ٹشو پیپرز
خیر عذیر بلوچ کب اور کیسے گرفتار ہوا، یہ موضوع اب اتنا اہم نہیں رہا بلکہ اہم وہ انکشافات ہیں
امریکی ریاست شکاگو سے تعلق رکھنے والے مشہورِ زمانہ مافیا لیڈر اور گینگسٹر ال کپون، محمد خان ڈاکو جو وادی سون تحصیل چکوال سے تعلق رکھتا تھا، تحصیل پنڈی گھیب اور تلہ گنگ پر مشتمل اپنی ریاست کا یہ بے تاج بادشاہ تھا۔ اس کے علاوہ پنجاب میں ملنگی ڈاکو، سلطانہ ڈاکو اور جگا گجر جیسے ''قومی ڈاکوؤں و قاتلوں'' کے کردار تو تاریخ کی کتابوں میں پڑھے ہی ہوں گے، تاریخ دان ایسے کردار کے چند نام مزید شامل کریں گے تو ان میں صولت مرزا اور عذیر بلوچ بھی شامل ہوںگے جنھیں سیاسی جماعتوں نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرکے پھینک دیا۔
ذرا سوچیں! کیا ایسا ممکن ہے کہ عذیر بلوچ جیسی اہم ''شخصیت'' جسے گرفتار کرنے کے لیے حکومت اور مختلف ملکی و غیر ملکی اداروں نے کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے نے پاکستان آکر خود ہی ''گرفتاری'' دے دی؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال انھی دنوں یہ خبریں تھی کہ وہ امارات حکام کی حراست میں ہے، پھر خبریں گردش کرتی رہیں کہ اسے انٹر پول کی مدد سے دبئی میں گرفتار کیا گیا ہے اور اسے پاکستان منتقل کرنے کے لیے خلیجی ملک میں پولیس گئی ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں کی بنا پر اُسے ملک منتقل نہیں کیا جا سکا تھا۔ پھر اس کی ایرانی نیشنلٹی کا شوشا اٹھا ۔ پھر وہ منظر عام سے غائب ہو گیا۔ عوام نے بھی سمجھ لیا کہ شاید عذیر بلوچ کا اہم شخصیات سے مک مکا ہوگیا ہے۔پھر اچانک 50 سے زائد مقدمات میں مطلوب، 400 لوگوں کا قاتل، جو خفیہ اداروں کو انتہائی مطلوب تھا وہ میڈیا کے سامنے آگیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ عذیر بلوچ پاکستان کب اور کس طرح پاکستان آیا؟ اور اگر وہ غیر قانونی طور پر پاکستان آیا تھا تو کس ملک سے پاکستان میں داخل ہوا تھا؟ اگر وہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوا تھا تو ملک کے کسی اور حصے کی کوئی بھی سیکیورٹی فورس یا خفیہ ایجنسی نے اسے گرفتار کیوں نہ کر سکی؟ ماضی میں کراچی الیکٹرک کارپوریشن کے چیئرمین شاہد حامد کے قاتل صولت مرزا نے بھی کئی انکشافات کیے تھے، صولت کو تو پھانسی دے دی گئی، لیکن جن افراد کے نام لیے گئے تھے ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ میری نظر میں یہ سب کردار باریاں لینے والے سیاستدانوں کے خود بنائے ہوئے ہیں۔ جب مشکل پڑتی ہے تو یہ طاقور لوگ ان سے لاتعلقی کا اعلان کردیتے ہیں۔
خیر عذیر بلوچ کب اور کیسے گرفتار ہوا، یہ موضوع اب اتنا اہم نہیں رہا بلکہ اہم وہ انکشافات ہیں جو دوران حراست اس نے اپنے ویڈیو بیان میں کیے ہیں۔ عذیر بلوچ کو سندھ ہائیکورٹ میں پیش کرتے ہوئے عدالت سے 90روزہ ڈیمانڈ کی استدعا کی گئی تھی جسے عدالت نے تسلیم کرلیا اور یوں عذیر بلوچ 90روز کے لیے حراست میں چلا گیا ۔عذیر کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی کا رویہ مفاہامانہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی اصطلاح استعمال کر رہی ہے لیکن ان کا اصل ٹکراؤ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔ ملکی سیاست کی تاریخ بتاتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی اپنی کہانی ہے۔
کہتے ہیں آصف علی زرداری بھی اعصابی حوالے سے مضبوط ہیں اور شطرنج کا کھیل جانتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس مرتبہ بات صرف اعصاب کی نہیں بعض حقائق کی بھی ہے۔ ماضی میں جب پیپلزپارٹی کا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ ہوتا تھا تو عام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے مگراس مرتبہ لوگ دوسرے انداز میں سوچ رہے ہیں۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے حکمرانوں اور مارشل لاؤں کی بدولت صوبہ بلوچستان، سندھ، کے پی کے اور پنجاب ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کی آگ میں جلتے رہے ہیں، اس صورتحال میںپنجاب کا کردار بظاہر تو بڑے بھائی کا رہا مگر پنجاب میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پروان چڑھتی رہی ہے۔
چھوٹے صوبے ہمیشہ نفسیاتی جنگ لڑتے رہے اور پنجاب اور خاص طور پر پنجابی کو اپنا دشمن سمجھتے رہے ہیں اور یہ آج کی بات نہیں ہے جنرل ضیاء الحق کے دور میں میرا سندھ جانا ہوا، 1977سے 1986 تک یہ وہ دور تھا جب ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا۔ ان دنوں جب ٹرین رحیم یار خان، صادق آباد سے سندھ میں داخل ہوتی تھی تو اس کو کراچی تک فوج کی سیکیورٹی میں جاتی تھی۔ لیکن انھیں دنوں ایم آرڈی تحریک جو مارشل کے خلاف جمہوری جماعتوں خاص طور پر پیپلز پارٹی نے چلائی تھی کا آغاز بھی سندھ ہی سے ہوا تھا۔ اب جب کہ سندھ خصوصاََ کراچی میں دوبارہ ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں تو ایسے میں ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم پہلے ہی فرنٹئیر میں حالت جنگ میں ہیں؟
بلوچستان میں ابھی مکمل رٹ نہیں قائم کی جاسکی ہے۔ اور اب اگر سندھ کا ماحول بھی خراب ہوا تو معاملات قابو میں نہیں رہیں گے۔مگر کہانی تو اب شروع ہوئی ہے۔آنے والے دنوں میں عذیر بلوچ مزید راز اگلے گا، بہت سے نام لے گا، ہو سکتا ہے سلطانی گواہ بھی ہو جائے اور جب ایک روز اس کا سینہ رازوں سے خالی ہو جائے گا تو پھر کیا ہوگا، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن ایک بات طے کہ پھر کسی نئے عذیر بلوچ کی نئی فائل نئے کام کے لیے کھل جائے گی۔ایل کپون ، حاجی مستان ، بھنڈر انوالہ ، ملک اسحاق ، رحمان ڈکیت ، عذیر بلوچ وغیرہ وغیرہ۔ایسے سب مہرے انتہائی ضروری اور پھر غیر ضروری ہیں۔ضروری اُس وقت جب ان سے کام ہوتا ہے ورنہ یہ بطور ''ٹشو پیپر'' ہی کام آتے ہیں۔
ذرا سوچیں! کیا ایسا ممکن ہے کہ عذیر بلوچ جیسی اہم ''شخصیت'' جسے گرفتار کرنے کے لیے حکومت اور مختلف ملکی و غیر ملکی اداروں نے کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے نے پاکستان آکر خود ہی ''گرفتاری'' دے دی؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال انھی دنوں یہ خبریں تھی کہ وہ امارات حکام کی حراست میں ہے، پھر خبریں گردش کرتی رہیں کہ اسے انٹر پول کی مدد سے دبئی میں گرفتار کیا گیا ہے اور اسے پاکستان منتقل کرنے کے لیے خلیجی ملک میں پولیس گئی ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں کی بنا پر اُسے ملک منتقل نہیں کیا جا سکا تھا۔ پھر اس کی ایرانی نیشنلٹی کا شوشا اٹھا ۔ پھر وہ منظر عام سے غائب ہو گیا۔ عوام نے بھی سمجھ لیا کہ شاید عذیر بلوچ کا اہم شخصیات سے مک مکا ہوگیا ہے۔پھر اچانک 50 سے زائد مقدمات میں مطلوب، 400 لوگوں کا قاتل، جو خفیہ اداروں کو انتہائی مطلوب تھا وہ میڈیا کے سامنے آگیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ عذیر بلوچ پاکستان کب اور کس طرح پاکستان آیا؟ اور اگر وہ غیر قانونی طور پر پاکستان آیا تھا تو کس ملک سے پاکستان میں داخل ہوا تھا؟ اگر وہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوا تھا تو ملک کے کسی اور حصے کی کوئی بھی سیکیورٹی فورس یا خفیہ ایجنسی نے اسے گرفتار کیوں نہ کر سکی؟ ماضی میں کراچی الیکٹرک کارپوریشن کے چیئرمین شاہد حامد کے قاتل صولت مرزا نے بھی کئی انکشافات کیے تھے، صولت کو تو پھانسی دے دی گئی، لیکن جن افراد کے نام لیے گئے تھے ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ میری نظر میں یہ سب کردار باریاں لینے والے سیاستدانوں کے خود بنائے ہوئے ہیں۔ جب مشکل پڑتی ہے تو یہ طاقور لوگ ان سے لاتعلقی کا اعلان کردیتے ہیں۔
خیر عذیر بلوچ کب اور کیسے گرفتار ہوا، یہ موضوع اب اتنا اہم نہیں رہا بلکہ اہم وہ انکشافات ہیں جو دوران حراست اس نے اپنے ویڈیو بیان میں کیے ہیں۔ عذیر بلوچ کو سندھ ہائیکورٹ میں پیش کرتے ہوئے عدالت سے 90روزہ ڈیمانڈ کی استدعا کی گئی تھی جسے عدالت نے تسلیم کرلیا اور یوں عذیر بلوچ 90روز کے لیے حراست میں چلا گیا ۔عذیر کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی کا رویہ مفاہامانہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی اصطلاح استعمال کر رہی ہے لیکن ان کا اصل ٹکراؤ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔ ملکی سیاست کی تاریخ بتاتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی اپنی کہانی ہے۔
کہتے ہیں آصف علی زرداری بھی اعصابی حوالے سے مضبوط ہیں اور شطرنج کا کھیل جانتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس مرتبہ بات صرف اعصاب کی نہیں بعض حقائق کی بھی ہے۔ ماضی میں جب پیپلزپارٹی کا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ ہوتا تھا تو عام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے مگراس مرتبہ لوگ دوسرے انداز میں سوچ رہے ہیں۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے حکمرانوں اور مارشل لاؤں کی بدولت صوبہ بلوچستان، سندھ، کے پی کے اور پنجاب ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کی آگ میں جلتے رہے ہیں، اس صورتحال میںپنجاب کا کردار بظاہر تو بڑے بھائی کا رہا مگر پنجاب میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پروان چڑھتی رہی ہے۔
چھوٹے صوبے ہمیشہ نفسیاتی جنگ لڑتے رہے اور پنجاب اور خاص طور پر پنجابی کو اپنا دشمن سمجھتے رہے ہیں اور یہ آج کی بات نہیں ہے جنرل ضیاء الحق کے دور میں میرا سندھ جانا ہوا، 1977سے 1986 تک یہ وہ دور تھا جب ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا۔ ان دنوں جب ٹرین رحیم یار خان، صادق آباد سے سندھ میں داخل ہوتی تھی تو اس کو کراچی تک فوج کی سیکیورٹی میں جاتی تھی۔ لیکن انھیں دنوں ایم آرڈی تحریک جو مارشل کے خلاف جمہوری جماعتوں خاص طور پر پیپلز پارٹی نے چلائی تھی کا آغاز بھی سندھ ہی سے ہوا تھا۔ اب جب کہ سندھ خصوصاََ کراچی میں دوبارہ ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں تو ایسے میں ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم پہلے ہی فرنٹئیر میں حالت جنگ میں ہیں؟
بلوچستان میں ابھی مکمل رٹ نہیں قائم کی جاسکی ہے۔ اور اب اگر سندھ کا ماحول بھی خراب ہوا تو معاملات قابو میں نہیں رہیں گے۔مگر کہانی تو اب شروع ہوئی ہے۔آنے والے دنوں میں عذیر بلوچ مزید راز اگلے گا، بہت سے نام لے گا، ہو سکتا ہے سلطانی گواہ بھی ہو جائے اور جب ایک روز اس کا سینہ رازوں سے خالی ہو جائے گا تو پھر کیا ہوگا، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن ایک بات طے کہ پھر کسی نئے عذیر بلوچ کی نئی فائل نئے کام کے لیے کھل جائے گی۔ایل کپون ، حاجی مستان ، بھنڈر انوالہ ، ملک اسحاق ، رحمان ڈکیت ، عذیر بلوچ وغیرہ وغیرہ۔ایسے سب مہرے انتہائی ضروری اور پھر غیر ضروری ہیں۔ضروری اُس وقت جب ان سے کام ہوتا ہے ورنہ یہ بطور ''ٹشو پیپر'' ہی کام آتے ہیں۔