دلیپ کمار امیتابھ بچن اور شراب
پاکستان اور ہندوستان کے اکثر فنکاروں نے پردہ کے اوپر اور پس ِپردہ بھی مے نوشی کی۔
ایک نیوز چینل پر نشر کی جانے والی رپورٹ نے میرے ہوش اڑا دئیے۔ خبر تھی کہ کراچی کی بندر گاہ پر کسٹمز حکام نے ایک بہت بڑی کنسائن منٹ پکڑ لی ہے جو 70 ہزار شراب کی بوتلوں پر مشتمل ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے کہ اتنی بھاری مقدار میں شراب کی بوتلیں تحویل میں لے لی گئیں۔ بیان کیا گیا کہ مذکورہ بوتلیں اسکاٹ لینڈ اور فرانس جیسے ممالک کی تیار کردہ ہیں۔ خبر کے متن میں کسی ''صوفی رپورٹر'' نے پیشہ وارانہ مہارت سے خوب رنگ بھر دئیے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تحویل میں لی گئی بوتلوں کی مختلف قیمتوں کی اگر اوسط کا تعین کیا جائے تو لگ بھگ یہ رقم 70 کروڑ روپے بنتی ہے۔ ستر ہزار بوتلیںجن میں کم از کم ایک لیٹر اور زیادہ سے زیادہ ڈھائی لیٹر شراب ہے۔ مجموعی طور پر ایک لاکھ 40 ہزار لیٹر شراب قبضے میں لی گئی۔
مذکورہ خبر کا سب سے دلچسپ پہلو چشمِ تصور کے مطابق وہ ''وقوعہ'' تھا جو رونما ہونے کے باوجود خبر کا حصہ تھا۔ ماہرین کی رائے کے مطابق مذکورہ مقدار ساز باز کر کے چھڑا لی جاتی اور اسے انسان اپنے معدوں میں انڈیل لیتے تو ایک اندازے کے مطابق 12لاکھ افراد نشے میں ''ٹن'' ہو سکتے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 70 ہزار بوتلوں کی برآمدگی کے بعد 15ہزار بوتلیں خورد برد کر لی گئی ہیں جس کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ دیکھتے ہوئے سب سے پہلے مجھے مرزا غالب یاد آئے جنہوں نے ہاتھ سے نکلتی ہوئی شراب طہور کے خلاف یوں احتجاج کیا تھا کہ ۔۔۔ واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو ۔۔۔ کیا بات ہے تمہاری شراب ِ طہور کی۔۔۔
بر صغیر کے سینما میں شراب اور شرابی کا کردار مستقل ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے اکثر فنکاروں نے پردہ کے اوپر اور پس ِپردہ بھی مے نوشی کی جس کے باعث ان کی صحت کے ساتھ، ساتھ کیریئر متاثر ہوا۔ مگر دلیپ کمار اور امیتابھ بچن دو ایسے فنکار ہوئے ہیں جنہوں نے شرابی کا کردار ادا کرتے ہوئے الٹا شرابیوں سے داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کیے ہیں۔ دلیپ کمار صاحب نے ''دیوداس'' میں ایک ایسا کردار نبھایا ہے جو اپنی محبت (پاروتی) کو خاندانی جاگیردارانہ نظام کی سخت روایات کے ہاتھوں شکست کھا کر کھو بیٹھتا ہے۔ محبت میں ناکامی اور شکست جیسا احساس دیوداس کو اپنے آپ کو سزا دینے پر اکساتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محبت کا مجرم سمجھ کر سزا دیتا ہے اور کثرتِ شراب نوشی کا مریض بن جاتا ہے۔ دیوداس اندر سے مر رہا ہوتا ہے اور ظاہری طور پر شانت بھی نظر آتا ہے۔
فن ِ اداکاری میں یہ خارجی اور اندرونی کیفیات بیان کرنے کی عظیم مثال ہے۔ فلم نگر میں شرابی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے مجھے جن فنکاروں نے متاثر کیا ان میں دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور منور ظریف مرحوم کے نام نمایاں ہیں۔ منور ظریف کی وفات 29 اپریل 1976 کو ہوئی تھی، میں نے اپنے بچپن سے سن رکھا تھا کہ منور ظریف کثرت شراب نوشی کے باعث اپنی صحت خراب کر چکے تھے، اس پر انہیں موروثی طور پر دل کا عارضہ لاحق تھا تیسری مرتبہ ہارٹ اٹیک ان کی موت کا سبب بنا تھا۔ دلیپ صاحب اور امیتابھ بچن کے حوالے سے اکثر سوچا کرتا تھا کہ دونوں میگا اسٹارز نے شرابی کی اس قدر عمدہ ایکٹنگ کیسے کرلی؟ کیا اپنے، اپنے عہد کے یہ دونوں اسٹار اور میگا اسٹار اس کے عادی رہے یا دونوں سماجی طور پر کبھی کبھار ہی شغل فرماتے رہے؟ اور یہ سوال بھی کہ میر سے لے کر غالب تک اور پھر منٹو سے لے کر منیر نیازی اور فیض تک سبھی نے اسے تخلیقی کیفیات کے اظہار کا لازم حصہ کیوں سمجھا؟ قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دلیپ صاحب اور امیتابھ بچن سے میری ملاقاتیں ممبئی میں ہوتی رہی ہیں، امیتابھ صاحب سے تو یہ ملاقاتیں دبئی اور لندن میں بھی ہوئیں۔
امیتابھ بچن سے شراب سے متعلق میرا اکلوتا سوال پانچ منٹ سے تجاوز کر گیا تھا۔ امیت جی کے سامنے میں فلم سٹی سٹوڈیو ممبئی میں بیٹھا تھا جہاں ان کی ایک فلم ''آل دی بیسٹ'' کی شوٹنگ جاری تھی۔ یہ فلم بعد ازاں ''آنکھیں'' کے نام سے ریلیز ہوئی تھی جس میں سشمیتا سین کے علاوہ اکشے کمار بھی تھے۔ امیتابھ بچن سے میرا سوال تھا کہ آپ نے نصف درجن فلموں میں شرابی کی اداکاری کی ہے لیکن کسی ایک کی اداکاری دوسرے کردار سے ملتی نہیں ہے؟ فلم ''دو انجانے'' میں آپ شراب پی کر اپنے ایک دولت مند دوست رنجیت ملک (پریم چوپڑہ) سے الجھ پڑتے ہیں جس کے متعلق آپ کو شک ہے کہ وہ آپ کی بیوی کو میلی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ فلم ''شکتی'' میں آپ کی بیمار ماں (راکھی) آپ کے کمائے ہوئے پیسوں سے اپنا علاج نہیں کرانا چاہتی۔ ماں، بیٹے کی ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو اپنے آپ پر خرچ کرنا حرام خیال کرتی ہے۔
اسے اپنے ایماندار شوہر (دلیپ کمار) کی پیشہ وارانہ دیانتداری پر فخر ہے۔ آپ کو یہ مجرمانہ احساس ستاتا ہے اور آپ شراب پی کر اپنی محبوبہ روما (سمیتا پاٹیل) سے اپنا کتھارسس کرتے ہیں۔ میں سوال کر رہا تھا اور امیتابھ بچن مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے مذید کہا کہ امیت جی۔۔۔آپ نے ''امر اکبر انتھونی'' میں بھی ایک سچوئیشن میں شراب پی، اس کا رنگ ڈھنگ کامیڈی تھا۔ ''ستہ پہ ستہ'' کا شرابی ان چاروں کرداروں سے مختلف تھا۔ ''نصیب'' میں آپ نے شرابی کا ایک اور شیڈ دیا تھا۔ اس کے بعد فلم ''ہم'' کا شرابی کون بھول سکتا ہے، اس میں شراب پئے ہوئے شخص میں نمودار ہونے والی طبی اور نفیساتی کیفیات کو جس طرح آپ نے بیان کیا ہے وہ برصغیر کے سنیما کا ایک یادگار کام ہے۔
جوں جوں میں اپنا سوال بیان کر رہا تھا امیتابھ بچن کی آنکھوں کی چمک بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ امیت جی! فلم ''مقدر کا سکندر'' میں آپ نے اپنے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے شراب پی جب کہ ''سہاگ'' کا شرابی پھر ایک اور شیڈ تھا۔ ان فلموں کے علاوہ ''ڈان'' ''ملی'' ''سوداگر'' '' سارا آکاش'' ''کانٹے'' اور سب سے بڑھ کر ''شرابی'' جیسی فلموں میں آپ نے اتنے شیڈز کیسے دئیے؟ فلم ''شرابی'' میں تو آپ نے شرابی کا کریکٹر کرتے ہوئے اس کریکٹر سے متعلق ''میٹرک ویٹ سسٹم'' (ناپ تول کا اعشاری نظام) وضع کر دیا تھا۔۔۔۔ میں نے اپنا سوال ختم کرنے سے قبل آخری جملے کے طور پر کہا کہ ۔۔۔۔ بچن صاحب! شرابی کا کریکٹر کرتے ہوئے آپ نے اتنے سارے شیڈز کیسے دئیے؟ اس کے لیے تو آپ شراب کے لاکھوں لیٹر پی گئے ہوں گے؟ جونہی میں نے اپنا سوال مکمل کیا تو امیتابھ بچن نے تالی بجاتے ہوئے اپنی کھنکتی اور بھاری بھر کم آواز میں بھر پور قہقہ لگایا۔ امیتابھ بچن کی تالی مجھے اپنے لیے ''فلم فیئر ایوارڈ'' لگی تھی۔
مجھے یاد ہے بچن صاحب نے کہا تھا کہ میں حیران ہوں کہ آپ نے میری زندگی کی لائٹ پرفارمنسز اس قدر محبت اور دھیان سے دیکھی ہیں۔ لیکن آپ کو بتائوں گا تو شاید آپ یقین نہیں کریں گے کہ میں نے اپنی پوری زندگی شراب کو چھوا تک بھی نہیں۔ یہ سب اوپر والے کی دین ہے میں خود حیران ہوتا ہوں کہ میں نے یہ سب کیسے کر لیا؟
شراب سے متعلق دلیپ صاحب سے کیا باتیں ہوئیں یہ پھر کبھی بیان کروں گا۔ لیکن بچن صاحب کے حوالے سے ممبئی میں ان کے قریبی دوستوں سے جب شراب سے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے ازراہ تفنن کہا کہ۔۔۔ مہارا شٹریہ کی آدھی شراب امیتابھ بچن نے اکیلے ہی پی ہے۔۔ ۔۔ امیتابھ بچن نے آف دی سکرین شراب پی یا نہیں میرا مسئلہ نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی بندر گاہ سے غائب ہو جانے والی 15ہزار اور ''قومی تحویل'' میں لی جانے والی 55 ہزار شراب کی بوتلوں کا ''مستقبل۔'' کیا ہو گا؟؟؟
پاکستان کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے کہ اتنی بھاری مقدار میں شراب کی بوتلیں تحویل میں لے لی گئیں۔ بیان کیا گیا کہ مذکورہ بوتلیں اسکاٹ لینڈ اور فرانس جیسے ممالک کی تیار کردہ ہیں۔ خبر کے متن میں کسی ''صوفی رپورٹر'' نے پیشہ وارانہ مہارت سے خوب رنگ بھر دئیے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تحویل میں لی گئی بوتلوں کی مختلف قیمتوں کی اگر اوسط کا تعین کیا جائے تو لگ بھگ یہ رقم 70 کروڑ روپے بنتی ہے۔ ستر ہزار بوتلیںجن میں کم از کم ایک لیٹر اور زیادہ سے زیادہ ڈھائی لیٹر شراب ہے۔ مجموعی طور پر ایک لاکھ 40 ہزار لیٹر شراب قبضے میں لی گئی۔
مذکورہ خبر کا سب سے دلچسپ پہلو چشمِ تصور کے مطابق وہ ''وقوعہ'' تھا جو رونما ہونے کے باوجود خبر کا حصہ تھا۔ ماہرین کی رائے کے مطابق مذکورہ مقدار ساز باز کر کے چھڑا لی جاتی اور اسے انسان اپنے معدوں میں انڈیل لیتے تو ایک اندازے کے مطابق 12لاکھ افراد نشے میں ''ٹن'' ہو سکتے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 70 ہزار بوتلوں کی برآمدگی کے بعد 15ہزار بوتلیں خورد برد کر لی گئی ہیں جس کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ دیکھتے ہوئے سب سے پہلے مجھے مرزا غالب یاد آئے جنہوں نے ہاتھ سے نکلتی ہوئی شراب طہور کے خلاف یوں احتجاج کیا تھا کہ ۔۔۔ واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو ۔۔۔ کیا بات ہے تمہاری شراب ِ طہور کی۔۔۔
بر صغیر کے سینما میں شراب اور شرابی کا کردار مستقل ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے اکثر فنکاروں نے پردہ کے اوپر اور پس ِپردہ بھی مے نوشی کی جس کے باعث ان کی صحت کے ساتھ، ساتھ کیریئر متاثر ہوا۔ مگر دلیپ کمار اور امیتابھ بچن دو ایسے فنکار ہوئے ہیں جنہوں نے شرابی کا کردار ادا کرتے ہوئے الٹا شرابیوں سے داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کیے ہیں۔ دلیپ کمار صاحب نے ''دیوداس'' میں ایک ایسا کردار نبھایا ہے جو اپنی محبت (پاروتی) کو خاندانی جاگیردارانہ نظام کی سخت روایات کے ہاتھوں شکست کھا کر کھو بیٹھتا ہے۔ محبت میں ناکامی اور شکست جیسا احساس دیوداس کو اپنے آپ کو سزا دینے پر اکساتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محبت کا مجرم سمجھ کر سزا دیتا ہے اور کثرتِ شراب نوشی کا مریض بن جاتا ہے۔ دیوداس اندر سے مر رہا ہوتا ہے اور ظاہری طور پر شانت بھی نظر آتا ہے۔
فن ِ اداکاری میں یہ خارجی اور اندرونی کیفیات بیان کرنے کی عظیم مثال ہے۔ فلم نگر میں شرابی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے مجھے جن فنکاروں نے متاثر کیا ان میں دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور منور ظریف مرحوم کے نام نمایاں ہیں۔ منور ظریف کی وفات 29 اپریل 1976 کو ہوئی تھی، میں نے اپنے بچپن سے سن رکھا تھا کہ منور ظریف کثرت شراب نوشی کے باعث اپنی صحت خراب کر چکے تھے، اس پر انہیں موروثی طور پر دل کا عارضہ لاحق تھا تیسری مرتبہ ہارٹ اٹیک ان کی موت کا سبب بنا تھا۔ دلیپ صاحب اور امیتابھ بچن کے حوالے سے اکثر سوچا کرتا تھا کہ دونوں میگا اسٹارز نے شرابی کی اس قدر عمدہ ایکٹنگ کیسے کرلی؟ کیا اپنے، اپنے عہد کے یہ دونوں اسٹار اور میگا اسٹار اس کے عادی رہے یا دونوں سماجی طور پر کبھی کبھار ہی شغل فرماتے رہے؟ اور یہ سوال بھی کہ میر سے لے کر غالب تک اور پھر منٹو سے لے کر منیر نیازی اور فیض تک سبھی نے اسے تخلیقی کیفیات کے اظہار کا لازم حصہ کیوں سمجھا؟ قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دلیپ صاحب اور امیتابھ بچن سے میری ملاقاتیں ممبئی میں ہوتی رہی ہیں، امیتابھ صاحب سے تو یہ ملاقاتیں دبئی اور لندن میں بھی ہوئیں۔
امیتابھ بچن سے شراب سے متعلق میرا اکلوتا سوال پانچ منٹ سے تجاوز کر گیا تھا۔ امیت جی کے سامنے میں فلم سٹی سٹوڈیو ممبئی میں بیٹھا تھا جہاں ان کی ایک فلم ''آل دی بیسٹ'' کی شوٹنگ جاری تھی۔ یہ فلم بعد ازاں ''آنکھیں'' کے نام سے ریلیز ہوئی تھی جس میں سشمیتا سین کے علاوہ اکشے کمار بھی تھے۔ امیتابھ بچن سے میرا سوال تھا کہ آپ نے نصف درجن فلموں میں شرابی کی اداکاری کی ہے لیکن کسی ایک کی اداکاری دوسرے کردار سے ملتی نہیں ہے؟ فلم ''دو انجانے'' میں آپ شراب پی کر اپنے ایک دولت مند دوست رنجیت ملک (پریم چوپڑہ) سے الجھ پڑتے ہیں جس کے متعلق آپ کو شک ہے کہ وہ آپ کی بیوی کو میلی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ فلم ''شکتی'' میں آپ کی بیمار ماں (راکھی) آپ کے کمائے ہوئے پیسوں سے اپنا علاج نہیں کرانا چاہتی۔ ماں، بیٹے کی ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو اپنے آپ پر خرچ کرنا حرام خیال کرتی ہے۔
اسے اپنے ایماندار شوہر (دلیپ کمار) کی پیشہ وارانہ دیانتداری پر فخر ہے۔ آپ کو یہ مجرمانہ احساس ستاتا ہے اور آپ شراب پی کر اپنی محبوبہ روما (سمیتا پاٹیل) سے اپنا کتھارسس کرتے ہیں۔ میں سوال کر رہا تھا اور امیتابھ بچن مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے مذید کہا کہ امیت جی۔۔۔آپ نے ''امر اکبر انتھونی'' میں بھی ایک سچوئیشن میں شراب پی، اس کا رنگ ڈھنگ کامیڈی تھا۔ ''ستہ پہ ستہ'' کا شرابی ان چاروں کرداروں سے مختلف تھا۔ ''نصیب'' میں آپ نے شرابی کا ایک اور شیڈ دیا تھا۔ اس کے بعد فلم ''ہم'' کا شرابی کون بھول سکتا ہے، اس میں شراب پئے ہوئے شخص میں نمودار ہونے والی طبی اور نفیساتی کیفیات کو جس طرح آپ نے بیان کیا ہے وہ برصغیر کے سنیما کا ایک یادگار کام ہے۔
جوں جوں میں اپنا سوال بیان کر رہا تھا امیتابھ بچن کی آنکھوں کی چمک بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ امیت جی! فلم ''مقدر کا سکندر'' میں آپ نے اپنے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے شراب پی جب کہ ''سہاگ'' کا شرابی پھر ایک اور شیڈ تھا۔ ان فلموں کے علاوہ ''ڈان'' ''ملی'' ''سوداگر'' '' سارا آکاش'' ''کانٹے'' اور سب سے بڑھ کر ''شرابی'' جیسی فلموں میں آپ نے اتنے شیڈز کیسے دئیے؟ فلم ''شرابی'' میں تو آپ نے شرابی کا کریکٹر کرتے ہوئے اس کریکٹر سے متعلق ''میٹرک ویٹ سسٹم'' (ناپ تول کا اعشاری نظام) وضع کر دیا تھا۔۔۔۔ میں نے اپنا سوال ختم کرنے سے قبل آخری جملے کے طور پر کہا کہ ۔۔۔۔ بچن صاحب! شرابی کا کریکٹر کرتے ہوئے آپ نے اتنے سارے شیڈز کیسے دئیے؟ اس کے لیے تو آپ شراب کے لاکھوں لیٹر پی گئے ہوں گے؟ جونہی میں نے اپنا سوال مکمل کیا تو امیتابھ بچن نے تالی بجاتے ہوئے اپنی کھنکتی اور بھاری بھر کم آواز میں بھر پور قہقہ لگایا۔ امیتابھ بچن کی تالی مجھے اپنے لیے ''فلم فیئر ایوارڈ'' لگی تھی۔
مجھے یاد ہے بچن صاحب نے کہا تھا کہ میں حیران ہوں کہ آپ نے میری زندگی کی لائٹ پرفارمنسز اس قدر محبت اور دھیان سے دیکھی ہیں۔ لیکن آپ کو بتائوں گا تو شاید آپ یقین نہیں کریں گے کہ میں نے اپنی پوری زندگی شراب کو چھوا تک بھی نہیں۔ یہ سب اوپر والے کی دین ہے میں خود حیران ہوتا ہوں کہ میں نے یہ سب کیسے کر لیا؟
شراب سے متعلق دلیپ صاحب سے کیا باتیں ہوئیں یہ پھر کبھی بیان کروں گا۔ لیکن بچن صاحب کے حوالے سے ممبئی میں ان کے قریبی دوستوں سے جب شراب سے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے ازراہ تفنن کہا کہ۔۔۔ مہارا شٹریہ کی آدھی شراب امیتابھ بچن نے اکیلے ہی پی ہے۔۔ ۔۔ امیتابھ بچن نے آف دی سکرین شراب پی یا نہیں میرا مسئلہ نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی بندر گاہ سے غائب ہو جانے والی 15ہزار اور ''قومی تحویل'' میں لی جانے والی 55 ہزار شراب کی بوتلوں کا ''مستقبل۔'' کیا ہو گا؟؟؟