برطانیہ انسانی جنین میں جنیاتی تبدیلی کی اجازت دینے والا پہلا ملک بن گیا

اس تحقیق کی بدولت خواتین میں حمل کے گر جانے اور حمل کے نہ ٹھہرنے کی وجوہات کا پتہ چلایا جا سکے گا، سائنسدان

اس تحقیق کی بدولت خواتین میں حمل کے گر جانے اور حمل کے نہ ٹھہرنے کی وجوہات کا پتہ چلایا جا سکے گا، سائنسدان، فوٹو؛ فائل

COLOMBO:
انسانی جنین پر میڈیکل سائنس گزشتہ ایک دہائی سے جدید ترین تحقیق کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن جنین میں تبدیلی پر دنیا کے ہرملک میں تحفظات پائے جاتے ہیں اس لیے کسی بھی ملک میں اس کی اجازت نہیں تھی لیکن اب برطانیہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا جہاں اس بات کی اجازت دے دی گئی ہے کہ تحقیق کی لیے انسانی جین تبدیلی کی جا سکتی ہے جس سے بچے کی پیدائش کی ابتدائی سائیکل کےبارے میں تحقیق میں مدد ملے گی۔

برطانیہ کی ہیومین فرٹیلائزیشن اینڈ ایمبریولوجی اتھارٹی (ایچ ایف ای آر) کا اس اہم تحقیق کی اجازت دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی لائنسس کمیٹی نے فرانسس کرک انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر کیتھی کیکن کو تحقیق کی غرض سے جین میں جنیاتی تبدیلی کے ٹیسٹ کرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن جب ان جینز کو ایک بار استعمال کر لیا جائے گا تو ان کی کسی خاتون میں منتقلی کو غیرقانونی سمجھ جائے گا۔ اس فیصلے سے برطانیہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں باقاعدہ جنین میں تبدیلی کی اجازت دی گئی ہے تاہم اس سے قبل چین میں ایسی ایک تحقیق پہلے ہی کی جا چکی ہے، اسے سرکاری سرپرستی یا اجازت حاصل نہیں تھی جب کہ اس تحقیق پر کام آئندہ چند ماہ میں شروع ہوجائے گا۔

ڈاکٹر کیتھی نیکن کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق فرانسس کرک انسٹیٹیوٹ میں کی جائے گی جس میں جنین میں ڈی این اے کی تبدیلی کر کے انسان کی پیدائش کی ابتدائی دنوں کے بارے میں مزید جانا جا سکے گا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ڈی این اے انسانی زندگی کا بلیو پرنٹ ہے اور اس میں تبدیلی کی اجازت دینے کا مطلب بچوں کی شکلوں میں تبدیلی بھی کی جانے لگے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ عورت میں حمل ٹھہر جانے کے 7 ابتدائی دنوں میں کیا جا سکے گا جب کہ اس دوران فرٹیلائزڈ انڈے ( ایگس) سے 200 سے 3000 خلیے رکھنے ولاے بلیسٹو سسٹ تک جایا جائے گا اور اس تجربے کو ڈاکٹر کیتھی نیکن کریں گی جو گزشتہ 10 سال سے اس شعبے پر کام کر رہی ہیں۔


ڈاکٹر کیتھی کا کہنا ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ جانا جائے کہ ایک انسانی جنین میں کتنے جنیاتی سیل کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ایک صحت مند بچے کی پیدائش ہوسکے اور اس تحقیق کی بدولت خواتین میں حمل کے گر جانے اور حمل کے نہ ٹھہرنے کی وجوہات کا پتہ چلایا جا سکے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ 100 فرٹیلائزڈ ایگس میں سے 50 فیصد بلاسٹوسسٹ اسٹیج تک پہنچ پاتے ہیں جن میں سے 25 ایگس رحم میں پہنچتے ہیں اور صرف 13 تین ماہ کے بعد تک بڑھ پاتے ہیں۔ بلاسٹو سسٹ اسٹیج پر کچھ سیل خصوصی کردار ادا کرتے ہیں جن میں کچھ اوول نال کو بناتے ہیں اور کچھ دیگر کام کرتے ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس دوران کچھ ڈی این اے بہت سرگرم ہوجاتے ہیں لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے اس کا جواب فی الحال نہیں دیا گیا لیکن اس نئی تحقیق سے اس راز سے بھی پردہ اٹھ سکے گا۔



 
Load Next Story