کپاس کی پیداوار96لاکھ گانٹھ تک محدود
درآمدی روئی کا حجم 30 لاکھ گانٹھ رہنے کی توقع ہے جس پر اربوں روپے کا زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں کپاس کی پیداوار یکم فروری تک 96 لاکھ 12 ہزار 711گانٹھوں تک محدود رہی جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1 کروڑ 44 لاکھ 35 ہزار202گانٹھوں کی نسبت 48لاکھ 22 ہزار941 گانٹھیں یا 33.41 فیصدکم ہے۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ16تا31 جنوری کے درمیان جننگ ملز میں25.65فیصد کی کمی سے صرف 1لاکھ 36 ہزار 982 بیلز پھٹی آئی جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 1 لاکھ84 ہزار230 گانٹھ روئی آئی تھی۔
اس دوران پنجاب میں کپاس کی پیداوار44.21 فیصد کی غیر معمولی کمی سے 58لاکھ57 ہزار696 گانٹھ اور سندھ میں صرف 4.58 فیصد گھٹ کر 37 لاکھ 55 ہزار 15 بیلز رہی، یکم فروری تک مقامی ٹیکسٹائل ملز نے 80لاکھ 32ہزار 410 بیلز خریدیں جبکہ 3لاکھ 58ہزار418 گانٹھ روئی بیرون ملک فروخت کے لیے ایکسپورٹرز نے حاصل کی اور اب ٹیکسٹائل ملز کے پاس صرف 12لاکھ 21ہزار883 گانٹھوں کے ذخائر ہیں، گزشتہ سال کی اسی مدت میں غیرفروخت شدہ ذخائر 13 لاکھ 30 ہزار 744 بیلز تھے۔ پی سی جی اے کے مطابق اس وقت ملک میں صرٖف 167 جننگ فیکٹریاں چل رہی ہیں ۔
جن میں سے 39 سندھ اور 128 پنجاب میں کام کر رہی ہیں، کپاس کی پیداوار میں غیرمعمولی کمی کی وجہ سے کاٹن سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کی وجہ سے ملکی معیشت کو غیرمعمولی نقصان ہوا، ٹیکسٹائل ملزکو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرون ملک خاص طور پر بھارت سے وافر مقدار میں کپاس درآمد کرنی پڑرہی ہے، درآمدی روئی کا حجم 30 لاکھ گانٹھ رہنے کی توقع ہے جس پر اربوں روپے کا زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے۔
اس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انھوں نے حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والی 16ارب ڈالر مالیت کی کپاس کی فصل پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اسے بچانے کے لیے جنگی بنیادوںپر اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ16تا31 جنوری کے درمیان جننگ ملز میں25.65فیصد کی کمی سے صرف 1لاکھ 36 ہزار 982 بیلز پھٹی آئی جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 1 لاکھ84 ہزار230 گانٹھ روئی آئی تھی۔
اس دوران پنجاب میں کپاس کی پیداوار44.21 فیصد کی غیر معمولی کمی سے 58لاکھ57 ہزار696 گانٹھ اور سندھ میں صرف 4.58 فیصد گھٹ کر 37 لاکھ 55 ہزار 15 بیلز رہی، یکم فروری تک مقامی ٹیکسٹائل ملز نے 80لاکھ 32ہزار 410 بیلز خریدیں جبکہ 3لاکھ 58ہزار418 گانٹھ روئی بیرون ملک فروخت کے لیے ایکسپورٹرز نے حاصل کی اور اب ٹیکسٹائل ملز کے پاس صرف 12لاکھ 21ہزار883 گانٹھوں کے ذخائر ہیں، گزشتہ سال کی اسی مدت میں غیرفروخت شدہ ذخائر 13 لاکھ 30 ہزار 744 بیلز تھے۔ پی سی جی اے کے مطابق اس وقت ملک میں صرٖف 167 جننگ فیکٹریاں چل رہی ہیں ۔
جن میں سے 39 سندھ اور 128 پنجاب میں کام کر رہی ہیں، کپاس کی پیداوار میں غیرمعمولی کمی کی وجہ سے کاٹن سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کی وجہ سے ملکی معیشت کو غیرمعمولی نقصان ہوا، ٹیکسٹائل ملزکو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرون ملک خاص طور پر بھارت سے وافر مقدار میں کپاس درآمد کرنی پڑرہی ہے، درآمدی روئی کا حجم 30 لاکھ گانٹھ رہنے کی توقع ہے جس پر اربوں روپے کا زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے۔
اس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انھوں نے حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والی 16ارب ڈالر مالیت کی کپاس کی فصل پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اسے بچانے کے لیے جنگی بنیادوںپر اقدامات کیے جائیں۔