یورپی ممالک نے قدرتی آفات کی نگرانی کیلئے نیا مصنوعی سیارہ خلا میں بھجوا دیا
لیزر کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا حامل یہ سیارہ 1.8 گیگا بائٹ فی سکینڈ کی رفتار سے ڈیٹا بھجوا سکتا ہے
PESHAWAR:
یورپی ممالک نے زلزلوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی بہتر اور تیز تر نگرانی کے لئے نیا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق یورپی ممالک نے ایک مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا ہے۔ جس کا مقصد زلزلوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی بہتر اور تیز تر نگرانی کرنا ہے۔ یہ سیٹلائٹ ایک نئی قسم کی لیزر کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا حامل ہے جس سے مطلوبہ ڈیٹا تیزی اور بہتری کے ساتھ ریکارڈ کیا جا سکے گا۔
50 کروڑ یورو کی لاگت سے تیار کیا گیا یہ سیٹلائٹ مطلوبہ ڈیجیٹل تصاویر کو زمین پر فوری طور پر ارسال کرسکتا ہے۔ اس سیٹلائٹ کی مدد سے 1.8 گیگا بائٹ فی سکینڈ کی رفتار سے ڈیٹا وصول کیا جا سکے گا۔ یہ ٹیکنالوجی سمندروں میں موجود برف، تیل کے کنوؤں سے رساؤ، سیلابوں، زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات سمیت بہت سے معاملات میں انتہائی اہم معلومات فراہم کرے گی۔
اس منصوبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بڑی بڑی تصاویر کی منتقلی کے لیے کافی وقت درکار ہوتا تھا کیونکہ ان کا تجزیہ کرنے کے لیے پہلے انہیں زمین پر موجود مراکز پر مختلف مراحل سے گزارنا پڑتا تھا لیکن اب یہ تمام مواد پراسیسڈ حالت میں فوری طور پر دستیاب ہو سکے گا۔
یورپی ممالک نے زلزلوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی بہتر اور تیز تر نگرانی کے لئے نیا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق یورپی ممالک نے ایک مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا ہے۔ جس کا مقصد زلزلوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی بہتر اور تیز تر نگرانی کرنا ہے۔ یہ سیٹلائٹ ایک نئی قسم کی لیزر کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا حامل ہے جس سے مطلوبہ ڈیٹا تیزی اور بہتری کے ساتھ ریکارڈ کیا جا سکے گا۔
50 کروڑ یورو کی لاگت سے تیار کیا گیا یہ سیٹلائٹ مطلوبہ ڈیجیٹل تصاویر کو زمین پر فوری طور پر ارسال کرسکتا ہے۔ اس سیٹلائٹ کی مدد سے 1.8 گیگا بائٹ فی سکینڈ کی رفتار سے ڈیٹا وصول کیا جا سکے گا۔ یہ ٹیکنالوجی سمندروں میں موجود برف، تیل کے کنوؤں سے رساؤ، سیلابوں، زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات سمیت بہت سے معاملات میں انتہائی اہم معلومات فراہم کرے گی۔
اس منصوبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بڑی بڑی تصاویر کی منتقلی کے لیے کافی وقت درکار ہوتا تھا کیونکہ ان کا تجزیہ کرنے کے لیے پہلے انہیں زمین پر موجود مراکز پر مختلف مراحل سے گزارنا پڑتا تھا لیکن اب یہ تمام مواد پراسیسڈ حالت میں فوری طور پر دستیاب ہو سکے گا۔