خواندگی کی گرتی شرح
اب ہم اس دور میں داخل ہوگئے ہیں جہاں امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور ناامیدی اپنا جال تنگ کررہی ہے
اب ہم اس دور میں داخل ہوگئے ہیں جہاں امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور ناامیدی اپنا جال تنگ کررہی ہے۔ کچھ میڈیا کے متعلق بھی یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ یہ منفی خبریں پھیلا کر ناامیدی کو اجاگر کر رہا ہے، اکثر ہم پڑھتے ہیں، کئی بریکنگ نیوز میں دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے منفی رویے کے متعلق خبریں بڑھتی جارہی ہیں، کہیں ڈاکٹروں کی وجہ سے انسانی جانیں ضایع ہونے کی بنا پر ہنگامہ آرائی ہوگئی، تو کہیں ڈاکٹرز کے غیر اخلاقی رویوں کی وجہ سے مریضوں اور ڈاکٹرز کے درمیان تنازعات نے جنم لیا۔
ایسی خبریں عام ہیں مگر ہم ایسی خبروں کو بریکنگ نیوز کی زینت نہیں بناتے، جہاں ڈاکٹر کے انسان دوست رویے کی وجہ سے مریضوں کو سکون ملا ہو، ایسے ڈاکٹر گمنام رہتے ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسی لیڈی ڈاکٹر کا تذکرہ کریں گے جو لانڈھی کورنگی میڈیکل سینٹر میں گائنالوجسٹ ہیں۔
انھوں نے اپنی ایک مریضہ جس کا آپریشن ہونا تھا اور اس کے سسرال والوں نے بدترین ظلم کی حد کی ہوئی تھی کہ چھ مہینے سے اس بچی کو اس کے گھر والوں سے ملنے نہیں دیا تھا، کیونکہ بچی کی ماں نے ان کی ڈیمانڈ کہ اس لڑکی کے ڈلیوری کیس میں کچھ ہونے پر اس کی سسرال والوں کو سونے کے زیورات دیے جائیں تو لڑکی والوں نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا، جس پر بدلہ لینے کے لیے انھوں نے لڑکی کے گھر والوں پر ملنے پر پابندی لگادی، لیکن جب لڑکی کا آپریشن ہوا اور اس کی والدہ اسپتال آئیں تو سسرال والوں نے دھکے دے کر نکالنے کی کوشش کی۔ مگر ڈاکٹر نے سارے واقعے کو سمجھا اور انسانی بنیادوں پر آپریشن کے بعد بچی اور اس کی والدہ کو ملاقات کا موقع فراہم کیا، جس کی بنا پر چھ ماہ سے تڑپتی ہوئی ماں کو تسکین ملی اور اکثریت کی آنکھیں نم ہوگئیں، مگر ان ظالم سسرال والوں کو رحم نہیں آیا۔
آج کے جدید دور میں بھی ایسے شقی القلب لوگ موجود ہیں جو بہوؤں کو اپنا زرخرید سمجھتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، لیکن جہیز مرضی کے مطابق نہ لانے پر بہو کو جلادیا جاتا ہے تو کہیں ڈیمانڈ پوری نہ ہونے پر زرخرید سمجھ لیا جاتا ہے۔ کتنے ہی قانون بنتے ہیں مگر ایسے لوگوں کا سدباب نہیں ہوپاتا کیونکہ کہیں گھر بچانے کی تگ و دو میں ہلکان عورت اپنا کیس لڑ ہی نہیں پاتی، کیونکہ ایسی صورت میں اسے طلاق کا پروانہ پکڑا کر دربدر کردیا جاتا ہے۔
میڈم ریحانہ مفتی تعلیمی شعبے میں ایک بڑا نام تو ہیں ہی مگر تعلیم بالغان کے شعبے میں ان کا چالیس سالہ تجربہ ہے اور انھیں ریٹائرڈ ہوئے بھی عرصہ ہوگیا، مگر ان کا عزم اب بھی جواں ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ خواندگی کی شرح میں اضافے میں ان کی خدمات شامل ہوں، اس سلسلے میں انھوں نے تعلیم بالغان کے ماسٹر ٹرینر کے لیے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ اس ورکشاپ کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے ایسے تمام ادارے یکجا تھے جو تعلیم بالغاں اور نان فارمل پر کام کررہے ہیں۔
اس ورکشاپ کی کامیابی یہ تھی کہ نان فارمل ایجوکیشن سندھ گورنمنٹ کے ڈائریکٹر اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیول کے لوگ خود شریک ہوئے اور پانچوں دن انسانی دلچسپی کے ساتھ سیکھنے کے اس عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ اکثر ہم حکومتی اداروں سے منسلک لوگوں کی شکایت کرتے ہیں کہ انھیں اپنے کاموں سے دلچسپی نہیں مگر یہاں نان فارمل کے حکومتی عہدیداروں کا رویہ انتہائی مثبت تھا کہ انھوں نے اس ورکشاپ میں ایک ٹرینی کی حیثیت سے شرکت کی اور مستقبل میں اس سے فائدہ اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے پورے سندھ میں تعلیم بالغاں اور نان فارمل کے سینٹر قائم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ خوش آیند اقدام ہے کیونکہ جس ملک میں تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے، تعلیمی شعبے کی بہتری کے لیے منصوبے بنائے جاتے ہیں، وہی ملک ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھ دیتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں سب سے زیادہ تعلیمی شعبے کو ہی نظرانداز کیا گیا ہے۔ گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ ٹیچرز کی بھرمار نے بھی اس شعبے کی تنزلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، بس اللہ توکل یہ گاڑی چل رہی ہے۔ اب رہی سہی کسر تعلیمی اداروں میں دہشت گردی نے پوری کردی ہے۔ اب دہشت گردوں کا ٹارگٹ تعلیمی ادارے ہیں، جہاں سے ملک کے مستقبل کے معمار نکلتے ہیں، مگر ان کو ہی مار کر عوام میں خوف و ہراس کی لہر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس تاثر کو قائم رکھنے میں اس بات سے بھی مدد ملی ہے کہ پنجاب بھر میں سیکیورٹی رسک کی بنا پر سردی کے بہانے کو لے کر اسکول و کالج بند کردیے گئے۔
آرمی کے تحت چلنے والے تمام تعلیمی ادارے بھی ملک بھر میں ایک ہفتے کے لیے بند کردیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے والدین میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کیونکہ حکومتی پالیسیوں کا کچھ پتہ نہیں کہ حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ باتیں تو بہت کی جارہی ہیں مگر عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ سندھ حکومت کی نااہلی کا ایک اور ثبوت سامنے آیا ہے کہ ایک سال پہلے محکمہ ایجوکیشن نے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بجٹ مانگا مگر ابھی تک اس پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، اپنی ذاتی سیکیورٹی کی بات ہو تو حکومت اور اپوزیشن میں ایکا نظر آجاتا ہے، جب بات عوام کی آجاتی ہے تو منصوبے اس طرح فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کو بند کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ ہم تو خواندگی کی شرح میں ویسے ہی دنیا سے پیچھے ہیں، ایسا نہ ہو کہ بالکل ہی پیچھے چلے جائیں۔ ابھی ایک خبر ہے کہ سندھ میں خواندگی کی شرح بڑھنے کے بجائے مزید کم ہوئی ہے۔ ایسے بچوں کی بڑی تعداد جوکہ لاکھوں میں ہے وہ اسکول نہیں جاتے، مگر دہشت گردی کے واقعات اور خدشات کے سبب ایسا نہ ہو کہ یہ شرح مزید بڑھ جائے۔ اس لیے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ خدارا ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم تعلیمی شعبے کو اس عفریت سے بچاسکیں۔
ایسی خبریں عام ہیں مگر ہم ایسی خبروں کو بریکنگ نیوز کی زینت نہیں بناتے، جہاں ڈاکٹر کے انسان دوست رویے کی وجہ سے مریضوں کو سکون ملا ہو، ایسے ڈاکٹر گمنام رہتے ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسی لیڈی ڈاکٹر کا تذکرہ کریں گے جو لانڈھی کورنگی میڈیکل سینٹر میں گائنالوجسٹ ہیں۔
انھوں نے اپنی ایک مریضہ جس کا آپریشن ہونا تھا اور اس کے سسرال والوں نے بدترین ظلم کی حد کی ہوئی تھی کہ چھ مہینے سے اس بچی کو اس کے گھر والوں سے ملنے نہیں دیا تھا، کیونکہ بچی کی ماں نے ان کی ڈیمانڈ کہ اس لڑکی کے ڈلیوری کیس میں کچھ ہونے پر اس کی سسرال والوں کو سونے کے زیورات دیے جائیں تو لڑکی والوں نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا، جس پر بدلہ لینے کے لیے انھوں نے لڑکی کے گھر والوں پر ملنے پر پابندی لگادی، لیکن جب لڑکی کا آپریشن ہوا اور اس کی والدہ اسپتال آئیں تو سسرال والوں نے دھکے دے کر نکالنے کی کوشش کی۔ مگر ڈاکٹر نے سارے واقعے کو سمجھا اور انسانی بنیادوں پر آپریشن کے بعد بچی اور اس کی والدہ کو ملاقات کا موقع فراہم کیا، جس کی بنا پر چھ ماہ سے تڑپتی ہوئی ماں کو تسکین ملی اور اکثریت کی آنکھیں نم ہوگئیں، مگر ان ظالم سسرال والوں کو رحم نہیں آیا۔
آج کے جدید دور میں بھی ایسے شقی القلب لوگ موجود ہیں جو بہوؤں کو اپنا زرخرید سمجھتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، لیکن جہیز مرضی کے مطابق نہ لانے پر بہو کو جلادیا جاتا ہے تو کہیں ڈیمانڈ پوری نہ ہونے پر زرخرید سمجھ لیا جاتا ہے۔ کتنے ہی قانون بنتے ہیں مگر ایسے لوگوں کا سدباب نہیں ہوپاتا کیونکہ کہیں گھر بچانے کی تگ و دو میں ہلکان عورت اپنا کیس لڑ ہی نہیں پاتی، کیونکہ ایسی صورت میں اسے طلاق کا پروانہ پکڑا کر دربدر کردیا جاتا ہے۔
میڈم ریحانہ مفتی تعلیمی شعبے میں ایک بڑا نام تو ہیں ہی مگر تعلیم بالغان کے شعبے میں ان کا چالیس سالہ تجربہ ہے اور انھیں ریٹائرڈ ہوئے بھی عرصہ ہوگیا، مگر ان کا عزم اب بھی جواں ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ خواندگی کی شرح میں اضافے میں ان کی خدمات شامل ہوں، اس سلسلے میں انھوں نے تعلیم بالغان کے ماسٹر ٹرینر کے لیے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ اس ورکشاپ کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے ایسے تمام ادارے یکجا تھے جو تعلیم بالغاں اور نان فارمل پر کام کررہے ہیں۔
اس ورکشاپ کی کامیابی یہ تھی کہ نان فارمل ایجوکیشن سندھ گورنمنٹ کے ڈائریکٹر اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیول کے لوگ خود شریک ہوئے اور پانچوں دن انسانی دلچسپی کے ساتھ سیکھنے کے اس عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ اکثر ہم حکومتی اداروں سے منسلک لوگوں کی شکایت کرتے ہیں کہ انھیں اپنے کاموں سے دلچسپی نہیں مگر یہاں نان فارمل کے حکومتی عہدیداروں کا رویہ انتہائی مثبت تھا کہ انھوں نے اس ورکشاپ میں ایک ٹرینی کی حیثیت سے شرکت کی اور مستقبل میں اس سے فائدہ اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے پورے سندھ میں تعلیم بالغاں اور نان فارمل کے سینٹر قائم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ خوش آیند اقدام ہے کیونکہ جس ملک میں تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے، تعلیمی شعبے کی بہتری کے لیے منصوبے بنائے جاتے ہیں، وہی ملک ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھ دیتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں سب سے زیادہ تعلیمی شعبے کو ہی نظرانداز کیا گیا ہے۔ گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ ٹیچرز کی بھرمار نے بھی اس شعبے کی تنزلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، بس اللہ توکل یہ گاڑی چل رہی ہے۔ اب رہی سہی کسر تعلیمی اداروں میں دہشت گردی نے پوری کردی ہے۔ اب دہشت گردوں کا ٹارگٹ تعلیمی ادارے ہیں، جہاں سے ملک کے مستقبل کے معمار نکلتے ہیں، مگر ان کو ہی مار کر عوام میں خوف و ہراس کی لہر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس تاثر کو قائم رکھنے میں اس بات سے بھی مدد ملی ہے کہ پنجاب بھر میں سیکیورٹی رسک کی بنا پر سردی کے بہانے کو لے کر اسکول و کالج بند کردیے گئے۔
آرمی کے تحت چلنے والے تمام تعلیمی ادارے بھی ملک بھر میں ایک ہفتے کے لیے بند کردیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے والدین میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کیونکہ حکومتی پالیسیوں کا کچھ پتہ نہیں کہ حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ باتیں تو بہت کی جارہی ہیں مگر عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ سندھ حکومت کی نااہلی کا ایک اور ثبوت سامنے آیا ہے کہ ایک سال پہلے محکمہ ایجوکیشن نے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بجٹ مانگا مگر ابھی تک اس پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، اپنی ذاتی سیکیورٹی کی بات ہو تو حکومت اور اپوزیشن میں ایکا نظر آجاتا ہے، جب بات عوام کی آجاتی ہے تو منصوبے اس طرح فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کو بند کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ ہم تو خواندگی کی شرح میں ویسے ہی دنیا سے پیچھے ہیں، ایسا نہ ہو کہ بالکل ہی پیچھے چلے جائیں۔ ابھی ایک خبر ہے کہ سندھ میں خواندگی کی شرح بڑھنے کے بجائے مزید کم ہوئی ہے۔ ایسے بچوں کی بڑی تعداد جوکہ لاکھوں میں ہے وہ اسکول نہیں جاتے، مگر دہشت گردی کے واقعات اور خدشات کے سبب ایسا نہ ہو کہ یہ شرح مزید بڑھ جائے۔ اس لیے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ خدارا ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم تعلیمی شعبے کو اس عفریت سے بچاسکیں۔