سب سے بڑی جنگ آخری حصہ
18 جولائی کو منہاج برنا کی قیادت میں کراچی پریس کلب میں پہلے دستے کی بھوک ہڑتال کا آغاز کیا گیا۔
احفاظ الرحمن نے اس موقعے سخت تنقید کی' لیکن اس تنقید کے باوجود احفاظ الرحمن کو 70 کلفٹن بلایا' اس موقعے پر بیگم نصرت بھٹو نے کہا کہ ''آپ کہتے ہیں کہ اگر ہم واجبات ادا کر دیں تو اخبار چھاپنے کی اجازت مل جائے گی' آپ کے ساتھی موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فقط بہانا ہے وہ یہ رقم ہڑپ کر جائیں گے' اخبار نہیں چھاپیں گے'' ان کے خدشات غلط نہ تھے اور نہ میں یہ گارنٹی دے سکتا تھا، میں نے اپنے اصولی موقف پر اصرار کیا' بیگم صاحبہ نے چیک پر دستخط کیے' احفاظ الرحمن نے اس باب میں سلطان ٹرسٹ کے عہدیدار سے بات چیت کی تفصیل لکھی مگر وہ لکھتے ہیں کہ چیک کی ادائیگی کے باوجود روزنامہ مساوات کو شایع کرنے کی اجازت نہیں ملی۔
اس موقعے پر منہاج برنا کی جرات اور بہادری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برنا صاحب اپنے خستہ حال ٹائپ رائٹر کے سامنے خاموشی سے بیٹھے اپنی عادت کے مطابق ایک انگلی سے ٹائپ کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں فون بجا' دوسری طرف اے ٹی چوہدری صاحب تھے' اس وقت وہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے، ان کی اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن سے دوستی تھی' مجیب الرحمن نے چوہدری صاحب کے ذریعے برنا صاحب کو پیغام دیا تھا کہ ہڑتال ہو گی تو ایکشن لیا جائے گا۔
برنا صاحب نے سنا اور اطمینان سے ہاں ہاں ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیا' چند منٹ بعد چوہدری صاحب نے پھر فون کیا' برنا صاحب نے سوچ لیا چوہدری صاحب نے دوسری طرف سے کہا کہ مجیب الرحمن کہہ رہا ہے کہ یہ لوگ نہیں مانیں گے تو پوری صحافی برادری کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا' دھمکی نے برنا صاحب پر کوئی اثر نہیں ڈالا' کہنے لگے ، تلوار چلائیں مگر ہم اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے اور جواب کا انتظار کیے بغیر پھر فون بند کر دیا' مصنف لکھتے ہیں کہ 3 دسمبر کو11 صحافی جن میں 2 لڑکیاں بھی شامل تھیں 48 گھنٹے بھوک ہڑتال پر بیٹھے' یہ بھوک ہڑتال کراچی پریس کلب کے ٹیرس میں شروع ہوئی' صحافیوں کی جدوجہد کے پہلے دن کا آغاز خوبصورت انداز میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔
منہاج برنا اور دوسرے صحافیوں کو گرفتار کر کے مختلف تھانوں کے لاک اپ میں بند کر دیا گیا۔ اس جدوجہد کی بنا پر 9 دسمبر سے روزنامہ مساوات شایع کرنے کی اجازت مل گئی' وہ لکھتے ہیں کہ 22 مارچ 1971ء کو روزنامہ مساوات لاہور کا دفتر سیل کر دیا گیا' چیف ایڈیٹر میر جمیل الرحمن' ایس جی ایم بدرالدین' اسسٹنٹ ایڈیٹر ممتاز شاعر ظہیر کاشمیری کو فوجی عدالت میں ایک سال قید با مشقت کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔
ان ہی دنوں لاہور پریس کلب کے صدر عباس اطہر اور روزنامہ پیغام قائد کے ایڈیٹر مظفرعباس کو گرفتار کر لیا گیا' روزنامہ مساوات کے رپورٹر خالد چوہدری پر خود ساختہ بم کیس ڈال کر گرفتار کیا گیا' اس صورتحال میں 3 اور 4 اپریل کو لاہور کے بختیار ہال میں پی ایف یو جے اور ایپنک کی مرکزی مجلس عاملہ کے ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر حکومت نے 23 اپریل تک مساوات لاہور سے پابندی نہ ہٹائی اور گرفتار ایڈیٹروں کو رہا نہ کیا گیا تو پی ایف یو جے اور ایپنک کے 8 نکاتی مطالبات پر احتجاجی بھوک ہڑتال اور کورٹ اریسٹ کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ہڑتال کے دن منہاج برنا خود مصنف اور کئی صحافیوں کو لاہور بدر کیا گیا، 13 مئی 1978ء کو پاکستانی صحافت کا بد ترین دن رہا' جب چار ساتھیوں خاور نعیم ہاشمی' ناصر زیدی' اقبال جعفری اور مسعود اللہ خان کو قید اور کوڑوں کی سزائیں دی گئی اور فوجی عدالت کے فیصلے کے 70 منٹ بعد کوڑوں کی سزا کے فیصلے پر عملدرآمد کیا گیا' ڈاکٹر کی ایڈوائس پر مسعود اللہ خان کو کوڑے نہیں مارے گئے' اس دوران 4 افراد کا ایک ٹولہ تحریک سے علیحدہ ہوا ' حکومت نے اس ٹولے سے مذاکرات کیے،روزنامہ مساوات پر پابندی ہٹائی' گرفتار صحافیوں کو رہا کر دیا ۔
یہ تحریک پورے ایک ماہ جاری رہی'' احفاظ الرحمن لکھتے ہیں کہ انھوں نے 53 صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی فہرست حاصل کی جو کتاب میں موجود ہے' اس تحریک میں گرفتار ہونے والے باقی کارکنوں کی فہرست دستیاب نہیں ہو سکی' تحریک کا دوسرا مرحلہ کراچی سے شروع ہوا وہ لکھتے ہیں کہ حکومت نے لاہور تحریک کے دوران دکھاؤے کے لیے کچھ مطالبات مان لیے' مگر اخباری کارکنوں کے اقتصادی مطالبات کھٹائی میں پڑے رہے۔
ان میں این پی ٹی کے اخبارات سے برطرف صحافیوں کی بحالی کا مطالبہ جوں کا توں تھا، پھر روزنامہ مساوات پر پابندی لگا دی گئی' 27 جون 1978ء کو پی ایف یو جے اور ایپنک کی مشترکہ مجلس عاملہ نے کراچی کے اجلاس میں بڑا فیصلہ کیا، اگر روزنامہ مساوات کی اشاعت بحال نہ ہوئی اور ہفت روزہ الفتح اور دیگر جرائد اور اخبارات کی جبری بندش ختم نہ کی گئی اور بنیادی مطالبات منظور نہ کیے گئے تو احتجاجی بھوک ہڑتال کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
18 جولائی کو منہاج برنا کی قیادت میں کراچی پریس کلب میں پہلے دستے کی بھوک ہڑتال کا آغاز کیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ تحریک شروع ہوئی تو وہ روزنامہ مساوات کے سابق ایڈیٹر اور ادیب شوکت صدیقی کے گھر روپوش تھے' شوکت صدیقی نے انھیں یہ پیغام دیا کہ بینظیر بھٹو ان سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں' احفاظ الرحمن بینظیر بھٹو سے ملاقات کے لیے تیار نہیں تھے' یوں انھوں نے 70 کلفٹن جانے اور اس وقت کے پیپلز پارٹی کی کارکن بیگم گوہر اعجاز کے گھر ملاقات سے انکار کر دیا' یہ تحریک دو ماہ تک جاری رہی اور 245 صحافیوں اور دوسرے کارکنوں نے گرفتاریاں دیں۔
پولیس نے گرفتار ہونے والے صحافیوں پر تشدد کیا ' تا کہ احفاظ الرحمن کو گرفتار کیا جا سکے' مگر پولیس احفاظ الرحمن کے بارے میں کچھ معلوم کرنے میں ناکام رہی' اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے خیرپور جیل میں منہاج برنا نے بھوک ہڑتال شروع کر دی' یہ بھوک ہڑتال تا دم مرگ تھی' اس بھوک ہڑتال کے دوران منہاج برنا بہت کمزور ہو گئے اور کئی دفعہ بیہوش ہوئے' جیل حکام نے انھیں بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے زبردستی کی مگر برنا صاحب کے عزم نے حکام کی کوششوں کو ناکام بنا دیا' حکومت کو مطالبات ماننے پڑے اور روزنامہ مساوات پر سے پابندی ختم ہوئی' برطرف صحافیوں کو بحال کیا گیا۔
اس کے بعد کتاب کے دوسرے حصے میں تحریک میں گرفتار ہونے والے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کے خطوط شایع کیے ہیں، ان خطوط میں پاکستان کے صحافیوں کی سب سے بڑی تحریک کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے' پاکستان کے صحافیوں کی آزادی صحافت کی سب سے بڑی تحریک کی داستان احفاظ الرحمن نے شدید بیماری کے باوجود اقبال خورشید کی معاونت سے مکمل کی اور یہ تصنیف پاکستانی صحافیوں کی سب سے بڑی تحریک کے بارے میں مستند دستاویز ہے' اس کتاب میں ایسے حقائق پیش کیے گئے ہیں جو پہلے منظر عام پر نہیں آئے تھے' اس کتاب کو یونیورسٹیوں کے شعبہ ابلاغ عامہ کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے' ، اس کتاب کی قیمت 900 روپے ہے۔
اس موقعے پر منہاج برنا کی جرات اور بہادری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برنا صاحب اپنے خستہ حال ٹائپ رائٹر کے سامنے خاموشی سے بیٹھے اپنی عادت کے مطابق ایک انگلی سے ٹائپ کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں فون بجا' دوسری طرف اے ٹی چوہدری صاحب تھے' اس وقت وہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے، ان کی اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن سے دوستی تھی' مجیب الرحمن نے چوہدری صاحب کے ذریعے برنا صاحب کو پیغام دیا تھا کہ ہڑتال ہو گی تو ایکشن لیا جائے گا۔
برنا صاحب نے سنا اور اطمینان سے ہاں ہاں ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیا' چند منٹ بعد چوہدری صاحب نے پھر فون کیا' برنا صاحب نے سوچ لیا چوہدری صاحب نے دوسری طرف سے کہا کہ مجیب الرحمن کہہ رہا ہے کہ یہ لوگ نہیں مانیں گے تو پوری صحافی برادری کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا' دھمکی نے برنا صاحب پر کوئی اثر نہیں ڈالا' کہنے لگے ، تلوار چلائیں مگر ہم اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے اور جواب کا انتظار کیے بغیر پھر فون بند کر دیا' مصنف لکھتے ہیں کہ 3 دسمبر کو11 صحافی جن میں 2 لڑکیاں بھی شامل تھیں 48 گھنٹے بھوک ہڑتال پر بیٹھے' یہ بھوک ہڑتال کراچی پریس کلب کے ٹیرس میں شروع ہوئی' صحافیوں کی جدوجہد کے پہلے دن کا آغاز خوبصورت انداز میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔
منہاج برنا اور دوسرے صحافیوں کو گرفتار کر کے مختلف تھانوں کے لاک اپ میں بند کر دیا گیا۔ اس جدوجہد کی بنا پر 9 دسمبر سے روزنامہ مساوات شایع کرنے کی اجازت مل گئی' وہ لکھتے ہیں کہ 22 مارچ 1971ء کو روزنامہ مساوات لاہور کا دفتر سیل کر دیا گیا' چیف ایڈیٹر میر جمیل الرحمن' ایس جی ایم بدرالدین' اسسٹنٹ ایڈیٹر ممتاز شاعر ظہیر کاشمیری کو فوجی عدالت میں ایک سال قید با مشقت کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔
ان ہی دنوں لاہور پریس کلب کے صدر عباس اطہر اور روزنامہ پیغام قائد کے ایڈیٹر مظفرعباس کو گرفتار کر لیا گیا' روزنامہ مساوات کے رپورٹر خالد چوہدری پر خود ساختہ بم کیس ڈال کر گرفتار کیا گیا' اس صورتحال میں 3 اور 4 اپریل کو لاہور کے بختیار ہال میں پی ایف یو جے اور ایپنک کی مرکزی مجلس عاملہ کے ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر حکومت نے 23 اپریل تک مساوات لاہور سے پابندی نہ ہٹائی اور گرفتار ایڈیٹروں کو رہا نہ کیا گیا تو پی ایف یو جے اور ایپنک کے 8 نکاتی مطالبات پر احتجاجی بھوک ہڑتال اور کورٹ اریسٹ کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ہڑتال کے دن منہاج برنا خود مصنف اور کئی صحافیوں کو لاہور بدر کیا گیا، 13 مئی 1978ء کو پاکستانی صحافت کا بد ترین دن رہا' جب چار ساتھیوں خاور نعیم ہاشمی' ناصر زیدی' اقبال جعفری اور مسعود اللہ خان کو قید اور کوڑوں کی سزائیں دی گئی اور فوجی عدالت کے فیصلے کے 70 منٹ بعد کوڑوں کی سزا کے فیصلے پر عملدرآمد کیا گیا' ڈاکٹر کی ایڈوائس پر مسعود اللہ خان کو کوڑے نہیں مارے گئے' اس دوران 4 افراد کا ایک ٹولہ تحریک سے علیحدہ ہوا ' حکومت نے اس ٹولے سے مذاکرات کیے،روزنامہ مساوات پر پابندی ہٹائی' گرفتار صحافیوں کو رہا کر دیا ۔
یہ تحریک پورے ایک ماہ جاری رہی'' احفاظ الرحمن لکھتے ہیں کہ انھوں نے 53 صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی فہرست حاصل کی جو کتاب میں موجود ہے' اس تحریک میں گرفتار ہونے والے باقی کارکنوں کی فہرست دستیاب نہیں ہو سکی' تحریک کا دوسرا مرحلہ کراچی سے شروع ہوا وہ لکھتے ہیں کہ حکومت نے لاہور تحریک کے دوران دکھاؤے کے لیے کچھ مطالبات مان لیے' مگر اخباری کارکنوں کے اقتصادی مطالبات کھٹائی میں پڑے رہے۔
ان میں این پی ٹی کے اخبارات سے برطرف صحافیوں کی بحالی کا مطالبہ جوں کا توں تھا، پھر روزنامہ مساوات پر پابندی لگا دی گئی' 27 جون 1978ء کو پی ایف یو جے اور ایپنک کی مشترکہ مجلس عاملہ نے کراچی کے اجلاس میں بڑا فیصلہ کیا، اگر روزنامہ مساوات کی اشاعت بحال نہ ہوئی اور ہفت روزہ الفتح اور دیگر جرائد اور اخبارات کی جبری بندش ختم نہ کی گئی اور بنیادی مطالبات منظور نہ کیے گئے تو احتجاجی بھوک ہڑتال کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
18 جولائی کو منہاج برنا کی قیادت میں کراچی پریس کلب میں پہلے دستے کی بھوک ہڑتال کا آغاز کیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ تحریک شروع ہوئی تو وہ روزنامہ مساوات کے سابق ایڈیٹر اور ادیب شوکت صدیقی کے گھر روپوش تھے' شوکت صدیقی نے انھیں یہ پیغام دیا کہ بینظیر بھٹو ان سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں' احفاظ الرحمن بینظیر بھٹو سے ملاقات کے لیے تیار نہیں تھے' یوں انھوں نے 70 کلفٹن جانے اور اس وقت کے پیپلز پارٹی کی کارکن بیگم گوہر اعجاز کے گھر ملاقات سے انکار کر دیا' یہ تحریک دو ماہ تک جاری رہی اور 245 صحافیوں اور دوسرے کارکنوں نے گرفتاریاں دیں۔
پولیس نے گرفتار ہونے والے صحافیوں پر تشدد کیا ' تا کہ احفاظ الرحمن کو گرفتار کیا جا سکے' مگر پولیس احفاظ الرحمن کے بارے میں کچھ معلوم کرنے میں ناکام رہی' اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے خیرپور جیل میں منہاج برنا نے بھوک ہڑتال شروع کر دی' یہ بھوک ہڑتال تا دم مرگ تھی' اس بھوک ہڑتال کے دوران منہاج برنا بہت کمزور ہو گئے اور کئی دفعہ بیہوش ہوئے' جیل حکام نے انھیں بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے زبردستی کی مگر برنا صاحب کے عزم نے حکام کی کوششوں کو ناکام بنا دیا' حکومت کو مطالبات ماننے پڑے اور روزنامہ مساوات پر سے پابندی ختم ہوئی' برطرف صحافیوں کو بحال کیا گیا۔
اس کے بعد کتاب کے دوسرے حصے میں تحریک میں گرفتار ہونے والے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کے خطوط شایع کیے ہیں، ان خطوط میں پاکستان کے صحافیوں کی سب سے بڑی تحریک کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے' پاکستان کے صحافیوں کی آزادی صحافت کی سب سے بڑی تحریک کی داستان احفاظ الرحمن نے شدید بیماری کے باوجود اقبال خورشید کی معاونت سے مکمل کی اور یہ تصنیف پاکستانی صحافیوں کی سب سے بڑی تحریک کے بارے میں مستند دستاویز ہے' اس کتاب میں ایسے حقائق پیش کیے گئے ہیں جو پہلے منظر عام پر نہیں آئے تھے' اس کتاب کو یونیورسٹیوں کے شعبہ ابلاغ عامہ کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے' ، اس کتاب کی قیمت 900 روپے ہے۔