ترقی ترقی ہوتی ہے

جس پروجیکٹ کو آپ چین کا تحفہ کہہ رہے ہیں وہ 2.5 فیصد سود کے ساتھ ایک قرضہ ہےاسی عوام نے اتارنا ہے۔

دنیا میں ہر انسان کے بنیادی خوابوں میں سے ایک اسکے خاندان کے لئے چھت کا خواب ہوتا ہے لیکن ہزاروں لوگوں کا یہ خواب اورنج لائن کے سبب چکنا چور ہورہا ہے۔

کسان ہاتھ میں لڈّو تھامے گھر میں داخل ہوا تو بیٹے نے پوچھا، ابّا یہ کس خوشی میں ہیں آج تو کوئی تہوار بھی نہیں؟ کسان کہنے لگا، چوہدری صاحب کے صاحبزادے نے بہت ترقی کرلی ہے، آج 4 پہیوں والی کار خریدی ہے، بس اِسی خوشی میں سارے گاؤں میں لڈّو بانٹے ہیں۔ بیٹا بولا ابّا جان! پھر تو ہمیں بھی لڈو بانٹنے چاہئیں کیوں کہ ہم نے تو پرسوں 4 ٹانگوں والا گدھا خریدا ہے۔ کسان ماتھے سے پسینہ خشک کرتے ہوئے بولا، بیٹا ہم نہیں بانٹ سکتے ہماری ترقی چھوٹی ہے۔

کسان بیچارہ تھا پرانے زمانے کا ورنہ اسے خبر ہوتی کہ ترقی، ترقی ہوتی ہے بڑی ہو یا چھوٹی، اچھے کام میں ہو یا بُرے کام میں، ترقی سے یاد آیا وطن عزیز میں بھی آجکل ترقی کا دور دورہ ہے۔ ہر طرف سے ترقی ترقی کی صدائیں بلند ہوکر فلک چھو رہی ہیں اور حیرت ہے کہ آوازوں کے اس شور میں حکومتی آوازیں ہی ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں۔ پنجاب کی بات کی جائے تو ''عوامی'' حکومت جو کہ 2 ماہ تک اسمبلی کا اجلاس بلانے میں ناکام رہی۔ اِسےعوام کی اتنی فکر ہے کہ بھلے ہر شے کے ساتھ اس شہر کی سینکڑوں سالہ تاریخ اور تاریخی عمارات تہہ و بالا کردی جائیں مگر عوام کے لئے اورنج ٹرین بن جائے۔ عدالتی حکم کے باوجود پنجاب پولیس (جو کہ ہر ایسے موقع پر حکمرانوں کے حکم کے تابع ہوتی ہے) کی مدد سے رہاشیوں کو ہراساں کرکے جگہ خالی کروائی جا رہی ہے۔

وفاقی سطح پر دیکھا جائے تو ملک کی واحد ایئر لائن جو اس ملک کی شناخت بھی ہے کو گاجر، مولی کی طرح بیچا جا رہا ہے اور بقول حکومتی ترجمان ایئرلائن چلانا حکومت کا کام ہی نہیں- جی بالکل درست فرمایا، پی آئی اے چلانا حکومت کا کام نہیں جب کہ پیلی ٹیکسی، لال میٹرو، سبز کیری ڈبے اور اورنج ٹرین چلانا حکومتی امور کا بنیادی جز ہے، اور اگر اس پر یہ کہا جائے کہ جو حکومت ایئر لائن نہیں چلا سکتی وہ ملک کیسے چلائے گی تو صاحبِ اقتدار برہم ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ بات تو یہ ہے کہ اگر بس چلا دی یا ٹرین چلا دی تو وہ چھوٹی ترقی ہے اور اگر ہوائی جہاز چلا دئیے تو وہ بڑی ترقی ہوگی۔

دنیا میں ہر انسان کے بنیادی خوابوں میں سے ایک اسکے خاندان کے لئے چھت کا خواب ہوتا ہے۔ میٹرو کی طرح اس پروجیکٹ میں بھی سینکڑوں گھر اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے کس محنت سے گھر بنائے ہوں گے اور اپنے خاندان کا سر چھپا کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن جب ایک دن اچانک اُن سے کوئی آ کر کہے کہ چلو یہ جگہ خالی کرو یہاں پروجیکٹ بنے گا جو لاکھوں لوگوں کو سفری سہولت فراہم کرے گا، تو ذرا اندازہ لگائیے کہ متاثر ہونے والے فرد کے کیا خیالات ہونگے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ شخص آسانی سے اپنا گھر تباہ صرف اِس لیے ہونے دے کہ یہاں سے گزرنے والی ٹرین سے لاکھوں لوگ مستفید ہونگے۔


اگر حکومتِ وقت اس زمین کے بدلے اِتنی قیمت جتنی بنتی ہے اسکو ادا کردے تو سودا جائز ہے، پھر مجھے متاثرین کی ہرگز کوئی فکر نہیں ہوگی۔ مگر عدالتی حکم کے باوجود جب آپ پولیس کی مدد سے عوام پر چڑھاؤ کریں گے تو پھر ردِ عمل بھی آئے گا اور پھر ظاہری بات ہے اس ردِ عمل کو کچلا بھی جائے گا کیونکہ یہ کرنے میں حکومتِ پنجاب اور پنجاب پولیس کا کوئی ثانی نہیں۔ (اگر کسی صوبے کو اس حوالے سے مدد چاہیئے ہو تو باقاعدہ ٹریننگ بھی مہیا کی جاسکتی ہے)۔

افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اس ملک میں پیاز اور ٹماٹر کی قِلّت تو ہوسکتی ہے مگر بِکنے والے قلم کبھی بھی مارکیٹ میں شارٹ نہیں ہوئے۔ آپ متاثرین سے بات کئے بغی، اُن سے حالات معلوم کیے بغیر کس طرح یہ لِکھ سکتے ہیں کہ جو لوگ اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں وہ ترقی کو ڈنڈے مار رہے ہیں اور اِنہی بیوقوفوں کی وجہ سے ملک پیچھے چلا جائے گا؟ آپ نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ لاہور کے واحد دل کے اسپتال میں مریض کو علاج کے لئے ایک سال کا وقت کیوں دیا جاتا ہے؟ پنجاب میں بچوں کے سب سے بڑے اسپتال میں وینٹی لیٹر نہ ہونا کیا ترقی کا منہ نہیں چڑا رہا؟

جناب وزیرِاعلیٰ پنجاب سے گذارش ہے کہ آپ اپنی ذاتی کمپنی میں کام کرنے والے ورکر سے اسکی پرفارمنس یا اس پر لگنے والے الزام کا پوچھیں اور وہ آپ کو جواباً یہ کہے گا کہ وہ تضحیک سمجھتا ہے ایسے جواب دینے کی تو کیسا محسوس ہوگا؟ جنابِ والا جس پروجیکٹ کو آپ چین کا تحفہ کہہ رہے ہیں وہ 2.5 فیصد سود کے ساتھ ایک قرضہ ہے جو 20 سال میں اسی عوام نے اور ان کی آنے والی نسلوں نے اتارنا ہے۔ اب ایسے میں جب میٹرو بس پڑوسی ملک سے کئی گنا مہنگی کیسے بن گئی؟ اگر کوئی سوال پوچھے تو کیا جواب دینا ضروری نہیں؟
[poll id="924"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story