مفادات اور دہشت گردی

ایک عرصے سے اس جنگ سے لاتعلقی اور بے خبری نے ساری ذمے داری نامعلوم افراد پر ڈال کر اس سے پیچھا چھڑا رکھا ہے؟

KARACHI:
قارئین میرا آج کا کالم چار سدہ باچا خان یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کے نام ہے جو دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔

اس سے قبل پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے اساتذہ اور طلبا پر حملہ کر کے بہت بے دردی سے انھیں جاں بحق کیا۔ حالانکہ تعلیمی اداروں کا سیاست اور جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ درسگاہیں تو قوموں کو تعلیم و تربیت دیتی ہیں انھیں باشعور اور ترقی یافتہ بناتی ہیں۔ یہ ادارے قابل احترام ہوتے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی کے اساتذہ کا کہنا ہے یہ پڑھا سکتے ہیں ' لڑ نہیں سکتے۔ جو بالکل بجا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے آخر یہ جنگ کس نظریے اور قانون کے تحت لڑی جا رہی ہے؟ اور اس کی پشت پناہی کرنیوالے عناصر کون ہیں؟

نہتے اور بے قصور شہریوں کو دہشتگرد حملوں سے ایک عرصہ دراز سے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے جب کہ دنیا کا کوئی مذہب اور قانون ایسی جنگ کی اجازت نہیں دیتا؟ دہشتگردی کی جنگ کو اگر مذہبی رنگ دیا جاتا ہے تو مسلمانوں اور دنیا بھر کو یہ واضح کرنا لازم ہیکہ اس سلسلے میں اسلامی فلسفے کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اسلام میں دہشت گرد حملوں کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ اسلامی فلسفے میں تو انسانیت اور قوانین کو اولین اہمیت حاصل ہے؟ اس نظریے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ چنانچہ بات وہیں آتی ہے اس جنگ کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ اور ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ حقائق چڑیوں اور کبوتروں کی زبانی چاہے کچھ بھی ہوں انسانی قتل وخون بند ہونا ضروری ہے۔

ایک عرصے سے اس جنگ سے لاتعلقی اور بے خبری نے ساری ذمے داری نامعلوم افراد پر ڈال کر اس سے پیچھا چھڑا رکھا ہے؟ تعجب کی بات یہ ہے جس ملک کو آج تک اپنے پر حملہ آوروں کا علم ہی نہیں ہو سکا۔ وہ اپنا تحفظ کیسے کر سکتی ہے؟ اسی لاپرواہی کے باعث پاکستان کو بھاری جانی، مالی اور اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دنیا کوایک بڑی تباہی سے بچانے کے لیے دنیا کے ہر ملک و قوم اور ادارے کو اس وحشیانہ انسانی خونریزی کے خاتمے کے لیے مدد گار ہونا چاہیے۔


خاص طور پر ان اداروں کو جن کا تعلق بین الاقوامی امن اور انسانی حقوق سے ہے جب کہ دہشتگردی کی اس طویل جنگ کے دوران ان اداروںکی جانب سے عملاً ایسے اقدامات کم دیکھنے میںنہیں آئے۔ماضی میں سپر پاور اور مضبوط سیاسی اقتصادی قوتوں نے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے دہشتگردی تنظیموں کی بنیاد رکھی اور انھیں مضبوط کیا اور ان کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتے رہے ۔ یہی وجہ ہے آج یہ تربیت یافتہ جنگجو دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔

تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے۔ اس کی جنگ کا آغاز 1978ء میں افغانستان میں روس امریکا سرد جنگ کے دوران انتہا پسندوں سے ہوا۔ اس اعتبار سے موجودہ سامان2016ء میںاس جنگ کو دنیا کی طویل ترین جنگ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس جنگ کے پروپیگنڈہ اور ماسٹر مائنڈ امریکی سیاسی مافیا رہے ہیں جو چھیالیس برس سے اب تک دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ وہ افغانستان اور پاکستان میں دہشتگردی کا خاتمہ کرنے کے لیے یہ جنگ لڑ رہے ہیں؟ لیکن دلچسپ بات یہ ہے دنیا کی ایک بڑی سپر پاور اپنے اس مشن میں ناکام ہی نہیں رہی بلکہ یہ جنگ بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح دنیا میں پھیلتی چلی گئی ہے۔

اس جنگ کو کامیاب بنانے میں یورپ کے مختلف ممالک نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جن میں جرمنی ' فرانس اور انگلستان سرفہرست ہیں۔ یہ مت بھولیے اس جنگ میں مغربی ممالک کا گٹھ جوڑ ان کے اپنے مفادات کے عین مطابق رہا ہے۔ورنہ دہشت گردی کی جنگ کے خلاف سپر پاورز کی مدد سے لڑی جانے والی اس جنگ کا کب کا خاتمہ ہو چکا ہوتا؟ اندازہ لگایئے چھیالیس برس پر محیط اس جنگ نے افغانستان کو کس طرح سے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہو گا؟ اور ہمیشہ کے لیے میدان جنگ بنا دیا ہے؟

دہشتگردی کی یہ جنگ مختلف ادوار میں مختلف رنگ روپ اور ڈرامائی صورتحال اختیار کرتی چلی گئی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سپر پاور طاقتوں کے پاس کمزور اور محکوم ممالک کی لوٹ مار کے لیے کوئی جواز نہ رہتا۔ جیسے امریکا نے دہشت گردی کی جنگ کی بنیاد القاعدہ کو بنا کر اس میں اسامہ بن لادن کے ڈرامائی کردار کو استعمال کیا؟ جب کہ افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے نیو یارک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کا ذمے دار ٹھہرا کر اسامہ کو افغانستان میں لے آئے۔ ان کا ہر سیاسی قدم اور موڑ اسامہ بن لادن کے گرد گھومتا رہا۔
Load Next Story