روح رکھتا ہے وہ ایسا پیغام دینا چاہتا ہے جو اس کی ہر تصویر کے لبوں سے سنائی دیتا ہے اور ہاں ! بالیقین وہ احیائے اسلام کا مصوّر ہے۔'' مشہور افسانہ نگار رحمان مذنب نے بھی زور دار الفاظ میں ان کے فن کو سراہا ہے۔


جالی اپنی تصویری کاوشوں میں ''جاگو! متحد ہو جاؤ اور ضرب کاری لگاؤ'' کے فلسفے کو اُجاگر کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک امّت مسلمہ کی زبوں حالی کا تریاق مسلمانوں کے اتحاد اور ان کی مجتمع قوت میں ہے۔ انہوں نے اپنی کچھ پینٹنگز میں خانہ کعبہ سے جڑے اپنے احساسات کو نمایا ں کرنے کی کوشش کی ہے۔



واقعۂ معراج کی تصوّراتی انداز میں خوب منظر کشی کی ہے۔ اسلام کی سر بلندی کے پیغام پر مبنی آیات قرآنی ان کی بہت سی تصاویر کا موضوع ہیں ۔ وہ دنیا کے امن کو قرآنی تعلیمات کی پیروی سے مشروط سمجھتے ہیں۔مغرب کی اہل اسلام پر مسلسل سیاسی،ثقافتی و عسکری یلغار بھی فن پاروں کی تیاری میں جالی کے پیش نظر تھی ۔

اس زمانے میں سعودی عرب کے سابق فرماں روا شاہ فیصل مرحوم ان کا رُومان تھے۔ اپنی پینٹنگزمیںانہوں نے شاہ فیصل اور ان کے جانشینوں سے وابستہ اپنی امیدوںکی عکاسی خوبی کے ساتھ کی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ امت ِ مسلمہ کی وحدت کا خواب عرب زعماء ہی شرمندۂ تعبیر کر سکتے ہیں۔ کچھ تصاویر میں اسلامی قوّتوں کی فتح کے مناظر بھی دکھائے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کو کینوس پر اس انداز میں باہم یکجا کیا ہے کہ ان کی خوبصورتی دوچند ہوجاتی ہے ۔

وہ ان دونوں خطوں کے مسلمانوں کی جلد آزادی کے متمنی ہیں۔ اپنے برش کی مدد سے نئے دور کے صلاح الدین ایوبی کو پینٹ کیا ہے جو ان کے خیال میں امت مسلمہ کا مسیحا ثابت ہو گا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کا اثر ان کی پینٹنگز میںنمایاں نظر آتا ہے ۔ مسلم نوجوان کواپنی تصاویر میں عقاب کے روپ میں حریف قوتوں پر جھپٹتے ہوئے دکھاتے ہے۔

جالی نے مشہور فلسطینی رہنما یاسر عرفات ،تاریخ اسلام کے عظیم کردار صلاح الدین ایوبی، پاکستان کے سابق صدور جنرل(ر)ایوب خان،جنرل(ر) ضیاء الحق،جنرل(ر) یحییٰ خان وغیرہ کی تصاویر بھی بنائی ہیں ۔سیاسی شخصیات کی بات چلی تو کہنے لگے کہ ایوب خان بہت خوبصورت اور وجیہہ آدمی تھا۔ حکمراں طبقے سے تعلقات کے باوجود کسی قسم کی مالی منفعت اٹھانا انہیں کبھی گوارہ نہیں رہا۔

ان کے بچے برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں۔ اسی مناسبت سے ہم نے بیرون ملک اسفارکے حوالے سے ان کا ذوق معلوم کرنا چاہا تو مسکراتے ہوئے بولے بھئی! میں تو مکّے مدینے کا آدمی ہوں۔ ان کا جواب بجا تھا کیونکہ پاکستان کے بعد ان کے فن کو بڑے پیمانے پر پذیرائی سرزمینِ حجاز ہی میں ملی۔

ان کی 49منتخب پینٹنگز کی نمائش 2003ء میں سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض کے ''کنگ ہسٹاریکل سنٹر'' میں ہوئی۔ نمائش میں شاہ عبدالعزیز،شاہ فیصل،شاہ خالد، شاہ فہد، عبداللہ بن عبدالعزیز اور سلمان بن عبدالعزیز کے علاوہ ملّی یگانگت کے پیغام پر مبنی پینٹنگز شامل تھیں۔

یہ نمائش مسلسل پانچ ہفتے تک جاری رہی اور اس دوران عرب دنیا کے اہم زعماء نے ان کے فن پارے ملاحظہ کیے اور جالی کوبے پناہ داد سے نوازا۔ مصوّر جالی کے ان انچاس فن پاروں کو ایک کتاب ''دی فائونٹین ہیڈ آف اسلام '' میں یکجا کیا گیا ہے۔ جالی پینٹنگز کے اس مجموعے کو اپنی حیات کا اثاثۂ بے بہا قرار دیتے ہیں۔



عہد ِ موجود کے آرٹسٹوں کا ذکر چلا تو کہنے لگے کہ اب منشیات کے استعمال اور عجیب وغریب حلیہ بنا ئے رکھنے کو آرٹسٹ اہم خیال کرتے ہیں ۔جالی حلیے کی بجائے کام پر توجہ پر زور دیتے ہیں۔ ان کے ہاں فن کا بلند مقاصد کے لیے استعمال زیادہ اہم ہے۔ وہ اپنی تصویروں میں حقیقت اور علامت کو دلکشی سے باہم یکجا دکھاتے ہیں ۔

ان کی پینٹنگز میں تاریخ اسلامی کے اہم ترین واقعات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خوبصورت خواب بھی نظر آتے ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا شخص جس کی پینٹنگز پورے ملک میں اس کے نام کا ذکر کیے بغیر استعمال ہو رہی ہیں اور وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز ایک کونے میں بیٹھا اپنے فن سے مطمئن دکھائی دیتا ہے۔



پورا نام جالینوس جالی ہے۔ 1930ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق عظیم شاعر علامہ اقبال کے خاندان سے ہے۔ والد فضل حق علامہ اقبال کے بھتیجے ہیں۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ ہی میں حاصل کی ۔ میو کالج آف آرٹس ( آج کل نیشنل کالج آف آرٹس) سے 1952ء میں امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوکر گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے۔

1953ء میں بہترین طالبعلم کا تمغہ ملا اور 1954ء میں تعلیم تکمیل کو پہنچی۔ ابتداء میں کمرشل آرٹ کو اپنایا،لیکن فن کے اس پہلو میں زیادہ دیر تک ان کے لیے کشش نہیں رہی سو کچھ عرصہ بعد اپنی ایک الگ راہ متعین کی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔کم لوگ جانتے ہیں کہ 50ء کی دہائی میں جالی نے مسعود پرویز کی فلم ''منزل'' میں بطور ہیرو بھی کام کیا تھا۔ ان بڑے بھائی حمید میر اس زمانے میں ''مشرق اخبار'' کے کارٹونسٹ تھے جن کا ایک کردار ''میر صاحب'' بہت مقبول ہوا تھا۔

جالی گزشتہ ساٹھ برسوں سے سمن آباد لاہور میں مقیم ہیں۔ اہلیہ ڈاکٹر فرخندہ جالی کا دوبرس ہوئے امریکا میں انتقال ہوا۔فرخندہ جالی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھیں مگر اس کے ساتھ لکھنے لکھانے کا عمل بھی جاری رکھا۔''پرایا سفر''،''کریڈٹ کارڈ'' اور''گرین کارڈ'' ان کے ناول ہیں۔ اولاد میںدوبیٹے عمار جالی،اقلیدس جالی اور ایک بیٹی شمائلہ جالی ہے ،جو امریکا میں مقیم ہیں ۔

بڑا بیٹا عمار جالی امریکا میں ایک بڑی فوڈ چین کا مالک ہے مگر اپنے مادر وطن کی محبت کے اسیر مصوّرجالی یہیں پر زیست کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔وجاہت بشرے سے نمایاں ہے۔حس ظرافت بھی خوب ہے۔ اسّی کے پیٹے میں ہیں مگر مثالی صحت کے حامل ہیں۔ کہتے ہیں بڑھاپا عمر کی زیادتی نہیں بلکہ کیفیت کا نام ہے۔ کم آمیز شخص ہیں ۔خودنمائی اور شہرت کا شوق ان میں نام کو نہیں۔خود کو مردم بیزار قرار دیتے ہیں۔خالص دیسی غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں اور اسی کو اپنی صحت کا راز قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا فائدہ اس دولت کا جو ٹرنکوں میں پڑی ہو اور انسان اسے برت بھی نہ سکے۔
Load Next Story