ملائشیا ایشیا کی اہم تجارتی مارکیٹ

جن تاجروں سے راقم الحروف کی گفتگو ہوئی انھوں نے یہی کہا کہ یہ مشکل مارکیٹ ہے جیسے کہ جاپان

shahida@sqaiser.com

نئے شادی شدہ جوڑے جب ہنی مون پر جانے کا پلان کرتے ہیں تو ان کی پہلی ترجیح ملائشیا زیادہ تر ہوتی ہے یہ ملک سرسبز جنگلات، طویل ساحلی پٹیوں اور خوشگوار آب و ہوا کی وجہ سے سیاحت کا مرکز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک 208 ارب ڈالر کی درآمدات کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا میں ایک بڑی مستحکم تجارتی منڈی بھی ہے، ہمارے ریجن کے تمام ممالک بالخصوص انڈیا، تھائی لینڈ اور ویتنام وغیرہ نے اس مارکیٹ میں قدم جمائے ہوئے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ایکسپورٹرز اس منڈی میں جانے سے کتراتے ہیں۔

جن تاجروں سے راقم الحروف کی گفتگو ہوئی انھوں نے یہی کہا کہ یہ مشکل مارکیٹ ہے جیسے کہ جاپان۔ ہمارے برآمد کنندگان نے اپنی توجہ امریکا، یورپ اور مڈل ایسٹ پر مرکوز کر لی ہے، دراصل ہم لکیر کے فقیر ہیں حالانکہ امریکا اور یورپ کی مارکیٹیں تو اس وقت بہت اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں اور ہم اس وقت خریداروں کے ہاتھ سے نکلنے کے خدشے سے بھی دوچار ہیں، مسابقت کی فضا دن بہ دن شدید ہوتی جا رہی ہے اس وقت یورپ میں ویزے کے بڑے مسائل ہیں۔ ہماری برآمدات 25 ارب سے آگے جانے کی بجائے 2 سال سے مستقل کم ہو رہی ہیں۔

یہ صورتحال اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ ہم غیر روایتی مارکیٹوں میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے کمرشل اتاشیوں کا کردار بہت اہم ہے کہ وہ مختلف پروڈکٹس کی درآمد کے ذرایع معلوم کریں اور تجارتی ایسوسی ایشنز کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ جیسا کہ سرجیکل آلات جو پاکستان بہت عمدہ تیار کرتا ہے اور ملائشیا میں اس کی اربوں کی درآمد ہے مگر یہ ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے ہوتی ہے، ان کے بارے میں آگہی اس صنعت سے وابستہ تاجروں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

آج کچھ ذکر ملائشیا کی تجارتی منڈی کا کرتے ہیں جو 208 ارب ڈالر کے ساتھ بہت نمایاں نظر آتی ہے، اس وقت پاکستان اور ملائشیا کی تجارت کا تمام تر توازن ملائشیا کے حق میں ہے ہم 1.28 ارب ڈالر کی درآمدات کرتے ہیں اور محض 233 ملین ڈالر کی برآمدات۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا کوئی فائدہ ہماری برآمدی صنعت تک نہیں پہنچا اس کی بڑی وجہ ناقص مارکیٹنگ اور وہاں کے زمینی حقائق سے لاعلمی ہے۔

ملائشیا کا حصہ دنیا کے معاشی ترقی یافتہ ممالک میں 20 واں ہے اور یہ ایشیا کی چھٹی تیز رفتار معیشت میں شامل ہے۔ 6.5% گروتھ ریٹ کے ساتھ اس وقت آسٹریلیا اور فرانس سے آگے ہے۔ یہ ایک خوشحال ملک ہے جہاں فی کس آمدنی 12000 ڈالر سے زیادہ ہے، اسی وجہ سے عام افراد کی قوت خرید زیادہ اور لائف اسٹائل عمدہ ہے لوگ بہت زیادہ خریداری ملبوسات، فرنیچر، خوشبویات، قالینوں، آرائشی اشیا، ہینڈی کرافٹس کی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ اسٹورز کی بھرمار ہے سیاحوں کی بہت بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے بھی مارکیٹ بہت فعال اور متحرک ہے۔

اگر ہم یہ تجزیہ کریں کہ جو اشیا پاکستان بناتا ہے ان کی کھپت اس ملک میں کتنی ہے تو بات اربوں ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ گاڑیاں، آٹو پارٹس کی مارکیٹ 6.5 ارب ڈالر ہے، سرجیکل، میڈیکل، آپٹیکل آلات کی طلب 6 ارب، قیمتی پتھر، سونے چاندی کے زیورات 5 ارب ڈالر، تمام اقسام کے کیمیکلز 9 ارب ڈالر، ٹیکسٹائل مصنوعات 2 ارب ڈالر، چاول و سیریلز 1.8 ارب ڈالر، ڈیری پروڈکٹس 1 ارب، گوشت اور متعلقہ مصنوعات 1.8 ارب، خوشبویات کاسمیٹکس وغیرہ 870 ملین، فٹ ویئر 813 ملین ڈالر، ربر اور اس کی مصنوعات 36 بلین ڈالر، چمڑے کی مصنوعات 332 ملین ڈالر وغیرہ ہیں۔ غرض ہر لحاظ سے ایک پرکشش ملک ہے مسلم ملک ہے حلال کھانے کا مسئلہ نہیں ہے اور کارگو کے اخراجات بھی نسبتاً کم ہوں گے۔


مختصراً اس ملک کے جغرافیہ اور تاریخ کا ذکر کیے دیتے ہیں کیونکہ کسی ملک کی معیشت کو سمجھنے کے لیے یہ دونوں عوامل بہت اہم ہیں۔ ملائشیا جنوب مشرقی ایشیا میں واقع اور آسیان (Asean) اور OIC کا نمایاں ممبر ہے، اسلامک بینکنگ کا مرکز ہے۔ اس ملک کا ٹوٹل رقبہ 329,847 مربع کلومیٹر ہے جس کو ساؤتھ چائنا سمندر نے دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ جزیرہ نما ملائشیا اور مشرقی ملائشیا، کوالالمپور اس کا دارالحکومت جب کہ پتراجایا میں تمام مرکزی دفاتر واقع ہیں۔

یہ تیرہ States اور 3 فیڈرل علاقوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصوں کا لینڈ اسکیپ تقریباً یکساں ہے۔ ساحلی علاقے بتدریج زمینی علاقوں میں بلندیوں اور پہاڑیوں تک چلے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے موسم انتہائی خوشگوار ہے۔ دنیا بھر میں پائے جانے والے جانوروں کی 20% اقسام یہاں ملتی ہیں۔ اسی طرح نباتات، جنگلی حیات، سمندری حیات بھی بے انتہا اقسام کی پائی جاتی ہیں۔ دو تہائی ملائشیا جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔

تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلی صدی میں چینی اور انڈین تاجروں اور آبادکاروں نے یہاں کا رخ کیا، اسی وجہ سے چینی اور انڈین اثرات ثقافت، تجارت، کاروبار میں نمایاں ہیں۔ چودھویں صدی میں عربوں، وسطی ایشیائی افراد کی آمد سے اسلام تیزی سے پھیلا اور پندرہویں صدی میں سلطان اسکندر شاہ نے ایک مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔

سولہویں صدی سے بیرونی حملہ آوروں کی یلغار شروع ہوئی جیسا کہ اس خطے کے باقی ممالک کی تاریخ مماثل ہے، سن1511ء میں ملاکا کو پرتگالیوں نے تسخیر کیا اس کے بعد 1641ء میں ڈچ حملہ آور تشریف لائے اور بالآخر برطانوی شہنشاہیت نے 1786ء سے اپنے قدم جمانے شروع کیے۔ کسی حد تک جاپانیوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کچھ علاقوں پر تسلط قائم کیا جو بعد میں اتحادی افواج نے ختم کرایا لیکن اسی دوران آزادی کی تحریکیں زور پکڑتی گئیں۔ فیڈریشن 1948ء میں بنی اور آخر کار 31 اگست 1957ء کو آزاد ملک کی حیثیت حاصل ہوئی اگرچہ کئی تنازعے بعد میں جا کر حل ہوئے۔ ریاست کا سربراہ بادشاہ ہے جب کہ حکومت وزیر اعظم نے چلانی ہے۔

ملائشیا نے اپنے روڈ اور صنعتی انفرا اسٹرکچر کو بہترین بنا دیا ہے۔ نقل و حرکت انتہائی آسان اور منظم ہے۔ سات بندرگاہیں اور 200 انڈسٹریل پارکس موجود ہیں، بڑے شہروں میں کوالالمپور، جوہربارو، اپووہ، شاہ عالم، کیوچنگ، جارج ٹاؤن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تہواروں کی سرزمین ہے اور لوگ بڑے جوش و خروش سے تہوار مناتے ہیں چاہے وہ عیدالفطر ہو، پیغمبر اسلامؐ کا یوم پیدائش یا چائنیز نیو ایئر یا ملائی فیسٹیول جو اس وقت 5 فروری سے 9 فروری تک منایا جائے گا اور دفاتر ہفتے تک تو بند ہی رہیں گے۔

سیاحت اس ملک کا زرمبادلہ کمانے کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے اور بڑی عمدہ تفریح گاہیں اور جنگلات میوزیم وغیرہ موجود ہیں جو سیاحوں کو بڑی تعداد میں کھینچ کر لاتے ہیں۔ ملائشیا کی آبادی میں46% بومی پتر یعنی ملانی لوگ 43% چینی، 10 فیصد انڈین اور دیگر شامل ہیں۔ سرکاری مذہب اسلام ہے۔ 61% مسلم ہیں تقریباً 20% بدھ مت کے پیروکار، 9% عیسائی اور 6% ہندو اور دیگر ہیں۔

ملائشیا میں تجارت کی غرض سے جانے والوں کے لیے وہاں کا کاروباری انفرااسٹرکچر سمجھنا بہت ضروری ہے۔ MATRADE بیرونی تجارت کو ہینڈل کرتی ہے جب کہ MAIDA صنعتی ترقی کو۔ یہ دونوں سرکاری ادارے ہیں۔ نمایاں بزنس چیمبرز میں ایسوسی ایٹڈ چائنیز چیمبر (ACCCIM)، نیشنل چائنیز چیمبر (NCCM)،انڈین چیمبر، کوالالمپور چیمبر اور نیشنل ایسوسی ایشن آف ویمن انٹرپرائزز شامل ہیں، جب کہ بے شمار پروڈکٹ ایسوسی ایشنز موجود ہیں۔ ملک میں درآمدات کے چینلز میں ڈسٹری بیوٹرز کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستانی تاجر اس منڈی میں کاروبار نہیں کر سکتے۔ ضرور کر سکتے ہیں اگرچہ کاروباری روابط صحیح انداز سے بڑھائے جائیں اور عوامل کا صحیح طور پر تجزیہ کر لیا جائے۔
Load Next Story