منٹو کی یاد میں

اردو کے ممتاز، منفرد اور مقبول افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو نہ اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے فراموش کر سکتے ہیں

h.sethi@hotmail.com

اردو کے ممتاز، منفرد اور مقبول افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو نہ اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے فراموش کر سکتے ہیں نہ فن افسانہ نگاری میں ان کے مقام پر کوئی دو آراء ہو سکتی ہیں۔ ان کی وفات جنوری کے مہینے میں اکسٹھ سال قبل ہوئی لیکن ہر سال پاک و ہند میں ان کے شیدائی ان کی برسی پر اکٹھے ہوتے اور ان کی یاد میں محفلیں برپا کرتے ہیں۔ گزشتہ سال تو ان پر ایک فلم بھی بنی اور دھوم مچا گئی۔ منٹو کی وفات پر قتیل شفائی نے ان کی یاد میں کہا:

اب تو بیداد پہ بیداد کرے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا
زندگی بھاگ چلی موت کے دروازے سے
اب قفس کون سا ایجاد کرے گی دنیا
کیا ہوئے ہم کہ نہ تھے مرگِ بشر کے قائل
لوگ پوچھیں گے تو فریاد کرے گی دنیا

منٹو کے بارے میں اس کے ہمعصروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ہاجرہ مسرور نے کہا ''کتنے دکھ کی بات ہے جب منٹو اپنی عمر کے اس حصے میں آئے جہاں شعور پختہ اور فن اپنے اوج پر ہوتا ہے تو انھیں چند روپوں کے حصول کی خاطر اتنا لکھنا پڑا جس میں بعض اوقات وہ بجھ بجھ گئے۔'' اسرار الحق مجازؔ نے لکھا کہ ''منٹو اس دور کے چند گنے چنے افسانہ نگاروں میں سے تھا۔ وہ اپنی انفرادیت رکھتا تھا، افسانہ کی تکنیک اور کردار نگاری پر اس کو عبور تھا۔'' ملک راج آنند نے لکھا کہ ''منٹو کے ہاں رومانیت بھی شعوری انداز میں ملتی ہے، اس میں ایک عظیم ناول نگار بننے کی بے پناہ صلاحیت تھی۔''

میں ابھی اسکول میں تھا جب منٹو 43 سال سے بھی کم عمر میں وفات پا گئے۔ پہلے صہبا لکھنوی نے اور اس ماہ جنوری 2016ء میں آغا امیر حسین نے اپنے ماہ نامے سپوتنک میں منٹو کو یاد کیا ہے۔ میں بھی ان ہی دونوں سے خوشہ چینی کرتا ہوں کیونکہ منٹو کے حوالے سے تو میں طفل کتب تھا اور ہوں۔

ممتاز محقق ممتاز حسین نے لکھا کہ ''منٹو کے ہیرو اور ہیروئن وہ ہیں جنھیں اس نظام نے آوارہ، غنڈہ اور بدمعاش بنا دیا لیکن وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر انسان رہتے ہیں۔ منٹو کے ولن وہ ہوتے ہیں جو انسانیت کی جھوٹی قبا خرید کر اوڑھنے کے باوجود بدمعاش اور مکار رہتے ہیں۔ منٹو کو ہماری اس مادی اور روحانی افلاس کا شدید احساس تھا خواہ وہ منطق کے ساتھ نہ ہو، صرف مشاہدے اور تجربے ہی کا نتیجہ ہو۔ اس کے تقریباً تمام ہی ہیرو اور ہیروئن وہ انسان ہیں جن کی انسانیت کو ان سے چھین لیا گیاہے اور اگر اس کے باوجود ان میں انسانیت کی کوئی رمق پائی جاتی ہے تو وہ انسانی فطرت کا نتیجہ ہے۔''

ڈاکٹر محمد حسن نے منٹو کی جواں مرگی پر کہا کہ ''آج برناڈ شا نے دوسری بار وفات پائی۔'' شاہد احمد دہلوی نے ان کی وفات پر کہا کہ ''منٹو کی موت اردو افسانے کے لیے ایک فال بد ہے۔ ایسا نڈر، ایسا بے باک، ایسا صاف گو افسانہ نگار اردو ادب نے آج تک پیدا نہیں کیا۔ منٹو کہتا تھا ماحول کا زہر مجھ میں بھر گیا ہے اس لیے میں زہر اگلتا رہتا ہوں۔'' حفیظ ہوشیار پوری نے لکھا کہ منٹو نے اپنی زندگی میں ان سے اپنی تاریخ وفات پر قطعہ لکھنے کی فرمائش کی تھی لیکن وہ یہ قرض اس کی وفات پر اتار رہے ہیں:

سوگ میں ہے فسانہ گوئی آج
اس کا وہ بانکپن ہوا رخصت
ہر زباں پر ہے اب یہ افسانہ
کہ ''سعادت حسن ہوا رخصت'' 1374ھ

ممتاز مفتی نے لکھا کہ وہ بمبئی گئے اور منٹو سے کہا کہ تمہارے ہاں چوری ہو گئی۔ اس کا افسوس ہوا پھر پوچھا کتنا نقصان ہوا۔ منٹو نے جواب دیا یہی کوئی چار پانچ ہزار کا جس پر ممتاز مفتی نے حیرانی سے کہا میں نے تو سنا ہے اڑھائی ہزار کی چوری ہوئی جس پر منٹو نے کہا چوری تو اڑھائی ہزار کی ہوئی تھی باقی اڑھائی ہزار غم غلط کرنے پر لگا۔


خاطر غزنوی کا منٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کا انداز باقی سب مداحوں سے انوکھا تھا:

شوخ خطوط، الجھتی قوسیں، تیکھے خدوخال، منٹو ایک خیال
رنگیں خوشبو، نغمیں رنگت، نغموں کی مہکار، منٹو ایک بہار
پھیلی ضو میں لو دیتے ہیں ہر دامن کے داغ، منٹو ایک چراغ
تلخ حقائق، ترش فسانے شیریں شیریں باب، منٹو ایک کتاب
دخت رز کی بات نہ کیجیے فرزند انگور، منٹو ایک سرور
ٹوٹا جام بکھرتی مہکیں گیتوں کی گنجار منٹو ایک خمار

سعادت حسن منٹو کے بھانجے حامد جلال کے مطابق ان کے افسانے انگاروں پر چلنے کے مترادف تھے۔ ان کے نزدیک سعادت حسن اور منٹو دو الگ الگ شخصیات تھیں اور ان دونوں کا فرق اور ہر دو کی علیحدہ امتیازی خصوصیات بیان کرنا ایک انتہائی دشوار کام تھا۔ وہ بحیثیت سعادت حسن پیدا ہوئے لیکن منٹو کو انھوں نے اپنی تعلیم کے دور میں جنم دیا۔

اپنے افسانوں میں انگاروں پر چلنے کی وضاحت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک شعبدہ باز نے مجمع لگایا تھا کہ وہ انگاروں پر ننگے پاؤں چلے گا۔ انگارے دہک رہے تھے جب اس نے کہا کہ اگر کسی کو اس پر اور خدا پر بھروسہ ہو تو وہ بھی اس کے ساتھ دہکتے ہوئے انگاروں پر چل سکتا ہے تو سب پیچھے ہٹ گئے۔

جب اس نے دوبارہ آفر دی تو ایک دبلا پتلا نوجوان آگے بڑھا اس نے جوتے اور موزے اتارے اور اپنے پائجامے کے پائنچے اوپر چڑھا کر شعبدہ باز کے پاس جا کھڑا ہوا۔ شعبدہ باز نے بآواز بلند کہا پاؤں کے انگوٹھے اندر کر لو کلمہ پڑھو اور میرے ساتھ آ جاؤ۔ اور دونوں دہکتے انگاروں پر چلتے ہوئے پار نکل گئے۔ دونوں کے پاؤں پر آبلوں یا سوزش کا نشان تک نہ تھا۔ ہر کوئی ہکا بکا رہ گیا۔ یہ دبلا پتلا نوجوان منٹو تھا۔ حامد جلال کا ماموں جو اس مجمع سے داد و تحسین پا کر ساری زندگی انگاروں پر چلتا رہا۔

منٹو پر کئی مقدمے بنے کہ وہ فحاشی پھیلانے والا افسانہ نگار ہے لیکن یہ سچ ہے کہ منٹو کو جھوٹے اخلاق، جھوٹے کرداروں اور جھوٹے جذبات سے بے پناہ نفرت تھی اور اس کے فن کی بنیادی جہت حقیقت نگاری کی جہت رہی۔ اس کی جواں عمری اور افلاس کی رحلت پر اس وقت کے اخباروں ترجمان لاہور، منشور لاہور، شہباز پشاور، الفلاح پشاور، اتحاد کوئٹہ، قومی آواز لکھنؤ، تیج دہلی، قندیل لاہور، پرتاب دہلی اور امروز کراچی ٹائمز آف کراچی، پنڈی میل، مغربی پاکستان، مصور بمبئی نے اداریے لکھے۔

اس وقت کے فلمی صنعت سے وابستہ افراد رامانند ساگر، ایم اے مغنی، شکیل بدایونی، جمینی دیوان، کیدار شرما، نوشاد علی، ایم صادق، ایس یو سنی، ہیرا لال، ولی محمد خاں، ملک راج بھاکھڑی، ایف حسن، پی این اروڑہ، رشید پرویز، مدن موہن مہرہ، ایس اے اوجھا نے اپنے دکھ بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ بہت سے شعرأ نے نظمیں لکھ کر خراج عقیدت پیش کیا۔ آخر میں منٹو کی برسی کے مہینے میں شاد امرتسری کا قطعہ:

تجھ پہ لکھیں گے کئی اہل قلم اب مضموں
زندگی بھر جو ترے نام سے بیزار رہے
تذکرے اب وہ کریں گے ترے افسانوں کے
جو ترے درد کی لذت کو کبھی پا نہ سکے
Load Next Story