حکمران کبھی مسئلہ کشمیر حل نہیں کر سکتے
اس حوالے سے سب سے پہلے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تقسیم ہند کے اصل محرکات کیا تھے
PESHAWAR:
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے بات چیت جاری رکھنے اور مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
پچھلے ہفتے بھارت کے راجیہ سبھا کے رکن اور سابق معروف سفارتکار مانی شنکر آئر نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئر میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں تنازعات حل کرنے کے لیے بلا تعطل مذاکرات ہونے چاہئیں، اگر دونوں ملکوں کے درمیان موجود تنازعات حل طلب ہی رہے تو کوئی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ مانی شنکر آئر نے کہا کہ مذاکرات کے لیے اچھا ماحول پیدا کرنے کے لیے مذاکرات واہگہ اٹاری بارڈر پر ہونے چاہئیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آپس کے تنازعات کو ختم کر دیں اور دہشت گردی کا مقابلہ مل کر کریں۔ پاکستان اور بھارت کو امن اور ترقی کے لیے بات چیت کو آگے بڑھانا چاہیے۔ مانی شنکر نے کہا کہ دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
مانی شنکر نے یہ بیان جس دن دیا ہے اتفاق سے اسی دن کی ایک خبر کے مطابق بھارت نے کشمیر میں مزید 19 بٹالین فوج تعینات کر دی ہے، بھارتی کابینہ نے کشمیر میں مزید 17 بٹالین فوج لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے فرمایا ہے کہ بھارت سرحد پار سے ہر قسم کی انتہا پسندی کا منہ توڑ جواب دے گا۔ پڑوس ملک میں جاری انتہا پسند سرگرمیاں ہمارے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ بھارت کی سیکیورٹی فورسز کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں اس قسم کی متضاد خواہشات اور بیانات کا سلسلہ 68 سال سے جاری ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے دنوں وزیر اعظم بھارت نریندر مودی کی لاہور آمد اور وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سے ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی باتیں زور و شور سے کی جا رہی تھیں کہ پٹھانکوٹ کے واقعے نے ان ممکنہ مذاکرات میں کھنڈت ڈال دی۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے سرکاری زعما ازسر نو مذاکرات کی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن خیال ہے کہ تازہ ممکنہ مذاکرات کا انجام بھی ماضی کے مذاکرات سے مختلف اس لیے نہیں ہوں گے کہ مذاکرات کاروں نے کبھی ان حقیقی عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی جو مسئلہ کشمیر سمیت متنازعہ مسائل کا اصل سبب ہیں اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مذاکرات کی سرپرستی وہ حکمران کرتے رہے ہیں جو قومی مفادات کے اسیر ہیں اور ان کا ویژن بہت محدود اور تنگ نظر ہے۔
اس حوالے سے سب سے پہلے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تقسیم ہند کے اصل محرکات کیا تھے؟ متحدہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دو بڑی قومیں رہتی تھیں اگرچہ مسلمان بھارت کی مجموعی آبادی کا 12 فیصد سے زیادہ حصہ نہیں اور دونوں قوموں کی ایک مشترکہ تاریخ بھی تھی اور ہندوستان پر مسلمانوں کے مبینہ ایک ہزار سالہ دور حکومت میں عمومی طور پر ان دونوں قوموں کے درمیان مفاہمت رواداری اور برداشت کا کلچر رہا لیکن جب دوسری عالمی جنگ کے بعد سامراجی ملکوں کو اپنی نوآبادیوں سے دست بردار ہونا پڑا تو صورتحال میں ایک جوہری تبدیلی آتی گئی۔
برصغیر میں بھی مذہبی تضادات میں بوجوہ اس تیزی سے اضافہ ہونے لگا کہ دونوں قوموں کے رہنما یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اب ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ دانشورانہ حلقوں میں یہ تاثر موجود تھا کہ تقسیم ہند کا منصوبہ انگریزوں کے ذہن کی پیداوار تھا کیونکہ سامراجی ملکوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کا تقاضا یہی تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو۔ برطانیہ نے اپنے اس منصوبے پر برصغیر کے انتہا پسندوں کے ذریعے عمل درآمد کرایا۔ مسئلہ کشمیر بھی ان ہی طاقتوں کی پیداوار ہے۔
پچھلے 68 سال سے دونوں ملک جنگی کیفیت میں مبتلا ہیں اور ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ملک اربوں روپے کے ہتھیار خرید رہے ہیں جس کا براہ راست فائدہ مغربی ملکوں کی اسلحے کی صنعت کو ہو رہا ہے اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو اسلحے کی دوڑ اور دفاع پر خرچ ہونے والے اربوں کھربوں روپے عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے کام آتے اگر دونوں ملکوں کے عوام متحد ہوتے تو سامراجی ملک برصغیر کے ان دو بڑے ملکوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے آسانی سے استعمال نہیں کر سکتے تھے۔
دونوں ملکوں کے جو باشعور لوگ تقسیم ہند اور مسئلہ کشمیر کے پس منظر کو سمجھتے ہیں ان کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو اور دونوں ملک جنگی نفسیات سے باہر نکل کر عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں جو طاقتیں دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کو پسند نہیں کرتیں وہ ان لوگوں کو بھارتی ایجنٹ کہتی ہیں جو دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ اس نفسیات نے ہندوستان اور پاکستان کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے روک دیا ہے۔
مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کی ذمے داری دونوں ملکوں کے حکمران طبقات پر ڈالی گئی ہے جن کا وژن قومی مفاد کی ڈوری سے بندھا ہوا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر کو جو بدبختانہ تحفے دیے ہیں ان میں سے ایک بڑا تحفہ ''قومی مفاد'' کا فلسفہ ہے اور سیاستدان اختلافی مسائل کو حل کرنے میں اس لیے ناکام رہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ''قومی مفاد'' کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔
دنیا کی گلوبلائزیشن نے اگرچہ دنیا کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے نظریاتی ماہرین نے اس گلوبلائزیشن کو عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے سرمایے کی گلوبلائزیشن کر کے عوام کو لاوارث کر دیا اور سرمایہ داروں کے لیے بے تحاشا کمائی کے دروازے کھول دیے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں کا حکمران طبقہ اپنی لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام کے دلالوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں ہونے والی سائنس ٹیکنالوجی آئی ٹی سمیت ہر شعبے میں ہونے والی ترقی نے دنیا کے عوام کو ایک نئی سوچ نئی سوجھ بوجھ سے روشناس کرایا ہے اور انھیں یہ ترغیب فراہم کی ہے کہ وہ تنگ نظری اور رنگ نسل زبان قومیت کے حصار سے باہر نکل کر انسانیت کے رشتوں کو استوار کریں لیکن حکمران طبقات کے مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ اب بھی عوام کو تقسیم کر کے رکھا جائے۔
اس حقیقت کے پیش نظر حکمران طبقات سے یہ امید کی ہی نہیں جا سکتی کہ وہ قومی مفاد کی تنگ گلی سے باہر آ کر کشمیر جیسے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور سرمایہ دارانہ نظام کے نظریہ سازوں نے ''قومی مفاد'' کے فلسفے کو اس قدر طاقتور اور ناگزیر بنا دیا ہے کہ اس فلسفے کے پیروکار کشمیر جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے انسان بن ہی نہیں سکتے اس نفسیات کا ضرر رساں نتیجہ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
مسئلہ کشمیر بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے اگر ہمارے سیاستدان ہندو مسلمان ہندوستانی پاکستانی بنے رہنے کے بجائے انسان بن جائیں اور یہ اعزاز دونوں ملکوں کے غیر متعصب اہل دانش اہل قلم ادیبوں شاعروں کو حاصل ہے کیا دونوں ملکوں کے اہل سیاست اور حکمران طبقات مسئلہ کشمیر حل کرنے کا نازک کام اور بھاری ذمے داری دونوں ملکوں کے اہل دانش اہل قلم ادیبوں شاعروں فنکاروں اور اہل علم کو تفویض کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب سے کشمیر اور ہندوستان پاکستان کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ غریب عوام کا مستقبل وابستہ ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے بات چیت جاری رکھنے اور مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
پچھلے ہفتے بھارت کے راجیہ سبھا کے رکن اور سابق معروف سفارتکار مانی شنکر آئر نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئر میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں تنازعات حل کرنے کے لیے بلا تعطل مذاکرات ہونے چاہئیں، اگر دونوں ملکوں کے درمیان موجود تنازعات حل طلب ہی رہے تو کوئی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ مانی شنکر آئر نے کہا کہ مذاکرات کے لیے اچھا ماحول پیدا کرنے کے لیے مذاکرات واہگہ اٹاری بارڈر پر ہونے چاہئیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آپس کے تنازعات کو ختم کر دیں اور دہشت گردی کا مقابلہ مل کر کریں۔ پاکستان اور بھارت کو امن اور ترقی کے لیے بات چیت کو آگے بڑھانا چاہیے۔ مانی شنکر نے کہا کہ دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
مانی شنکر نے یہ بیان جس دن دیا ہے اتفاق سے اسی دن کی ایک خبر کے مطابق بھارت نے کشمیر میں مزید 19 بٹالین فوج تعینات کر دی ہے، بھارتی کابینہ نے کشمیر میں مزید 17 بٹالین فوج لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے فرمایا ہے کہ بھارت سرحد پار سے ہر قسم کی انتہا پسندی کا منہ توڑ جواب دے گا۔ پڑوس ملک میں جاری انتہا پسند سرگرمیاں ہمارے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ بھارت کی سیکیورٹی فورسز کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں اس قسم کی متضاد خواہشات اور بیانات کا سلسلہ 68 سال سے جاری ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے دنوں وزیر اعظم بھارت نریندر مودی کی لاہور آمد اور وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سے ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی باتیں زور و شور سے کی جا رہی تھیں کہ پٹھانکوٹ کے واقعے نے ان ممکنہ مذاکرات میں کھنڈت ڈال دی۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے سرکاری زعما ازسر نو مذاکرات کی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن خیال ہے کہ تازہ ممکنہ مذاکرات کا انجام بھی ماضی کے مذاکرات سے مختلف اس لیے نہیں ہوں گے کہ مذاکرات کاروں نے کبھی ان حقیقی عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی جو مسئلہ کشمیر سمیت متنازعہ مسائل کا اصل سبب ہیں اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مذاکرات کی سرپرستی وہ حکمران کرتے رہے ہیں جو قومی مفادات کے اسیر ہیں اور ان کا ویژن بہت محدود اور تنگ نظر ہے۔
اس حوالے سے سب سے پہلے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تقسیم ہند کے اصل محرکات کیا تھے؟ متحدہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دو بڑی قومیں رہتی تھیں اگرچہ مسلمان بھارت کی مجموعی آبادی کا 12 فیصد سے زیادہ حصہ نہیں اور دونوں قوموں کی ایک مشترکہ تاریخ بھی تھی اور ہندوستان پر مسلمانوں کے مبینہ ایک ہزار سالہ دور حکومت میں عمومی طور پر ان دونوں قوموں کے درمیان مفاہمت رواداری اور برداشت کا کلچر رہا لیکن جب دوسری عالمی جنگ کے بعد سامراجی ملکوں کو اپنی نوآبادیوں سے دست بردار ہونا پڑا تو صورتحال میں ایک جوہری تبدیلی آتی گئی۔
برصغیر میں بھی مذہبی تضادات میں بوجوہ اس تیزی سے اضافہ ہونے لگا کہ دونوں قوموں کے رہنما یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اب ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ دانشورانہ حلقوں میں یہ تاثر موجود تھا کہ تقسیم ہند کا منصوبہ انگریزوں کے ذہن کی پیداوار تھا کیونکہ سامراجی ملکوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کا تقاضا یہی تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو۔ برطانیہ نے اپنے اس منصوبے پر برصغیر کے انتہا پسندوں کے ذریعے عمل درآمد کرایا۔ مسئلہ کشمیر بھی ان ہی طاقتوں کی پیداوار ہے۔
پچھلے 68 سال سے دونوں ملک جنگی کیفیت میں مبتلا ہیں اور ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ملک اربوں روپے کے ہتھیار خرید رہے ہیں جس کا براہ راست فائدہ مغربی ملکوں کی اسلحے کی صنعت کو ہو رہا ہے اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو اسلحے کی دوڑ اور دفاع پر خرچ ہونے والے اربوں کھربوں روپے عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے کام آتے اگر دونوں ملکوں کے عوام متحد ہوتے تو سامراجی ملک برصغیر کے ان دو بڑے ملکوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے آسانی سے استعمال نہیں کر سکتے تھے۔
دونوں ملکوں کے جو باشعور لوگ تقسیم ہند اور مسئلہ کشمیر کے پس منظر کو سمجھتے ہیں ان کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو اور دونوں ملک جنگی نفسیات سے باہر نکل کر عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں جو طاقتیں دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کو پسند نہیں کرتیں وہ ان لوگوں کو بھارتی ایجنٹ کہتی ہیں جو دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ اس نفسیات نے ہندوستان اور پاکستان کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے روک دیا ہے۔
مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کی ذمے داری دونوں ملکوں کے حکمران طبقات پر ڈالی گئی ہے جن کا وژن قومی مفاد کی ڈوری سے بندھا ہوا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر کو جو بدبختانہ تحفے دیے ہیں ان میں سے ایک بڑا تحفہ ''قومی مفاد'' کا فلسفہ ہے اور سیاستدان اختلافی مسائل کو حل کرنے میں اس لیے ناکام رہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ''قومی مفاد'' کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔
دنیا کی گلوبلائزیشن نے اگرچہ دنیا کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے نظریاتی ماہرین نے اس گلوبلائزیشن کو عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے سرمایے کی گلوبلائزیشن کر کے عوام کو لاوارث کر دیا اور سرمایہ داروں کے لیے بے تحاشا کمائی کے دروازے کھول دیے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں کا حکمران طبقہ اپنی لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام کے دلالوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں ہونے والی سائنس ٹیکنالوجی آئی ٹی سمیت ہر شعبے میں ہونے والی ترقی نے دنیا کے عوام کو ایک نئی سوچ نئی سوجھ بوجھ سے روشناس کرایا ہے اور انھیں یہ ترغیب فراہم کی ہے کہ وہ تنگ نظری اور رنگ نسل زبان قومیت کے حصار سے باہر نکل کر انسانیت کے رشتوں کو استوار کریں لیکن حکمران طبقات کے مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ اب بھی عوام کو تقسیم کر کے رکھا جائے۔
اس حقیقت کے پیش نظر حکمران طبقات سے یہ امید کی ہی نہیں جا سکتی کہ وہ قومی مفاد کی تنگ گلی سے باہر آ کر کشمیر جیسے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور سرمایہ دارانہ نظام کے نظریہ سازوں نے ''قومی مفاد'' کے فلسفے کو اس قدر طاقتور اور ناگزیر بنا دیا ہے کہ اس فلسفے کے پیروکار کشمیر جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے انسان بن ہی نہیں سکتے اس نفسیات کا ضرر رساں نتیجہ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
مسئلہ کشمیر بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے اگر ہمارے سیاستدان ہندو مسلمان ہندوستانی پاکستانی بنے رہنے کے بجائے انسان بن جائیں اور یہ اعزاز دونوں ملکوں کے غیر متعصب اہل دانش اہل قلم ادیبوں شاعروں کو حاصل ہے کیا دونوں ملکوں کے اہل سیاست اور حکمران طبقات مسئلہ کشمیر حل کرنے کا نازک کام اور بھاری ذمے داری دونوں ملکوں کے اہل دانش اہل قلم ادیبوں شاعروں فنکاروں اور اہل علم کو تفویض کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب سے کشمیر اور ہندوستان پاکستان کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ غریب عوام کا مستقبل وابستہ ہے۔