انتظار حسین

93 برس کی شاندار اور قابل رشک کامیابیوں سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد انتظار حسین بھی اس سفر پر روانہ ہو گئے

Amjadislam@gmail.com

93 برس کی شاندار اور قابل رشک کامیابیوں سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد انتظار حسین بھی اس سفر پر روانہ ہو گئے جس کا کاؤنٹ ڈاؤن ہر آدم زاد کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع
ہو جاتا ہے، انور مسعود کا ایک پنجابی شعر ہے
ملک عدم توں ننگے پنڈے آوندا ایس جہانے
بندہ اک کفن دی خاطر کناں پینڈا کردا اے

آزاد ترجمہ۔ انسان ملک عدم سے ننگے بدن اس جہان میں وارد ہوتا ہے اور اتنے لمبے سفر کے بعد صرف ایک کفن کما کر یہاں سے جاتا ہے۔

اور یہ بھی اسی کا مصرعہ ہے کہ
وہ بھی مریں گے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے

زندگی اور موت دونوں برحق ہیں اور دونوں منجانب اللہ ہیں اصل بات صرف اتنی ہے کہ ان دونوں کے درمیان جو وقفہ ہے اس کو کس نے کس طرح سے نبھایا اس کی خبر فیصلے کی گھڑی سے قبل نہ کسی کو ہے اور نہ ہو سکتی ہے البتہ اس کا کچھ اشارہ ان لوگوں کی رائے اور ردعمل سے ضرور مل سکتا ہے جنہوں نے اس اللہ کے بندے کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہو، اگر اسے ایک کسوٹی مان لیا تو بلاشبہ انتظار حسین نے اپنی اننگز بہت اچھی طرح سے کھیلی ہے، رب کریم نے انھیں طویل عمر کے ساتھ ساتھ شہرت اور مقبولیت سے بھی نوازا اور ان کے قلم میں بھی ایسی برکت ڈال دی کہ اپنی وفات کے وقت وہ بلاشرکت غیرے اردو زبان کے سب سے بڑے فکشن رائٹر تھے ان کی کالم نگاری اور ادبی تجزیے اس کے علاوہ ہیں۔


انتظار بھائی سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف اوری اینٹل کالج کی طالب علمی کے دنوں میں ہوا، ہمارے گروپ میں ان کی سب سے زیادہ قربت مرحوم ڈاکٹر سہیل احمد خان سے تھی جب کہ ان کے ہم عصر گروپ میں انجم رومانی' شہرت بخاری' سجاد باقر رضوی' مظفر علی سید' شہزاد احمد' راجہ نسیم محمود' ناصر کاظمی' احمد مشتاق اور مسعود اشعر زیادہ نمایاں تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب فکشن میں راجندر سنگھ بیدی' کرشن چندر' قرۃ العین حیدر' عصمت چغتائی' غلام عباس' شوکت صدیقی' بلونت سنگھ' احمد ندیم قاسمی' اے حمید 'حاجرہ مسرور' خدیجہ مستور' اشفاق احمد اور بانو قدسیہ سمیت ، بہت سے نامور لوگ اپنی بہترین تحریریں لکھ رہے تھے، ایسے ہی کلاسیکی رنگ میں ڈوبی ایک نئی طرح کی علامت نگاری کے ساتھ انتظار حسین نے جس طرح سے اپنے آپ کو منوایا وہ یقیناً ایک کارنامے سے کم نہیں۔

روزنامہ ''مشرق'' میں ان کا کالم ''لاہور نامہ'' اپنے الگ انداز اور دلچسپ زبان کی وجہ سے بہت پڑھا جاتا تھا لیکن پاک ٹی ہاؤس اور حلقہ ارباب ذوق کی محفلوں میں زیادہ تر گفتگو ان کے افسانوں پر ہی ہوتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں اشفاق احمد کے ''گڈریا'' اور انتظار حسین کے ''آخری آدمی'' کو اردو افسانے کا ایک نیا موڑ اور عہد قرار دیا جا رہا تھا حالانکہ تکنیک کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔

انتظار صاحب کی آواز عام گفتگو میں قدرے بیٹھی ہوئی محسوس ہوتی تھی مگر اسٹیج پر یا کسی بحث کے دوران اس میں ایک ایسی عجیب طرح کی کھنک پیدا ہو جاتی تھی جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے انھیں بہت کم غصے میں دیکھا ہے اگر وہ کسی بات سے بہت زیادہ بھی ناراض ہوتے تو ان کے لہجے میں ''جاؤ ہم نہیں بولتے'' جیسا لاڈ پھر بھی قائم رہتا تھا۔ ایوب خان کے جشن ترقی اور مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے نقیب چھ نکات والے ماحول کی فضا میں نہ صرف حلقے میں ہونے والی بحثوں میں شدت پسندی کا رنگ غالب کر دیا بلکہ اس کا اثر ٹی ہاؤس کی بے تکلف محفلوں میں بھی نظر آنے لگا۔

مرحوم ڈاکٹرعزیز الحق افتخار جالب اور ان کے نوجوان جیالوں کا جارحانہ طرز استدلال جب ایک حد سے بڑھ گیا تو انتظار حسین اور ان کے قریبی رفقاء اس رویے سے اس قدر بددل ہو گئے کہ انھوں نے حلقے کے جلسوں میں جانے کے بجائے ٹی ہاؤس میں اپنی الگ محفل جمانا شروع کر دی جس سے آگے چل کر حلقہ ''سیاسی'' اور ''ادبی'' دو دھڑوں میں بٹ گیا، اتفاق سے ان دنوں میں پہلے جائنٹ سیکریٹری اور پھر سیکریٹری تھا اور مسلسل یہ کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح کوئی درمیانی اور صلح صفائی کا رستہ نکل آئے مگر کچھ سینئر احباب نے حلقے کی ایک تیسری شاخ بنا کر مسلم مسجد لوہاری گیٹ کے پہلو میں اپنے اجلاس شروع کر دیے۔

اس سارے عمل کے دوران صرف انتظار حسین تھے جنہوں نے ناراضی اور اختلاف کے باوجود ہمیشہ تحمل اور برداشت سے کام لیا اور میری حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے ان کی اس فطری شرافت اور صلح جو رویے نے ہمارے درمیان ایک ایسا رشتہ محبت و مروت پیدا کر دیا جو نہ صرف آنے والے سارے وقتوں میں قائم رہا بلکہ اس میں مزید قربت اور گہرائی پیدا ہوتی چلی گئی۔ ماضی قریب میں مجھے ان کے ساتھ سفر کے مواقع نسبتاً زیادہ ملے اس ہم سفری کے باعث ان کی خوب صورت شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آئے جن سے معلوم ہوا کہ وہ جتنے بڑے ادیب تھے اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے۔

وہ فطری طور پر ایک خوش مزاج اور بذلہ سنج آدمی تھے، جمیل الدین عالی مرحوم انھیں پیار سے ''ماموں'' کہہ کر بلاتے تھے مجھے ان منہ بولے ماموں اور بھانجے کے درمیان ہونے والی پر لطف گفتگو میں پہلی بار اردو میں ایسی جگتیں سننے کا موقع ملا جو بھلے دنوں میں صرف تھیٹر کے اسٹیج پر ہی ممکن تھیں۔ اولاد سے محرومی اور بیگم کی وفات کے صدمے کے باوجود وہ آخری دم تک زندگی سے جڑے رہے اور گھر کی مسلسل تنہائی کے باوجود محفل آرائی بھی کرتے رہے، سعادت حسن منٹو سے قطع نظر وہ واحد اردو فکشن رائٹر تھے جنھیں بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ تسلیم کیا گیا۔
Load Next Story