جعلی فلیگ آپریشن

بھارتی انٹیلی جنس نے بعض کشمیری عسکریت پسند گروپوں میں اپنے ایجنٹ بھی داخل کر رکھے ہیں

لاہور:
پٹھانکوٹ کا خون آشام واقعہ ان مفاد پرستوں کا شاخسانہ تھا جو بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونیوالے جامع مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنا چاہتے تھے جس میں وہ بظاہر کامیاب رہے' بے شک عارضی طور پر ہی سہی۔ یہ کام نان اسٹیٹ ایکٹرز کا تھا یا اسٹیٹ ایکٹرز کا یا ملا جلالیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے قابل عمل انٹیلی جنس کی بنیاد پر مبینہ دہشت گرد حملے سے کئی گھنٹے پہلے یہ' نیشنل سیکیورٹی گارڈز کے 50 کمانڈو فضائی مستقر کی سیکیورٹی کے لیے بھجوا دیے تھے۔

مسٹر ڈوول نے 'ایس او پی' (Standard Operating Procedures) پر عمل کر کے مقامی کمانڈر کو کمان اور کنٹرول کی ذمے داری دینے کے بجائے اس آپریشن کا کنٹرول خود نئی دہلی میں بیٹھ کر سنبھال لیا۔ چار دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے بعد ''آل کلیئر'' کا شور 24 گھنٹے بعد ہی مچا دیا گیا لیکن ہر چیز اسکرپٹ کے مطابق نہ ہو سکی کیونکہ مزید دو دہشت گرد علیحدہ طور پر اندر داخل ہو گئے جنہوں نے بھارتی فضائیہ کے بڑے مستقر کو پورے 4 دن تک مفلوج کیے رکھا۔

یہ سب جانتے ہیں کہ بھارتی انٹیلی جنس نے بعض کشمیری عسکریت پسند گروپوں میں اپنے ایجنٹ بھی داخل کر رکھے ہیں اور انسداد جہاد دستے بھی تیار کر رکھے ہیں جب کہ جعلی فلیگ آپریشن کے ڈرامے بھی رچائے جاتے ہیں جو وسیع تر حکمت عملی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیںاور اس بات کی اس وقت تک تردید نہیں کی جا سکتی جب تک اس کے مقابل کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ ہو۔

کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ انھوں نے پاکستانی تفتیش کاروں کو پٹھانکوٹ ایئربیس میں آنے کی اجازت نہیں دی؟ اس سے شکوک و شبہات کو ہوا ملتی ہے۔ گویا یہ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کا ملا جلا کھیل ہو سکتا ہے۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ جعلی فلیگ آپریشن پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی پر الزام لگانے کے لیے کیا گیا تا کہ امن عمل کو سبوتاژ کیا جا سکے۔

1971ء میں پاکستان کو توڑنے کے لیے بھارت نے جعلی فلیگ آپریشن کیے اور دہشت گردوں کو آزادی کے مجاہدوں کی شکل میں مشرقی پاکستان میں داخل کیا گیا۔ 30 جنوری 1971ء کو بھارت نے انڈین ایئر لائن کا ایک فوکر27 طیارہ لاہور میں اتار کر اس طیارے کے اغوا کا ڈرامہ رچایا۔ یہ طیارہ پہلے ہی ناکارہ ہونے کے باعث انڈین ایئر لائن سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ گنگا نامی اس طیارے کو صرف اس مقصد کی خاطر پرواز کے لیے تیار کیا گیا جسے اغوا کنند گان نے لاہور ایئر پورٹ پر آگ لگا دی۔

پاکستانی عوام نے اس بات کی بڑی خوشی منائی کیونکہ انھیں بھارت کی اس گہری سازش کا ادراک نہ ہوا جب کہ بھارت نے اس بہانے سے پاکستانی طیاروں کو اپنی سرزمین پر پرواز کر کے مشرقی پاکستان جانے پر پابندی لگا دی اور یوں مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فضائی رابطہ ختم ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کے اندرونی حالات خراب کر کے سیاسی بحران پیدا کر دیا گیا۔

مئی 2011ء میں پاکستان بحریہ کے مہران بیس پر جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح افراد نے حملہ کر کے P3C اورین طیارے کو تباہ کر دیا جب کہ ایک اور طیارے کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ آخر ان دہشت گردوں نے ایک درجن سے زیادہ جدید ترین اور نہایت مہنگے جنگی طیاروں کو نظر انداز کر کے صرف P3C اورین کو کیوں اپنا ہدف بنایا جس کا ہینگر ایک ہزار میٹر سے بھی زیادہ دوری پر تھا۔ آخر ان دہشت گردوں کا بحریہ کے سروئیلنس طیارے کو تباہ کرنے کا کیا مقصد تھا جسے کو کہ بحریہ کی ''آنکھوں اور کانوں'' کا درجہ حاصل تھا۔ ہماری بحریہ کو اندھا اور بہرا کر کے بھارت کے سوا اور کس کو فائدہ ہو سکتا تھا؟


13 دسمبر 2001ء کو چھ دہشت گردوں نے نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا۔ ان میں سے ایک کے سوا، جو فرار ہو گیا تھا، باقی سب کو گولی مار دی گئی لیکن اس سے پہلے ایسا ڈرامہ رچایا گیا کہ گویا یہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے۔ یہ ایسا خطرناک معاملہ تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ شروع ہو سکتی تھی۔ ان دہشت گردوں کے پاس کوئی شناختی نشان نہیں تھا تاہم بھارت نے دعویٰ کیا کہ وہ کشمیری نژاد پاکستانی تھے جن کا تعلق لشکر طیبہ اور جیش محمد کے ساتھ تھا۔ کیا یہ مہم فی الواقعی کشمیری عسکریت پسندوں نے خود سر کی اور اس کی منصوبہ بندی کے بعد اس پر عمل کیا تھا یا افغانستان کے شمالی اتحاد نے ان طالبان قیدیوں کو استعمال کیا تھا جن کو قندوز میں گرفتار کیا گیا تھا۔

یہاں آپ کو پولینڈ کی سرحد پر پیش آنیوالے اس واقعے کو یاد کرنا چاہیے جس میں جرمنی نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس کے فوجیوں کو پولینڈ والوں نے مارا ہے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔

ایک سال پہلے کی بات ہے کہ انڈین ایئر لائن کے ایک طیارے کے اغوا کا ڈرامہ چار گھنٹے تک بھارت کے پرائم ٹائم ٹی۔ وی چینلز پر چلتا رہا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اغوا کرنیوالے پاکستانی ہیں چونکہ ان کی اردو میں گفتگو سن لی گئی ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ طیارے کا اغوا محض ایک ڈھونگ تھا جس سے کہ انھوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ اب اجیت ڈوول جو یقینی طور پر ایک اسٹیٹ ایکٹر ہے اور جو اس وقت بھارت کی قومی سلامتی کے شعبے کا سربراہ ہے' اس نے ٹیلی ویژن چینلز پر برملا اعلان کیا کہ پاکستان کو سبق سکھا دیا جائے گا۔ یہ سب ریکارڈ پر ہے جو کہ جعلی فلیگ دہشت گردی کی ایک مثال ہے۔

یہ بات اگرچہ واضح ہو چکی ہے کہ بھارت پاکستان پر جھوٹے الزامات عائد کر کے اسے زچ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے میڈیا میں بعض لوگ بھارت کی لائن پر چلتے ہوئے اپنی فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں غیرذمے دارانہ انداز اختیار کر لیتے ہیں بلکہ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ہمارے بعض لوگ دشمن کے پے رول پر ہیں اور وہ درحقیقت را کے لیے پراکسی جنگ لڑتے ہیں۔ وہ بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنے کہ دہشت گرد جو بے گناہوں کو مارتے ہیں۔ اب وہ دن چلے گئے جب روایتی جنگیں ہوا کرتی تھیں۔ آج کی جنگی حکمت عملی میں روایتی ہتھیاروں کے علاوہ غیرروایتی طریقہ کار حتٰی کہ دہشت گردی کی کارروائیاں بھی شامل ہوتی ہیں اور اس ساری مشق کو ''ہائبرڈ وار فیئر'' کا نام دیا جاتا ہے۔

ریاستیں بہت سے غیر ریاستی ایکٹروں کو بھی استعمال کرتی ہیں بلکہ زیادہ تر ان ساری چیزوں کو کمبی نیشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں جبر و تشدد اور سائبر وار فیئر شامل ہیں اور اس میں میڈیا کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کی تشہیری قوت ایک نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ مالیاتی ادارے اپنا کام کرتے ہیں جس میں مسلح افواج اور آئی ایس آئی کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت اور ثقافت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور جدید الیکٹرونک موبلائیزیشن کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمیں اسپورٹس کے حوالے سے دنیا میں تنہا کیا جاتا ہے جس سے عوام میں بددلی پھیلتی ہے اور یہ سب ایک سوچی سمجھی پالیسی اور طے شدہ منصوبے کے تحت ہوتا ہے۔ کھلی فریب کاری اور الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں جھوٹی رپورٹوں اور کہانیوں کے ذریعے دونوں قوموں کے تعلقات پر بہت بڑے اثرات ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر کسی ٹھوس طریقے سے دہشتگردوں کی شناخت کی جا سکے تو ان کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے۔ انھیں امن تباہ کرنے کی مہلت نہیں دینی چاہیے۔

کلازوٹز میکسم بیان کرتا ہے کہ جنگ بھی سیاسی پالیسیوں کا ایک بہ انداز دگر اظہار ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں بعض عناصر نازی پارٹی کی مثال پر عمل کرتے ہیں اور وہ امن کو بھی جنگ کے جاری رہنے کا ایک عمل تصور کرتے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اور بھارت ان عناصر کے ہاتھوں میں یرغمال بنا رہنا چاہتے ہیں جو بالعموم غیر ریاستی عناصر ہوتے ہیں چہ جائیکہ انھیں ریاستی عناصر کی مدد بھی حاصل ہو۔
Load Next Story