پاکستان میں گزشتہ سال41ہزار پرانی گاڑیاں برآمد آٹو سیکٹر کے تحفظات ڈیلرز نے مسترد کر دیے
جنوری سے دسمبر 2015کے دوران41ہزار 257 گاڑیاں درآمد کی گئیں جن میں 34ہزار 765 پسنجر کاریں شامل ہیں، اعدادوشمار
ISLAMABAD:
مقامی آٹو انڈسٹری نے گزشتہ سال کے دوران 41ہزار 257 استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے اسے مقامی صنعت میں سرمایہ کاری کیلیے خطرہ قرار دیا اور ہزار سی سی سے کم طاقت کی ری کنڈیشنڈ درآمدی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں 20فیصد اضافے، منی وینز کی ایج لمٹ 5 سال سے کم کرکے 3 سال کرنے اور ہائی برڈ گاڑیوں کی امپورٹ پر 50 فیصد ڈیوٹی ری بیٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کے درآمد کنندگان اور ڈیلرز نے گاڑیوں کی امپورٹ پر تحفظات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ استعمال شدہ درآمدی گاڑیاں معیار کے لحاظ سے مقامی سطح پر تیار کی جانیوالی گاڑیوں سے بہتر ہیں، یہی وجہ ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں بالخصوص چھوٹی گاڑیوں کی طلب بڑھ رہی ہے۔
استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری سے دسمبر 2015کے دوران41ہزار 257 گاڑیاں درآمد کی گئیں جن میں 34ہزار 765 پسنجر کاریں شامل ہیں، درآمدی پسنجر کاروں میں ہزار سی سی سے کم طاقت کی چھوٹی گاڑیوں کا تناسب 73 فیصد رہا اور مجموعی طور پر 25 ہزار 303چھوٹی گاڑیاں درآمد کی گئیں،گزشتہ سال 2456پک اپ اور وینز جبکہ 4036 طاقتور اسپورٹس کاریں (ایس یو ویز) درآمد کی گئیں، اس دوران 4500 سے زائد ہائی برڈ کاریں بھی درآمد کی گئیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایسیسریز (پاپام) کے سابق چیئرمین عامر اﷲ والا نے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو پاکستانی آٹو انڈسٹری میں کی جانیوالی سرمایہ کاری کیلیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب حکومت آٹو انڈسٹری کو ترقی دینے اور یورپی کار مینوفیکچررز کو پاکستان لانے کی کوششوں میں مصروف ہے تو دوسری جانب استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس کیلیے بیگیج اور گفٹ اسکیم کا غلط استعمال کرتے ہوئے نہ صرف مقامی صنعت بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپی کار مینوفیکچررز پاکستان میں سرمایہ کاری کیلیے تیار ہیں مگر وہ درآمدی گاڑیوں کے حوالے سے حکومتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ ہزار سی سی سے کم طاقت کی ری کنڈیشنڈ درآمدی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں 20فیصد اضافہ کرتے ہوئے منی وینز کی ایج لمٹ 5 سال سے کم کرکے 3سال مقرر کی جائے، مقامی سطح پر ہائی برڈ گاڑیوں کی تیاری کو فروغ دینے کیلیے ہائی برڈ گاڑیوں کی امپورٹ پر 50فیصد ڈیوٹی ری بیٹ ختم کی جائے، منی وینز پر درآمدی ڈیوٹی میں 20فیصد اضافہ کیا جائے۔
ادھر آٹو موٹیو ٹریڈرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد عادل خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تیار کی جانیوالی گاڑیاں معیار اور قیمت کے لحاظ سے استعمال شدہ جاپانی گاڑیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں، یہی وجہ ہے کہ صارفین استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کو ترجیح دے رہے ہیں، پاکستان میں مناسب قیمت پر عالمی معیار کی چھوٹی گاڑی دستیاب نہیں، چھوٹی گاڑی کے نام پر 1998کے ماڈل کو اسی حالت میں اب تک مارکیٹ کیا جارہا ہے۔
اس صورتحال میں استعمال شدہ درآمدی گاڑیاں صارفین کی ترجیح بن چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کے معیار، قیمت اور صارفین کے تحفظ کے مناسب اقدامات اور نظام نہ ہونے کی وجہ سے مقامی صنعت مافیا کی شکل اختیار کرچکی ہے اور مسابقت کے بجائے درآمدی گاڑیوں پر قدغن لگوانے کا آزمودہ حربہ اختیار کیا جارہا ہے، مقامی صنعت کے تحفظ کے نام پر کیے جانیوالے پروپیگنڈے کیخلاف ڈیلرز نے بھی بھرپور جوابی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا آغاز جلد کردیا جائیگا۔
مقامی آٹو انڈسٹری نے گزشتہ سال کے دوران 41ہزار 257 استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے اسے مقامی صنعت میں سرمایہ کاری کیلیے خطرہ قرار دیا اور ہزار سی سی سے کم طاقت کی ری کنڈیشنڈ درآمدی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں 20فیصد اضافے، منی وینز کی ایج لمٹ 5 سال سے کم کرکے 3 سال کرنے اور ہائی برڈ گاڑیوں کی امپورٹ پر 50 فیصد ڈیوٹی ری بیٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کے درآمد کنندگان اور ڈیلرز نے گاڑیوں کی امپورٹ پر تحفظات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ استعمال شدہ درآمدی گاڑیاں معیار کے لحاظ سے مقامی سطح پر تیار کی جانیوالی گاڑیوں سے بہتر ہیں، یہی وجہ ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں بالخصوص چھوٹی گاڑیوں کی طلب بڑھ رہی ہے۔
استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری سے دسمبر 2015کے دوران41ہزار 257 گاڑیاں درآمد کی گئیں جن میں 34ہزار 765 پسنجر کاریں شامل ہیں، درآمدی پسنجر کاروں میں ہزار سی سی سے کم طاقت کی چھوٹی گاڑیوں کا تناسب 73 فیصد رہا اور مجموعی طور پر 25 ہزار 303چھوٹی گاڑیاں درآمد کی گئیں،گزشتہ سال 2456پک اپ اور وینز جبکہ 4036 طاقتور اسپورٹس کاریں (ایس یو ویز) درآمد کی گئیں، اس دوران 4500 سے زائد ہائی برڈ کاریں بھی درآمد کی گئیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایسیسریز (پاپام) کے سابق چیئرمین عامر اﷲ والا نے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو پاکستانی آٹو انڈسٹری میں کی جانیوالی سرمایہ کاری کیلیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب حکومت آٹو انڈسٹری کو ترقی دینے اور یورپی کار مینوفیکچررز کو پاکستان لانے کی کوششوں میں مصروف ہے تو دوسری جانب استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس کیلیے بیگیج اور گفٹ اسکیم کا غلط استعمال کرتے ہوئے نہ صرف مقامی صنعت بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپی کار مینوفیکچررز پاکستان میں سرمایہ کاری کیلیے تیار ہیں مگر وہ درآمدی گاڑیوں کے حوالے سے حکومتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ ہزار سی سی سے کم طاقت کی ری کنڈیشنڈ درآمدی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں 20فیصد اضافہ کرتے ہوئے منی وینز کی ایج لمٹ 5 سال سے کم کرکے 3سال مقرر کی جائے، مقامی سطح پر ہائی برڈ گاڑیوں کی تیاری کو فروغ دینے کیلیے ہائی برڈ گاڑیوں کی امپورٹ پر 50فیصد ڈیوٹی ری بیٹ ختم کی جائے، منی وینز پر درآمدی ڈیوٹی میں 20فیصد اضافہ کیا جائے۔
ادھر آٹو موٹیو ٹریڈرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد عادل خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تیار کی جانیوالی گاڑیاں معیار اور قیمت کے لحاظ سے استعمال شدہ جاپانی گاڑیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں، یہی وجہ ہے کہ صارفین استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کو ترجیح دے رہے ہیں، پاکستان میں مناسب قیمت پر عالمی معیار کی چھوٹی گاڑی دستیاب نہیں، چھوٹی گاڑی کے نام پر 1998کے ماڈل کو اسی حالت میں اب تک مارکیٹ کیا جارہا ہے۔
اس صورتحال میں استعمال شدہ درآمدی گاڑیاں صارفین کی ترجیح بن چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کے معیار، قیمت اور صارفین کے تحفظ کے مناسب اقدامات اور نظام نہ ہونے کی وجہ سے مقامی صنعت مافیا کی شکل اختیار کرچکی ہے اور مسابقت کے بجائے درآمدی گاڑیوں پر قدغن لگوانے کا آزمودہ حربہ اختیار کیا جارہا ہے، مقامی صنعت کے تحفظ کے نام پر کیے جانیوالے پروپیگنڈے کیخلاف ڈیلرز نے بھی بھرپور جوابی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا آغاز جلد کردیا جائیگا۔